۲۰۱۰–۲۰۱۹
اس کا کیا نتیجہ ہو گا؟
مجلس عامہ اپریل ۲۰۱۹


2:3

اس کا کیا نتیجہ ہو گا؟

اگر ہم متبادل پر نظر رکھیں اور غور کریں کہ یہ فیصلہ ہمیں کہاں لے جائے گا تو ہم بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔

یسوع مسیح کی بحال شدہ انجیل ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ ہم مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ یہ زمینی زندگی کا مقصد اور بعد کی زندگی کی حقیقت بیان کرتی ہے۔ ہمارے آج کے کاموں میں رہنمائی کے لیے یہ مستقبل کے بارے میں عظیم خیالات سکھاتی ہے۔

اس کے برعکس، ہم سب ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو صرف حال ہی کی فکر کرتے ہیں: آج ہی خرچ کرو، آج ہی عیش کرو، یہ مستقبل کی کوئی فکر نہیں کرتے۔

ہمارا حال اور مستقبل مزید پُر مسرت ہوں گے اگر ہم ہمشہ مستقبل کے بارے میں بافکر رہیں۔ جب ہم حال کے فیصلے کرتے ہیں تو ہمیں ہمیشہ یہ پوچھنا چاہیے کہ ”اس کا کیا نتیجہ ہو گا؟“

بعض فیصلے؛ کچھ کرنے یا کچھ نہ کرنے کے درمیان ہوتے ہوں۔ کئی سال پہلے میں نے امریکہ میں ایک سٹیک کانفرنس کے دوران اسی قسم کے چناوٗ کی ایک مثال سنی۔

یہ بات ایک خوبصورت کالج کیمپس کی تھی۔ نوجوان طالب علموں کا ایک گروہ گھاس پر بیٹھا تھا۔ خطیب،جس نے یہ تجربہ بتایا کہنے لگا کہ وہ ایک بڑی اور موٹی د’م والی گلہری کو ایک خوبصورت درخت کے نیچے کھیلتا دیکھ رہے تھے۔ کبھی وہ زمین پر ہوتی؛ کبھی اوپر، کبھی نیچے اور کبھی تنے کے گرد گھومتی۔ لیکن اس عام سے نظارے نے طالبِ علموں کے ہجوم کی توجہ کیوں حاصل کی؟

پاس ہی گھاس پر ایک شکاری کتا لیٹا ہوا تھا۔ وہ طالبِ علموں کی توجہ کا مرکز تھا اور گلہری اُس کی توجہ کا مرکز تھی۔ ہر بار جب گلہری ایک لمحے کے لیے درخت کے گرد گھومتے ہوئے نظر سے اوجھل ہوتی تو وہ کتا خاموشی سے قریب ہو جاتا اور پھر بے اعتنائی سے لیٹ جاتا۔ یہی بات طالبِ علموں کے لیے دلچسپی کی تھی۔ خاموش اور بے حرکت، اُن کی آنکھیں اُس واقع پر ٹکٹکی باندھے تھیں جس کا نتیجہ عیاں ہوتا چلا جا رہا تھا۔

بالاخر کتا اتنا قریب آ گیا کہ گلہری کو اپنے منہ میں لپک کر دبوچ لے۔ خوف کی لہر دوڑی اور طالبِ عملوں کا گروہ تیزی سے آگے بڑھا اور اس چھوٹے جانور کو کتے کے منہ سے کھنیچ لیا، مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ گلہری مر چکی تھی۔

ہجوم میں سے کوئی بھی گلہری کو اپنے بازو ہلا کر یا چَلا کر خبردار کر سکتا تھا، مگر کسی نےایسا نہیں کیا۔ وہ صرف دیکھتے رہے اور اٹل نتیجہ قریب سے قریب تر آتا گیا۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ”اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟“ جب قابلِ پیش گوئی نتیجہ نکل آیا تو وہ نتیجہ روکنے کےلیے تیزی سے آگے بڑھے، لیکن بہت دیر ہو گئی تھی۔ اب وہ صرف اشک آلود افسوس ہی کر سکتے تھے۔

یہ سچی کہانی ایک طرح کی تمثیل ہے۔ اس کا اطلاق ہماری اپنی زندگی میں نظر آنے والی چیزوں اور ہمارے ارد گرد کی ذندگیوں اور حالات پر ہوتا ہے۔ جب ہم خطرے کو اپنے عزیزوں یا چیزوں کی طرف رینگتا دیکھتے ہیں تو ہمارے پاس اختیارِ انتخاب ہے کہ کچھ کہیں یا کریں یا خاموش رہیں۔ ہمارے لیے اچھا ہو گا اگر ہم خود سے یہ سوال پوچھیں”اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟“ جب نتایج فوری اور سنگین ہوں تو ہم کچھ نہ کرنے کی تاب نہیں رکھ سکتے۔ ضروری ہے کہ جب تک وقت ہے ہم مناسب طور پر خبردار کریں اور بچاوٗ کی مناسب کوشش کریں۔

