صحائف
جوزف سمِتھ—تارِیخ ۱


جوزف سمِتھ—تارِیخ

نبی جوزف سمِتھ کی تارِیخ سے نوشتے

باب ۱

جوزف سمِتھ اپنے شجرہِ نَسب، خاندان کے اَرکان، اور اِبتدائی رہایشوں کے بارے میں بتاتا ہے—مغربی نیویارک میں مذہب سے مُتعلّق غیر معمولی اِشتیاق چھایا ہُوا تھا—وہ یعقوب کی ہدایت کے مُطابق حِکمت کی تلاش کا فیصلہ کرتا ہے—باپ اور بیٹا ظاہر ہوتے ہیں، اور جوزف اپنی پیغمبرانہ خدمت کے لیے بُلایا جاتا ہے۔ (آیات ۱–۲۰

۱ کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقَدَّسین آخِری ایّام کے فروغ اور پیش روی کے نتیجے میں بد نیت اور سازِشی لوگوں نے بےشُمار من گھڑت کہانیاں شائع کی تھیں، اِن کے مُصنفوں نے منصُوبہ باندھ لِیا کہ اِس جہان میں بحثیتِ کلِیسیا اِس کی ساکھ اور اِس کی پیش رفت کی مُخالفت ہو—مَیں اِس تارِیخ کو لِکھنے کے لیے قائل ہوگیا کہ عوام کے ذہن سے خیالِ خام دُور کرُوں، اور تمام مُتلاشیوں کو کلِیسیا اور اپنے، دونوں، کے مُتعلّق من و عن ظاہر ہونے والے حقائق پر مبنی سچّائی کی جانب لاؤں، مُجھے جہاں تک اِن حقائق کا عِلم ہے۔

۲ مَیں اِس تارِیخ میں، سچّائی اور راستی کے ساتھ اِس کلِیسیا سے مُتعلّق کئی واقعات پیش کرُوں گا، جَیسے اُن کا ظُہُور ہُوا، یا جَیسے وہ عصرِ حاضر میں ہیں، [۱۸۳۸] مذکُورہ کلِیسیا کی تنظِیم سے لے کر اب تک کا آٹھواں برس ہے۔

۳ ہمارے خُداوند کے ایک ہزار آٹھ سَو اور پانچویں برس میں، دسمبر کے تئیسویں روز مَیں ورمانٹ ریاست کی ونڈسر کاؤنٹی کے قصبہ شیرون میں پَیدا ہُوا—میرے والد، جوزف سمِتھ سینئر، نے ورمانٹ کی ریاست کو خیرباد کہا، اور نیو یارک کی ریاست، اونٹاریو (موجودہ واین) کاؤنٹی کے شہر پالمائرہ چلا گیا، جب مَیں اپنے دسویں سال میں یا اِس کے لگ بھگ تھا۔ پالمائرہ میں میرے والد کی آمد کے تقریباً چار سال بعد، وہ اپنے خاندان کے ساتھ اونٹاریو کی اُسی کاؤنٹی میں، مانچسٹر مُنتقل ہو گیا۔

۴ اُس کا خاندان گیارہ جانوں پر مُشتَمِل تھا، جِن کے نام، میرا والد، جوزف سمِتھ؛ میری والدہ، لُوسی سمِتھ (جِس کا نام بیاہ سے قبل، میک تھا، سولومن میک کی بیٹی)؛ میرا بھائی، ایلوّن (جِس نے نومبر ۱۹، ۱۸۲۳ کو، اپنی عُمر کے ۲۶ویں برس میں وفات پائی)، حائرم، مَیں خُود، سیموئیل ہیریسن، وِلیم، ڈان کارلوس؛ اور میری بہنیں، سفرونیا، کیتھرین، اور لُوسی۔

۵ مانچسٹر میں ہمارے قیام کے دُوسرے برس کے دوران میں، وہ علاقہ جہاں ہم رہتے تھے وہاں مذہب کے موضوع پر غیر معمولی اِشتیاق پایا جاتا تھا۔ یہ میتھوڈسٹ فِرقے سے شُروع ہُوا، مگر جلد مُلک کے اُس علاقے کے تمام فِرقوں میں عام ہو گیا۔ درحقیقت، مُلک کا پُورا ضلع اِس سے مُتاثر نظر آتا تھا، اور بےشُمار گروہوں نے خُود کو مُختلف مذہبی جماعتوں کے ساتھ جوڑا، جِس کے سبب سے لوگوں کے درمیان میں بڑا فساد اور تفرِیق پَیدا ہُوئی، بعض چِلاتے، ”دیکھو یہاں ہے (سچّا دین)!“ اور کئی ”دیکھو وہاں ہے!“ بعض پریسبٹیرین فِرقے، بعض بپٹِسٹ، اور بعض میتھوڈسٹ کی حمایت کرتے۔

۶ پَس، اِس کے باوجود کہ، مُختلف عقیدوں کے اِیمان کو قَبُول کرتے وقت رُجُوع لانے والوں نے بےپناہ عقیدت کا اِظہار، اور اُن کے مُتعلّقہ مذہبی قائدین نے بھر پُور جوش و جذبہ کا مُظاہرہ کِیا، وہ غیرمعمولی مذہبی جذبے کے منظر کو بھڑکانے اور فروغ دینے میں سرگرم تھے، تاکہ ہر کسی کو دائرہ ِ اِیمان میں لایا جائے، چُوں کہ وہ اِس کا اِعلان کر کے راضی ہوتے تھے، کہ اُنھیں جِس فرقے میں چاہیں شامل ہونے دو؛ تاہم جب رُجُوع لانے والے جانا شُروع ہُوئے، بعض کسی فرقے میں، اور بعض کسی میں، تو یہ دیکھا گیا کہ کاہنوں اور رُجُوع لانے والوں کے بظاہر باہمی نیک جذبات درحقیقت بےبُنیاد تھے؛ کیوں کہ شدِید افراتفری اور بےاِعتمادی کی فضا پَیدا ہو گئی تھی—کاہن کاہن کے خِلاف تھا، اور رُجُوع کرنے والا دُوسرے رُجُوع لانے والے کے خِلاف تھا؛ چنانچہ ایک دُوسرے کے لیے اُن کے نیک جذبات، اگر کبھی کوئی تھے بھی تو، لفظی تکرار اور قیاس آرائیوں کی جنگ میں کھو گئے تھے۔

۷ مَیں اِس وقت اپنی عُمر کے پندرھویں برس میں تھا، میرے والد کے خاندان نے پریسبٹیرین عقیدے کو قَبُول کِیا، اور اُن میں سے چار اُس کلِیسیا میں شامل ہو گئے تھے، بنام، میری والدہ لوسی؛ میرے بھائی حائرم اور سیموئیل ہیریسن؛ اور میری بہن سفرونیا۔

