مجلسِ عامہ
راستبازی اور اتحاد میں دلوں کی یگانگت
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۰


14:44

راستبازی اور اتحاد میں دلوں کی یگانگت

ہماری کلیسیا کی تاریخ کے اِس ۲۰۰ ویں سالانہ محوری نقطے پر آئیں ہم تہیہ کریں کہ راستبازی اور اتحاد میں یوں جیئں جیسے پہلے کبھی نہ جیے تھے۔

راستبازی اور اتحاد انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔۱ جب لوگ اپنے پورے دل سے خُدا سے محبت رکھتے ہیں اور راستبازی میں اُس جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں تو سماج میں نزاع اور تنازعہ کم ہوتے ہیں۔ اتحاد بڑھتا ہے۔ مجھے اِس کی مثال دیتی یہ سچی کہانی بہت پسند ہے۔

بطور نوجوان جنرل تھامس ایل کین نے ہمارے عقیدے کا نہ ہوتے ہوئے بھی اُس وقت مقدسین کی امداد اور دفاع کیا جب اُن سے ناووہ سے نکل جانے کا تقاضا کیا گیا تھا۔ وہ کئی سال تک کلیسیا کا حمایتی رہا۔۲

۱۸۷۲ میں، جنرل کَین، اُن کی با صلاحیت خاتونِ خانہ، ایلزبتھ وّڈ کَین، اور اُن کے دو بیٹوں نے پنسلوینیاہ میں اپنے گھر سے سالٹ لیک سٹی کا سفر کیا۔ وہ بریگھم ینگ اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ جنوبی سمت میں سینٹ جارج یوٹاہ کی جانب گئے۔ پہلی بار یوٹاہ آنے پر ایلزبتھ کے یہاں کی خواتین کے بارے میں تحفظات تھے۔ اُن کے بارے میں کچھ چیزیں جاننے پر وہ حیران ہوئیں۔ مثلاً، اُنہیں پتہ چلا کہ یوٹاہ میں کوئی بھی پیشہ جس میں خواتین کمائی کر سکتی تھیں اُن کے لیے دستیاب تھا۔۳ اُنہیں یہ بھی پتہ چلا کہ کلیسیا کے ارکان ریڈ انڈین کے بارے میں مفاہمت اور التفات کا روئیہ رکھتے تھے۔۴

اِس دورے کے دوران وہ فِلمور میں تھامس آر اور مٹیلڈا رابنسن کِنگ کے ساتھ رہے۔۵

ایلزبتھ لکھتی ہیں کہ جب مٹیلڈا صدر ینگ اور اُن کے ساتھیوں کے لیے کھانا تیار کر رہی تھیں تو پانچ ریڈ انڈین کمرے میں آئے۔ گو اُنہیں مدعو نہیں کیا گیا تھا لیکن واضع تھا کہ وہ سب کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔ بہن کِنگ نے اُن کے ساتھ ـ”اُنہی کی بولی“ میں بات کی۔ وہ اپنے کمبل اوڑھے اور چہروں پر خوش گوار تاثُرات لیے بیٹھ گئے۔ ایلزبتھ نے کِنگ خاندان کے بچوں میں سے ایک سے پوچھا ”آپ کی ماں نے اُن آدمیوں سے کیا کہا ہے؟

مٹیلڈا کے بیٹے کا جواب یہ تھا، ”اُنہوں نے کہا ہے کہ یہ اجنبی پہلے آئے تھے، اور میں نے صرف اُن کے لیے کھانا بنایا ہے لیکن آپ کا کھانا آگ پر ابھی پک رہا ہے، اور جیسے ہی تیار ہوتا ہے میں آپ کو بلا لوں گی۔“

ایلزبتھ نے پوچھا ”کیا وہ واقعی ایسا کریں گی یا باورچی خانے کے دروازے پر ہی اُنہیں بچا کچھا کھانا دیں گی؟“۶

مٹیلڈا کے بیٹے نے جواب دیا ”ماں اُن کی خدمت بھی ایسے ہی کریں گی جیسے آپ کی، اور اُنہیں اپنی میز پر جگہ دیں گی۔“

