مسِیح میں ایک ہو
یہ فقط یِسُوع مسِیح سے ہماری محبت اور اُس سے ہماری اِنفرادی وفاداری کی بدولت ہی ہے کہ ہم ایک ہونے کی اُمِّید کر سکتے ہیں۔
جیسے صدر ڈیلن ایچ اوکس نے بیان کیا ہے، آج کھجُوروں کا اِتوار ہے، پاک ہفتہ کا آغاز، خُداوند کی یروشلیِم میں شاہانہ آمد، گتسِمنی میں اُس کا دُکھ اُٹھانا اور صِرف چند دِن کے بعد صلِیب پر مرنا، اور اِیسٹر سنڈے پر اُس کا پُرجلال جی اُٹھنا۔ آئیے ہم مُصمم اِرادہ کریں کہ اُس بات کو کبھی نہ بھولیں جو مسِیح نے ہماری مُخلصی کے لیے برداشت کِیا۔۱ اور آئیے ہم کبھی اِس پُرفضل خُوشی سے محرُوم نہ ہوں جو ہم ایک بار پھر ایسٹر پر محسُوس کریں گے جب ہم قبر پر اُس کی فتح اور عالم گیر قیامت کی نعمت پر غَور کرتے ہیں۔
مُقدمے اور مصلُوبیت سے ایک شام پہلے جو اِس کے مُنتظر تھے، یِسُوع اپنے رسُولوں کے ساتھ فسح کے کھانے میں شامِل ہُوا۔ اپنے آخری کھانے کے اِختتام پر، پاک شفاعتی دُعا میں، یِسُوع نے اپنے باپ سے اِن اَلفاظ میں درخواست فرمائی: ”اَے قُدُّوس باپ! اپنے اُس نام کے وسِیلہ سے جو تُو نے مُجھے بخشا ہے اُن کی حِفاظت کر تاکہ وہ ہماری طرح ایک ہوں۔“۲
پِھر، رحم دِلی سے، نجات دہندہ نے تمام اِیمان داروں کو شامِل کرنے کے لِیے اپنی درخواست کو بڑھا دیا۔
مَیں صِرف اِن ہی کے لیے درخواست نہیں کرتا بلکہ اُن کے لیے بھی جو اِن کے کلام کے وسِیلہ سے مُجھ پر اِیمان لائیں گے۔
”تاکہ وہ سب ایک ہوں؛ یعنی جِس طرح اَے باپ، تُو مُجھ میں ہے، اور مَیں تُجھ میں ہُوں، وہ بھی ہم میں ہوں۔“۳
ایک بننا یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل میں اور اُس اُمّت کے ساتھ خُدا کے مُعاملات میں بار بار چلنے والا موضوع ہے۔ حنوک کے زمانے میں، صِیُّون شہر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ”یک دِل اور یک ذہن تھے۔“۴ یِسُوع مسِیح کی قدِیم کلِیسیا کے اِبتدائی مُقدّسِین کی بابت، نئے عہد نامہ میں مرقُوم ہے، ”اِیمان داروں کی جماعت ایک دِل اور ایک جان تھی۔“۵
ہمارے اپنے دَور میں، خُداوند نے ہمیں حُکم دیا ہے، ”مَیں تُم سے کہتا ہُوں، ایک ہوں، اوراگر تُم ایک نہیں تُم میرے نہیں ہو۔“۶ خُداوند نے جو وجوہات بتائی ہیں کہ کیوں میزوری میں اِبتدائی مُقدّسِین صِیُّون کی جگہ قائم کرنے میں ناکام رہے تھے وہ یہ تھی کہ وہ ”اِس طرح مُتحد نہیں ہیں جَیسا سیلیسٹیئل بادِشاہی کے اِتحاد کا قانون مُطالبہ کرتا ہے۔“۷
جہاں خُدا تمام دِلوں اور دماغوں پر حُکُومت کرتا ہے، وہاں لوگوں کا یُوں ذِکر ہوتا ہے کہ ”وہ سب ایک، مسِیح کی اُمت اور خُدا کی بادِشاہی کے وارث ہیں۔“۸
جب زِندہ نجات دہندہ مورمن کی کِتاب کے قدیم لوگوں پر ظاہر ہُوا، تو اس نے ناپسندیدگی کے ساتھ اِظہار کِیا کہ ماضی میں لوگوں کے درمیان میں بپتسما اور دیگر مُعاملات پر جھگڑے ہوتے رہے تھے۔ اُس نے حُکم دِیا:
