”مُستَعد عِلم حاصل کرنے کی دعوت دیں،“ نجات دہندہ کے طریق پر تعلیم دینا: اُن سب کے لیے جو گھر اور کلِیسیا میں درس دیتے ہیں (2022)
”مُستَعد عِلم حاصل کرنے کی دعوت دیں،“ نجات دہندہ کے طریق پر تعلیم دینا
مُستَعد عِلم حاصل کرنے کی دعوت دیں
نجات دہندہ کو پانی پر چلتے ہُوئے دیکھنا یقیناً حیرت انگیز تھا۔ لیکن پطرس کے لیے اِتنا کافی نہیں تھا۔ وہ وہی کرنا چاہتا تھا جو نجات دہندہ نے کِیا، وہ وہاں جانا چاہتا تھا جہاں مسِیح تھا، اور خُود بھی وہی تجربہ پانا چاہتا تھا۔ ”مُجھے حُکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آؤں،“ اُس نے کہا۔ نجات دہندہ نے سادہ دعوت کے ساتھ جواب دیا: ”آ۔“ اِسی کے ساتھ، پطرس نے محفوظ کشتی سے چھلانگ لگائی اور ہمیں دِکھایا کہ شاگردی کوئی برائے نام تجربہ نہیں ہے (دیکھیے متّی ۱۴:۲۴–۳۳)۔ اِس کے لیے مسِیح پر اِیمان اور مُستَعد جدوجہد کی ضرُورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ نجات دہندہ کے ساتھ چلنے کا بھرپور اجر بھی لاتا ہے۔
”آ۔“ ”چلو دیکھ لو۔“ ”آ، میرے پیِچھے چلے ہولے۔“ ”جا، تُو بھی اَیسا ہی کر“ (متّی ۱۴:۲۹؛ یُوحّنا ۱:۳۹؛ لُوقا ۱۸:۲۲؛ ۱۰:۳۷)۔ اپنی خِدمت کے آغاز سے، نجات دہندہ نے اپنے پیروکاروں کو دعوت دی کہ وہ اپنے لیے اِن سچّائیوں کا، قُدرت کا، اور محبت کا تجربہ کریں جو اُس نے عطا کی ہیں۔ اُس نے ایسا اِس لیے کِیا کیوں کہ سیکھ دراصل یہی ہے۔ یہ صرف سُننا یا پڑھنا نہیں ہے؛ یہ تبدیلی بھی ہے، توبہ بھی ہے، اور ترقی بھی ہے۔ نجات دہندہ کے اَلفاظ میں، سیکھ ”مُطالعہ سے اور اِیمان سے بھی“ اَنجام پاتی ہے (عقائد اور عہُود ۸۸:۱۱۸؛ تاکید اِضافی ہے)۔ اور اِیمان میں اپنے تئیں فعال بننا شامِل ہے، نہ کہ صرف معفول بننا ہے (دیکھیے ۲ نِیفی ۲:۲۶)۔
جب ہم نجات دہندہ کی مثال کی تقلید کرتے ہیں، تو ہم اُنھیں دعوت دیتے ہیں جِنھیں ہم مانگنے، ڈھونڈنے اور کھٹکھٹانے کی تعلیم دیتے ہیں—اور پھر ڈھونڈ لیتے ہیں (دیکھیے متّی ۷:۷–۸)۔ اور ہم خُود اِس دعوت کو قبُول کرتے ہیں۔ باہم، مسِیح پر ہمارے اپنے اِیمان اور ہماری مُستَعد کوشش کے ذریعے سے، ہم خُود جان لیں گے کہ اُس کے ساتھ چلنے کا کیا مطلب ہے۔
نجات دہندہ نے اُن کی اپنی سِیکھ کی ذمہ داری لینے میں دُوسروں کی مدد فرمائی
سَمُندروں کو محفوظ طریقے سے عبور کرنے والی کشتیاں بنانا کسی کے لیے بھی مُشکل کام ہوگا۔ یارد کے بھائی نے ”خُداوند کے ہاتھ کے وسِیلے سے مُسلسل ہدایت پائی تھی“ (عِیتر ۲:۶)، کِشتیوں کی ساخت و بناوٹ کی بابت ہدایات پا کر اور اُنھیں ہَوا دار کیسے رکھا جائے گا۔ لیکن آپ کیا دیکھتے ہیں کہ جب یارد کے بھائی نے کِشتیوں میں روشنی فراہم کرنے کے بارے میں پُوچھا تو خُداوند نے کیا جواب دیا؟ (دیکھیے عِیتر ۲:۲۲–۲۵)۔ یارد کے بھائی کو اِس طریقے سے اپنے اِیمان کو ظاہر کرنے کی دعوت سے کیسے برکت مِلی؟ (دیکھیے عِیتر ۳:۱–۱۶)۔