اور اُس نے ایسا ہی کیا ”اُنہوں نے بڑی خوش اُسلُوبی سے کھانا کھایا۔“ ایلزبتھ کہتی ہیں کہ اُن کی نظر میں اُن کی میزبان کا درجہ ۱۰۰ فیصد بڑھ گیا۔۷ بیرونی خصوصیات مختلف ہونے کے باوجود جب لوگوں سے عزت اور تعظیم کا روئیہ برتا جائے تو اتحاد میں اضافہ ہوتا ہے۔

بطور رہنما ہم اِس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں کہ ماضی میں تمام تعلقات کامل تھے، تمام روئیہ مِثلِ مسِیح تھا اور تمام فیصلے منصفانہ تھے۔ تاہم ہمارا عقیدہ سکھاتا ہے کہ ہم سب آسمانی باپ کے بچے ہیں اور ہم اُس کی اور اُس کے بیٹے، یِسُوع مسِیح، کی عبادت کرتے ہیں، جو ہمارا نجات دہندہ ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے دل و دماغ راستبازی اور اتحاد میں اُن کے ساتھ یگانگت رکھیں اور ہم اُن کے ساتھ ایک ہوں۔۸

راستبازی انتہائی وسیع اور جامع اصطلاح ہے لیکن اِس میں خُدا کے احکام پر عمل کرنا تو ضرور شامل ہے۔۹ یہ ہمیں مقدس رسوم کا اہل بناتی ہے جو موعودہ راہ پر مشتمل ہے، اور ہمیں یہ برکت بخشتی ہے کہ روح ہماری زندگیوں میں ہمیں راہ دِکھائے۔۱۰

راست باز ہونا اِس بات پر منحصر نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اِس وقت اپنی زندگی میں تمام برکات کا حامل ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہم بیاہے نہ ہوں یا ہمیں بچوں کی برکت نہ ملی ہو یا دیگر مطلوب برکات ہمیں نہ ملی ہوں۔ لیکن خُداوند نے وعدہ کیا ہے کہ جو راستباز وفادار ہیں ”کبھی نہ ختم ہونے والی خوشی کی حالت میں خُدا کے ساتھ قیام کر سکتے ہیں۔“۱۱

اتحاد بھی ایک کشادہ اور جامع اصطلاح ہے لیکن یقینی طورپر یہ اصطلاح پہلے اور دوسرے بڑے حکم کی مثال دیتی ہے کہ خُدا اور اپنے پڑوسی سے محبت رکھی جائے۔۱۲ یہ جمہورِ صیون سے عبارت ہے ”جن کے دل اور دماغ میں یگانگت ہے۔“۱۳

میرے پیغام کا سیاق مقدس صحائف کا موازنہ اور اُن میں سے ملنے والے اسباق ہیں۔

۲۰۰سال ہو چکے ہیں کہ جب ۱۸۲۰ میں باپ اور بیٹا پہلی بار جوزف سمتھ پر ظاہر ہوئے اور یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کی بحالی کی ابتدا کی۔ اِسی طرح مورمن کی کتاب، ۴ نیفی میں بھی قدیم امریکہ میں یِسُوع مسِیح کے ظاہر ہونے اور اپنی کلیسیا قائم کرنے کے ۲۰۰ سال بعد کا بیان رقم ہے۔

۴ نیفی کی تاریخی تحریر میں ہم ایسے لوگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جن میں حسد نہ جھگڑے نہ ہلڑ بازی نہ حرام کاری نہ جھوٹ نہ قتل و غارت نہ کسی قسم کی شہوت پرستی تھی۔ وہاں مرقوم ہے کہ اِس راست بازی کے سبب ”یقیناً اُن تمام لوگوں میں جو خُدا کے ہاتھوں تخلیق ہُوئے اتنے زیادہ خوش لوگ کوئی اور نہ تھے۔“۱۴

اتحاد کے حوالے سے ۴ نیفی میں مرقوم ہے کہ ”ملک میں کوئی جھگڑا نہ تھا، خُدا کی محبت کے باعث جو لوگوں کے دلوں میں بس گئی تھی۔“۱۵

۴ نیفی ہمیں بتاتا ہے کہ اِس کے بعد بدقسمتی سے ”دو سو اور ایک“۱۶ سال میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہونا شروع ہوئی جب بد کاری اور تقسیم نے راست بازی اور اتحاد کو تباہ کر دیا۔ رونما ہونے والا بگاڑ اس قدر بُرا ہو گیا کہ بالآخر عظیم نبی مورمن نے اپنے بیٹے مرونی سے یہ کہتے ہوئے نوحہ کیا:

