دِل آپس میں گٹھے رہیں
جب آپ دُوسروں کے ساتھ شفقت، احتیاط اور درد مندی سے پیش آتے ہیں تو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ ڈھیلے ہاتھوں کو درُست کر سکیں گے اور دلوِں کو شفا بخش سکیں گے۔
تعارف
کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ بعض اوقات اہم سائنسی دریافتیں کسی درخت سے گرنے والے سیب کی طرح سادہ واقعات سے متاثر ہوتی ہیں؟
آج، میں ایک ایسی دریافت کا اشتراک کروں گا جو خرگوشوں کے نمائندہ گروہ سے ثابت ہوئی۔
۱۹۷۰ کی دہائی میں، محققین نے صحتِ قلب پر خوراک کے اثرات کے جائزے کے لیے ایک تجربہ کیا۔ کئی مہینوں تک، اُنھوں نے خرگوشوں کے کنٹرول گروپ کو تیز چکنائی والی غذا کھلائی اور اُن کے بلڈ پریشر، دِل کی دھڑکن اور کولیسٹرول کی نگرانی کی۔
جیسا کہ توقع کی گئی تھی، بہت سے خرگوشوں کی شریانوں کے اندرونی حصّے میں چربی جمع ہونا شروع ہوگئی۔ پھر بھی محض یہی نہیں تھا! محققین نے ایک ایسی چیز دریافت کی جس سے کوئی نمایاں مفہوم حاصل نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ تمام خرگوشوں میں چربی والی نسیجیں پائی گئی تھیں، لیکن ایک گروہ غیر متوقع طور پر دُوسروں کے مقابلے میں ساٹھ فیصد کم چربی والی نسیجوں کا حامل تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ خرگوش کے دو مختلف گروہوں کا معائنہ کر رہے تھے۔
سائنس دان اِس طرح کے نتائج اور اِن کی تفسیر کے بارے میں اتنے پریشان تھے کہ اُن کی راتوں کی نیند اُڑ گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ نیوزی لینڈ کے یہ تمام خرگوش تقریباً ہر لحاظ سے بالکل مماثل جین کے حامل ایک ہی نسل کے تھے۔ اِن میں سے ہر ایک کو خوراک کی برابر مقدار دی گئی۔
اِس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟
کیا نتائج نے اُن کے مُطالعہ کو منسوخ کردیا تھا؟ کیا اِس تجرباتی نمونے میں خامیاں تھیں؟
سائنس دانوں نے اِس غیر متوقع نتیجہ کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کی!
آخر کار، اُنھوں نے تحقیقاتی عملے کی طرف اپنی توجہ مبذول کرلی۔ کیا یہ ممکن تھا کہ محققین نے نتائج کو متاثر کرنے کے لیے کچھ غلط کیا؟ جب اُنھوں نے اِس کا تعاقب کیا تو، اُنھوں نے دریافت کیا کہ ایسے خرگوش جن میں چربی والی نسیجیں کم تھیں وہ ایک ہی محقق کی نگرانی میں تھے۔ اُس نے دُوسروں کی مانند خرگوشوں کو وہی خوراک دی۔ لیکن، جیسا کہ ایک سائنس دان نے بتایا، ”وہ غیر معمولی طور پر مہربان اور شفیق شخصیت کی حامل تھی۔“ جب وہ اُن خرگوشوں کو کھانا کھلاتی تو، ”وہ اُن سے باتیں کرتی، اُنھیں گلے لگاتی اور اُن پر ہاتھ پھیرتی۔ … ’وہ خود کو روک نہ پاتی۔ بس وہ ایسی ہی تھی۔‘“۱
اُس نے خرگوشوں کو محض کھانا نہیں کھلایا۔ اُس نے اُنھیں محبّت دی!