سیکھنے والوں کو وہ ساری چیزیں بتانا آسان معلوم ہو سکتا ہے جو آپ کے خیال میں اُنھیں جاننا چاہیے۔ لہٰذا، ایلڈر ڈیوڈ اے بیڈنار نے مشورت دی: ”ہمارا اِرادہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ’مَیں اُنھیں کیا بتاؤں؟‘ بلکہ، خُود سے پُوچھنے والے سوالات یہ ہیں کہ ’مَیں اُنھیں کیا انجام دینے کی دعوت دے سکتا ہوں؟ مَیں کون سے اِلہامی سوالات پوچھ سکتا ہوں کہ، اگر وہ جواب دینے کے لیے تیار ہیں، تو وہ رُوحُ القُدس کو اپنی زِندگی میں مدعو کرنا شُروع کر دیں گے؟‘“ (اعلیٰ عُہدے دار کے ساتھ ایک شام، فروری 7، 2020، broadcasts.ChurchofJesusChrist.org)۔
غور کریں کہ آپ کس طرح سیکھنے والوں کو اُن کی سِیکھ کی ذمہ داری لینے کی دعوت دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ اُنھیں اُن کے اپنے سوالات پُوچھنے، جوابات تلاش کرنے، غور کرنے اور اپنے خیالات اور احساسات کا اِظہار کرنے یا رقم کرنے کی دعوت دے سکتے ہیں۔ جب وہ اَیسا کرتے ہیں تو، وہ اپنے اِیمان کو مضبُوط کریں گے، خُدا کے کلام میں سچّائیوں کو دریافت کریں گے، اور اُن سچّائیوں کے حوالے سے اُن کے اپنے تجربات ہوں گے۔ جب ہم اپنی سِیکھ کی خُود ذمہ داری لیتے ہیں تو، ہم کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ جوزف سمتھ نے کہا، ”مَیں نے اپنے لیے سِیکھا ہے“ (جوزف سمتھ—تاریِخ ۱:۲۰)۔
غَور و فکر کے لیے سوالات: سیکھنے والوں کے لیے اپنی سِیکھ کے لیے معفول ہونے کے بجائے فاعل ہونا کیوں ضروری ہے؟ آپ اُن کی سِیکھ کی ذمہ داری لینے میں اُن کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟ مُعلمین نے اَیسا کرنے میں آپ کی کیسے مدد کی ہے؟ آپ صحائف میں سے کن مثالوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جہاں لوگوں کو خُود سِیکھنے کی دعوت دی گئی تھی؟ یہ مثالیں آپ کے اندازِ تدرِیس پر کیسے اَثر انداز ہوتی ہیں؟
صحائف سے ماخُوذ: ۱ نِیفی ۱۱؛ عقائد اور عہُود ۹:۷–۸؛ ۵۸:۲۶–۲۸؛ ۸۸:۱۱۸–۱۲۵؛ جوزف سمتھ—تارِیخ ۱:۱۱–۲۰
نجات دہندہ نے دُوسروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ خُداوند کے کلام کا مُطالعہ کر کے اُس کو جانیں اور پہچانیں