”تُم میں تفرقے نہ ہوں، جَیسا کہ اب تک ہوتے رہے ہیں؛ نہ میری تعلِیم کے نکات کی بابت تُمھارے درمیان میں جھگڑے پَیدا ہوں، جَیسا کہ اب تک ہوتے رہے ہیں۔“
”پَس مَیں تُم سے سچّ سچّ کہتا ہُوں، جِس میں فَساد کی رُوح ہے وہ مُجھ سے نہیں، بلکہ اِبلِیس سے ہے، جو فِتنہ و فَساد کا باپ ہے، اور وہ اِنسان کے دِل کو ایک دُوسرے کے خِلاف، غیظ و غصب کے ساتھ، جھگڑا کرنے کے لیے اُبھارتا ہے۔“۹
ہماری شدِید مُضطرب و مُتفکر دُنیا میں، ہم آہنگی کیسے مُمکن ہو سکتی ہے، خاص طور پر کلِیسیا میں جہاں ہمیں ”ایک ہی خُداوند، ایک ہی اِیمان، ایک ہی بپتِسما کو پانا ہے“؟۱۰ پولُس ہمیں اِس کی کُنجی دیتا ہے:
”پَس جِتنوں نے مسِیح میں شامِل ہونے کا بپتِسما لِیا مسِیح کو پہن لِیا۔
”نہ کوئی یہُودی رہا نہ یُونانی، نہ کوئی غُلام نہ آزاد، نہ کوئی مَرد نہ عَورت: پَس تُم سب مسِیح یِسُوعؔ میں ایک ہو۔“۱۱
ہم مُختلف رنگوں اور نسلوں کے ہیں اور بعض اوقات شدِید اِختلافات بھی ہوتے ہیں کہ کسی ایک پلیٹ فارم پر یا کسی ایک نام سے اِکٹھے ہونے کے قابل نہیں ہوتے۔ فقط یِسُوع مسِیح میں صحیح معنوں میں ہم ایک بن سکتے ہیں۔
مسِیح میں ایک بننا فرداً فرداً ہوتا ہے—ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ سے شُروع کرتا ہے۔ ہم جسم اور رُوح کی دوہری مخلُوق ہیں اور بعض اوقات اپنے بطن میں بھی حالتِ جنگ میں رہتے ہیں۔ جَیسا کہ پولُس نے وضاحت فرمائی:
”پَس باطِنی اِنسانِیّت کی رُو سے تو مَیں خُدا کی شرِیعت کو بُہت پسند کرتا ہُوں؛
”مگر مُجھے [اپنے] اعضا میں ایک اَور طرح کی شرِیعت نظر آتی ہے، جو میری عقل کی شرِیعت سے لڑ کر، مُجھے اُس گُناہ کی شرِیعت کی قَید میں لے آتی ہے جو میرے [بشری] اعضا میں مَوجُود ہے۔“۱۲
یِسُوع مسِیح بھِی گوشت اور رُوح سے مُجسم ہُوا تھا۔ وہ آزمایا گیا تھا؛ وہ جانتا ہے؛ باطنی ہم آہنگی کو پانے میں وہ ہماری مدد کر سکتا ہے۔۱۳ لہٰذا، مسِیح کے نُور اور فضل کے طلب گار ہو کر، ہم اپنی رُوح کو—اور رُوحُ القُدس—کو بشریت پر غالِب آنے میں مدد دیتے ہیں۔ اور جب ہم خطا کے مُرتکب ہوتے ہیں، تو مسِیح نے، اپنے کَفارہ کے وسِیلے سے ہمیں تَوبہ کی نعمت عطا کی ہے اور دوبارہ کوشش کرنے کا موقع بخشا ہے۔
اگر ہم میں سے ہر ایک فرداً فرداً ”مسِیح کو پہن لیتا ہے،“ تو پِھر ہم مِل کر ایک ہونے کی اُمِّید کر سکتے ہیں، جِیسے پولُس نے فرمایا، ”مسِیح کا بدن ہو۔“۱۴ ”مسِیح کو پہن لینے“ میں یقِیناً اُس کے ”پہلے اور عظِیم حُکم“۱۵ کو ہماری اَوّلین اور سب سے بڑی ترجِیح بنانا شامِل ہے، اور اگر ہمیں خُدا سے محبّت ہے، تو ہم اُس کے حُکموں پر چلیں گے۔۱۶
اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اِتحاد و یگانگت مسِیح کے بدن میں اُس وقت بڑھتی ہے جب ہم دُوسرے حُکم پر عمل کرتے ہیں—جو پہلے کے ساتھ پیوست ہے—دُوسروں کو اپنی مانِند پیار کرنا۔۱۷ اور میرا دعویٰ ہے کہ ہمارے درمیان میں اِس سے بھی زیادہ کامِل یگانگت و ہم آہنگی پائی جائے گی اگر ہم نجات دہندہ کے اِس دُوسرے حُکم کے اعلیٰ اور افضل اِظہار پر عمل کریں—ایک دُوسرے سے نہ صِرف محبّت رکھیں جَیسا کہ ہم اپنے آپ سے محبّت رکھتے ہیں بلکہ جَیسا کہ وہ ہم سے محبّت رکھتا ہے۔۱۸ عقائد اور عہُود کے کلام سے، یہ مُعاشرے مُطابقت رکھتے تھے ”ہر اِنسان اپنے ہمسائے کی بھلائی چاہے، اور یہ سب چِیزیں یکسوئی سے خُدا کے جلال کے لیے کرے۔“۱۹
صدر میریّن جی رومنی، صدارتِ اَوّل کے سابق مُشِیر، یہ بتاتے ہُوئے کہ پائیدار صُلح و سلامتی اور اِتحاد و یگانگت کیسے پائے جاتے ہیں، فرمایا:
”اگر کوئی اکیلا شخص، شَیطان کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے، تو خُود غرضی کے دھندوں سے بھر جاتا ہے، تو وہ اپنے اندر ہی جنگ کرتا رہتا ہے۔ اگر دو ہتھیار ڈال دیتے ہیں، تو دونوں اپنے اندر کی لڑائی کے ساتھ ساتھ ایک دُوسرے سے بھی لڑتے ہیں۔ اگر بُہت سارے لوگ ہتھیار ڈال دیتے ہیں، تو پُورا مُعاشرہ شدِید کھینچا تانی اور فِتنہ و فَساد کی فصل [کاٹتا] ہے۔ اگر کسی مُلک کے حُکم ران ہتھیار ڈال دیتے ہیں، تو پُوری دُنیا فِتنہ و فَساد کا شِکار ہو جاتی ہے۔“
صدر رومنی بات جاری رکھتے ہیں: ”جِس طرح نفسا نفسی کے کاموں کا عالم گیر اِطلاق ہوتا ہے، اُسی طرح صُلح کی اِنجِیل بھی مُنطبق ہوتی ہے۔ اگر کوئی ایک شخص اِس پر عمل کرتا ہے، تو اُس کے اپنے بطن میں صُلح ہوگی۔ اگر دو اُس پر عمل کرتے ہیں، تو دونوں کے اندر صُلح و سلامتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دُوسرے سے بھی صُلح رہے گی۔ اگر شہری اُس پر عمل کرتے ہیں، تو قَوم کے اندر صُلح و سلامتی ہو گی۔ جب کافی ساری قَومیں دُنیا کے مُعاملات کو حل کرنے کے لیے رُوح کے پھلوں کو خُوش اسلُوبی سے بروئے کار لاتی ہیں،تو پِھر، صِرف اور صِرف اِسی صُورت میں نہ طبلِ جنگ بجیں گے، اور نہ لڑائی کے جھنڈے لہرائے جائیں گے۔ … (دیکھیے lfred Lord Tennyson, “Locksley Hall,” The Complete Poetical Works of Tennyson, ed۔ W. J. Rolfe, Boston, Houghton–Mifflin Co., 1898, p. 93, lines 27–28۔)“۲۰
جب ہم ”مسِیح کو اپنا،“ لیتے ہیں، اِختلافات اور تنازعات کو حل کرنا یا ایک طرف رکھنا مُمکن ہو جاتا ہے۔ تقسیم پر قابُو پانے کی حیرت خیز مثال ہماری کلِیسیا کی تارِیخ میں پائی جاتی ہے۔ بُزرگ برگھم ہنری رابرٹس (عام طور پر بی ایچ رابرٹس کے نام سے جانا جاتا ہے)، جو ۱۸۵۷ میں اِنگلینڈ میں پَیدا ہُوئے، اُنھوں نے ستر کی مجلسِ اَوّل کے رُکن کے طور پر خِدمات انجام دیں—جِس کو آج ہم ستر کی صدارت کے نام سے منسُوب کرتے ہیں۔ بُزرگ رابرٹس مُشکل ترین دَور میں بحال شُدہ اِنجِیل اور کلِیسیا کے قابل اور اَنتھک مُحافظ رہے ہیں۔