۸ اِس بڑے جوش و خروش کے عرصہ میں میرا ذہن سنجیدہ غَور و فکر اور بڑی بےقراری میں محو ہو گیا؛ مگر میرے احساسات اگرچہ گہرے اور اکثر ہیجان انگیز تھے پھِر بھی میں نے خُود کو اِن تمام فرقوں سے علیحدہ رکھا، گو کہ مَیں اُن کی مُتعدد عِبادات میں جب بھی مُجھے موقع مِلا شامل ہُوا۔ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ میرا ذہن کسی حد تک میتھوڈسٹ فرقے کی طرف مائل ہونے لگا اور مَیں نے اُن کے ساتھ وابستہ ہونے کی خفیف تمنا کو محسُوس کِیا؛ لیکن مختلف فرقوں میں تذب ذب اور تنازع اِس قدر شدِید تھا کہ کسی شخص کے لیے جو میری طرح نابالغ ہو اور آدمیوں اور چِیزوں کے ساتھ قطعی ناآشنا ہو، اُس کا کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا نامُمکِن تھا کہ کون سچّا تھا اور کون جُھوٹا تھا۔

۹ بعض اوقات میرا دماغ اِنتہائی برانگیختہ ہو جاتا تھا کیوں کہ شور اور ہنگامہ بُہت زیادہ اور مُتواتر ہوتا تھا۔ پریسبٹیرین سب سے زیادہ بپٹِسٹ اور میتھوڈسٹ عقیدوں کے خِلاف تھے، اور اُن کی غلطیاں ثابت کرنے کے لیے، دلیل اور دلیلِ باطل دونوں کا اِستعمال کرتے تھے، یا کم از کم، یہ چاہتے تھے کہ لوگ سوچیں کہ وہ غلط تھے۔ دُوسری طرف بپٹِسٹ اور میتھوڈسٹ اپنی اپنی باری پر اُتنی ہی گرم جوشی سے اپنے اپنے عقیدوں کو راست اور باقی سب کو باطل ثابت کرنے میں کوشاں تھے۔

۱۰ لفظوں کی اِس جنگ اور نظریات کے ہنگامے میں، مَیں نے اکثر اپنے آپ سے کہا: کیا کرنا چاہیے؟ اِن تمام فرقوں میں سے کون سا سچّا ہے؛ یا کیا وہ سب کے سب باطل ہیں؟ اگر اُن میں سے کوئی سچّا ہے، تو کون سا ہے، اور مُجھے اِس کا عِلم کیسے ہو گا؟

۱۱ جب مَیں شدید اُلجھنوں میں مُبتلا تھا جِن کا سبب اِن مذہب پرستوں کے گروہوں کے جھگڑے تھے، ایک دن میں یعقوب کے خط کے، پہلے باب کی پانچویں آیت پڑھ رہا تھا، جو بتاتی ہے: اگر تُم میں سے کسی میں حِکمت کی کمی ہو تو خُدا سے مانگے جو بغیر ملامت کیے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے، اُس کو دی جائے گی۔

۱۲ صحیفے کے کسی نوشتہ نے کبھی اِتنا زیادہ زور سے اِنسان کے قلب پر اثر نہ کِیا جتنا اِس لمحے مُجھ پر اُس نے کِیا۔ اَیسا لگتا تھا کہ یہ شدتِ قوی سے میرے دِل کے ہر خیال میں سرایت کر گیا ہے۔ مَیں نے اِس پر بار بار غَور کِیا، یہ جانتے ہُوئے کہ اگر کوئی اِنسان خُدا سے حِکمت کا حاجت مند تھا، تو مَیں تھا؛ کیوں کہ کیا کرنا ہے، مَیں جانتا نہ تھا، اور جب تک مَیں اِس سے زیادہ حِکمت نہ پا لُوں جتنی ابھی مُجھ میں ہے، تب تک مَیں کبھی بھی نہ جان پاؤں گا؛ کیوں کہ مختلف فرقوں کے دینی اُستاد صحیفے کی ایک جَیسی عبارتوں کو اِتنا مُختلف سمجھتے تھے کہ بائبل کی رُو سے مسئلہ حل کرتے ہُوئے سارے اِعتماد کو تباہ و برباد کر دیتے تھے۔

۱۳ آخِر کار مَیں اِس نتیجے پر پہنچا کہ یاتو مَیں لازم تارِیکی اور تذب ذب میں رہُوں یا پھِر، مَیں لازم ہے کہ وہ کرُوں جو یعقوب ہدایت دیتا ہے، یعنی کہ، خُدا سے مانگو۔ آخِر کار مَیں نے عزم کِیا کہ ”خُدا سے مانگوں“ یہ نتیجہ نکالتے ہُوئے کہ اگر اُس نے حِکمت اُن کو بخشی جِن میں حِکمت کی کمی تھی، اور فیاضی سے دیتا ہے، اور ملامت نہیں کرتا، تو مَیں جَسارَت کر سکتا ہُوں۔

۱۴ سو، اپنے اِرادہ کو مدِنظر رکھتے ہُوئے، مَیں نے خُدا سے مانگنے کے واسطے جنگل میں سعی کرنے کے لیے گوشئہ نشین ہُوا۔ اَٹھارہ سو بیس میں بہار کے اوائل کے اُجلے اُجلے دِن کی ایک خُوش گوار صبح تھی۔ یہ میری زِندگی میں پہلی بار تھا کہ مَیں نے اَیسی سعی کی تھی، اب تک مَیں نے اپنی تمام پریشانیوں کے بیچ میں باآواز دُعا کی کبھی کوشش نہ کی تھی۔

۱۵ اُس جگہ اکیلے پہنچنے کے بعد جِس کا مَیں نے پہلے سے تعین کِیا ہُوا تھا، اپنے اِردگِرد دیکھتے ہُوئے اور خُود کو تنہا پا کر، مَیں دو زانوں ہُوا اور اپنے دِل کے اِرادوں کو خُدا کے حُضُور پیش کرنا شُروع کر دیا۔ مَیں نے اَیسا مُشکل سے ہی کِیا تھا، جب یک دم مُجھے کسی قُوّت نے جکڑ لیا، جِس نے مُجھ پر مُکمل غلبہ پا لیا، اور اُس کا مُجھ پر اَیسا عجیب اَثر ہُوا تھا کہ میری زبان بند ہوگئی تاکہ مَیں بول نہ سکُوں۔ گہری تارِیکی نے مُجھے گھیر لیا، اور مُجھے تھوڑی دیر کے لیے اَیسا لگا کہ جَیسے ناگہانی تباہی میرا مُقدر ہے۔

۱۶ بلکہ، اپنی ساری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر خُدا کو پُکارا کہ مُجھے اِس دُشمن کی گرفت سے چھڑائے جِس نے مُجھے جکڑ لیا ہُوا تھا، اور عین اُس لمحے جب مَیں مایوسی میں غرق ہونے اور خُود کو فنا کے حوالے کرنے والا تھا—کسی تَصَوُّراتی نِیستی کے لیے نہیں—بلکہ اَن دیکھی دُنیا سے ایک حقیقی ہستی کی قُدرت کے لیے، جِس کے پاس اَیسی زبردست قُدرت تھی کہ مَیں نے پہلے کسی ہستی میں نہ دیکھی تھی—شدِید خَوف کے عین اِس لمحے میں، مَیں نے اپنے سر کے بالکل اُوپر نُور کا مِنارہ دیکھا، سُورج کی چمک سے بڑھ کر، جو آہستہ آہستہ اُترا یہاں تک کہ وہ مُجھ پر ٹھہر گیا۔

۱۷ جُونہی یہ ظاہر ہُوا میں نے خُود کو اُس دُشمن سے آزاد پایا جِس نے مُجھے جکڑ رکھا تھا۔ جب تجلی مُجھ پر ٹھہر گئی، مَیں نے دو ہستیوں کو دیکھا، جِن کا نُور اور جلال بیان سے باہر ہے، جو میرے اُوپر ہُوا میں کھڑے تھے۔ اُن میں سے ایک نے، مُجھے میرے نام سے پُکار کر، اور دُوسرے کی طرف اِشارہ کر کے مُجھ سے فرمایا—یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ اِس کی سُنو!