جب آخِری ایّام میں نجات دہندہ کے لیے اپنی کلِیسیا کو باضابطہ طور پر منظم کرنے کا وقت آیا، تو اُس نے اپنے خادِموں کو بتایا، ”اُن باتوں پر بھروسا کر جو لِکھی گئی ہیں“ (عقائد اور عہُود ۱۸:۳)۔ درحقیقت، مورمن کی کتاب، جس کا اُنھوں نے ترجمہ تقریباً مکمل کر لیا تھا، اِس اَمر کے لیے مددگار ہدایات پر مشتمل تھی، بشمول بپتسما دینے کا طریقہ، عِشائے ربانی کی رسم ادا کرنے کا طریقہ، اور دیگر اہم تفصیلات۔ لیکن نجات دہندہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اُس کے خادم اُس کے مُکاشفوں کو اُسے سُننے اور اُسے مزید گہرائی سے جاننے کے موقع کے طور پر دیکھیں۔ اِسی مُکاشفہ میں، اُس نے اُن سے کہا، ”یہ میری آواز ہے جو [یہ باتیں] تُم سے کلام کرتی ہے؛ … پَس، تُم اِس بات کی گواہی دے سکتے ہو کہ تُم نے میری آواز سُنی ہے، اور میرا کلام جانتے ہو“ (عقائد اور عہود ۱۸:۳۵–۳۶)۔
اُن لوگوں کی بابت سوچیں جنھیں آپ سِکھاتے ہیں۔ وہ صحائف کے مُطالعہ کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اِس حوالے سے، آپ اِسے کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ روزانہ کی ذمہ داری سے بڑھ کر ہے؟ جب آپ صحائف کا مُطالعہ کرتے ہیں تو، کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ نجات دہندہ آپ سے براہ راست کلام کر رہا ہے؟ صدر رسل ایم نیلسن نے سِکھایا: ”ہم اُس کو سُننے کے لیے کہاں جا سکتے ہیں؟ ہم صحائف کی طرف رُجُوع کر سکتے ہیں۔ … روحانی بقا کے لیے خُدا کے کلام میں روزانہ ڈُوبنا نہایت ضرُوری ہے خاص طور پر بڑھتی ہوئی اَفراتفری کے اِن دنوں میں اہم ہے۔ جب ہم مسِیح کے کلام پر روزانہ ضیافت مناتے ہیں تو، مسِیح کا کلام ہمیں بتائے گا کہ اُن مُشکلات پر قابو کیسے پائیں جن کا سامنا کرنے کے بارے میں کبھی سوچا نہ تھا“ (”اُس کی سُنو،“ لیحونا، مئی 2020، 89)۔ جب آپ تعلیم دیتے ہیں تو، سیکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ نجات دہندہ کو ڈُھونڈنے کے اِرادہ کے ساتھ صحائف کا مُطالعہ کریں—نہ صرف اُس کی بابت آیات یا حقائق تلاش کریں بلکہ اُس کو تلاش کریں۔ صحائف میں ہر روز خُداوند کی آواز کو سُننا ساری عُمر مُستَعد، خُود مُختار اِنجِیلی سِیکھ کی بُنیاد ہے۔
غَور و فکر کے لیے سوالات: اپنے مُطالعہِ صحائف کی عادتوں پر غَور کریں۔ خُدا کے کلام کا مُطالعہ کیسے اُس کے ساتھ آپ کا رشتہ مضبوط بناتا ہے؟ آپ اپنے مُطالعہ کو بہتر بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ آپ دُوسروں کو خُدا کے کلام کا مُستَعدی اور باقاعدگی سے مُطالعہ کرنے کی ترغیب کیسے دیں گے؟ جب وہ اَیسا کرتے ہیں تو کون کون سی برکات پائیں گے؟