لہٰذا، ۱۸۹۵ میں، کلِیسیا میں بُزرگ رابرٹس کی خِدمت کو تنازعہ کی وجہ سے خطرے میں ڈال دِیا گیا۔ بی ایچ کو اِس کنونشن کے مندُوب کی حیثیت سے مقرر کیا گیا تھا جس نے یوٹاہ کی ریاست بننے پر آئین کا مسّودہ تیار کیا تھا۔ اُس کے بعد، اِس نے ریاست ہائے مُتحدہ کی کانگریس کے لیے اُمِّیدوار بننے کا فیصلہ کِیا، لیکن صدارتِ اَوّل کو مُطلع کیے یا اُن سے اِجازت لیے بغیر۔ صدر جوزف ایف سمتھ، صدارتِ اَوّل میں مُشِیر نے بی۔ ایچ کی کہانتی حاملِین کی عِبادت میں اِس غفلت کے لیے سرزنش کی۔ بُزرگ رابرٹس الیکشن ہار گئے اور اُنھیں لگا کہ اُن کی شکست صدر سمتھ کے بیانات کی وجہ سے ہے۔ وہ بعض سیاسی تقاریر اور اِنٹرویوز میں کلِیسیا کے قائدین پر تنقید کِیا کرتے تھے۔ وہ کلِیسیا کی فعال خِدمت سے دست بردار ہو گئے۔ سالٹ لیک ہَیکل میں صدارتِ اَوّل اور بارہ کی جماعت کے اَرکان کے ساتھ ایک طویل مُلاقات میں، بی ایچ. اپنے آپ کو دُرست ثابت کرنے پر اَٹل رہے۔ بعد اَزاں، ”صدر [ولفورڈ] ووڈرف نے [بُزرگ رابرٹس] کو اپنے زاویہِ نِگاہ پر نظر ثانی کرنے کے لیے تین ہفتے کا وقت دیا۔ اگر وہ نقطہِ نظر نہیں تبدیل کرتے تو، اُنھیں ستر کے عُہدے سے دست بردار کر دِیا جائے گا۔“۲۱
اِس کے بعد رسُولوں ہیبر جے گرانٹ اور فرانسس لیمن کے ساتھ نجی مُلاقات میں، بی ایچ اِبتدا میں بضد تھے، لیکن محبّت اور رُوحُ القُدس بالآخر غالب آ گئے۔ اُن کی آنکھوں سے آنسُو نِکل آئے۔ دونوں رسُولوں نے بی ایچ کی طرف سے گُمان کی جانے والی اِلزام تراشیوں اور لاپروائیوں کا اَزالہ بھی کِیا جو اُنھیں پریشان کرتی تھیں۔ بی۔ایچ، اور وہ صلح کی پُرخلُوص درخواست کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ اَگلی صُبح، طویل دُعا کے بعد، بُزرگ رابرٹس نے بُزرگان گرانٹ اور لیمن کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ دوبارہ مُلاقات کے لیے تیار ہیں۔۲۲
جب بعد میں اُس کی صدراتِ اَوّل سے مُلاقات ہُوئی، تو بُزرگ رابرٹس نے کہا، ”مَیں خُداوند کے حُضُور حاضر ہُوا، اور اُس کے رُوح کے وسِیلے سے نُور اور ہدایت پائی کہ خُدا کے اِختیار کے تابع ہو جاؤں۔“۲۳ خُدا کی محبّت میں سرشار ہو کر، بی ایچ رابرٹس اپنی زِندگی کے آخِر تک وفادار، پُرعزم قائد کی حیثیت سے کلِیسیا میں خِدمت انجام دیتے رہے۔۲۴
ہم اِس مثال میں یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اِتحاد و یگانگت کا مطلب صِرف اِس بات پر مُتفِق ہونا نہیں ہے کہ ہر ایک کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے یا اپنی اپنی مرضی کرنا چاہیے۔ ہم اُس وقت تک ایک نہیں ہو سکتے جب تک مُشترکہ نصب اُلعین کی خاطر اپنی اپنی کاوِشوں میں رَدّوبدل نہیں کرتے۔ اِس کا مطلب، بی ایچ رابرٹس کے اَلفاظ میں، خُدا کے اِختیار کے تابع ہونا ہے۔ ہم مسِیح کے بدن کے مُختلف اعضا ہیں، جو مُختلف اَوقات میں مُختلف فرائض انجام دیتے ہیں—کان، آنکھ، سر، ہاتھ، پاؤں—پھر بھی ایک ہی بدن کے ہیں۔۲۵ پَس، ہمارا نصب اُلعین یہ ہے ”کہ بدن میں تفرِقہ نہ پڑے بلکہ اعضا ایک دُوسرے کی برابر فِکر رکھّیں۔“۲۶
