لیحونا
اپنی جان کو کثرتِ دُعا سے آسُودہ کریں
اپریل ۲۰۲۴


”اپنی جان کو کثرتِ دُعا سے آسُودہ کریں،“ لیحونا، اپریل ۲۰۲۴

ماہانہ لیحونا پیغام، اپریل ۲۰۲۴

اپنی جان کو کثرتِ دُعا سے آسُودہ کریں

ہمیں اپنے آسمانی باپ کے ساتھ بات چیت کرنے کی رُوحانی نشوونُما دَرکار ہے، اَیسی برکت جو ہر جگہ اور ہمیشہ ہمارے واسطے دستیاب ہے۔

انُوس دُعا کرتے ہُوئے

انُوس کی تصویر کشی کرنے والے اداکار کی تصویر اَز میٹ رائر

ہم سب نے پہلے بُھوک محسُوس کی تھی۔ بُھوک کی اذیت جسم کا ہمیں یہ بتانے کا طریقہ ہے کہ اِسے غذائیت کی ضرُورت ہے۔ اور جب ہم بُھوکے ہوتے ہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنے کی ضرُورت ہوتی ہے—کھانے کی۔

ہماری اَرواح کے پاس ہمیں یہ بتانے کے طریقے بھی ہیں کہ ہمیں کب رُوحانی غذا دَرکار ہوتی ہے۔ مگر یُوں معلُوم ہوتا ہے کہ جسمانی بُھوک سے زیادہ رُوحانی بُھوک کو نظر انداز کرنا ہمارے واسطے آسان ہے۔

جس طرح کھانے کی بُہت سی اِقسام ہیں جب ہم بُھوکے ہوں تو کھا سکتے ہیں، اِسی طرح ہم اپنی رُوحانی بُھوک کو مِٹانے کے لیے مُختلف چیزیں کر سکتے ہیں۔ مِثال کے طور، ہم نبیوں اور صحائف کے وسیلے ”مسِیح کے کلام پر ضیافت منا“ سکتے ہیں (۲ نیفی ۳۲‏:۳)۔ ہم باقاعدگی سے گِرجا گھر جا سکتے ہیں اور عِشائے ربّانی میں شریک ہو سکتے ہیں (دیکھیں عقائد اور عہُود ۵۹‏:۹)۔ ہم خُدا اور اُس کے بچّوں کی خِدمت کر سکتے ہیں (دیکھیں مُضایاہ ۲‏:۱۷

مگر ہماری زِندگی کے ہر لمحے میں، ہمارے حالات سے قطعِ نظر، ہم سب کے واسطے رُوحانی نشوونُما کا ایک اور ذریعہ مُیسر ہے۔ ہم ہمیشہ دُعا کے ذریعے آسمانی باپ کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔

”میری جان کو بُھوک لگی“

جب انوس نبی جنگل میں جانوروں کا شکار کر رہا تھا، تو اُس نے ”وہ باتیں جو [اُس] نے اَکثر [اپنے] باپ کو اَبَدی زِندگی، اور مُقدّسین کی خُوشی کی بابت کہتے سُنیں تھیں“ کے مُتعلق سوچا۔ وہ باتیں ”[اُس] کے دِل میں گہرائی تک اُتر گئیں“ (انوس ۱‏:۳

چُوں کہ انوس اِس رُوحانی حالت میں تھا، اُس نے اَشد ضرُورت محسُوس کی: ”میری جان کو بُھوک لگی،“ اُس نے کہا (انوس ۱:‏۴؛ تاکید شامِل ہے)۔

انوس نے کیا کِیا جب اُس نے رُوحانی بُھوک محسُوس کی، اِس کے لیے اُسے رُوحانی غذا کی ضرُورت تھی؟ ”مَیں نے اپنے خالق کے حُضُور گُھٹنے ٹیکے،“ اُس نے کہا، ”اور اپنی جان کی خاطِر فریاد اور دِل سوز دُعا میں اُس کے سامنے گِڑگڑایا“ (انوس ۱‏:۴

انوس کی رُوحانی بُھوک اتنی شدید تھی کہ اُس نے ”سارا دن دُعا کی … اور جب رات اُتری تو [وہ] پھر بھی [اپنی] بُلند آواز سے چیختا چِلاتا رہا کہ یہ اَفلاک تک جا پُہنچی“ (انوس ۱‏:۴)۔ آخِرکار، خُدا نے اُس کی دُعا کا جواب دِیا اور اُس کے گُناہ مُعاف فرمائے۔ انوس کا احساسِ گُناہ پُوری طرح سے مِٹ گیا۔ اَلبتہ اُس کی رُوحانی پرورش وہیں ختم نہ ہُوئی۔