۱۸ خُداوند سے دریافت کرنے کے لیے، میرا مقصد تھا کہ معرفت پاؤں کہ تمام فرقوں میں کون سا راست تھا، تاکہ مُجھے یہ معلوم ہو جائے کہ کس میں شامِل ہونا ہے۔ پَس، جُونہی میرے اوسان بحال ہُوئے اور بات کرنے کے قابل ہُوا تو پھِر میں نے اُن ہستیوں سے اِستفسار کِیا جو میرے اُوپر نُور میں کھڑی تھیں کہ سارے فرقوں میں سے کون سا سچّا تھا—اور مُجھے کس میں شامِل ہونا چاہیے (چوں کہ اِس وقت میرے دِل میں یہ کبھی نہ آیا تھا کہ وہ تمام باطل تھے)۔

۱۹ مُجھے جواب دیا گیا کہ ضرور ہے کہ مَیں اُن میں سے کسی ایک میں بھی شامِل نہ ہُوں، کیوں کہ ”وہ سارے باطل تھے“؛ اور اُس ہستی نے جِس نے مُجھ سے کلام کِیا، فرمایا کہ اُن کے تمام عقائد اُس کی نظر میں مکرُوہ تھے؛ کہ وہ سب دینی عالم شرِیر تھے؛ کہ: ”وہ اپنے ہونٹوں سے تو میری قُربت چاہتے ہیں، لیکن اُن کے دِل مُجھ سے دُور ہیں، وہ حق کی بجائے آدمیوں کے اَحکام سِکھاتے ہیں، دینداری کی وضع تو رکھتے ہیں، لیکن اُس کے اَثر کو قَبُول نہیں کرتے ہیں۔“

۲۰ اور اُس نے مُجھے دوبارہ اُن میں سے کسی سے وابستہ ہونے سے منع فرمایا، اور کئی دیگر باتیں اُس نے میرے لیے فرمائیں، جو مَیں اِس وقت لِکھ نہیں سکتا۔ جب مُجھے دوبارہ ہوش آیا تو مَیں نے خُود کو کمر کے بل لیٹے، آسمان کی طرف دیکھتے پایا۔ جب تجلی معدُوم ہو گئی تو مُجھ میں بالکل ہمت نہ تھی؛ لیکن جلد تھوڑی ہمت آنے کے بعد مَیں گھر گیا۔ اور جب مَیں اَنگیٹھی پر جُھکا ہُوا تھا تو والدہ نے مُجھ سے پُوچھا کہ کیا بات ہے۔ مَیں نے جواب دیا، ”کُچھ بھی نہیں، سب ٹھیک ہے—مَیں بالکل ٹھیک ہُوں۔“ پھِر مَیں نے اپنی ماں سے کہا، ”مَیں نے خُود جان لیا ہے کہ پریسبٹیرین فرقہ سچّا نہیں ہے“۔ اَیسا لگتا تھا کہ شیطان میری اِبتدائی زِندگی کے دَور سے ہی جان گیا تھا، کہ مَیں اُس کی بادِشاہی کو آزُردہ اور مُتزلزل کرنے والا مُقدر ہُوں گا؛ ورنہ تارِیکی کی قُوّتیں میرے خِلاف اِکٹھی کیوں ہوتیں؟ کیوں عداوت اور عقوبت بچپن ہی سے میرے خِلاف اُٹھ کھڑی ہوئی تھیں؟

چند پادری اور بعض عالمِ دین پہلی رویا کے ذِکر کو رَدّ کرتے ہیں—جوزف پر اَذِیت کے اَنبار لگائے جاتے ہیں—وہ رویا کی سچّائی کی گواہی دیتا ہے۔ (آیات ۲۱–۲۶۔)

۲۱ مَیں اِس رویا کو پانے کے چند روز بعد، ایک میتھوڈسٹ پادری کے ساتھ تھا، جو مذکُورہ مذہبی جوش و خروش کے دوران میں بُہت سرگرم تھا؛ اور، اُس کے ساتھ مذہب کے موضوع پر بات چیت کرتے ہُوئے، مَیں نے موقع پا کر اُس کے ساتھ رویا کا ذِکر کِیا جو مَیں نے پائی تھی۔ مَیں اُس کے رویے پر بہت زیادہ مُتعجب ہُوا؛ اُس نے نہ صرف میرے اِعلان کی بےقدری کی، بلکہ بڑی حقارت سے کہا کہ یہ سب اِبلِیس کی طرف سے ہے کہ اِن دِنوں میں رویاؤں اور مُکاشفوں جَیسی کوئی باتیں نہ تھیں؛ کہ اِس قسم کی ساری باتیں رسُولوں کے ساتھ معدُوم ہو چُکیں تھیں، اور کہ اَیسی باتیں آیندہ کبھی نہ ہوں گی۔

۲۲ تاہم، مَیں نے جلد جان لیا، کہ مَیں نے سرگزشت بتا کر اپنے خِلاف مذہبی عالموں کے درمیان میں بُہت زیادہ تَعَصُّب اُبھارا تھا، اور بڑی عقوبت کا سبب بنا تھا، جو بڑھتی گئی؛ اور اگرچہ مَیں صرف چودہ اور پندرہ برس کے لگ بھگ کا اَنجان لڑکا تھا، اور میری زِندگی کے حالات اَیسے تھے کہ دُنیا مُجھے کوئی اَثر و رُسوخ والا لڑکا نہ مانتی تھی، پھِر بھی اُونچے رُتبے کے آدمی رائے عامہ کو میرے خِلاف اُبھارنے کے لیے سرعام ڈھنڈورا پِیٹتے اور شدِید اَذِیت پہنچاتے؛ اور سبھی فرقوں میں یہ رواج بن گیا تھا—مُجھے اَذِیت دینے کے لیے سب مُتحد تھے۔

