انسٹی ٹیوٹ
5 سب ختم ہو گیا


“سب ختم ہو گیا”، پانچواں باب مقدسین: کلیسیائے یسوع مسیح برائے مقدسینِ ایام آخر کی کہانی، جلد 1، سچائی کا معیار، 1815–1846 (2018)

باب 5: “سب ختم ہو گیا”

باب 5

سب ختم ہو گیا

ترجمہ شدہ صفحات

جوزف کے سونے کے اوراق گھر لانے کے بعد، خزانہ کے متلاشی لوگوں نے کئی ہفتوں تک انہیں چوری کرنے کی کوشش کی۔ نوشتہ محفوظ رکھنے کے لئے، اوراق کو کبھی چولہے کے نیچے چھپانا، کبھی اپنے باپ کی دکان کے فرش کے نیچے، اور کبھی اناج کے ڈھیروں میں رکھتے ہوئے اسے کئی جگہیں تبدیل کرنی پڑیں۔ وہ انکی خفاظت کرنا کبھی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

متجسس پڑوسی اسکے گھر آتے اور نوشتہ کو دیکھنے کی بھیک مانگتے۔ جوزف ہمیشہ انکار کر دیتا، یہاں تک کہ جب کوئی اسے پیسوں کی پیشکش بھی کرتا۔ وہ خداوند کے وعدے پر بھروسہ کرتے ہوئے اوراق کی دیکھ بھال کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، کہ اگر وہ اپنی حسبِ توفیق سب کچھ کرے، تو وہ مخفوظ رہیں گے۔1

یہ رکاوٹیں اکثر اسے اوراق کا معائنہ کرنے اور اُوریم اور تُمیّم کے بارے میں مزید سیکھنے سے روکتی۔ وہ جانتا تھا کہ ترجمان پتھراوراق کے ترجمہ میں مدد کیلئے ہیں، لیکن اس نے ایک قدیم زبان کو پڑھنے کے لئے رویا بین پتھروں کا استعمال پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ کام شروع کرنے کے لئے بے تاب تھا، لیکن اسے یہ واضح نہیں تھا کہ کیسے کرے۔2

جب جوزف نے اوراق کا مطالعہ کیا، تو پالمائیرا میں مارٹن ہیرس نامی ایک معزز زمیندار اسکے کام میں دلچسپی لینے لگا۔ مارٹن جوزف کے باپ کی عمر کا تھا اور کبھی کبھار جوزف کو اپنی زمین پر کام کرنے کے لئے ملازمت بھی دیتا تھا۔ مارٹن نے سونے کے اوراق کے بارے میں سنا تھا لیکن جب تک جوزف کی ماں نے اسے اپنے بیٹے سے ملاقات کی دعوت نہیں دی تھی تب تک اس نے ان کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا تھا ۔3

جب ماٹن گھر آیا تو جوزف باہر کام کیلئے گیا ہوا تھا، تاہم اس نے ایما اور دیگر خاندانی ارکان سے اوراق کے بارے میں سوالات کیے۔ جب جوزف گھر آیا، تو مارٹن نے اسے باذو سے پکڑا اور مزید تفصیلات پوچھیں۔ جوزف نے سونے کے اوراق اور ان پر لکھائی کے ترجمے اور شائع کرنے کے لئے مرونی کی ہدایات کے بارے میں اسے بتایا۔

“اگر یہ شیطان کا کام ہے،” مارٹن نے کہا، “ تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔” لیکن اگر یہ خداوند کا کام تھا، تو وہ اسے دنیا تک پہنچانے میں جوزف کی مدد کرنا چاہتا تھا۔

جوزف نے مارٹن کو ڈبے میں بند اوراق کا بھاری پن محسوس کرنے دیا۔ مارٹن نے ڈبے کے اندر کچھ بھاری مواد محسوس کیا، لیکن اسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ یہ سونے کے اوراق کا ایک سیٹ ہے۔ اس نے جوزف کو بتایا کہ “ تمہارا یقین نہ کرنے کے لئے تمہیں مجھے مجرم نہیں ٹھہرانا چاہیے۔”

جب آدھی رات کے بعد مارٹن گھر گیا، تو اس نے اپنے کمرے میں گھس کر، خدا سے وعدہ کرتے ہوئے یہ دعا کی کہ وہ اپنا سب کچھ دے دیگا اگر وہ جان سکے کہ جوزف الہٰیکام کر رہا تھا۔