”لیکن اے میرے بیٹے، ایسے لوگ کیونکہ مکروہ کام کرنے میں خوش ہوتے ہیں—

”ہم کیسے توقع رکھیں کہ خُداوند اپنے ہاتھ کو ہمیں سزا دینے سے باز رکھے گا؟“۱۷

یہ دور جس میں ہم جی رہے ہیں، گو کہ بہت خاص ہے، لیکن پھر بھی، دنیا کو راستبازی اور اتحاد کی ایسی برکت نہیں ملی جیسے ۴ نیفی میں بیان کی گئی ہے۔ بلکہ ہم بالخصوص تقسیم کے دور میں رہ رہے ہیں۔ تاہم، یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کو قبول کرنے والے لاکھوں لوگ تہیہ کر چکے ہیں کہ وہ راستبازی اور اتحاد دونوں کا حصول کریں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم مزید بہتر کر سکتے ہیں اور اِس زمانہ کی چنوتی یہی ہے۔ ہم وہ قوت بن سکتے ہیں جو پورے معاشرے کے لیے بلندی و برکت کا باعث ہو۔ ہماری کلیسیا کی تاریخ کے اس ۲۰۰ ویں سالانہ محوری نقطے پر، آئیں ہم خُداوند کی کلیسیا کے ارکان کے طور پر تہیہ کریں کہ راستبازی اور اتحاد میں یوں جیئں جیسے پہلے کبھی نہ تھے۔ صدر رسل ایم نیلسن نے ہمیں ”مروت، نسلی اور قبائلی ہم آہنگی اور باہمی احترام کا مظاہرہ“ کرنے کی دعوت دی ہے۔۱۸ اِس کا مطلب ایک دوسرے اور خُدا سے محبت رکھنا، ایک دوسرے کو بطور بھائی اور بہن قبول کرنا اور حقیقی طور پر صیہونی لوگ بننا ہے۔

سب کو اپنے ساتھ شامل رکھنے کی ہماری تعلیم کے سبب ہم اتحاد کا نخلستان ہو سکتے اور تنوع کا جشن منا سکتے ہیں۔ اتحاد اور تنوع مخالف نہیں ہیں۔ جب ہم تنوع کے لیے شمولیت اور احترام کے ماحول کو فروغ دیتے ہیں تو ہم مزید متحد ہو سکتے ہیں۔ سان فرانسسکو، کیلی فورنیا کی سٹیک میں میری ۱۵ سالہ خدمت کے دوران ہمارے پاس ہسپانوی-، ٹونگن-،ساموؔن-، تگالوگ-، اور چینی-زبان-بولنے والی کلیسیائی جماعتیں تھیں۔ ہمارے انگریزی بولنے والے حلقے میں لوگ بہت سے نسلی اور سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ وہاں محبت، راستی اور اتحاد موجود تھا۔

لسانی جماعتوں کے علاوہ،۱۹ کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام میں حلقوں اور شاخوں کی تقسیم جغرافیائی بنیادوں پر کی جاتی ہے، نسلی یا ثقافتی بنیادوں پر نہیں۔ کلیسیائی مندرجات میں نسل کی نشاندہی نہیں کی جاتی۔

مورمن کی کتاب کے شروع میں مسِیح کی پیدائش سے تقریباً ۵۵۰ سال پہلے ہمیں آسمانی باپ کے بچوں کے مابین تعلق کے بارے میں بنیادی حکم سکھایا گیا۔ سب کو خُداوند کے احکام ماننے ہیں اور سب کو خُداوند کی بھلائی میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی؛ یاد رکھیں ”وہ اپنے پاس آنے والے کسی کا انکار نہیں کرتا خواہ وہ کالا ہو یا گورا، غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت؛ اور وہ بے دینوں کو یاد رکھتا ہے؛ خُدا کی نظر میں یہودی اور غیر قومیں سب ایک ہیں۔“۲۰