اِتحاد و یگانگت کے لیے یکسانِیّت کی ضرُورت نہیں ہوتی، بلکہ ہم آہنگی اِس کے لیے شرط ہوتی ہے۔ ہم اپنے دِلوں کو محبّت میں پرو سکتے ہیں، اِیمان اور تعلِیم میں ایک ہو سکتے ہیں، اور پھر بھی سیاسی مُعاملات، ایتھلیٹک ٹیموں جِن کی ہم حمایت کرتے ہیں، اپنی اپنی خورونوش کی ترجیحات، اور اِس طرح کی بُہت سی چِیزوں پر الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہم کبھی بھی ایک دُوسرے کے لیے خفگی سے اِختلاف یا جھگڑا نہیں کر سکتے۔ نجات دہندہ نے فرمایا:
”پَس مَیں تُم سے سچّ سچّ کہتا ہُوں، جِس میں فَساد کی رُوح ہے وہ مُجھ سے نہیں، بلکہ اِبلِیس سے ہے، جو فِتنہ و فَساد کا باپ ہے، اور وہ اِنسان کے دِل کو ایک دُوسرے کے خِلاف، غیظ و غصب کے ساتھ، جھگڑا کرنے کے لیے اُبھارتا ہے۔“
”دیکھو، میری تعلِیم یہ نہیں ہے، کہ اِنسان کے دِل کو ایک دُوسرے کے خِلاف، غیظ و غصب کے ساتھ اُبھارے؛ بلکہ میری تعلیم یہ ہے کہ اَیسی باتوں کو ترک کِیا جائے۔“۲۷
ایک سال قبل صدر رسل ایم نیلسن نے ہم سے اِن الفاظ میں التجا کی:”ہم میں سے کوئی بھی قَوموں، یا دُوسروں کے اعمال، یا یہاں تک کہ اپنے خاندان کے اَفراد کو بھی پابند نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم اپنے آپ پر قابو پا سکتے ہیں۔ میرے پیارے بھائیو اور بہنو، آج میری پُکار ہے کہ آپ اِن تنازعات کو ختم کریں جِس سے آپ کے دِل، آپ کے گھر، اور آپ کی زِندگی میں غیض و غضب پایا جاتا ہے۔ دُوسروں کو زِچ پُہنچانے کے ہر اِرادے کو دفن کر دیں—آیا وہ مزاجاً، تُرش زُبان، یا کِسی اَیسے شخص کے سبب سے خفگی ہو جِس نے آپ کو تکلیف دی ہو۔ نجات دہندہ نے ہمیں دُوسرے گال کو پھیرنے کا [دیکھیے ۳ نِیفی ۱۲:۳۹]، اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھنے کا، اور اپنے ستانے والوں کے لِیے دُعا کرنے کا حُکم دِیا تھا [دیکھیے ۳ نِیفی ۱۲:۴۴]۔“۲۸
مَیں ایک بار پھر کہتا ہُوں کہ یہ صِرف یِسُوع مسِیح سے ہماری محبت اور اُس سے ہماری اِنفرادی وفاداری کی بدولت ہی ہے کہ ہم ایک ہونے کی اُمِّید کر سکتے ہیں–باطنی طور پر ایک، گھر میں ایک، کلِیسیا میں ایک، آخِر کار صِیُّون میں ایک، اور سب سے بڑھ کر، باپ اور بیٹے اور رُوحُ القُدس کے ساتھ ایک۔
مَیں مُقدّس ہفتہ کے واقعات اور ہمارے نجات دہندہ کی بالآخِر شاہانہ فتح کی طرف آتا ہُوں۔ یِسُوع مسِیح کا جی اُٹھنا اُس کی اُلُوہِیّت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہر شَے پر غالِب آیا ہے۔ اُس کا جی اُٹھنا گواہی دیتا ہے کہ، اُس کے ساتھ عہد کے تحت رِشتا جوڑنے سے، ہم بھی ہر شَے پر غالِب آتے اور ایک ہوتے ہیں۔ اُس کا جی اُٹھنا گواہی دیتا ہے کہ، اُس کے وسِیلے سے، لازوال اور اَبَدی زِندگی حقِیقت بنتی ہے۔
آج صبح، مَیں اُس کے واقعی جی اُٹھنے کی گواہی دیتا ہُوں اور اُس کے ہمہ گِیر ہونے کی، یِسُوع مسِیح کے نام سے، آمین۔