جیسے اس نے دعا کی، مارٹن نےایک دبی ہوئی، ہلکی آواز کو اس کی روح سے بات کرتے محسوس کیا۔ وہ تب جان گیا کہ اوراق خدا کی طرف سے تھے — اور وہ جانتا تھا کہ اسے ان کے پیغام کے اشتراک کیلئے جوزف کی مدد کرنی تھی۔4


1827 کے آخر میں، ایما نے جانا کہ وہ حاملہ تھی اور اس نے اپنے والدین کو خط لکھا۔ اسکی اور جوزف کی شادی کو تقریبا ایک سال ہو گیا تھا، اور اسکے ماں باپ اب بھی ناخوش تھے۔ لیکن ہیلز نے نوجوان جوڑے کو ہارمنی میں واپس آنے کی اجازت دیدی تاکہ ایما اپنے خاندان کے قریب اپنی اولاد کو جنم دے سکے۔

اگرچہ اسے اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے دور جانا تھا، پھر بھی جوزف جانے کا مشتاق تھا۔ نیویارک کے لوگ اب بھی اوراق کو چوری کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اور نئی جگہ پر منتقلی اسےسکون اور رازداری فراہم کر سکتی تھی جو اسے خداوند کے کام کیلئے چاہیے تھی۔ بدقسمتی سے، وہ مقروض تھا اور اس اقدام کے لئے اسکے پاس پیسے نہیں تھے۔5

اپنے اخراجات کو منظم کرنے کی امید سے، جوزف اپنے چند قرضوں کو چکانے کے لئے شہر کو گیا۔ جب وہ ایک دکان میں ادائیگی کر رہا تھا، تو مارٹن ہیرس لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے اس تک پہنچا۔ “یہ، سمتھ صاحب، پچاس ڈالر ہیں،” اس نے کہا۔ “جو میں آپ کو خداوند کا کام کرنے کے لئے دیتا ہوں۔”

جوزف پیسے قبول کرتے وقت ہچکچایا اور انہیں واپس کرنے کا وعدہ کیا، لیکن مارٹن نے کہا کہ اسکے بارے میں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ پیسے ایک تحفہ تھے، اور اس نے کمرے میں موجود سب کو بلایا کہ وہ اس بات کے گواہ ٹھہریں کہ اس نے وہ آزادانہ طور پر دیے ہیں۔6

جلد ہی، جوزف نے اپنے قرضے ادا کیے اور اپنی ویگن تیار کر لی۔ پھر وہ اور ایما پھلیوں کے ڈرم میں چھپائے ہوئے سونے کے اوراق کے ساتھ ہارمنی کو روانہ ہو گئے۔7


تقریبا ایک ہفتے کے بعد جوڑا ہیلز کے وسیع گھر میں پہنچ گیا۔8 بہت جلد ہی، ایما کے والد نے سونے کے اوراق دیکھنے کا مطالبہ کیا، لیکن جوزف نے کہا کہ وہ صرف اسے وہ ڈبہ دکھا سکتا ہے جسکے اندر وہ موجود تھے۔ ناراض ہوتے ہوئے، آئزک نے بند ڈبہ اٹھایا اور اس کا وزن محسوس کیا، پھر بھی اس نے شک کیا۔ اس نے کہا کہ جوزف اس ڈبے کو گھر میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اسکے اندر کی چیز اسے نہ دیکھائے۔9

ایما کے والد کیوجہ سے، ترجمہ آسان نہیں تھا، لیکن جوزف نے اسے سر انجام دینے کی اپنی پوری کوشش کی۔ ایما کی مدد سے، اس نے اوراق کے بہت سے عجیب حروف کی نقل ایک کاغذ پر لکھ لی۔10 پھر، کئی ہفتوں تک، اس نے اُوریم اور تُمیّم کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔ اس عمل میں اسے ترجمان پتھروں میں دیکھنے کے علاوہ کئی اور کام کرنے کی بھی ضرورت تھی۔ اسے حلیم ہونے اور ان حروف کا مطالعہ کرتے وقت اپنے ایمان کی مشق کرنے کی ضرورت تھی۔11