نجات دہندہ کے عرصہِ حیات کی خدمت اور پیغام تسلسل سے یہ بتاتے ہیں کہ تمام نسلیں اور چمڑی کے مختلف رنگ کے لوگ خُدا کے بچے ہیں۔ ہم سب بھائی اور بہنیں ہیں۔ ہمارے عقائد کے مطابق ہم یقین رکھتے ہیں کہ بحالی کے میزبان مُلک، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں امریکہ کا آئین۲۱ اور دیگر متعلقہ دستاویزات۲۲ غیر کامل مَردوں نے لکھیں، لیکن وہ خُدا کے طرف سے الہام کے مطابق تھیں تاکہ تمام لوگوں کو برکت بخشیں۔ جیسا کہ ہم عقائد اور عہود میں پڑھتے ہیں یہ دستاویزات ”تمام بشر کے حقوق اور تحفظ کے لیے بنائی گئیں ہیں اور اُنہیں راست اور پاک اُصولوں کے مطابق برقرار رکھنا چاہیے۔“۲۳ اِن اُصولوں میں سے دو، آزادیِ انتخاب اور اپنے گناہوں کے لیے جواب دہی کے اُصول ہیں۔ خُداوند فرماتا ہے:

”پس، یہ درست نہیں کہ کوئی شخص دُوسرے کی غلامی میں ہو۔

”اور اِس مقصد کے لیے مَیں نے اِس سرزمین کا آئین قائم کیا ہے، دانش مند آدمیوں کے ہاتھوں جنھیں مَیں نے اس خاص مقصد کے لیے برپا کیا، اور خُون کے بہنے سے اِس سرزمین کو چھٹکارا دِلایا۔“۲۴

یہ مکاشفہ ۱۸۳۳ میں ملا جب میسوری میں مقدسین بڑی تکلیف سے گزر رہے تھے۔ عقائد اور عہود فصل ۱۰۱ کے سرنامہ میں لکھا ہے کہ ”بپھرے ہجوم نے اُنہیں جیکسن کاونٹی میں اُن کے گھروں سے نکال دیا تھا۔ … کلیسیا کے [ارکان] کے خلاف موت کی دھمکیاں بہت تھیں۔“۲۵

یہ وقت کئی محاذوں پر کھچاؤ کا وقت تھا۔ میسوری کے بہت سے باشندے امریکی انڈین کو بے رحم دشمن سمجھتے تھے اور اُنہیں علاقے سے نکال دینا چاہتے تھے۔ اِس کے علاوہ میسوری کے بہت سے رہائشی غلاموں کے مالکان تھے اور وہ غلامی کی مخالفت کرنے والوں سے خطرہ محسوس کرتے تھے۔

اِس کے برعکس ہماری تعلیمات امریکن انڈین کو محترم گرانتی تھی اور ہماری خواہش تھی کہ ہم اُنہیں یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کی تعلیم دیں۔ غلامی کے حوالے ہمارے صحائف نے واضع طور پر کہا ہے کہ کسی شخص کو بھی کسی اور کی غلامی میں نہیں ہونا چاہیے۔۲۶

بالآخر مقدسین کو میسوری سے تشدد کر کے نکال دیا۲۷ اور اُنہیں مغرب کی سمت جانے پر مجبور کر دیا گیا۔۲۸ مقدسین برومند ہوئے اور اُنہوں نے وہ سلامتی حاصل کی جو راست بازی، اتحاد اور یِسُوع مسِیح کی اِنجیل پر عمل کرنے سے ملتی ہے۔

مجھے نجات دہندہ کی شفاعتی دعا بہت پسند ہے جو یوحنا کی انجیل میں تحریر ہے۔ نجات دہندہ اِس بات کا اقرار کرتا ہے کہ باپ نے اُسے بھیجا ہے اور اُس نے، یعنی نجات دہندہ نے وہ کام پورا کیا جسے کرنے کے لیے اُسے بھیجا گیا تھا۔ اُس نے اپنے شاگردوں کے لیے دعا کی اور اُن کے لیے جو مسِیح پر ایمان رکھتے ہیں: ”تاکہ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ! تُو مُجھ میں ہے اور میں تُجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ایک ہوں۔“۲۹ اپنے پکڑوائے جانے اور مصلوب ہونے سے پہلے بھی مسِیح نے یگانگت کی دعا ہی کی تھی۔

یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کی بحالی کے پہلے سال میں جسے عقائد اور عہود کی ۳۸ ویں فصل میں محفوظ کیا گیا ہے، خُداوند جنگوں اور بدکاری کے بارے میں بات کرتا ہے اور کہتا ہے، ”میں تم سے کہتا ہوں، ایک ہو اور اگر تم ایک نہیں تو تُم میرے نہیں۔“۳۰