جو فیصلے میں نے ابھی بتائے ہیں اُس میں چناوٗ یہ کرنا ہے کہ کچھ کیا جائے یا باکل کچھ نہ کیا جائے۔ ذیادہ فیصلے ایک یا دوسرے عمل کے درمیان چناوٗ کرنے کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس میں اچھے اور بُرے کے درمیان چننا بھی شامل ہے، لیکن اکثر چناوٗ دو اچھی چیزوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہ پوچھنا اچھا ہو گا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ ہم دو اچھی چیزوں کے درمیان بہت سے فیصلے کرتے ہیں جس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنا وقت کیسے گزاریں گے۔ ویڈیو گیم کھیلنے، ٹکسٹ بھیجنے، ٹی وی دیکھنے، یا موبائل فون پر بات کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ لیکن ایک چیز ان سب میں شامل ہے جسے ”لاگتِ موقع“ کہا جاتا ہے، مطلب یہ کہ اگر ہم ایک چیز کرتے ہوئے وقت گزاریں تو دوسری چیز کرنے کا موقع گنوا دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں ہوش مندی سے یہ مانپنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک سرگرمی میں وقت گزار کر کیا کھو رہے ہیں، چاہے وہ سرگرمی از خود اچھی ہی کیوں نہ ہو۔

کچھ عرصہ پہلے میں نے ”اچھا، بہتر، یا بہترین“ کے عنوان پر خطاب کیا تھا۔ اُس خطاب میں میں نے کہا تھا کہ ”کسی چیز کا اچھا ہونا ہی اُس پر عمل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اچھی چیزوں کی تعداد اُنہیں سر انجام دینے کے لیے دستیاب وقت سے کہیں ذیادہ ہے۔ کچھ چیزیں اچھے سے بہتر ہوتی ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں ہمیں اپنی زندگی میں فوقیت دینی چاہیے۔ ہمیں کچھ اچھی چیزوں کو بہتر یا بہترین کا چناوٗ کرنے کی خاطر ترک کرنا ہو گا۔“۱

دور کی سوچیں۔ ہمارے حال کے کیے ہوئے فیصلوں کا ہمارے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟ تعلیم حاصل کرنے، انجیل کا مطالعہ کرنے، عشائے ربانی لے کر اپنے اپنے عہود کی تجدید کرنے، اور ہیکل جانے کی اہمیت کو یاد رکھیں۔

II۔

”اس کا کیا نتیجہ ہو گا“ یہ دیکھنا تب بھی ضروری ہوتا ہے جب ہم خود پر لیبل لگاتے ہیں یا خود اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے ہم میں سے ہر ایک خُدا کا بچہ ہے اور ابدی زندگی پانے کے ممکنہ مُقدر کا حامل ہے۔ باقی ہر لیبل، جس میں ملازمت، نسل، جسمانی ڈیل ڈول، یا تکلفات ابدی تناظر میں عارضی اور غیر اہم ہیں۔ خود پر ایسا لیبل نہ لگائیں یا اپنے بارے میں ایسا نہ سوچیں جس سے آپ اپنے مقرر کردہ مقصد کے حصول پر حد مقرر کر دیں۔

میرے بھائیو، اور میری بہنو، جو میری کہی باتیں دیکھیں یا پڑھیں گی، مجھے امید ہے کہ آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ کے رہنما ، ہم، آپ کو کوئی تعلیم یا مشورت کیوں دیتے ہیں ہم آپ سے محبت رکھتے ہیں، اور ہمارے آسمانی باپ اور اُس کا بیٹا یسوع مسیح آپ سے محبت رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے اُن کا منصوبہ ، ”خوشی کا عظیم منصوبہ“ (ایلما ۴۲: ۸ ہے)۔ وہ منصوبہ، اُن کے احکام اور رسوم اور عہود ہمیں اس زندگی میں اور آنے والی زندگی میں عظیم ترین خوشی اور شادمانی کی طرف لے جاتے ہیں۔ باپ اور بیٹے کے خُدام کے طور پر ہم وہ کچھ سکھاتے اور وہ مشورت دیتے ہیں جس کی ہدایت وہ ہمیں روح القدس کے ذریعے دیتا ہے۔ ہماری اور کوئی خواہش نہیں ہے، ماسوائے اس کے کہ سچ بولیں اور آپ کی وہ کچھ کرنے میں حوصلہ افزائی کریں جس کا اُنہوں نے ابدی زندگی کی راہ کے طور پر بتایا ہے، ”جو خُدا کے تمام تحائف میں سے عظیم تر ہے“ (تعلیم اور عہود ۱۴: ۷

III.