چند ماہ بعد، مارٹن ہارمنی میں آ گیا۔ اس نے کہا کہ خداوند کی طرف سے اس نے بلاوا محسوس کیا کہ قدیم زبانوں کے ماہرین سے مشورہ کرنے کے لۓ نیویارک شہر تک سفر کرے۔ اسے امید تھی کہ وہ حروف کا ترجمہ کرسکتے ہیں۔12

جوزف نے اوراق میں سے کئی اور حروف لکھے، اپنا ترجمہ تحریر کیا اور وہ صفحہ مارٹن کو دے دیا۔ تب اس نے اور ایما نے اپنے دوست کو مشرق کیطرف رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تاکہ ممتاز علماء کا مشورہ لیا جا سکے۔13


جب مارٹن نیویارک شہر میں پہنچا، تو وہ چارلس اینتھن کو ملنے گیا، جو کہ کولمبیا کالج میں لاطینی اور یونانی زبانوں کا پروفیسر تھا۔ پروفیسر اینتھن ایک جوان شخص تھا — مارٹن سے تقریبا 15 سال چھوٹا — اور یونانی اور رومی ثقافت پر ایک مقبول قاموس شائع کرنے کیوجہ سے مقبول تھا۔ اس نے امریکی قبائلی لوگوں کے بارے میں کہانیوں کو بھی جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔14

اینتھن ایک سخت عالم تھا جو اپنے کام میں رکاوٹ کو نا پسند کرتا تھا، لیکن اس نے مارٹن کا خیرمقدم کیا اور ان حروف اور ترجمہ کا مطالعہ کیا جو جوزف نے بھیجے تھے۔15 اگرچہ پروفیسر مصری زبان نہیں جانتا تھا، مگر اس نے اس زبان پر چند مطالعات کو پڑھا ہوا تھا اور جانتا تھا کہ وہ کس طرح کی لگتی ہے۔ حروف کو دیکھتے ہوئے، اس نے مصری زبان کے ساتھ کچھ مشابہت دیکھی اور مارٹن کو بتایا کہ ترجمہ درست تھا۔

مارٹن نے اسے مزید حروف دکھائے، اور اینتھن نے ان کی جانچ کی۔ اس نے کہا کہ اِن میں بہت سی قدیم زبانوں سے حروف موجود تھے اور مارٹن کو اُنکی صداقت کی تصدیق کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ اس نے یہ بھی تجویز دی کہ وہ حروف سموئیل مچل نامی ایک اور عالم کو دکھائے جایئں، جو کولمبیا میں پڑھایا کرتا تھا۔16

“وہ ان قدیم زبانوں میں بہت ماہر ہے،” اینتھن نے کہا، “اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ کو ایک اطمینان بخش جواب دیگا۔”17

مارٹن نے سرٹیفکیٹ اپنی جیب میں ڈالا، لیکن جیسے ہی وہ جانے لگا، تو اینتھن نے اسے واپس بلا لیا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ جوزف کو وہ سونے کے اوراق کیسے ملے۔

“خدا کے ایک فرشتہ نے،” مارٹن نے کہا، “ان کو اس پر ظاہر کیا۔” اس نے گواہی دی کہ اوراق کا ترجمہ دنیا میں تبدیلی لائے گا اور اسے تباہی سے بچائے گا۔ اور اب جبکہ اسکے پاس اُن کی صداقت کا ثبوت موجود تھا، تو اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنا فارم بیچ کر اسکا سارہ پیسہ ترجمہ کے شائع کرنے میں خرچ کرے۔

اینتھن نے کہا کہ “مجھے ذرا یہ سرٹیفکیٹ دیکھانا۔”

مارٹن نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسے سرٹیفکیٹ دے دیا۔ اینتھن نے اسے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہا کہ فرشتوں کی خدمت جیسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر جوزف اوراق کا ترجمہ کرانا چاہتا ہے تو، وہ انہیں کولمبیا میں لائے اور ایک عالم سے ان کا ترجمہ کروائے۔

مارٹن نے وضاحت کی کہ اوراق کے ایک حصے پر مہر لگی ہوئی تھی اور یہ کہ جوزف کو انہیں کسی کو دیکھانے کی اجازت نہیں تھی۔

“میں سربمہر کتاب نہیں پڑھ سکتا،” اینتھن نے کہا۔ اس نے مارٹن کو خبردار کیا کہ شاید جوزف دھوکہ دے رہا تھا۔ “دغا بازوں سے خبردار رہو،” اس نے کہا۔18