صحائف سے ماخُوذ: یشُوع ۱:۸؛ ۲ تِیمُتھِیُس ۳:۱۵–۱۷؛ ۲ نِیفی ۳۲:۳؛ یعقُوب ۲:۸؛ ۴:۶؛ عقائد اور عہُود ۳۳:۱۶
نجات دہندہ نے دُوسروں کو سِیکھنے کے لیے تیار ہونے کی دعوت دی
عُمدہ و نفِیس بیج بھی سخت، پتھریلی یا کانٹے دار زمین پر نہیں اُگ سکتے۔ اِسی طرح، انتہائی بیش قِیمت اور اِیمان کو فروغ دینے والا عقیدہ بھی کسی دِل کو بدلنے کا اَمکان نہیں رکھتا جب تک اِس کو پانے کے لیے کوئی تیار نہ ہو۔ یہ بِیج بونے والے، بیجوں، اور مُختلف خصُوصِیات کی مٹی کے بارے میں نجات دہندہ کی تمثیل کے پیغام کا حِصّہ ہے۔ یہ ”اچّھی زمِین“ میں ہے—وہ دِل جو رُوحانی پتھروں اور کانٹوں سے نرم اور صاف کِیا گیا ہے—کہ خُدا کا کلام زِندگی بخش پھل لاتا ہے (دیکھیے متّی ۱۳:۱–۹، ۱۸–۲۳)۔
رُوحانی تیاری اہم ہے—آپ کے لیے اور اُن لوگوں کے لیے جنھیں آپ سِکھاتے ہیں۔ تو ہم اپنے دِلوں کو تیار کرنے کے لیے کیسے مدد کرتے ہیں تاکہ وہ خُدا کے کلام کے لیے ”اچّھی زمِین“ بنیں؟ تیاری کے درج ذیل اُصُولوں پر غور کریں، جنھیں آپ اپنی زِندگی میں لاگو کر سکتے ہیں اور اُن لوگوں کی زِندگیوں میں حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں جنھیں آپ سکھاتے ہیں۔ خُداوند سے دُعا مانگیں کہ وہ کیا چاہتا ہے کہ آپ سِیکھیں۔ اِس طریقے سے زِندگی بسر کریں کہ آپ کی زِندگی میں اُس کی موجودگی کو دعوت دی جائے۔ روزانہ تَوبہ کریں۔ مُخلص سوالات پوچھ کر سِیکھنے کی اپنی خواہش کو پروان چڑھائیں۔ خُدا کے کلام کا اِیمان کے ساتھ مُطالعہ کریں کہ وہ آپ کو جوابات کی طرف لے جائے گا۔ ہر اُس بات کے لیے اپنا دِل کھولیں جو وہ آپ کو سکھائے گا۔
جب سیکھنے والوں اِس طرح سیکھنے کی تیاری کرتے ہیں تو دیکھنے کے لیے اُن کے پاس رُوحانی آنکھیں ہوں گی اور سُننے کے لیے کان ہوں گے کہ خُداوند اُن سے کیا چاہتا ہے کہ وہ جانیں (دیکھیے متّی ۱۳:۱۶)۔
غَور و فکر کے لیے سوالات: آپ خُود سِیکھنے کے لیے کس قسم کی تیاری کرتے ہیں؟ آپ کی تیاری خُدا کے کلام کو دیکھنے، سُننے اور سمجھنے کے طریقے پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟ آپ اُن کی یہ سمجھنے میں کیسے مدد کر سکتے ہیں کہ کیا توقع کی جائے؟ آپ دُوسروں کو سِیکھنے کی تیاری کے لیے کیسے ترغیب دے سکتے ہیں؟
صحائف سے ماخُوذ: انوس ۱:۱–۸؛ ایلما ۱۶:۱۶–۱۷؛ ۳۲:۶، ۲۷–۴۳؛ ۳ نِیفی ۱۷:۳
نجات دہندہ نے دُوسروں کو اُن سچائیوں کو بیان کرنے کی ترغیب دی جو وہ سِیکھ رہے تھے