۲۳ اُس وقت اور اکثر تب سے لے کر میرے لیے سنگین اَندیشے کا سبب رہا ہے، یہ کتنا حیران کُن تھا کہ چَودہ برس سے ذرا بڑی عُمر کا اَنجان لڑکا، اور وہ بھی، جِس کے نصیب میں زِندگی کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کو پُورا کرنے کے لیے روزانہ مزدُوری کرنا تھا، وہ اَیسی اَہمیت کا کردار سمجھا جائے کہ زمانے کے جانے پہچانے فرقوں کی مُمتاز شخصیتوں کی توجہ حاصل کرے، اور اس طرح اُن میں بُہت زیادہ تلخ عقوبت اور ملامت کی رُوح پَیدا ہو۔ عجیب بات تھی یا نہیں مگر اَیسا ہی تھا، اور یہ میرے لیے اکثر اوقات بڑے صدمے کا سبب تھا۔

۲۴ اِس کے باوجُود، بہرکیف یہ حقیقت تھی کہ مَیں نے رویا دیکھی تھی۔ تب سے مَیں نے غَور کِیا، کہ مَیں نے بڑی حد تک پولوس کی طرح محسُوس کِیا، جب اُس نے اگرپا بادِشاہ کے سامنے اپنی صفائی پیش کی، اور اُس رویا کا تذکرہ کِیا جو اُس پر ظاہر ہُوئی تھی، جب اُس نے تجلی دیکھی اور آواز سُنی؛ تاہم وہاں صرف چند ہی تھے جِنھوں نے اُس کا یقین کِیا؛ بعض نے اُسے فریبی کہا، باقیوں نے اُسے پاگل کہا؛ اور اُس کا تمسخر اُڑایا گیا اور مذمت کی گئی۔ لیکن اِن ساری باتوں نے اُس کی رویا کی سچّائی کو برباد نہ کِیا۔ اُس نے رویا دیکھی تھی، وہ جانتا تھا کہ اُس نے رویا دیکھی تھی، اور آسمان تلے کی ساری اَذِیت اِس حقیقت کو جُھٹلا نہ سکتی تھی؛ اور اگرچہ وہ اُسے مرتے دم تک ایذا پہنچاتے، پھِر بھی وہ جانتا تھا، اور اپنی آخِری سانس تک جانتا تھا، کہ اُس نے تجلی دیکھی تھی اور اُس سے کلام کرتی ہُوئی آواز سُنی تھی، اور اُسے ساری دُنیا اِس کے برعکس سوچنے اور یقین کرنے پر آمادہ نہ کر سکتی تھی۔

۲۵ میرے ساتھ بھی اَیسا ہی تھا۔ مَیں نے درحقیقت نُور دیکھا تھا، اور نُور کے بِیچ میں دو ہستیوں کو دیکھا تھا، اور وہ مُجھ سے واقعی ہم کلام ہُوئے تھے؛ اور اگرچہ میرے کہنے سے کہ مَیں نے رویا دیکھی مُجھ سے نفرت کی گئی اور ایذا پہنچائی گئی، پھِر بھی یہ سچّ تھا؛ اور جب اَیسا کہنے پر وہ مُجھے ایذا پہنچاتے رہے، بُرا بھلا کہتے رہے تھے اور میرے خِلاف تمام بُری باتیں ناحق کہتے تھے، مَیں اپنے دِل میں یہ کہنے پر مجبُور ہو گیا: مُجھے سچّائی بتانے کی وجہ سے کیوں ستاتے ہو؟ مَیں نے درحقیقت رویا دیکھی ہے، اور مَیں کون ہُوں کہ خُدا کو روک سکُوں، یا دُنیا یہ کیوں سوچتی ہے کہ مُجھ سے اُس اَمر کا اِنکار کرائے جو در حقیقت مَیں نے دیکھا ہے؟ کیوں کہ مَیں نے رویا دیکھی تھی؛ مُجھے اِس کا عِلم تھا، اور مَیں جانتا تھا کہ خُدا کو اِس کا عِلم ہے، اور مَیں اِس کی نفی نہیں کر سکتا تھا، نہ ہی مَیں نے اَیسا کرنے کی جَسارَت کی؛ کم از کم، مُجھے یہ عِلم تھا کہ اَیسا کرنے سے مَیں خُدا کے خِلاف گناہ کرُوں گا اور سزاوار ٹھہروں گا۔

۲۶ اب فرقہ وارانہ دُنیا کے بارے میں میرا ذہن بےفکر ہو گیا تھا—یہ مُجھ پر فرض نہ تھا کہ اُن میں سے کسی میں بھی شامل ہوتا، بلکہ اِسی طرح قائم رہتا جَیسا مَیں تھا، جب تک مَیں مزید ہدایت نہ پاتا۔ مَیں نے یعقوب کی گواہی کو سچّا پایا تھا—کہ کوئی بھی آدمی جِس میں حِکمت کی کمی ہو خُدا سے مانگ اور پا سکتا ہے، اور ملامت نہیں پاتا۔

مرونی، جوزف سمِتھ پر ظاہر ہوتا ہے—جوزف کا نام تمام قَوموں میں خیر اور شر کے لیے جانا جائے گا—مرونی اُسے مورمن کی کِتاب کا اور خُداوند کی آنے والی عدالتوں کا بتاتا ہے اور بُہت سے صحائف کا حوالہ دیتا ہے—سونے کے اَوراق کی جائے پوشِیدہ ظاہر کی جاتی ہے—مرونی نبی کو ہدایت دیتا رہتا ہے۔ (آیات ۲۷–۵۴۔)

۲۷ اِکیس ستمبر ایک ہزار آٹھ سو اور تئیس تک مَیں اپنے حسبِ معمول کے کاموں میں مصرُوف تھا، سارا وقت ہر قسم کے لوگوں، بشمول مذہبی اور غیر مذہبی، کے ہاتھوں شدِید ایذا جھیلتا رہا، کیوں کہ مَیں اِس بات کا اِقرار کرتا رہا کہ مَیں نے رویا دیکھی تھی۔

۲۸ مجھ پر رویا ظاہر ہونے کے وقت سے اور سن اَٹھارہ سو تئیس کے درمیانی عرصہ کے دوران میں—اُس دَور کے کسی بھی فرقے میں شامل ہونے کی ممانعت کے سبب، لڑکپن کے سبب، اور اُن کے ہاتھوں ستائے جانے کے سبب سے جِنھیں میرے دوست ہونا اور نرمی سے پیش آنا چاہیے تھا، اور اگر اُنھوں نے فرض کر لیا کہ مَیں بہک گیا ہُوں تو مُجھے سُدھارنے کے لیے پیار سے مناسب سعی کرتے—مَیں ہر طرح کی آزمایش کے لیے تنہا رہ گیا؛ اور، ہر قسم کی صُحبت میں پڑنے کے سبب، اکثر اوقات مَیں احمقانہ خطاؤں میں گِرا، اور لڑکپن کی کم زوری، اور اِنسانی فِطرت کی کم زوریوں کا مُظاہرہ کِیا؛ جو، مَیں افسوس سے کہتا ہُوں، مُجھے مُختلف آزمایشوں کی جانب لے گئیں، خُدا کی نظر میں نازیبا۔ اِس بات کے اِعِتَراف میں کسی کو یہ گمان کرنے کی ضرورت نہیں کہ مَیں کسی بڑے یا بد خواہ گناہ کا قُصُوروار ہُوں۔ اَیسا رُجحان میری فِطرت میں کبھی نہ تھا۔ لیکن مَیں تَلَوّن مزاجی کا قُصُوروار تھا، کبھی کبھار چنچل صُحبت وغیرہ سے وابستہ تھا اور میری سیرت اُس سے ہم آہنگ نہ تھی جِس طرح خُدا کے کسی برگُزیدہ یعنی کہ مُجھے برقرار رکھنی چاہیے تھی۔ مگر جِس کسی کو میرا بچپن یاد ہے، اور جو کوئی میرے قُدرتی زِندہ دِل مزاج سے واقف ہے، اُس کے لیے یہ اَچنبھے کی بات نہ ہوگی۔