مارٹن پروفیسر اینتھن کو چھوڑ کر سموئیل مچل سے ملاقات کیلئے نکلا۔ وہ مارٹن کیساتھ نرمی سے پیش آیا، اس کی کہانی سنی، اور حروف اور ترجمہ کو دیکھا۔ وہ ان کے بارے میں کوئی اندازہ نہ لگا سکا، لیکن اس نے کہا کہ ان حروف نے اسے مصری علاقائی زبان کی یاد دلائی اور یہ ایک مَعدُوم قوم کی تحریریں تھی۔19

مارٹن ایک مختصر وقت کے بعد شہر سے نکلا اور اب اس حتمی یقین کیساتھ کہ جوزف کے پاس قدیم سونے کے اوراق اور ان کا ترجمہ کرنے کی طاقت ہے، وہ ہارمنی کو واپس لوٹ گیا۔ اس نے جوزف کو پروفیسروں کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ اگر امریکہ میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ آدمی کتاب کا ترجمہ نہیں کر سکتے تو، جوزف کو اُسکا ترجمہ کرنا پڑیگا۔

“میں نہیں کر سکتا،” اس کام سے مغلوب ہو کر، جوزف نے کہا، “ کیونکہ میں پڑھالکھا نہیں ہوں۔” لیکن وہ جانتا تھا کہ خداوند نے ترجمان پتھروں کو اسلئے تیار کیا تھا تاکہ وہ اوراق کا ترجمہ کرسکے۔20

مارٹن اس بات پہ متفق تھا۔ اس نے پالمائیرا واپس جانے کا منصوبہ بنایا، تاکہ اپنے کاروبار کو ترتیب دے سکے، اور جوزف کے کاتب کے طور پر کام کرنے کے لئے جلد از جلد واپس لوٹ سکے۔21


اپریل 1828 میں، ایما اور جوزف سسکوئینا دریا کے قریب ایک گھر میں رہ رہے تھے، جو ایما کے والدین کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔22 اب اپنے حمل کے ساتھ ساتھ، نوشتہ کے ترجمہ کے آغاز کے بعد، ایما اکثر جوزف کے کاتب کے طور پر کام کرتی تھی۔ ایک دن، ترجمہ کرتے وقت، جوزف کا رنگ اچانک زرد ہو گیا۔ “ایما، کیا یروشلم کے ارد گرد دیوار ہے؟” اس نے پوچھا۔

بائبل میں یروشلم کے بارے میں دی گئی تفصیلات کو یاد کرتے ہوئے اس نے کہا “ہاں۔”

“اوہ،” جوزف نے پُراعتماد ہو کر کہا، “مجھے ڈر تھا کہ مجھے دھوکہ ہوا ہے۔”23

ایما کو حیرت ہوئی کہ تاریخ اور صحائف کے بارے میں اسکے شوہر کی کم علمی ترجمہ میں رکاوٹ کا باعث نہیں بنی۔ جوزف محض ایک خط بھی نہیں لکھ سکتا تھا۔ پھر بھی گھنٹوں وہ اسکے قریب بیٹھی رہتی اور کسی بھی کتاب یا مسوداہ کی مدد کے بغیر وہ نوشتہ لکھواتا رہتا۔ وہ جانتی تھی کہ صرف خدا ہی اسے اسطرح ترجمہ کرنے کا الہام دے سکتا ہے۔24

اس دوران، مارٹن پالمائیراسے واپس آیا اور کاتب کے طور پر کام شروع کر دیا، تاکہ بچے کی آمد سے قبل ایما کو آرام کرنے کا موقع ملے۔25 لیکن آرام آسانی سے حاصل نہ ہوا۔ مارٹن کی بیوی، لوسی، نے اسکے ساتھ ہارمنی آنے پر اصرار کیا تھا، اور دونوں ہیرسیز بڑی مضبوط شخصیات کے مالک تھے۔26 لوسی کو مالی طور پر جوزف کی مدد کرنے کے لئے مارٹن کی خواہش پہ شک تھا اور ناراض تھی کہ وہ اس کے بغیر نیویارک شہر کیوں گیا۔ جب اس نے اسے کہا کہ وہ ترجمہ میں مدد کرنے کے لئے ہارمنی جا رہا ہے، تو اواق کو دیکھنے کے ارادہ سے، اس نے اپنے آپکو خود اسکے ساتھ ہارمنی جانے کیلئے مدعو کر لیا۔