”مَیں فصیح نہیں،“ حنُوک نے نوحہ گِیری کی جب خُداوند نے اِنجِیل کی مُنادی کے لیے اُس کو بُلایا۔ اَلبتہ خُداوند کے بندے کے لیے فصاحت کا تقاضا کبھی نہیں رہا۔ اِس کی بجائے، خُداوند نے حنوک سے وعدہ کِیا کہ اگر وہ اپنا مُنہ کھولنے کے لیے اُس پر توّکل کرتا ہے تو کلام نازِل ہو گا۔ ”مَیں تُجھے فصاحت بخشُوں گا،“ اُس نے فرمایا (مُوسیٰ ۶:۳۱–۳۲)۔ حنوک نے اپنے اِیمان کا اِظہار کیا، اور خُداوند نے واقعتاً اُس کے وسِیلے سے کلام کِیا، اُس کی باتیں اتنی طاقت ور تھیں کہ اُن سے لوگ کانپ اُٹھے تھے (دیکھیں مُوسیٰ ۶:۴۷)۔ درحقیقت، اُن کے سبب سے زمِین کانپ اُٹھی تھی۔ پہاڑ بھاگ اُٹھے، درِیاؤں نے اپنا راستہ بدلا، اور قَوموں نے خُدا کے لوگوں کا خَوف کھایا، ”اَیسا طاقت ور حنُوک کا کلام تھا، اور اَیسی زور آور اُس زبان کی قُدرت تھی جو خُدا نے اُسے عطا کی تھی“ (مُوسیٰ ۷:۱۳)۔
خُداوند چاہتا ہے کہ—نہ صِرف اُس کے نبی—بلکہ ہم سب بھی اُس کا کلام بتانے کی قُدرت پائیں۔ وہ ہم سب کے لیے ایسا چاہتا ہے، بشمول اُن لوگوں کے لیے جنھیں آپ تعلیم دیتے ہیں (دیکھیں عقائد اور عہود ۱:۲۰–۲۱)۔ ہمارے اَلفاظ چاہے پہاڑوں کو نہ ہلا سکیں یا دریاؤں کا راستہ نہ بدل سکیں، اَلبتہ یہ دِلوں کو بدلنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اِسی لیے یہ بہت اہم ہے کہ سیکھنے والوں کو ایک دُوسرے کے ساتھ تبادلہِ خیال کے مواقع فراہم کریں جو وہ نجات دہندہ اور اُس کی اِنجِیل کی بابت سِیکھ رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے اُنھیں اِن سچّائیوں کو باطنی بنانے اور اُن کا اِظہار کرنے میں مدد ملے گی۔ اِس سے اُنھیں دیگر صُورتوں میں سچّائی کا اِظہار کرنے کی صلاحیت پر پُراعتماد ہونے میں بھی مدد ملے گی۔
غَور و فکر کے لیے سوالات: اُس وقت کی بابت سوچیں جب آپ نے کسی کے ساتھ اِنجِیل کی سچائی کے حوالے سے بات کی تھی۔ آپ نے اُس تجربے سے کیا سِیکھا؟ آپ کب شُکرگُزار تھے کہ آپ نے کسی کو اپنے خیالات اور عقائد بتانے کی ہمت پائی؟ جن لوگوں کو آپ تعلیم دیتے ہیں وہ اُن چِیزوں کے بارے میں بات کرنے کے مواقع سے کس طرح فیض یاب ہوں گے جو وہ سِیکھ رہے ہیں؟ آپ اُن کے لیے کون کون سے مواقع پیدا کر سکتے ہیں؟
صحائف سے ماخُوذ: ایلما ۱۷:۲–۳؛ مرونی ۶:۴–۶؛ عقائد اور عہُود ۸۴:۸۵؛ ۸۸:۱۲۲؛ ۱۰۰:۵–۸
نجات دہندہ نے اُن لوگوں کے لیے اپنی محبت کا اِظہار کیا جنھیں وہ تعلیم دیتا تھا