۲۹ اِن باتوں کے نتیجے میں، اکثر خُود کو اپنی کم زوریوں اور خامیوں کے لیے قُصُوروار تَصَوُّر کِیا؛ مذکُورہ بالا اِکیس ستمبر کی شام کو جب مَیں رات کو سونے کے لیے اپنے بستر پر تھا، مَیں نے بر وقت قادرِ مُطلق خُدا سے اپنے تمام گناہوں اور نادانیوں کی مُعافی مانگنے کے لیے دُعا اور اِلتجا کی، اور اپنے لیے ظُہُور کی بھی، تاکہ مَیں اُس کے حُضُور اپنی حالت اور حیثیت جان پاؤں؛ کیوں کہ اِلہامی ظُہُور پانے پر میرا پُورا یقین تھا، کیوں کہ مَیں پہلے ایک پا چُکا تھا۔

۳۰ یُوں جب مَیں خُدا کو پُکارنے میں مصرُوف تھا، مَیں نے اپنے کمرے میں تجلی کو ظاہر ہوتے دیکھا، یہ پُرنُور ہوتی گئی جب تک کہ کمرہ دوپہر سے زیادہ مُنوّر نہ ہو گیا، اور پھِر اچانک میرے پلنگ کے پاس کوئی ہستی ظاہر ہوئی، ہَوا میں مُلَحَق، کیوں کہ اُس کے پاؤں فرِش کو نہ چھوتے تھے۔

۳۱ اِنتہائی نفیس ڈھیلی ڈھالی سفید پوشاک اُس کے زیبِ تن تھی۔ اِس کی سفیدی کسی بھی دُنیاوی شَے سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھی جو مَیں نے کبھی نہ دیکھی تھی؛ نہ مُجھے یقین ہے کہ کوئی دُنیاوی شَے بنائی جا سکتی ہے جو اِتنی سفید اور روشن نظر آئے۔ اُس کے ہاتھ اور اُس کے بازُو کلائیوں سے تھوڑے اُوپر تک برہنہ تھے؛ لہذا اُس کے پاؤں بھی ننگے تھے، اُسی طرح اُس کی ٹانگیں ٹخنوں سے تھوڑی اُوپر تک۔ اُس کا سر اور گردن بھی ڈھکے نہ تھے۔ مَیں دیکھ سکتا تھا کہ اُس نے پوشاک کے علاوہ کوئی اور لباس نہ پہنا تھا، اِس لیے مَیں اُس کے سینے کا کُچھ حِصّہ دیکھ سکتا تھا کیوں کہ وہ کھلا تھا۔

۳۲ نہ صرف اُس کی پوشاک حد سے زیادہ سفید تھی، بلکہ اُس کا پُورا بدن ناقابلِ بیان حد تک جلالی تھا، اور اُس کی صُورت حقیقت میں بجلی کی مانِند تھی۔ کمرہ حد سے زیادہ روشن تھا، لیکن اِتنا مُنوّر نہیں جتنا اُس کے بدن کے اِردگِرد تھا۔ جب مَیں نے اُسے پہلی بار دیکھا، مَیں خَوف زدہ ہُوا؛ لیکن خَوف جلد دُور ہو گیا۔

۳۳ اُس نے مُجھے نام سے پُکارا اور مُجھ سے کہا، کہ وہ پیام بر تھا، جِسے خُدا کی حُضُوری سے میرے پاس بھیجا گیا تھا، اور کہ اُس کا نام مرونی تھا؛ کہ خُدا نے مُجھے اَنجام دینے کے لیے فرض سونپا ہے؛ اور کہ میرا نام ساری قَوموں، قبیلوں اور اَہلِ زبانوں میں، خیر اور شر دونوں کے لیے یاد رکھا جائے گا، یا پَس یہ تمام لوگوں میں خیر اور شر کے لیے بولا جائے گا۔

۳۴ اُس نے فرمایا کہ سونے کے اَوراق پر لِکھی ہُوئی کِتاب زمِین میں محفُوظ کی گئی تھی، جو اِس برِاعظم کے اَگلے باشِندوں کی سرگزشت اور اُس سرچشمے کا جہاں سے وہ پھوٹے بتاتی تھی۔ اُس نے یہ بھی فرمایا کہ یہ اَبَدی اِنجِیل کی مَعمُوری پر مُشتَمِل تھی؛ جَیسے نجات دہندہ نے قدِیم باشِندوں کو عطا کی تھی؛

۳۵ مزید برآں، چاندی کی کمانوں میں دو پتھر تھے—اور یہ پتھر، سِینہ بند کے ساتھ جُڑے ہُوئے تھے، یہ سب مِل کر اوریم اور تمیم کہلاتا ہے—یہ اَوراق کے ساتھ محفُوظ کیے گئے تھے؛ اور قدِیم یا پہلے وقتوں میں غیب بین کا مطلب اِن پتھروں کی ملکیت اور اِستعمال کرنا تھا؛ اور کہ خُدا نے اُنھیں کِتاب کے ترجمے کے مقصد کے لیے تیار کِیا تھا۔

۳۶ یہ باتیں مُجھے بتانے کے بعد، اُس نے پُرانے عہدنامے کی نبُوّتوں کا وِرد شُروع کِیا۔ پہلے اُس نے ملاکی کے تِیسرے باب کے حِصّہ کا حوالہ دیا؛ اور اُس نے اِسی نبُوّت کے چوتھے یا آخِری باب کا بھی حوالہ دیا، اگرچہ کہ اُس سے کُچھ تبدیلی کے ساتھ جَیسا ہماری مُقَدَّس کِتابوں میں لِکھا ہے۔ پہلی آیت کا حوالہ دینے کی بجائے جَیسا ہماری کِتابوں میں لِکھا ہے، اُس نے یُوں وِرد کِیا:

۳۷ پَس دیکھو، وہ دِن آتا ہے جو بھٹی کی مانِند سوزاں ہو گا، اور تمام مغرور، ہاں، اور سب بدکردار بھُوسے کی مانِند جلیں گے؛ کیوں کہ وہ جو آتے ہیں اُن کو اَیسا بھسم کریں گے، کہ وہ شاخ و بُن کُچھ نہ چھوڑے گا، ربُّ الافواج فرماتا ہے۔