اُس نے یِسُوع مِسیح پر اِیمان کی قُدرت کی بابت سیکھا، اور اُس نے اپنی اُمّت—حتیٰ کہ اپنے دُشمنوں کی خاطِر بھی اپنی ساری جان اُنڈیل دی۔ اُس نے خُداوند کے ساتھ عہُود باندھے اور اُس کے وعدوں کو محفُوظ کِیا۔ اور انوس کی دِل سوز دُعا کے بعد، وہ اپنے لوگوں کے درمیان گیا اور اُن چیزوں کی نبُوت اور گواہی دی جو اُس نے سُنی اور دیکھی تھیں۔ (دیکھیں انوس ۱‏:۵–۱۹۔)

ہر دُعا کا جواب اِس قدر ڈرامائی اَنداز میں نہیں دِیا جائے گا، مگر دُعا کے ساتھ ہمارے تجربات اَب بھی بامقصد اور زِندگی بدل سکتے ہیں۔ ہم دُعا کے ساتھ انوس کے تجربے سے چند اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ مِثال کے طور پر:

  • اِنجِیل پر مُکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی ہماری کاوِش ہمیں رُوحانی بُھوک کو محسُوس کرنے میں مُعاون ہو سکتی ہے۔

  • ہماری رُوحانی بُھوک ہمیں آسمانی باپ کی مدد کے طالِب ہونے کی غرض سے اپنے گُھٹنوں پر لے جا سکتی ہے اور اِسے لے جانا بھی چاہیے۔

  • آسمانی باپ سے دُعا کرنا—اور پھر کُچھ اور ہماری رُوحانی بُھوک کو مِٹانے میں مدد کر سکتا ہے۔

  • ہم کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت دُعا کر سکتے ہیں۔

  • دُعا ہماری توبہ کرنے میں مُعاونت کر سکتی ہے۔

  • دُعا یِسُوع مسِیح پر ہمارے اِیمان کو تقویت دے سکتی ہے۔

  • ہم شخصی گواہی پا سکتے ہیں کہ ہمارا آسمانی باپ ہماری سُنتا اور ہم سے آشنا ہے۔

  • دُعا کے ذریعے جو گواہی اور قُوت ہم پاتے ہیں وہ دُوسروں کی خِدمت اور اُنھیں مضبُوط کرنے میں ہماری مددگار ہو سکتی ہے۔

ایلڈر سوارز لڑکپن میں

دُعا کی قُدرت کے ساتھ میرا تجربہ

انوس کی مانِند، مَیں نے بھی شخصی تجربے کے ذریعے اِن جیسے چند اَسباق سیکھے ہیں۔ جب مَیں چھوٹا لڑکا تھا تو میرے والدین نے کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسِینِ آخِری ایّام میں شمُولیت اِختیار کی، اور جب مَیں آٹھ برس کا تھا تو میرا بپتِسما ہُوا۔ اپنے آسمانی باپ اور یِسُوع مِسیح، اُس کی بحال شُدہ اِنجِیل، اور اُس کی کلِیسیا کی بابت میرے دِل میں ہمیشہ ایک اچّھا، گرم جوش احساس موجُود تھا۔ مگر جب تک مَیں تقریباً 16 برس کا نہ ہو گیا کہ مَیں اِن باتوں کی سچّائی کے مُتعلق دُعا کرنے آیا تھا۔

میرے اَثر اَنگیز بِشپ نے مُجھے نوجوانان کے سبت سکول کی جماعت کو تعلیم دینے کا کہا۔ مُجھے اِس بارے میں سبق سِکھانا تھا کہ ہم کس طرح دُعا کے وسیلے اِنجِیل کی گواہی پا سکتے ہیں۔ میرے بِشپ کی جانب سے اِس ذِمہ داری نے مُجھے اپنی گواہی کی بابت مزید گہرائی سے سوچنے پر مجبور کیا۔ مَیں نے مورمن کی کِتاب کا مُطالعہ کرنے کے لیے وقت نِکالا تھا اور ہمیشہ محسُوس کِیا کہ کلِیسیا سچّی ہے۔ مَیں ہمیشہ مُنّجی یِسُوع مِسیح پر اِیمان رکھتا تھا، مگر مرونی ۱۰:‏۴–۵ میں پائے جانے والے مرونی کے وعدے کے بارے میں مَیں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا۔ مَیں نے کبھی بھی اِنجِیل کی سچّائی کے مُتعلق دُعا نہیں کی تھی۔