ہماری کلیسیائی ثقافت یِسُوع مسِیح کی اِنجیل ہے۔ پولُس رسُول کا رومیوں کے نام خط نہایت عمیق ہے۔۳۱ روم میں ابتدائی کلیسیا یہودیوں اور غیر قوموں پر مشتمل تھی۔ اُن ابتدائی یہودیوں کی یہودی ثقافت تھی اُنہوں نے اپنی ”حُریت جیتی، اور بڑھنے اور پھلنے لگے۔“۳۲

روم میں غیر قوموں کی تہذیب انتہائی یونانی تھی، جسے پولُس رسُول اتھینے اور کرنتھس میں اپنے تجربے کی وجہ سے بہت اچھی طرح سمجھتا تھا۔

پولُس رسُول نے یِسُوع مسِیح کی اِنجیل قابلِ فہم طریقے سے پیش کی۔ وہ یہودی اور غیر قوموں دونوں کے متعلقہ تہذیبی پہلوؤں کو رقم کرتا ہے۳۳ جو یِسُوع مسِیح کی سچی اِنجیل سے متصادم تھے۔ وہ بنیادی طور پر اُن میں سے ہر ایک سے کہتا ہے کہ وہ اپنے اعتقادات اور تہذیب میں سے اُن تہذیبی رکاوٹوں کو پسِ پشت ڈالیں جو یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کے مطابق نہیں ہیں۔ پولُس یہودیوں اور غیر قوموں کو تنبیہ کرتا ہے کہ وہ حکموں پر عمل کریں، ایک دوسرے سے محبت رکھیں، اور تصدیق کرتا ہے کہ راستبازی نجات کی طرف لے جاتی ہے۔۳۴

یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کی تہذیب یہودی تہذیب یا غیر قوموں کی تہذیب نہیں ہے۔ اِس کا تعین کسی کی چمڑی کے رنگ یا جائے رہائش کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ گو کہ ہم متفرق تہذیبوں کی وجہ سے خوشی کرتے ہیں، ہمیں تہذیبوں کے وہ عناصر پیچھے چھوڑ دینے چاہیں جو یِسُوع مسِیح کی اِنجیل سے متصادم ہیں۔ اکثر ہمارے ارکان اور نئے رجوع لانے والے متفرق نسلی اور تہذیبی پس منظر سے آتے ہیں۔ اگر ہم اسرائیل کو اکٹھا کرنے کی صدر نیلسن کی نصیحت پر عمل کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ پولُس کے زمانہ میں یہودیوں اور غیر قوموں کی طرح ہم بھی مختلف ہیں۔ تاہم ہم یِسُوع مسِیح کے لیے اپنے پیار اور اُس پر ایمان میں متحد ہو سکتے ہیں۔ پولُس کا رومیوں کے نام خط یہ اصول استوار کرتا ہے ہم یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کی تہذیب اور تعلیم کی پیروی کرتے ہیں۔ آج بھی ہم اِسی کی تقلید کرتے ہیں۔۳۵ ہیکل کی رسومات ہمیں بڑے خاص طور سے متحد کرتی ہیں اور ہمیں ابدی طور پر ہر اہم چیز میں ایک ہونے کے قابل بناتی ہیں۔

ہم پوری دنیا میں اپنے ابتدائی ارکان کی تعظیم کرتے ہیں، اِس لیے نہیں کہ وہ کامل تھے بلکہ اِس لیے کہ اُنہوں نے مشکلات پر قابو پایا، قربانیاں دیں، مسِیح مانند بننے کی آرزو رکھی اور وہ ایمان کی تعمیر کرنے اور منجی کے ساتھ ایک ہونے کے لیے کوشاں تھے۔ مسِیح کے ساتھ ایک ہونے نے اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ایک بنا دیا۔ یہ اصول آج بھی آپ کے اور میرے لیے سچا ہے۔

کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام کے اَرکان کے لیے واضع بلاہٹ یہ ہے کہ وہ صیہونی لوگ بننے کی کوشش کریں جو دل اور دماغ میں ایک ہیں اور راستبازی میں جیتے ہیں۔۳۶