۳۸ اور پھِر اُس نے پانچویں آیت کا حوالہ یُوں دیا: دیکھو، خُداوند کے بُزرگ اور ہولناک دِن کے آنے سے پیشتر، مَیں ایلیّاہ نبی کے ہاتھ سے تُجھ پر کہانت نازِل کرُوں گا۔

۳۹ اُس نے اگلی آیت کا حوالہ بھی مُختلف طور پر دیا: اور وہ بچّوں کے دِلوں میں آباواجداد سے کیے گئے وعدوں کو بوئے گا اور بچّوں کے دِل اپنے آباواجداد کی طرف مائل ہوں گے۔ اگر اَیسا نہ ہُوا تو اُس کی آمد پر ساری دُنیا مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائے گی۔

۴۰ اِن کے علاوہ اُس نے یسعیاہ کا گیارہواں باب یہ کہہ کر دُہرایا کہ یہ پُورا ہونے کو تھا۔ اُس نے اَعمال کے تِیسرے باب کی بائیسویں اور تئیسویں آیت کا بھی بالکل ویسے حوالہ دیا جَیسے وہ ہمارے نئے عہدنامہ میں موجُود ہیں۔ اُس نے کہا کہ وہ نبی مسِیح تھا؛ لیکن وہ دِن ابھی تک نہیں آیا تھا جب ”وہ جو اُس کی آواز نہ سُنیں گے لوگوں کے درمیان میں سے کاٹ ڈالے جائیں گے،“ لیکن جلد آئے گا۔

۴۱ اُس نے یوُایل کے دُوسرے باب کی اَٹھائیسوِیں آیت سے لے کر آخِری آیت تک کا بھی حوالہ دیا۔ اُس نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ابھی تک پُورا نہیں ہُوا تھا، لیکن جلد ہونے کو تھا۔ اور اُس نے مزید یہ فرمایا کہ غیر قَوموں کی مَعمُوری جلد شُروع ہونے کو تھی۔ اُس نے صحائف کی بُہت سی اور عبارتوں کا حوالہ دیا اور بُہت سی وضاحتیں پیش کیں جِن کا یہاں پر ذِکر نہیں کِیا جا سکتا۔

۴۲ پھِر اُس نے مُجھے بتایا، کہ جب مَیں وہ اَوراق حاصل کر لُوں جِس کی بابت وہ فرما چُکا تھا—کیوں کہ وہ وقت جب اُنھیں حاصل کِیا جائے ابھی پُورا نہیں ہُوا تھا—مَیں اُنھیں کسی شخص کو نہ دِکھاؤں؛ نہ اوریم اور تمیم کے ساتھ سِینہ بند کو؛ صرف اُنھیں جِنھیں دِکھانے کا مُجھے حُکم دیا جائے گا؛ اگر مَیں نے اَیسا کِیا تو تباہ کِیا جاؤں گا۔ جب وہ مُجھ سے اَوراق کے بارے میں بات کر رہا تھا، میرے ذہن میں رویا ظاہر کی گئی کہ مَیں اُس مقام کو دیکھ سکتا تھا جہاں اَوراق محفُوظ کیے گئے تھے، اور کہ وہ مقام اِتنا مُنفرد اور واضح تھا کہ جب مَیں گیا تو مَیں اُس مقام کو پھِر سے پہچان گیا۔

۴۳ اِس شیریں کلام کے بعدمَیں نے تجلی کو فوراً اُس کے بدن کے چوگرد جمع ہوتے دیکھا جو مُجھ سے باتیں کر رہا تھا، اور یہ عمل جاری رہا جب تک کمرہ، اُس کے گردا گرد کے سوا پھِر سے تارِیک نہ ہو گیا؛ جب اچانک مَیں نے دیکھا، کہ گویا آسمان تک راستہ بنا، اور وہ اُوپر گیا جب تک وہ مکمل طور پر اوجھل نہ ہو گیا، اور کمرہ ویسی حالت میں آ گیا جَیسا اِس آسمانی نُور کے ظُہُور سے پہلے تھا۔

۴۴ مَیں اِس نظارے کی یکتائی کے خیالات میں گُم پڑا تھا، اور اُس پر نہایت حیران ہو رہا تھا جو مُجھے اِس غیر معمولی پیام بر نے بتایا تھا؛ اُس وقت اپنے غَور و فکر کے دوران میں، اچانک مُجھے معلُوم ہُوا کہ میرا کمرہ پھِر سے مُنوّر ہونا شُروع ہو گیا، اور یوں فوری طور پر وہ ہی آسمانی پیام بر پھِر سے میرے پلنگ کے پاس تھا۔

۴۵ اُس نے اِبتدا کی اور پھِر سے وہی باتیں، ذرا سی بھی تبدیلی کے بغیر بیان کیں جو اُس نے اپنے پہلی بار آنے پر کی تھیں؛ اور جب وہ یہ کر چُکا اُس نے مُجھے اُن بڑی سزاؤں کے بارے میں بتایا جو زمِین پر، قحط، تلوار اور وبا کے سبب بڑی وِیرانی اپنے ساتھ لا رہی تھیں؛ اور کہ یہ شدِید سزائیں دُنیا پر اِس نسل میں آئیں گی۔ جب وہ باتیں بتا چُکا، دوبارہ اُس کا صعُود ہُوا جَیسا پہلے ہُوا تھا۔

۴۶ اِس وقت تک، میرے ذہن پر پڑنے والے نقوش اتنے گہرے تھے کہ میری آنکھوں سے نیند اُڑ گئی تھی، اور مَیں اُن باتوں سے جو مَیں نے دیکھی اور سُنی تھیں، حیرت سے بےخُودی میں تھا۔ لیکن مَیں شُشدر رہ گیا جب مَیں نے اُسی پیام بر کو دوبارہ اپنے پلنگ کے پاس دیکھا، اور اُسے دوبارہ سے پہلے جَیسی وہی باتیں پھِر سے بیان کرتے اور دہراتے سُنا؛ اور مُجھے تنبیہ کی گئی یہ فرما کر کہ شیطان مُجھے آزمانے کی کوشش کرے گا (میرے والِد کے خاندان کے مُفلس حالات کے نتیجے میں)، کہ اَوراق کو دَولت مند ہونے کے طمع کے لیے پاؤں۔ اُس نے مُجھے اَیسا کرنے سے منع کِیا اور یہ فرمایا کہ ضرور ہے کہ میری نظر میں خُدا کی تمجید کے علاوہ اَوراق حاصل کرنے کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اور لازم ہے کہ اُس کی بادِشاہی کے قیام کے علاوہ کسی اور اِرادے سے مُتاثر نہ ہونے پاؤں؛ ورنہ مَیں اُنھیں پا نہ سکُوں گا۔