مُجھے یاد ہے کہ میرے دِل میں یہ احساس پیدا ہُوا کہ اگر مُجھے اِن نوجوانوں کو دُعا کے ذریعے گواہی پانے کا سِکھانا ہے، تو مُجھے پہلے خُود گواہی پانے کے لیے دُعا کرنی چاہیے۔ میری جان کو بُھوک لگی—شاید انوس سے تھوڑا مُختلف اَنداز میں، مگر مَیں نے اِس کے باوجود بھی رُوحانی ضرُورت محسُوس کی۔

جب مَیں سبق تیار کر رہا تھا، تو مَیں نے گُھٹنے ٹیکے اور اپنے دِل کی خواہش کو اپنے آسمانی باپ کے حُضُور پیش کِیا کہ اُس سچّائی کی تصدیق پاؤں جو مَیں اپنے اندر محسُوس کرتا تھا۔ مَیں کسی بڑے ظہُور کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ لیکن جب مَیں نے خُداوند سے پُوچھا کہ کیا اِنجِیل سچّی ہے، تو میرے دِل میں اِنتہائی شیریں احساس آیا—اُس ساکِن، مدھم آواز نے مُجھے اِستحکام بخشا کہ یہ سچّی ہے اور مُجھے وہ کرنا جاری رکھنا چاہیے جو مَیں کر رہا تھا۔

یہ اِتنا طاقتور احساس تھا کہ مَیں اُس جواب کو کبھی نظر اَنداز نہ کر سکا کہ مَیں نہیں جانتا تھا۔ مَیں نے وہ سارا دِن بُہت خُوشی سے گُزارا۔ میرا ذہن آسمان پر اپنے دِل کے خُوش نُما احساس پر غور و خوض کر رہا تھا۔

اگلے اِتوار کو، مَیں اپنے تین یا چار ہم جماعتوں کے سامنے کھڑا تھا، جو سب مُجھ سے عُمر میں چھوٹے تھے۔ مَیں نے اُن کو گواہی دی کہ اگر وہ اِیمان رکھیں تو آسمانی باپ اُن کی دُعا کا جواب دے گا۔

ایلڈر سوارز

ایلڈر سوارز کو بحیثیتِ نوجوان اُن کی سُنی گئی دُعا نے اُنہیں بطور مُںاد (اُوپر)، باپ اور شوہر، اور رَسُول—گواہی دینے کے قابل بنایا—کہ آسمانی باپ اِیمان کے ساتھ کی گئی دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔

تب سے، یہ گواہی میرے ساتھ قائم رہی ہے۔ اِس نے فیصلے کرنے میں میری مُعاونت کی ہے، خاص طور پر اُن لمحات میں جب مَیں نے مُشکلات کا سامنا کِیا ہے۔ اُس دِن کی اِس دُعا نے، برسوں سے مزید گواہان کے ہمراہ، مُجھے لوگوں کو گواہی دینے کے قابل بنایا ہے، یقینِ کامِل کے ساتھ، کہ اگر وہ اِیمان کے ساتھ دُعا کریں تو وہ آسمانی باپ سے جواب حاصِل کر سکتے ہیں۔ یہ برحق رہا ہے جب مَیں نے بحیثیتِ مُناد، بطور کلِیسیائی قائد، باپ اور شوہر کے طور پر، اور حتیٰ کہ بطور رَسُول آج بھی گواہی دی ہے۔

دُعا کا وقت اور مواد

بِلا شُبہ، ہم صرف تب ہی دُعا نہیں کرتے جب ہم خصُوصی طور پر شدید رُوحانی ضرُورت محسُوس کریں۔ پَس، ہمیں کب دُعا کرنی چاہیے؟ اور ہمیں کیا دُعا کرنی چاہیے؟ مُختصر جواب یہ ہے کہ کسی بھی وقت اور کسی بھی چیز کے لیے۔

خُدا ہمارا آسمانی باپ ہے۔ یہ جاننا ہماری دُعا کرنے کا ڈھنگ بدل دیتا ہے۔ نبی جوزف سمِتھ نے سِکھایا کہ: ”خُدا کی بابت عِلم ہونے سے، ہم یہ جاننا شُروع کرتے ہیں کہ اُس سے کیسے رُجُوع کِیا جائے، اور کس طور سے سوال کِیا جائے تاکہ جواب پایا جا سکے۔ … جب ہم اُس کے پاس آنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، تو وہ ہمارے پاس آنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔“ 1

ہمارا آسمانی باپ ہمیشہ ہماری سُننے کے لیے تیار ہے اور چاہتا ہے کہ ہم باقاعدگی سے اور کثرت سے اُس سے دُعا کریں۔ ہمیں ”[اپنے] سب کاموں میں خُداوند سے مشورت کرنی ہے“ (ایلما ۳۷‏:۳۷) اور صُبح، دوپہر، اور رات دُعا کرنی چاہیے۔ ضرُور ہے کہ ہم گھر میں، کام پر، سکول میں دُعا کریں— ہم کہیں بھی ہوں اور اپنے کسی بھی کام کاج پر لگے ہوں (دیکھیں ایلما ۳۴‏:۱۷–۲۶

ہمیں اپنے خاندانوں میں دُعا کرنی چاہیے (دیکھیں ۳ نیفی ۱۸‏:۲۱)۔ ہمیں ”بُلند آواز اور [اپنے] دِل میں، دُنیا کے سامنے اور پوشیدگی میں“ دُعا کرنی چاہیے (عقائد اور عہُود ۸۱‏:۳)۔ اور ”جب [ہم] خُداوند سے فریاد نہیں کر رہے ہوتے، تو [ہمارے] [اپنے] دِلوں کو معمُور ہونے دیں، اپنی بھلائی کے لیے، اور [اُن] سب کی بھلائی کے لیے بھی جو [ہمارے] اِردگِرد ہیں پیہم اُس کی طرف دُعا میں مشغُول رہیں“ (ایلما ۳۴‏:۲۷)۔ اور ہمیں ہمیشہ یِسُوع مِسیح کے نام پر باپ سے دُعا کرنی چاہیے (دیکھیں ۳ نیفی ۱۸‏:۱۹–۲۰

جوزف سمِتھ لڑکپن میں

جوزف سمِتھ کی خاکہ کشی اَز والٹر رین، نقل ممنُوع ہے

ہمارے آسمانی باپ کی طرف رُجُوع لانا

ہمارا آسمانی باپ ہمیں بابرکت کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ کرے گا—اگر ہم مانگیں گے۔ نبی جوزف سمِتھ نے سِکھایا کہ، ”یاد رکھیں کہ مانگے بغیر ہم کُچھ نہیں پا سکتے؛ پَس، اِیمان سے مانگو، اور تم اَیسی برکات پاؤ گے جو خُدا تمھیں عطا کرنے کے واسطے موزُوں سمجھتا ہے۔“2

ہماری باقاعدگی سے اور اَکثر دُعائیں ہماری بُھوکی جانوں کی رُوحانی غذا کی متوازن غذا کا اہم حِصّہ ہیں۔ دُعا کے ذریعے آسمانی باپ کے ساتھ بات چیت کرنا دستیاب ہے اور اِس کا ہر جگہ اور ہمیشہ خیر مقدم کیا جاتا ہے۔

میرے پسندیدہ صحائف میں سے ایک سِکھاتا ہے کہ جب ہم دُعا کے لیے گُھٹنے ٹیکتے ہیں تو ہمیں اپنے آسمانی باپ کی طرف کیسے رُجُوع لانا چاہیے: ”فروتن بنو؛ اور خُداوند تُمہارا خُدا اپنے ہاتھ سے تُمہاری راہ نُمائی کرے گا، اور تیری دُعاؤں کا جواب تُجھے دے گا“ (عقائد و عہود ۱۱۲:‏۱۰)۔ جب ہم فروتن اور فرماں بردار ہوتے ہیں، تو آسمانی باپ ہمارے ساتھ ہو گا۔ وہ ہمیں ہاتھ پکڑ کر ہدایت فرمائے گا۔ وہ ہمیں یہ اِلہام بخشے گا کہ کہاں جانا اور کیا کرنا ہے۔ وہ ہماری دُعاؤں کا جواب اپنی مرضی، طریقہ، وقت اور مُکمل عِلم کے مُطابق بخشے گا جو ہمارے واسطے بھلا ہے۔

ہمیں اُسے یاد رکھنا چاہیے اور خُدا کے تخت تک رسائی پانے اور اُس کے ہاتھ سے برکت حاصِل کرنے کے مواقع کی قدر کرنی چاہیے۔

حوالہ جات

  1. کلِیسیائی صدُور کی تعلیمات: جوزف سمِتھ (2011)، 40، 41۔

  2. تعلیمات: جوزف سمتھ، 131۔