”تمھاری روشنی اِسی طرح آدمِیوں کے سامنے چمکے۔“ ”اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھّو۔“ ”مانگو تو تُم کو دِیا جائے گا۔“ ”تنگ دروازہ سے داخِل ہو۔“ (متّی ۵:۱۶، ۴۴؛ ۷:۷، ۱۳۔) نجات دہندہ کی پُوری زمِینی خِدمت میں کچھ سب سے زیادہ واضح، یادگار دعوتیں اُس وقت عطا کی گئیں جب وہ اپنے شاگردوں کو ایک پہاڑی کے کِنارے تعلیم دے رہا تھا جہاں سے گلیل کا سَمُندر نظر آتا تھا۔ نجات دہندہ کا اِرادہ زِندگیوں کو بدلنا تھا، جیسا کہ اُس کے اختتامی دعوت نامے سے واضح کیا گیا ہے:”پس جو کوئی میری یہ باتیں سُنتا اور اُن پر عمل کرتا ہے، وہ اُس عقل مند آدمی کی مانِند ٹھہرے گا جِس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا“ (متّی ۷:۲۴؛ تاکِید اِضافی ہے)۔
بارشیں برستی ہیں اور سیلاب آتے ہیں اور ہر ایک کی زِندگی میں آندھیاں چلتی ہیں۔ اگر سیکھنے والوں کو اِن تمام آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو اُنھیں درپیش ہوں گی، تو اِنجِیل کی بابت سِیکھنا ہی کافی نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سیکھنے والوں کو اِس بات پر غَور کرنے کی دعوت دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ وہ جو کُچھ سِیکھ رہے ہیں اُس پر عمل پیرا کیسے ہو سکتے ہیں۔ دُوسروں کی رضا کے احترام کی وجہ سے، ہمارے بہت سے دعوت نامے عمُومی ہوں گے: ”آپ کیا سرانجام دینے کے لیے ترغِیب پاتے ہیں؟“ کبھی کبھار ہماری دعوتوں کو زیادہ مخصُوص ہونے کی ضرُورت پڑ سکتی ہے: ”کیا آپ نجات دہندہ کی کسی ایک صفت کا انتخاب کریں گے جس پر آپ کام کرنا چاہتے ہیں؟“ جب آپ سیکھنے والوں کو رُوحُ القُدس کی طرف سے سرگوشیوں کو سُننے، پہچاننے اور بیان کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں، تو وہ اُنھیں سِکھائے گا کہ اُنھیں کون سے ذاتی اقدامات اُٹھانے کی ضرُورت ہے۔ سیکھنے والوں کی اُن نعمتوں پر غَور کرنے میں مدد کریں جو اُن کے سِیکھنے پر عمل کرنے کے بعد حاصل ہوں گی، اور اُن کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ مُشکل آنے پر بھی قائم رہیں۔ سچّائی کے مُطابق زِندگی بسر کرنا زیادہ اِیمان، گواہی اور تبدیلی کا تیز ترین راستہ ہے۔ جب نجات دہندہ نے کہا، باپ کی مرضی پر چلنا ہی وہ راستہ ہے جو ہم سب کو اِس تعلِیم کی سچّائی بتائے گا (دیکھیے یُوحنّا ۷:۱۷)۔
غَور و فکر کے لیے سوالات: کسی کی طرف سے دی گئی دعوت کی وجہ سے آپ کو عمل کرنے کی ترغیب کب ملی؟ اِس کے نتیجے میں آپ کی زِندگی میں تبدیلی کیسے آئی؟ اُن دعوتوں پر غور کریں جو صحائف میں اور کلِیسیا کے راہ نماؤں کی طرف سے دی گئی ہیں۔ جب آپ دُوسروں کو عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں تو آپ کیا سِیکھتے ہیں جو آپ کی مدد کر سکتا ہے؟ کن طریقوں سے آپ اپنی دعوتوں پر عمل کر سکتے ہیں؟
صحائف سے ماخُوذ: لُوقا ۱۰:۳۶–۳۷؛ یُوحنّا ۷:۱۷؛ یعقُوب ۱:۲۲؛ مضایاہ ۴:۹–۱۰؛ عقائد اور عہُود ۴۳:۸–۱۰؛ ۸۲:۱۰