۴۷ اِس تِیسری زیارت کے بعد پھِر سے آسمان پر اُس کا صعُود ہُوا، اور جِس کا مُجھے ابھی ابھی دِیدار ہُوا تھا اُس کے نرالے پن پر دوبارہ غَور و فکر کے لیے مَیں محو ہوگیا؛ آسمانی پیام بر کے صعود ہونے کے قریب قریب فوراً بعد جب مرغ نے اَذان دی تو مَیں نے جانا کہ دِن ہونے کو تھا، لہذا ہماری دِید شُنید اُس ساری رات جاری رہی تھی۔

۴۸ تھوڑی دیر بعد مَیں اپنے بستر سے اُٹھا، اور حسبِ معمول روز کی ضرورت کے کام نمٹانے چلا گیا؛ مگر جب مَیں نے پہلے کی طرح ہمت لگائی تو مَیں نے دیکھا کہ میری توانائی اِس حد تک کم تھی کہ مَیں کام سراَنجام دینے سے بالکل قاصر تھا۔ میرے والِد نے دیکھا جو میرے ساتھ کام کر رہے تھے کہ میری طبیعت بگڑی ہُوئی ہے، اور مُجھے گھر جانے کے لیے کہا۔ مَیں گھر جانے کی نِیّت سے چلا؛ مگر کھیت سے، جہاں ہم تھے، باہر جانے کے لیے باڑ کو پار کرنے کی کوشش میں میری ہمت بالکل جواب دے گئی، اور مَیں زمِین پر بےبس گِر گیا، اور تھوڑی دیر کے لیے کسی بھی چِیز کا ہوش نہ تھا۔

۴۹ پہلی بات جو مَیں یاد کر سکتا ہُوں، وہ آواز تھی جو مُجھے میرے نام سے پُکار رہی تھی۔ مَیں نے نظریں اُٹھائیں، اور اُسی پیام بر کو اپنے سر سے اُوپر پہلے کی طرح تجلی سے گِھرے کھڑے پایا۔ پھِر اُس نے مُجھ سے وہ سب کُچھ بیان کیا جو اُس نے گُزشتہ رات مُجھے بیان فرمایا تھا، اور مُجھے حُکم دیا کہ اپنے والِد کے پاس جاؤں اور اُسے رویا اور اَحکام کا بتاؤں جو مَیں نے پائے تھے۔

۵۰ مَیں حُکم بجا لایا؛ مَیں کھیت میں دوبارہ اپنے باپ کے پاس گیا، اور سارا مُعاملہ اُسے بیان کِیا۔ اُس نے مُجھے جواب دیا کہ یہ خُدا کی طرف سے تھا، اور مُجھے ہدایت دی کہ جاؤں اور وَیسا کرُوں جَیسا پیام بر نے مُجھے حُکم دیا تھا۔ مَیں کھیت سے نِکلا اور اُس مقام پر گیا جہاں فرِشتے نے مُجھے بتایا تھا کہ اَوراق محفُوظ کیے گئے تھے؛ اور رویا کے اِدراک کی وجہ سے جو مَیں نے اِس کے بارے میں پایا تھا، مَیں نے اُس مقام کو فوراً پہچان لیا جب مَیں وہاں پہنچا۔

۵۱ نیویارک کی اونٹاریو کاؤنٹی کے گاؤں مانچسٹر کے مُضافات میں قابلِ توجہ وسیع و بالا پہاڑی واقع ہے، اور علاقے میں سب سے بُلند ہے۔ اِس پہاڑی کی مغربی سمت، چوٹی کے نزدیک ایک کافی بڑے پتھر کے نیچے، ایک پتھر کے صندُوق میں اَوراق محفُوظ کیے گیے تھے۔ یہ پتھر درمیان میں سے اُوپر کی طرف اُبھرا ہُوا اور کُروی تھا، اور کِناروں کی طرف کُچھ پتلا، اَیسے کہ اُس کا درمیانی حِصّہ زمِین سے اُوپر دِکھائی دیتا تھا، مگر کِنارے ہر طرف سے زمِین میں ملفُوف تھے۔

۵۲ زمِین کھودنے کے بعد، مَیں نے ایک اڑواڑ حاصل کِیا، جِسے مَیں نے پتھر کے کِنارا کے نیچے لگایا، اور تھوڑی کوشش سے اُسے اُوپر اُٹھایا۔ مَیں نے اندر دیکھا، اور واقعی مَیں نے اَوراق، اوریم اور تمیم اور سِینہ بند دیکھے، جَیسا پیام بر نے بتایا تھا۔ وہ صندُوق جِس میں وہ پڑے تھے کسی قسم کے سیمنٹ کی مدد سے پتھروں کو ساتھ رکھ کر بنایا گیا تھا۔ صندُوق کی تہ میں ترچھے طور پر دو پتھر رکھے گئے تھے، اور اِن پتھروں پر اَوراق اور اُن کے ساتھ دُوسری چِیزیں پڑی تھیں۔

۵۳ مَیں نے اُنھیں باہر نِکالنے کی کوشش کی، لیکن پیام بر نے مُجھے منع کِیا، اور مُجھے پھِر سے بتایا گیا کہ اِن کو سامنے لانے کا ابھی وقت نہیں آیا تھا، نہ وہ اُس وقت تک آئے گا جب تک چار برس گُزر نہ جائیں؛ بلکہ اُس نے مُجھے بتایا کہ مَیں اِس مقام پر اُس وقت سے ٹھیک ایک برس کے بعد آؤں، اور کہ وہ مُجھے وہاں مِلے گا، اور کہ مَیں اَیسا اُس وقت تک کرتا رہُوں جب تک اَوراق کو پانے کا وقت نہ آ جائے۔

۵۴ جَیسا مُجھے حُکم دیا گیا تھا، اُس کے مُطابق، مَیں ہر برس کے آخِر میں گیا، اور ہر بار مَیں نے اُسی پیام بر کو وہاں پایا، اور اُس سے اپنی ہر دِید شُنید کے دوران میں اُس کی بابت ہدایت اور فہم پایا کہ خُداوند کیا کرنے والا ہے، اور کیسے اور کس طریقے سے آخِری ایّام میں اُس کی بادِشاہی کا نظام ترتیب دینا ہے۔

جوزف اَیما ہیل سے بیاہ کرتا ہے—وہ مرونی سے سونے کے اَوراق پاتا اور چند حروف کا ترجمہ کرتا ہے—مارٹن ہیرس حروف کو پروفیسر انتھن کو دِکھاتا ہے، جو کہتا ہے، ”مَیں کوئی سر بمُہر کِتاب نہیں پڑھ سکتا۔“ (آیات ۵۵–۶۵۔)

۵۵ چُوں کہ میرے والِد کے مالی وسائل بُہت محدود تھے، ہم اپنے ہاتھوں سے مزدُوری کرنے پر مجبُور تھے، روزانہ کی اَجرت پر مزدُوری کرتے اور بصُورتِ دیگر جَیسا بھی کام ہمیں مِل جاتا۔ کبھی ہم گھر پر ہوتے اور کبھی گھر سے دُور، اور لگاتار محنت سے آسُودہ زِندگی گُزارنے کے قابل تھے۔