میری دعا ہے کہ ہم راست اور متحد ہوں مکمل طور پر اپنے نجات دہندہ یِسُوع مسِیح کی خدمت اور عبادت کرنے پر توجہ مرکوز کریں، جس کی میں گواہی دیتا ہوں۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر آمین۔

حوالہ جات

  1. دیکھیں عقائد اور عہود ۳۸: ۲۷۔

  2. ارکان کے لیے تھامس کَین کی خدمات کو بار ہا ”ایک نوجوان مثالیت پسند کا بے غرض کام کہا گیا ہے جس نے ستائی ہوئی مذہبی اقلیت کے ساتھ ظالم اور مخالف اکثریت کی نا انصافیاں ہوتی ہوئی دیکھیں“ (ایلزبتھ وُڈ کین کا سرورق Twelve Mormon Homes Visited in Succession on a Journey through Utah to Arizona, ed. Everett L. Cooley [1974], viii).

  3. See Kane, Twelve Mormon Homes, 5.

  4. See Kane, Twelve Mormon Homes, 40.

  5. See Lowell C. (Ben) Bennion and Thomas R. Carter, “Touring Polygamous Utah with Elizabeth W. Kane, Winter 1872–1873,” BYU Studies, vol. 48, no. 4 (2009), 162.

  6. لگتا ہے کہ ایلزبتھ یہ سمجھتی تھیں کہ زیادہ تر امریکن اُس وقت انڈین لوگوں کو بچا کچھا کھانا دیتے اور اُن کے ساتھ دیگر مہمانوں سے مختلف روئیہ برتتے ہیں۔

  7. See Kane, Twelve Mormon Homes, 64–65. یہ بات غور طلب ہے کہ بہت سے امریکی انڈین بشمول کئی سردار کلیسیا کے رکن بنے۔ مزید دیکھیںJohn Alton Peterson, Utah’s Black Hawk War (1998) 61; Scott R. Christensen, Sagwitch: Shoshone Chieftain, Mormon Elder, 1822–1887 (1999), 190–95.

  8. اِس زمانہ میں ”ایسا ہو گا کہ راست باز ساری قوموں کے درمیان میں سے اِکٹھے کیے جائیں گے، اور صیون میں آئیں گے، ابدی مسرت کے گیت گاتے ہوئے“ (عقائد اور عہود ۴۵: ۷۱

  9. دیکھیں عقائد اور عہود ۱۰۵ : ۳–۵۔ صحائف میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی دیکھ بھال کرنا راست بازی کا ضروری عنصر ہے۔

  10. دیکھیں ایلما ۳۶: ۳۰؛ مزید دیکھیں ۱ نیفی ۲ :۲۰؛ مضایاہ ۱: ۷۔ ایلما ۳۶: ۳۰ کے آخری حصہ میں لکھا ہے، ”جس قدر تم خُدا کے حکموں پر عمل نہیں کرو گے اُس کے حضوری سے کاٹ دیئے جاؤ گے۔ یہ اُس کے کلام کے مطابق ہے۔“

  11. مضایاہ ۲: ۴۱۔ صدر لورینزو سنو (۱۸۱۴–۱۹۰۱) نے سکھایا ”ایّام آخِر کا کوئی ایسا مُقدّس نہیں ہے جو وفادار زندگی گزارنے کے بعد مرے اور کچھ بھی کھوئے کیونکہ اُس نے وہ کچھ نہیں کیا جس کا اُسے موقع ہی نہیں دیا گیا تھا۔ با الفاظِ دیگر اگر کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کو بیاہ کا موقع نہیں ملا اور اُنہوں نے اپنی موت تک وفادار زندگی گزاری ہو تو اُنہیں سرفرازی کی تمام برکات اور جلال ملیں گے اُسی مرد و زن کی طرح جسے یہ برکت ملی ہو اور اُنہوں نے اِسے پروان چڑھایا ہو۔ یہ مثبت اور یقینی ہے“ (کلیسیا کے صدور کی تعلیمات: لورینزو سنو [۲۰۱۲]، ۱۳۰)۔ مزید دیکھیں رچرڈ جی سکاٹ، ”The Joy of Living the Great Plan of Happiness،“ انزائن نومبر ۱۹۹۶، ۷۵۔