لوسی اپنی سننے کی سماعت کھو رہی تھی، اور جب وہ سمجھ نہ سکتی کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، تو وہ بعض اوقات سوچتی کہ شاید وہ اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ اسے کسی دوسرے کی رازداری کا بھی کوئی احساس نہیں تھا۔ جب جوزف نے اسے اوراق دکھانے سے انکار کر دیا، تو اس نے خاندان کے ڈبوں، الماریوں اور صندوقوں کو ٹٹولتے ہوئے گھر کی ناجائز تلاشی شروع کردی۔ جوزف کے پاس اوراق کو جنگل میں چھپانے کے علاوہ اور کوئی حل نہیں تھا۔27

لوسی نے جلد ہی گھر چھوڑ دیا اور پڑوسی کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ ایما کو اسکے ڈبے اور الماریاں واپس مل گئیں، لیکن اب لوسی نے پڑوسیوں کو یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ جوزف مارٹن کے پیسے حاصل کرنے کے چکر میں ہے۔ ہفتوں مصیبت کی وجہ بننے کے بعد، لوسی واپس پالمائیرا میں اپنے گھر کو لوٹ گئی۔

امن کی بحالی کی بدولت، جوزف اور مارٹن نے تیزی سے ترجمہ کیا۔ جوزف ایک رویا بین اور مکاشفہ بین کے طور پر اپنے الہٰیکردار میں بڑھ رہا تھا۔ چاہے اوراق میز پر اس کے سامنے ہوتے یا ایما کے سوتی کپڑے میں لپٹے، وہ ترجمان پتھروں یا دوسرے رویا بین پتھر میں دیکھتے ہوئے انکا ترجمہ کر پاتا تھا۔28

اپریل، مئی، اور جون کے آغاز میں، ایما نے جوزف کو ترنم سے نوشتہ لکھواتے سنا۔29 وہ آہستہ مگر واضح بولتا، بعض اوقات ٹھہرتے ہوئے جب تک مارٹن جوزف کی کہی بات کو تحریر کر کے کہہ نہ دیتا کہ “لکھ لیا”۔30 ایما کی کاتب کے طور پر بھی باری آتی اور وہ حیران ہوتی تھی کہ رکاوٹوں اور وقفوں کے بعد کس طرح، کسی بھی تحریک کے بغیر جوزف ہمیشہ وہاں سے ہی کام جاری رکھتا جہاں سے اسکا سلسلہ ٹوٹتا تھا۔31

جلد ہی ایما کے بچے کی پیدائش کا وقت آ گیا۔ مسوداہ کے صفحات کا ڈھیر موٹا ہو گیا تھا، اور مارٹن کو اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کو ترجمہ پڑھائے تو، وہ اس کی قیمت جان پائے گی اور ان کے کام میں مداخلت کرنا ختم کر دیگی۔32 اسے یہ بھی امید تھی کہ لوسی اس بات سے خوش ہو گی کہ کسطرح اس نے اپنے وقت اور پیسےسے خدا کے کلام کو پھیلانے میں مدد کی تھی۔

ایک دن، مارٹن نے چند ہفتوں کے لئے مسوداہ کو پالمائیرا لے جانے کیلئے جوزف سے اجازت مانگی۔33 لوسی ہیرس کے رویے کو یاد کرتے ہوئے کہ جب وہ انکے گھر آئی تھی، جوزف اس تجویز سے خوفزدہ ہو گیا۔ پھر بھی وہ مارٹن کو خوش کرنا چاہتا تھا، جس نے اسکا یقین تب کیا جب بہت سے دوسروں نے اسکے کلام پہ شک کیا تھا۔34

بے یقینی کا شکار کہ کیا کرنا چاہیے، جوزف نے ہدایت کے لئے دعا کی، اور خداوند نے اسے بتایا کہ مارٹن کو وہ صفحات نہ لے جانے دو۔35 لیکن مارٹن کو اس بات کا یقین تھا کہ اسکی بیوی کو دکھانے سے چیزیں تبدیل ہو جائیگی، اور اس نے جوزف سے التجا کی کہ وہ پھر سے پوچھے۔ جوزف نے ویسا ہی کیا، لیکن جواب پھر وہی تھا۔ پھر بھی، مارٹن نے اسے زور دیا کہ تیسری دفعہ پھر پوچھے، اور اس وقت خدا نے انکی خوشی کے موافق انکو ایسا کرنے کی اجازت دیدی۔