فوری تشخیص کے تحت، اِس ڈرامائی فرق کا یہ غیر تسلّی بخش امکان تھا، لیکن تحقیقی ٹیم کو کوئی اور امکان نظر نہیں آرہا تھا۔
لہذا اِس بار ہر دُوسرے متغیر کو مضبُوطی سے کنٹرول کرتے ہوئے—اُنھوں نے یہ تجربہ دہرایا۔ جب اُنھوں نے نتائج کا تجزیہ کیا، تو غیر مبدل انجام ہی حاصل ہوا! محب محقق کی جانب سے نگہداشت پانے والے خرگوشوں میں صحت مند ہونے کا رحجان زیادہ تھا۔
سائنسدانوں نے اِس تحقیق کے نتائج مشہور رسالے سائنس۲ میں شائع کیے۔
برسوں بعد، اِس تجربے کے نتائج کا اثر و رسوخ اب بھی میڈیکل کمیونٹی کے اندر نظر آتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، ڈاکٹر کیلی ہارڈنگ نے The Rabbit Effect کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس کا نام اِس تجربے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اُس نے نتیجہ نکالا: ”ایک غیر صحت مند طرزِ زِندگی کا حامل خرگوش لیں۔ اُس سے بات کریں۔ اُسے بانہوں میں لیں۔ اُس کو پیار دیں۔ … تعلقات فرق پیدا کرتے ہیں۔ … بالآخر، ”اُس نے تحریر کیا کہ ”ہم دُوسروں کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں، ہم کیسے زِندگی گزارتے ہیں، اور بطور اِنسان ہماری کیا سوچ ہے یہ تمام چیزیں ہماری صحت کو انتہائی معنی خیز طریقوں سے متاثر کرتی ہیں۔“۳
اِس لادینی دُنیا میں، سائنسی نظریات اور اِنجِیلی حقائق کے درمیان بہت کم چیزیں مشترک نظر آتی ہیں۔ البتہ مسِیحی، یِسُوع مسِیح کے پیروکار، مقدسینِ آخِری ایّام، ہونے کے ناطے اِس سائنسی مُطالعہ کے نتائج ہمیں حیرت انگیز سے زیادہ اِلہامی محسوس ہوسکتے ہیں۔ میرے نزدیک، اِس نے بنیادی، شفا بخش اِنجِیلی اُصول کے طور پر شفقت کی نیو میں ایک اور اینٹ کا اضافہ کیا ہے—وہ جو دِلوں کو جذباتی، رُوحانی، اور جیسا کہ یہاں ثابت کیا گیا ہے جسمانی طور پر بھی شفا بخشتی ہے۔
دِل آپس میں گٹھے رہیں
جب پوچھا گیا، ”اَے اُستاد، کون سا حُکم بڑا ہے؟“ مُنجّی نے جواب دیا ”خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل سے محبّت رکھ،“ مزید کہا، ”اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔“۴ نجات دہندہ کا جواب ہمارے آسمانی فرض کو تقویت بخشتا ہے۔ ایک قدیم نبی نے حکم دیا ”کہ آپس میں ایک دُوسرے سے جھگڑا نہ کریں، بلکہ … ، [اپنے] دِلوں کو ایک دُوسرے سے یگانگت میں متحد رکھتے اور ایک دُوسرے سے محبّت رکھتے ہوئے ایک مقصد کے لیے آگے دیکھیں۔“۵ ہمیں مزید یہ سِکھایا گیا ہے ”طاقت یا رسُوخ … نرمی سے، اور حلِیمی سے، … شفقت سے، … بغیر مکّر کے … برقرار رکھا جا سکتا۔“۶
میرا ماننا ہے کہ اِس اُصول کا تمام مُقدّسینِ آخِری ایّام: بالغین، نوجوانوں اور بچّوں پر عالمی اطلاق ہوتا ہے۔
اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، میں ایک لمحے کے لیے پرائمری کی عمر کے بچّوں سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں۔
آپ پہلے ہی فہم پا چکے ہیں کہ شفقت سے پیش آنا کتنا ضروری ہے۔ آپ کے پرائمری کے گیتوں میں سے ایک، ”مَیں یِسُوع کی مانند بننے کی کوشش کر رہا ہُوں“ کا کورس سِکھاتا ہے:
ایک دُوسرے سے کرو جیسے یِسُوع نے تُم سے کی محبّت۔
ظاہر کرو ہر فعل میں شفقت۔
عمل اور سوچ میں برتاؤ نرمی اور اُلفت،
کیوں کہ یِسُوع نے یہی کی تلقین۔۷
پھر بھی، آپ کو بعض اوقات مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے منچن کِم نامی ایک پرائمری لڑکے کے بارے میں یہ کہانی آپ کی مدد کرسکتی ہے۔ اُس کے خاندان نے تقریباً چھ سال قبل کلِیسیا میں شمولیت اِختیار کی۔
