”بحالی کی صدائیں: جوزف سمِتھ کا خاندان،“ آ، میرے پِیچھے ہو لے—برائے گھر اور کلِیسیا: عقائد اور عہُود ۲۰۲۵ (۲۰۲۵)
”جوزف سمِتھ کا خاندان،“ آ، میرے پِیچھے ہو لے—برائے گھر اور کلِیسیا: ۲۰۲۵
بحالی کی صدائیں
جوزف سمِتھ کا خاندان
ہم میں سے ہر ایک اپنی خاندانی زندگی سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے، اور جوزف سمِتھ اِس سے مختلف نہیں تھا۔ اُس کے والدین کے مذہبی اعتقادات اور اعمال نے ایمان کے ایسے بیج بوئے جس نے بحالی کو ممکن بنایا۔ جوزف کے روزنامچے میں یہ اظہارِ عقیدت درج ہے: ”الفاظ اور زبان [اِس شکرگزاری کا اظہار کرنے کے لیے] ناکافی ہیں کہ میں خُدا کا مقروض ہوں کہ اُس نے مجھے اتنے عزت دار والدین عطا کیے۔“
اُن کی والدہ لُوسی میک سمِتھ، اُس کے بھائی ولیم سمِتھ؛ اور خود نبی کے درج ذیل اقوال ہمیں سمِتھ کے گھر میں مذہبی اثر و رسوخ کی ایک جھلک دیتے ہیں۔
لُوسی میک سمِتھ
”[تقریباً ۱۸۰۲ میں]، میں بیمار ہو گئی۔ … میں نے اپنے آپ سے کہا، میں مرنے کے لیے تیار نہیں ہوں کیونکہ میں مسِیح کی راہوں کو نہیں جانتی، اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے اور مسِیح کے درمیان ایک تاریک اور تنہا کھائی ہے جس کو پار کرنے کی میری ہمت نہیں ہے۔
”میں نے خُداوند کی طرف دیکھا اور منت کی اور خُداوند سے التجا کی کہ وہ میری جان بخش دے تاکہ میں اپنے بچوں کی پرورش کروں اور اپنے شوہر کے دل کو تسلی دوں۔ اس طرح میں ساری رات لیٹی رہی۔ … میں نے خُدا کے ساتھ عہد کیا کہ اگر وہ مجھے زندہ رہنے دے گا تو میں اُس مذہب کو حاصل کرنے کی کوشش کروں گی جو مجھے اس کی صحیح خدمت کرنے کے قابل بنائے گا، چاہے وہ بائبل میں ہو یا جہاں کہیں بھی مل جائے، خواہ وہ آسمان سے دعا اور ایمان سے حاصل کیا جائے۔ آخرکار ایک آواز نے مجھ سے بات کی اور کہا، ’ڈھُونڈو، تو پاؤ گے، دروازہ کھٹکھٹاؤ، تو یہ تُمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ تُمھارا دِل نہ گھبرائے۔ تم خُدا پر ایمان رکھتی ہو؛ مجھ پر بھی اِیمان رکھو۔‘ …
”اُس وقت سے لے کر اب تک میں نے مسلسل طاقت حاصل کی۔ میں نے مذہب کے موضوع پر بہت کم بات کی حالانکہ اِس نے میرے ذہن پر پوری طرح قبضہ کر لیا تھا، اور میں نے سوچا کہ جیسے ہی میں کسی خُدا پرست شخص کو تلاش کرنے کے قابل ہو جاؤں گی جو خُدا کے طریقوں سے واقف ہو کہ مجھے آسمانی چیزوں کی تعلیم دے، تب میں زیادہ جانفشاں بن جاؤں گی۔“
ولیم سمِتھ
میری ماں نے، جو ایک عقیدت مند خاتون تھی اور وہ اپنے بچوں کی نگہداشت میں بہت دلچسپی رکھتی تھی، یہاں اور بعد ازاں بھی، اپنی مادرانہ شفقت کے تجویز کردہ ہر ذریعے کو بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتی تھی تاکہ ہم اپنی جانوں کی نجات کے لئے حق کی تلاش میں مشغول رہیں یا (تب جو اصطلاح استعمال ہوا کرتی تھی) ’دینداری میں مگن رہی۔‘ اُس نے یقینی بنایا کہ ہم عبادتوں میں شرکت کریں، اور تقریباً پورا خاندان اس معاملے میں دلچسپی لینے لگا، اور سچائی کا متلاشی ہوا۔
”مجھے یاد ہے کہ ہم ہمیشہ خاندانی دُعائیں کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والد صاحب اپنی عینک جیب میں رکھتے تھے، … اور جب ہم لڑکے اُنہیں اپنی عینک کو ٹٹولتا دیکھتے تو ہم جان جاتے کہ یہ دُعا کے لیے تیار ہونے کا اشارہ ہے، اور اگر ہم اس پر توجہ نہ دیتے تو ماں کہتی، ’ولیم،‘ یا جو کوئی غافل ہوتا، ’دُعا کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘ دُعا کے بعد ہم ایک گیت گاتے تھے۔“
جوزف سینئر اور لُوسی سمِتھ نے اپنے خاندان کو صحائف کا مطالعہ کرنا سِکھایا۔
جوزف سمِتھ
”اب میں کہتا ہوں، کہ میرے علم کے مطابق [میرے والد] نے کبھی بھی اپنی زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جسے کم ظرف کہا جا سکتا ہے۔ مجھے اپنے والد اور اُن کی یاد سے پیار ہے؛ اور اُن کے اچھے کاموں کی یاد میرے دماغ پر بہت گِراں قدر حیثیت کی حامل ہے؛ اور میرے لیے اُن کے بہت سے مہربان اور پِدَرانَہ اَلفاظ میرے دِل کی تختی پر لکھے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ خیالات بے حد مُقدّس ہیں، جو اُن کی زندگی کی تاریخ کے حوالے سے مجھے بہت عزیز ہیں، جو اکثر میرے ذہن میں رہتے ہیں اور وہاں نقش ہو چکے ہیں، میری پیدائش کے وقت سے میرے اپنے مشاہدے کے ذریعے۔ … میری والدہ بھی سب سے اعلیٰ ظرف اور تمام عورتوں میں سے بہترین ہے۔“