  12. دیکھیے ۱ یوحنا ۵ :۲۔

  13. مضایاہ ۱۸: ۲۱؛ مزید دیکھیں موسیٰ ۱۸:۷۔

  14. ۴ نیفی ۱: ۱۶۔

  15. ۴ نیفی ۱: ۱۵۔

  16. ۴ نیفی ۱: ۲۴۔

  17. مرونی ۹: ۱۳–۱۴۔

  18. رسل ایم نیلسن کا بیان جو ”First Presidency and NAACP Leaders Call for Greater Civility, Racial Harmony “ میں دیا گیا، ۱۷ مئی ۲۰۱۸،newsroom.churchofJesusChrist.org؛ مزید دیکھیں ”President Nelson Remarks at Worldwide Priesthood Celebration،“ جون ۱، ۲۰۱۸، newsroom.ChurchofJesusChrist.org.

  19. عقائد اور عہود ۹۰: ۱۱ میں لکھا ہے ”ہر شخص اِنجیل کی معموری سنے گا … اور اپنی ہی زبان میں۔“ اسی کے مطابق، عموماً لسانی جماعتوں کی منظوری دی جاتی ہے۔

  20. ۲ نیفی ۲۶: ۳۳۔

  21. ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا آئین دیکھیں۔

  22. دیکھیں United States Declaration of Independence (1776); Constitution of the United States, Amendments I–X (Bill of Rights), National Archives website, archives.gov/founding-docs.

  23. عقائد اور عہود ۱۰۱ : ۷۷؛ تاکید اضافی ہے۔

  24. عقائد اور عہود ۱۰۱: ۷۹–۸۰۔

  25. عقائد اور عہود ۱۰۱؛ فصل کا سرنامہ۔

  26. دیکھیں Saints: The Story of the Church of Jesus Christ in the Latter Days, vol. 1, The Standard of Truth, 1815–1846 (2018), 172–74; James B. Allen and Glen M. Leonard, The Story of the Latter-day Saints, 2nd ed. (1992), 93–94; Ronald W. Walker, “Seeking the ‘Remnant’: The Native American during the Joseph Smith Period,” Journal of Mormon History 19, no. 1 (spring 1993): 14–16.

  27. دیکھیں Saints, 1:359–83; William G. Hartley, “The Saints’ Forced Exodus from Missouri, 1839,” in Richard Neitzel Holzapfel and Kent P. Jackson, eds., Joseph Smith, the Prophet and Seer (2010), 347–89; Alexander L. Baugh, “The Mormons Must Be Treated as Enemies,” in Susan Easton Black and Andrew C. Skinner, eds., Joseph: Exploring the Life and Ministry of the Prophet (2005), 284–95.

  28. دیکھیں Saints: The Story of the Church of Jesus Christ in the Latter Days, vol. 2, No Unhallowed Hand, 1846–1893 (2020), 3–68; Richard E. Bennett, We’ll Find the Place: The Mormon Exodus, 1846–1848 (1997); William W. Slaughter and Michael Landon, Trail of Hope: The Story of the Mormon Trail (1997).

  29. یُوحنّا ۱۷: ۲۱۔

  30. عقائد اور عہود ۳۸: ۲۷۔

  31. رومیوں کے نام خط عقیدہ بیان کرنے کے حوالے سے انتہائی جامع ہے۔ نئے عہد نامہ میں کفارہ کا ذکرِ واحد رومیوں میں ہی ملتا ہے۔ یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کے ذریعے گو نا گوں لوگوں کو متحد کرنے کی وجہ سے میں نے رومیوں کے خط کو سراہنا تب شروع کیا جب میں کئی نسلوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کی سٹیک کے صدر کے طور پر خدمت کر رہا تھا جو بہت سی مختلف زبانیں بولتے تھے۔

  32. فریڈرک ڈبلیو فارار، The Life and Work of St. Paul (۱۸۹۸)، ۴۴۶۔

  33. دیکھیں فارار، The Life and Work of St. Paul ۴۵۰۔

  34. دیکھیں رُومیوں ۱۳۔

  35. دیکھیں، ڈیلن ایچ اوکس، ”The Gospel Culture،“ لیحونا، مارچ ۲۰۱۲، ۲۲–۲۵؛ مزید دیکھیں رچرڈ جی سکاٹ، ”Removing Barriers to Happiness،“ انزائن مئی ۱۹۹۸، ۸۵–۸۷۔

  36. دیکھیں موسیٰ ۷: ۱۸۔