”ایک دن سکول میں، میرے کچھ ہم جماعت دُوسرے طالب علم کا نام بگاڑ کر اُس کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ یہ حرکت پُرلطف محسوس ہوتی تھی، لہذا کچھ ہفتوں تک میں بھی اُن کے ساتھ شامل ہو گیا۔
”کئی ہفتوں کے بعد، حالانکہ اُس نے دکھاوا کیا کہ اُسے کوئی پرواہ نہیں تھی، اُس لڑکے نے مجھے بتایا کہ اُسے ہماری باتوں سے تکلیف پہنچتی تھی، اور وہ ہر رات روتا تھا۔ جب اُس نے مجھے یہ بتایا تو مَیں تقریباً رو پڑا۔ مجھے بہت افسوس ہوا اور مَیں اُس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اگلے دن میں اُس کے پاس گیا اور اُس کے کندھے کے گرد اپنا بازو رکھا اور معذرت کرتے ہوئے بولا، ’مجھے واقعی افسوس ہے کہ میں نے تمھارا مذاق اڑایا۔‘ اُس نے میری باتوں پر سر ہلایا، اور اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
”لیکن دُوسرے بچّے ابھی بھی اُس کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ پھر، مجھے یاد آیا کہ میں نے پرائمری کلاس میں سیکھا تھا کہ: درست انتخاب کرو۔ تاہم مَیں نے اپنے ہم جماعتوں کو ایسا کرنے سے روکا۔ اُن میں سے بیشتر نے باز نہ آنے کا فیصلہ کیا، اور وہ مجھ پر غصہ ہوئے۔ لیکن دُوسرے لڑکوں میں سے ایک اور نے کہا کہ اُسے افسوس ہے، اور ہم تینوں اچھّے دوست بن گئے۔
”اگرچہ ابھی بھی کچھ ہم جماعت اُس کا مذاق اُڑاتے ہیں، لیکن ہمارے ساتھ کی بدولت وہ بہتر محسوس کرتا ہے۔
”مَیں نے ضرورت کے وقت ایک دوست کی مدد کرکے درست انتخاب کیا۔“۸
کیا یِسُوع کی مانند بننے کی کوشش کرنے میں یہ آپ کے لیے ایک اچھی مثال نہیں ہے؟
اب، میں نوجوان لڑکے اور نوجوان لڑکیوں سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں، جیسے جیسے آپ بڑے ہو رہے ہیں، دُوسروں کا مذاق اُڑانا تدریجاً خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے۔ دھونس جمانا اکثر بے چینی، افسردگی اور بدتر حالت کا موجب بنتا ہے۔ ”جبکہ دھونس جمانا کوئی نیا تصوّر نہیں ہے، لیکن سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی اِسے ایک نئی سطح پر لے گئی ہے۔ سائبر دھمکیاں—ایک مستقل اور ہمیشہ موجود رہنے والا خطرہ بن جاتی ہیں۔“۹
واضح طور پر، مخالف آپ کی نسل کو تکلیف پہنچانے کے لیے اِس کا استعمال کررہا ہے۔ آپ کی سائبر سپیس، پڑوس، سکولوں، جماعتوں یا کلاسوں میں اِس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ براہِ کرم اِن مقامات کو شفیق اور محفوظ تر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ اگر آپ غیر فعال طور پر اِس میں سے کسی کا مشاہدہ کرتے یا اِس کا حصّہ بنتے ہیں تو، مجھے بزرگ ڈیٹئر ایف اوکڈورف کی جانب سے دی گئی نصیحت سے بہتر کوئی اور بات نہیں لگتی:
”جب بات نفرت کرنے،افواہیں پھیلانے، نظرانداز کرنے، تمسخر اُڑانے، بغض رکھنے، یا تکلیف پہنچانے کی ہو تو، براہِ کرم درج ذیل کا اطلاق کریں:
”رک جائیں!“۱۰
کیا آپ نے یہ سُنا؟ رک جائیں! جب آپ دُوسروں کے ساتھ شفقت، احتیاط اور درد مندی سے پیش آتے ہیں، یہاں تک کہ ڈیجیٹل طور پر بھی تو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ ڈھیلے ہاتھوں کو درُست کر سکیں گے اور دلوِں کو شفا بخش سکیں گے۔
پرائمری کے بچّوں اور نوجوانوں سے بات کرنے کے بعد، مَیں اب کلِیسیا کے بالغین سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں۔ ہم پر ایک بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم شفقت، شمولیت، اور شائستگی اختیار کریں اور اِن خصوصیات کا موزوں نمونہ بنیں—تاکہ ہم اپنے قول و فعل سے اُبھرتی ہوئی نسل کو مِثلِ مسِیح رویے کی تعلیم دیتے رہیں۔ یہ خاص طور پر اہم ہے جب ہم سیاست، معاشرتی طبقے اور انسانوں کے بنائے ہوئے ہر دُوسرے امتیاز کی تفریق کاری کی طرف واضح معاشرتی تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