جوزف نے مارٹن کو بتایا کہ وہ دو ہفتوں کیلئے صفحات کو لیجا سکتا ہے اگر وہ ان کو محفوظ طریقے سے بند رکھنے اور انہیں صرف چند خاندان کے ممبروں کو دکھانے کا وعدہ کرے۔ مارٹن نے وعدہ کیا اور مسودہ کو ہاتھ میں لیے، پالمائیرا واپس لوٹا۔36

مارٹن کے جانے کے بعد، مرونی جوزف پہ ظاہر ہوا اور اس سے ترجمان پتھر واپس لے گیا۔37


مارٹن کی روانگی کے ایک دن بعد، ایما نے حمل کی اذیت ناک تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے ایک لڑکے کو جنم دیا۔ بچہ کمزور اور بیمار تھا اور طویل عرصہ تک زندہ نہ رہ سکا۔ اس کٹھن گھڑی نے ایما کو جسمانی طور پر نچوڑ دیا اور جذباتی طور پر تباہ کر دیا، اور ایک وقت تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بھی مر جائیگی۔ جوزف مستقل اسکی خدمت کرتا رہتا، اور اسکو زیادہ دیر تک کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا تھا۔38

دو ہفتوں کے بعد، ایما کی صحت بہتر ہونا شروع ہو گئی، اور اس کے خیالات مارٹن اور مسوداہ کیطرف راغب ہوئے۔ “میں بہت بے چینی محسوس کر رہی ہوں” اس نے جوزف کو بتایا، “ کہ میں آرام نہیں کر سکتی اور سکون نہیں پا سکتی جب تک میں یہ نہ جان لوں کہ ہیرس صاحب اس مسوداہ کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔”

اس نے جوزف کو زور دیا کہ وہ مارٹن کا پتہ لگائے، لیکن جوزف اسے اکیلا چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ “میری ماں کو بلوا دو” اس نے کہا، “اور تمہارے واپس آنے تک وہ میرے ساتھ رہے گی۔”39

جوزف نے شمال کو جانے والی کوچ (جس کو گھوڑے کھینچتے تھے) میں اپنا سفر شروع کیا۔ اس بات سے خوفزدہ کہ خداوند کی بات نہ مانتے ہوئے مارٹن کو مسوداہ دے کر شاید اس نے خداوند کو ناراض کیا ہے، اس نے سفر کے دوران بہت کم کھانا کھایا اور بہت کم سویا۔40

سورج طلوع ہو رہا تھا جب وہ مانچسٹر میں اپنے والدین کے گھر پہنچا۔ سمتھ خاندان ناشتہ کی تیاری کر رہا تھا اور انہوں نے مارٹن کو اس میں شمولیت کی دعوت بھیجی۔ آٹھ بجے تک، کھانا میز پر رکھا جا چکا تھا لیکن مارٹن اب تک نہیں آیا تھا۔ جوزف اور اسکے خاندان کو اسکا انتظار کرتے وقت بے چینی شروع ہو گئی۔

آخر کار، چار گھنٹے سے زائد گزر نےکے بعد، مارٹن دور سے، گھر کی طرف آہستہ چلتے ہوئے، آنکھیں زمین کیطرف جھکائے ہوئے نظر آیا۔41 دروازے پر وہ رک گیا، باڑ پر بیٹھا، اور اپنی ٹوپی کو نیچے کرتے ہوئے اپنی آنکھوں پر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ اندر آیا اور کھانا کھانے کیلئے خاموشی سے بیٹھا۔

خاندان نے دیکھا کہ مارٹن نے اپنا چمچ اور چھری کھانا کھانے کے لئے اٹھائے، اور انہیں پھر گرا دیا۔ اپنے ہاتھوں کو اپنی بغلوں میں دباتے ہوئے وہ چلایا، “میں نے اپنی جان گنوا دی ہے!” “میں نے اپنی جان گنوا دی ہے۔”

جوزف چھلانگ لگاتے ہوئے کھڑا ہوا۔ “مارٹن، کیا تم نے وہ مسوداہ کھو دیا ہے؟”

“ہاں،” مارٹن نے کہا۔ “وہ کھو گیا ہے، اور میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔”

“اوہ، میرے خدایا، میرے خدایا،” جوزف نے اپنی مُٹھیوں کو بند کرتے ہوئے آہیں بھری۔ “سب ختم ہو گیا!”