حال میں کیے ہوئے فیصلوں کے مستقبل پر اثر کی یہ ایک اور مثال یہ ہے۔ یہ مستقنل کے اہم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حال میں قربانی دینے سے متعلق ہے۔

کیلی، کولمبیا کی ایک سٹیک کانفرنس میں ایک بہن نے بتایا کہ کیسے وہ اور اُن کا منگیتر ہیکل میں شادی کرنا چاہتے تھے لیکن قریب ترین کلیسیا بہت دور، پیرو میں تھی۔ بہت لمبے عرصے تک اُنہوں نے بس کے کرائے کے لیے پیسے جمع کیے۔ بالاخر وہ بگوٹا جانے والی بس پر سوار ہوئے اور وہاں پہنچنے کے بعد اُنہیں پتہ چلا کہ لیما، پیرو جانے والی بس کی ساری سیٹیں فروخت ہو چکی ہیں۔ وہ بغیر شادی کیے گھر واپس جا سکتے تھے یا پھر ہیکل سے باہر شادی کر سکے تھے۔ خوش قسمتی سے ایک اور متبادل بھی تھا۔ وہ لیما کی بس پر جا سکتے اگر وہ اس بات پر راضی ہو جائیں کہ پانچ رات اور اور پانچ دن کی پوری مسافت وہ بس کے فرش پر بیٹھ کر کریں۔ اُنہوں نے یہی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس بہن نے کہا یہ مشکل تھا، گو کہ کچھ مسافروں نے اُنہیں اپنی سیٹوں میں بیٹھنے کا موقعہ بھی دیا تھا تاکہ وہ خود فرش پر اپنی کمر سیدھی کر لیں۔

جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ اس بہن کا یہ بیان تھا کہ وہ شکر گزار ہے کہ وہ اور اُس کا خاوند اس طریقے سے ہیکل پہنچے کیونکہ اس وجہ سے انجیل اور ہیکل میں شادی کے بارے میں اُن کے احساسات بدل گئے۔ خُدا نے اںہیں اُس ترقی سے نوازا جو قربانی دینے سے آتی ہے۔ اُس نے کہا کہ ہیکل جانے میں اُن کی پانچ روزہ مسافت نے اُن کی روحانی تعمیر کے لیے ہیکل کی جانب قربانی سے مبرا مسافتوں کی نسبت اُن کی روحانی تعمیر کے لیے بہت ذیادہ کیا۔

اُس گواہی سننے کے بعد کئی سالوں میں میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ اُس نوجوان جوڑے کی زندگی کسے مختلف ہوتی اگر اُنہوں نے —ہیکل میں شادی کرنے کے لیے قربانی کو چھوڑ کر—کچھ اور فیصلہ کیا ہوتا۔

بھائیو، ہم اپنی زندگی میں ان گنت فیصلے کرتے ہیں، کچھ بڑے اور کچھ بظاہر چھوٹے۔ واپس مُڑ کر دیکھتے ہوئے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں کچھ فیصلے کتنا بڑا فرق لاتے ہیں۔ اگر ہم متبادل پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا تو ہم بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم صدر رسل ایم۔ نیلسن کی مشورت پر عمل کرتے ہیں کہ اختتام کو ذہن میں رکھتے ہوئے آغاز کریں۔۲ ہمارے لیے تو اختتام ہمیشہ موعودہ راہ پر ہیکل کے ذریعے ابدی زندگی پانا ہے، جوخُدا کے تحائف میں سے عظیم ترین ہے۔

میں یسوع میسح کی اور اُس کے کفارہ کے اثرات کی اور اُس کی ابدی انجیل کی دیگر سچائیوں کی گواہی دیتا ہوں، یسوع مسیح کے نام سے آمین۔

حوالہ جات

  1. ڈیلن ایچ اوکس، ”اچھا، بہتر، بہترین“، لیحونا، نومبر ۲۰۰۷، ۱۰۷۔

  2. دیکھئے رسل ایم۔ نیلسن، ”جب ہم اکٹھے آگے بڑھتے ہوئے،“ لیحونا، اپریل ۔ ۲۰۱۸، ۷ ۔