صدر ایم رسل بیلرڈ نے بھی یہی سِکھایا ہے کہ مُقدّسینِ آخِری ایّام کو نہ صرف ایک دُوسرے کے ساتھ، بلکہ ہمارے آس پاس کے سب لوگوں کے ساتھ بھی مہربان ہونا ہے۔ اُنھوں نے مشاہدہ کیا: ”بعض اوقات میں سُنتا ہوں کہ اَرکان دُوسرے عقائد کے لوگوں کو نظرانداز اور اپنی سرگرمیوں میں شامل نہ کر کے اُن کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر اُن طبقوں میں رُونما ہوسکتا ہے جہاں ہمارے اَرکان کی اکثریت ہے۔ مجھے ایسے تنگ نظر والدین کے بارے میں مطلع کیا گیا ہے جو اپنے بچّوں کو یہ کہتے ہیں کہ وہ پڑوس کے کسی خاص بچّے کے ساتھ نہیں کھیل سکتے کیونکہ وہ یا اُس کا خاندان ہماری کلِیسیا سے تعلق نہیں رکھتے۔ اِس طرح کا رویہ خُداوند یِسُوع مسِیح کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہماری کلِیسیا کا کوئی رکن اِس قسم کی چیزوں کو ہونے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ … میں اِس امر سے ناواقف ہوں کہ کبھی بھی اِس کلِیسیا کے اَرکان کو اپنے دوستوں اور دُوسرے عقائد کے پڑوسیوں کے ساتھ محبّت، شفقت، رواداری، اور خیر اندیشی سے پیش آنے کے سوا کچھ اور کرنے کی ترغیب دی گئی ہو۔“۱۱
خُداوند ہم سے توقع کرتا ہے کہ ہم یہ تعلیم دیں کہ شمولیت اتحاد کا ایک مثبت وسیلہ ہے اور یہ کہ اخراج تفریق کاری کا سبب بنتا ہے۔
یِسُوع مسِیح کے پیروکار ہونے کے ناطے، جب ہم یہ سُنتے ہیں کہ خُدا کے بچّوں کے ساتھ نسلی تعصب کی بنیاد پر برا برتاؤ کیا جاتا ہے تو ہم مایوس ہوجاتے ہیں۔ سیاہ فام، ایشین، لاطینی یا کسی دُوسرے فرقے کے لوگوں پر ہونے والے حالیہ حملوں کے بارے میں سُن کر ہمیں دِل شکنی کا تجربہ ہوا ہے۔ تعصب، نسلی تناؤ یا تشدد کی ہمارے محلوں، طبقوں یا کلِیسیا کے اندر کبھی بھی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
ہم میں سے ہر ایک، اپنی عمر سے قطع نظر، خود کو بہترین بنانے کی کوشش کرے۔
اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھّیں
جب آپ دُوسروں کے ساتھ محبّت، احترام، اور شفقت سے پیش آنے کی کوشش کرتے ہیں تو، یقیناً آپ دُوسروں کے برے انتخاب سے مجروح یا منفی طور پر متاثر ہوں گے۔ اِس صورتحال میں ہم کیا کریں؟ ہم خُداوند کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں کہ ”اپنے دُشمنوں سے مُحبت رکھّو … اور جو تُمہاری تحقِیر کریں اُن کے لِئے دُعا کرو۔“۱۲
ہم اپنی راہ میں آنے والی ہر مصیبت پر قابو پانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ہر وقت یہ دُعا کرتے ہوئے کہ خُداوند کا قادر ہاتھ ہمارے حالات کو بدلے، ہم آخر تک برداشت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اُن لوگوں کے لیے نہایت مشکور ہیں جن کو وہ ہماری معاونت کے لیے ہماری زِندگی میں لاتا ہے۔
مَیں ہماری ابتدائی کلِیسیائی تاریخ میں سے ایک مثال سے جذباتی طور پر متاثر ہوا ہوں۔ ۱۸۳۸ کی سردیوں کے دوران، جوزف سمتھ اور دیگر کلِیسیائی رہنماؤں کو اُس وقت لبرٹی جیل میں نظربند کیا گیا جب مُقدّسینِ آخِری ایّام کو ریاست میسوری میں زبردستی گھروں سے نکال دیا گیا تھا۔ مُقدّسین بے سہارا، بے یارو مددگار، اور سردی کی شدت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ الینوائے، کوئنسی کے رہائشیوں نے اُن کی مایوسی کا عالم دیکھا اور اُن کی طرف ہمدردی اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