اس نے فرش پر لمبے لمبے قدم اٹھانا شروع کردیے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا چاہیے۔ “واپس جاؤ،” اس نے مارٹن کو حکم دیا۔ “دوبارہ تلاش کرو۔”

“دوبارہ تلاش کرنا بیکار ہے،” مارٹن چلایا۔ “میں نے گھر میں ہر جگہ دیکھا ہے۔ میں نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ وہاں نہیں ہیں، پھر بھی تمام بستروں اور تکیوں کو بھی چیڑ پھاڑ ڈالا۔”

“کیا مجھے اس کی کہانی کے ساتھ اپنی بیوی کے پاس واپس جانا چاہیے؟” جوزف کو خوف تھا کہ یہ خبر اسے مار ڈالے گی۔ “اور میں خداوند کے سامنے کیسے حاضر ہوں؟”

اس کی ماں نے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی۔ اس نے کہا کہ اگر وہ حلیمی سے توبہ کرے تو شاید خداوند اسے معاف کر دیں۔ لیکن جوزف اب آبدیدہ ہو گیا تھا، کیونکہ اسکو خود پر غصہ تھا کہ اس نے پہلی دفعہ میں ہی خدا کی بات کیوں نہ مانی۔ اس نے باقی دن کے دوران کچھ بھی ٹھیک سے نہ کھایا۔ وہ رات وہاں ہی ٹھہرا رہا اور اگلی صبح ہارمنی کے لۓ روانہ ہو گیا۔42

اسے جاتے دیکھ کر، لوسی کا دل بھاری ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک خاندان کے طور پر انکی تمام امید — وہ تمام چیزیں جن سے انہیں گزشتہ چند سالوں سے خوشی ملی تھی — ایک لمحے میں غائب ہو گئی تھیں۔43

حوالہ جات

  1. Joseph Smith—History 1:59; Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 8, in JSP, H1:236–38 (draft 2); Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [1]–[2]; Knight, Reminiscences, 3.

  2. Knight, Reminiscences, 3–4; Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [1]–[3]; Joseph Smith History, circa Summer 1832, 1, in JSP, H1:11.

  3. “Mormonism—No. II,” Tiffany’s Monthly, اگست 1859, 167–68; Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [3]–[4]; Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 8, in JSP, H1:238 (draft 2). عنوان: Witnesses of the Book of Mormon

  4. ”Mormonism—No. II,“ Tiffany’s Monthly, اگست 1859, 168–70.

  5. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 8–9, in JSP, H1:238 (draft 2); Knight, Reminiscences, 3; ”Mormonism—No. II,“ Tiffany’s Monthly, اگست 1859, 170.

  6. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [6]; Lucy Mack Smith, History, 1845, 121.

  7. “Mormonism—No. II,” Tiffany’s Monthly, اگست 1859, 170.

  8. “Mormonism—No. II,” Tiffany’s Monthly, اگست 1859, 170; Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:240 (draft 2).

  9. Isaac Hale, Affidavit, مارچ 20, 1834, in ”Mormonism,“ Susquehanna Register, and Northern Pennsylvanian, May 1, 1834, [1].

  10. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:240 (draft 2); Knight, Reminiscences, 3.

  11. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [3]; Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:240 (draft 2); ”Letter from Elder W. H. Kelley,“ Saints’ Herald, مارچ 1, 1882, 68; see also Doctrine and Covenants 9:7–8 (Revelation, Apr. 1829–D, at josephsmithpapers.org).

  12. Joseph Smith History, circa Summer 1832, 5, in JSP, H1:15; Knight, Reminiscences, 3. Topic: Book of Mormon Translation

  13. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:238–40 (draft 2); Joseph Smith History, circa Summer 1832, 5, in JSP, H1:15.

  14. MacKay, ”Git Them Translated,“ 98–100.

  15. Bennett, ”Read This I Pray Thee,“ 192.

  16. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:240 (draft 2); Bennett, Journal, اگست 8, 1831, in Arrington, ”James Gordon Bennett’s 1831 Report on ‘The Mormonites,’“ 355.

  17. [James Gordon Bennett], ”Mormon Religion—Clerical Ambition—Western New York—the Mormonites Gone to Ohio,“ Morning Courier and New-York Enquirer, ستمبر 1, 1831, [2].

  18. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:240–42 (draft 2); Jennings, ”Charles Anthon,“ 171–87; Bennett, ”Read This I Pray Thee,“ 178–216.

  19. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:244 (draft 2); Bennett, Journal, اگست 8, 1831, in Arrington, ”James Gordon Bennett’s 1831 Report on ‘The Mormonites,’“ 355; Knight, Reminiscences, 4. Topic: Martin Harris’s Consultations with Scholars

  20. Joseph Smith History, circa Summer 1832, 5, in JSP, H1:15; یعسیاہ 29 :11–12; 2 نیفی 27 :15–19.

  21. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [8]; Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:244; Joseph Smith III, ”Last Testimony of Sister Emma,“ Saints’ Herald, اکتوبر 1, 1879, 289–90.

  22. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:244 (draft 2); Isaac Hale, Affidavit, Mar. 20, 1834, in ”Mormonism,“ Susquehanna Register, and Northern Pennsylvanian, مئی 1, 1834, [1]; Agreement with Isaac Hale, اپریل 6, 1829, in JSP, D1:28–34.

  23. Briggs, ”A Visit to Nauvoo in 1856,“ 454; see also Edmund C. Briggs to Joseph Smith, جون 4, 1884, Saints’ Herald, جون 21, 1884, 396.

  24. Joseph Smith III, ”Last Testimony of Sister Emma,“ Saints’ Herald, اکتوبر 1, 1879, 289–90; Briggs, ”A Visit to Nauvoo in 1856,“ 454.

  25. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:244 (draft 2); Isaac Hale, Affidavit, Mar. 20, 1834, in ”Mormonism,“ Susquehanna Register, and Northern Pennsylvanian, مئی 1, 1834, [1].

  26. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [8].

  27. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [3]–[5], [8]–[9].

  28. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [9]–[10]; Joseph Smith III, ”Last Testimony of Sister Emma,“ Saints’ Herald, اکتوبر 1, 1879, 289–90.

  29. ایک یادگار تحریر میں، ایما سمتھ نے کہا کہ اس نے جوزف اور اولیور کاؤڈری کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں کام کیا جب 1829 میں انہوں نے ترجمہ مکمل کیا، اور وہ 1828 میں جوزف اور مارٹن کے ترجمہ کرتے وقت بھی وہاں موجود ہوتی تھی۔ (Joseph Smith III, ”Last Testimony of Sister Emma,“ Saints’ Herald, اکتوبر  1879, 290, ”A Visit to Nauvoo in 1856.)

  30. William Pilkington, Affidavit, Cache County, UT, Apr. 3, 1934, in William Pilkington, Autobiography and Statements, Church History Library; ”One of the Three Witnesses,“ Deseret News, دسمبر 28, 1881, 10.

  31. Briggs, ”A Visit to Nauvoo in 1856,“ 454; Joseph Smith III, ”Last Testimony of Sister Emma,“ Saints’ Herald, اکتوبر 1, 1879, 289–90.

  32. دیکھیں Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [10]; Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:244; Joseph Smith History, circa Summer 1832, 5, in JSP, H1:15; Knight, Reminiscences, 5; and Historical Introduction to Preface to the Book of Mormon, circa Aug. 1829, in JSP, D1:92–93.

  33. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9, in JSP, H1:244 (draft 2); Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [10].

  34. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 6, [10]–[11]; book 7, [1].

  35. Joseph Smith History, circa Summer 1832, 5, in JSP, H1:15.

  36. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9–10, in JSP, H1:244–46 (draft 2); Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 7, [1]; Knight, Reminiscences, 5.

  37. Joseph Smith History, 1838–56, volume A-1, 9–10, in JSP, H1:244–46 (draft 2).

  38. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 7, [1]–[2]. عنوان: Joseph and Emma Hale Smith Family

  39. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 7, [1]–[2].

  40. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 7, [2]–[4].

  41. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 7, [5].

  42. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 7, [5]–[7]. عنوان: Lost Manuscript of the Book of Mormon

  43. Lucy Mack Smith, History, 1844–45, book 7, [7]. عنوان: Lucy Mack Smith