کوئنسی کے رہائشی، وانڈل میس، بعد میں اُس وقت کو یاد کرتے ہیں جب اُنھوں نے پہلی بار عارضی خیموں میں مسیسیپی ندی کے کنارے مُقدّسین کو دیکھا تھا: ”تیز ہوا سے بچنے کے لیے، کچھ نے چادریں کھینچ رکھی تھیں، … بچے آگ کے گرد کانپ رہے تھے جو ہوا کی وجہ سے صحیح طور پر جل نہیں پا رہی تھی لہذا اُنھیں اُس کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں تھا۔ نادار مُقدّسین شدید مصیبت میں مبتلا تھے۔“۱۳
مُقدّسین کی حالتِ زار دیکھ کر، کوئنسی کے رہائشی امداد فراہم کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے، کچھ نے تو اپنے نئے دوستوں کو ندی کے پار لے جانے میں بھی مدد فراہم کی۔ میس نے مزید کہا: ”تاجروں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ کون زیادہ سے زیادہ امداد کرتا ہے، [اُنھوں نے] فیاضانہ طور پر عطیات دیے … جن میں … سؤر کا گوشت، … چینی، … جوتے اور کپڑے شامل تھے، ہر وہ چیز جس کی اِن بے گھر لوکوں کو انتہائی ضرورت تھی۔“۱۴ کچھ ہی دیر میں، پناہ گزین نے کوئنسی کے باشندوں کی تعداد بڑھا دی، جنھوں نے عظیم قربانی دیتے ہوئے اُن کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے اور اپنے قلیل وسائل کا اُن کے ساتھ اشتراک کیا۔۱۵
بہت سے مُقدّسین موسمِ سرما کی شدت کو صرف کوئنسی کے رہائشیوں کی شفقت اور سخاوت کی وجہ سے برداشت کر پائے۔ اِن دنیوی فرشتوں نے حیات بخش تقویت، جوش اور—شاید سب سے اہم بات—رنج میں مبتلا مُقدّسین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنے دِل اور گھر کھول دیے۔ اگرچہ کوئنسی میں اُن کا قیام نسبتاً مختصر تھا، لیکن مُقدّسین اب بھی اپنے پیارے پڑوسیوں کے ممنونِ احسان ہیں، اور کوئنسی ”پناہ گزین شہر“ کے نام سے مشہور ہوگیا۔۱۶
جب کسی تنقیدی، منفی، حتیٰ کہ کٹھور حرکت کی وجہ سے ہم تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، تو ہم مسِیح میں اُمید کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ یہ اُمید اُس کی دعوت اور وعدے سے حاصل ہوتی ہے کہ ”خاطِر جمع رکھو، کیوں کہ مَیں تُمھاری راہ نمائی کرُوں گا“۱۷ اور وہ آپ کی تکلیفوں کو آپ کے لیے مخصوص کردے گا۔۱۸
اچھّا چرواہا
آئیں اب وہیں سے اختتام پذیر ہوتے ہیں جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا: ایک رحم دلانہ نگراں نے، نگہداشت کے جذبے سے شفقت کا مظاہرا کرتے ہوئے، غیر متوقع نتیجہ حاصل کیا—اپنی نگرانی میں جانوروں کے دِلوں کو شفا بخشی۔ کیوں؟ کیوں کہ وہ ایسی ہی تھی!
جب ہم اِنجِیلی تناظر سے جائزہ لیتے ہیں، تو ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری دیکھ بھال بھی ایک رحم دلانہ نگراں کر رہا ہے، جو شفقت اور نگہداشت کے جذبے سے ہمیں تقویت بخشتا ہے۔ اچھّا چرواہا ہم میں سے ہر ایک کو نام بہ نام جانتا ہے اور ہم میں ذاتی دلچسپی لیتا ہے۔۱۹ خُداوند یِسُوع مسِیح نے خود فرمایا ہے: ”اچھا چرواہا میں ہوں، اور میں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں۔ … اور میں بھیڑوں کے لیے اپنی جان دوں [گا]۔“۲۰
ایسٹر کے اِس مُقدّس اختتامِ ہفتہ میں، مَیں اِس علم کے باعث دائمی اِطمینان پاتا ہوں کہ ”خُداوند میرا چوپان ہے“۲۱ اور یہ کہ وہ ہم میں سے ہر کو جانتا ہے اور ہم اُس کی زیرِ نگرانی ہیں۔ جب ہم زِندگی کے طوفان باد و باراں، بیماریوں اور زخموں کا مقابلہ کرتے ہیں، خُداوند—ہمارا چرواہا، ہماری دیکھ بھال کرنے والا—محبّت اور شفقت کے ساتھ ہماری نگہداشت کرے گا۔ وہ ہمارے دِلوں کو شفا بخشے گا اور ہماری جانوں کو بحال کرے گا۔
میں اِس کی—اور یِسُوع مسِیح کی ہمارے مُنجّی اورمخلصی دینے والے کی حیثیت سے—اُس کے نام پرگُواہی دیتا ہوں، آمین۔