۵۶ سن ۱۸۲۳ میں میرے والِد کے خاندان کو میرے سب سے بڑے بھائی اَیلون کی موت کا بُہت صدمہ ہُوا۔ ۱۸۲۵ کے ماہِ اَکتوبر میں عُمر رسیدہ شریف اُلنفس یوسیاہ سٹول نامی کے ہاں مَیں نے ملازمت کر لی، جو نیویارک کی ریاست چنانگو کاؤنٹی میں رہتا تھا۔ اُس نے کسی چاندی کی کان کا سُنا تھا جِسے ہسپانیویوں نے پنسلوانیا کی ریاست کی سسکیوہانا کاؤنٹی کے شہر ہارمونی، میں کھولا تھا؛ اور مُجھے اُجرت پر رکھنے سے پہلے، وہ کان کنی کر رہا تھا کہ شاید کوئی کان دریافت ہو جائے۔ جب مَیں اُس کے ہاں قیام کرنے کے لیے گیا تو اُس نے اپنے باقی کان کنوں کے ہم راہ مُجھے لِیا کہ چاندی کی کان کی کُھدائی کریں، اپنی جدوجہد میں کسی کامیابی کے باوجود، اِس پر مَیں نے تقریباً ایک ماہ لگا تار کام کِیا، اور آخِرکار مَیں نے عُمر رسیدہ شریف اُلنفس کو ترغیب دی کہ اِس کی کُھدائی بند کر دی جائے۔ اِدھر سے اِس بُہت مَقبُول داستان نے فروغ پایا کہ مَیں خزانے تلاش کرنے والا ہُوں۔

۵۷ اپنی ملازمت کے عرصہ میں، مُجھے اُس علاقے کے محترم آئزک ہیل کے ہاں رہائش و طعام کے لیے بھیجا گیا؛ وہاں پر مَیں نے پہلی بار اپنی ہونے والی اَہلیہ، ایما ہیل، (اُس کی بیٹی) کو دیکھا۔ مَیں ابھی محترم سٹول کے ہاں ملازم تھا جب کہ ہمارا بیاہ ۱۸ جنوری ۱۸۲۷ کو ہو گیا۔

۵۸ میرے لگاتار زور دینے کی وجہ سے کہ مَیں نے رویا دیکھی تھی، ایذارسانی ابھی تک میرا پِیچھا کرتی تھی، اور میری ہونے والی بیوی کے والِد کا خاندان ہمارے بیاہ کے سخت خِلاف تھا۔ اِس لیے، مَیں مجبُور تھا کہ اُسے کہیں اور لے جاؤں؛ سو ہم جج ٹاربِل کے گھر، جنُوبی بین برج، چنانگو کاؤنٹی، نیویارک گئے اور وہاں رسمِ نکاح طے پائی۔ اپنے بیاہ کے فوراً بعد مَیں نے محترم سٹَول کو خیرباد کہا اور اپنے والِد کے ہاں گیا، اور اُس عرصے کے دوران میں اُس کے ساتھ کھیتی باڑی کرنے لگا۔

۵۹ آخِر کار اَوراق، اوریم اور تمیم، اور سِینہ بند حاصل کرنے کا وقت آ گیا۔ آٹھارہ سو ستائیس کے ستمبر کے بائیسویں روز، مزید ایک برس کے آخِر میں حسبِ معمول اُس مقام پر پُہنچا جہاں وہ محفُوظ کیے گئے تھے، اُسی پیام بر نے اُنھیں اِس اعتبار کے ساتھ میرے حوالے کِیا: کہ مَیں اُن کا مُحافظ ہُوں گا؛ کہ اگر مَیں لاپروائی سے یا اپنی کسی غفلت کی وجہ سے اُنھیں کھو دُوں، مَیں کاٹ ڈالا جاؤں گا؛ لیکن اگر مَیں اپنی ساری کوششیں اُن کے تحفظ پر صرف کرُوں، جب تک وہ پیام بر اُن کو واپس نہ لے لے، تو اُنھیں محفُوظ رکھا جائے گا۔

۶۰ مُجھے وجہ جلد معلُوم ہو گئی کہ کیوں اِن کی حفاظت کے لیے اِتنے سخت اَحکام نازِل ہُوئے تھے، اور اَیسا کیوں تھا کہ پیام بر فرما چُکا تھا کہ جو میرے ہاتھ سے مطلُوب ہے اُس کی تکمیل ہونے پر وہ اُنھیں واپس لے جائے گا۔ کیوں کہ جُونہی یہ بات عام ہُوئی کہ وہ میرے پاس ہیں، فوراً اُنھیں مُجھ سے ہتھیانے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں۔ اِس منصُوبے کو پُورا کرنے کے لیے ہر حربہ جو تیار کِیا جا سکتا تھا آزمایا گیا۔ اِیذا رسانی پہلے کی نسبت مزید شدِید اور سخت ہو گئی، اور کئی ہجوم مُمکِنہ طور پر اُنھیں مُجھ سے حاصل کرنے کے لیے میری گھات میں رہتے تھے۔ لیکن خُدا کے فضل سے وہ میرے ہاتھوں میں محفُوظ رہے، جب تک مَیں وہ اَنجام نہ دے دُوں جو میرے ہاتھ سے مطلُوب تھا۔ جب، بندوبست کے مُطابق، پیام بر اُنھیں لینے آیا، مَیں نے وہ اُس کے حوالے کر دیے؛ اور آج کے دِن تک وہ اُس کی تحویل میں ہیں، جو کہ، اَٹھارہ سو اَڑتیس، مئی کا دُوسرا روز ہے۔

۶۱ تاہم شورش پھِر بھی برقرار رہی، اور اَفواہ اپنی ہزار زبانوں کے ساتھ، میرے باپ کے خاندان کی بابت اور میری بابت، جُھوٹ پھیلانے کے لیے ہر وقت مصرُوف تھی۔ اگر مَیں اُن کا ہزارواں حِصّہ بھی بیان کرُوں تو کئی جِلدیں بھر دے۔ اِیذارسانی، تاہم، اتنی ناقابلِ برداشت ہوگئی کہ مَیں مجبُور ہو گیا تھا کہ مانچسٹر چھوڑ دُوں اور اپنی بیوی کے ساتھ سسکیوہانا کاؤنٹی، پنسلوانیا کی ریاست مَیں چلا جاؤں۔ جب ہم جانے کی تیاری کر رہے تھے—ہم بُہت غریب تھے، اور اِیذارسانی ہم پر اتنی بھاری تھی کہ کوئی اِمکان نہ تھا کہ ہمارے لیے کوئی دُوسری صُورت نِکلتی—اپنی ایذارسانیوں کے دوران میں ہم نے ایک شریف اُلنفس اِنسان بنام مارٹن ہیرس کی صُورت میں دوست پایا، جو ہمارے پاس آیا اور مُجھے ہمارے سفر میں معاونت کے لیے پچاس ڈالر دیے۔ محترم ہیرس پالمائرہ ٹاؤن شپ، وین کاؤنٹی، نیویارک کی ریاست کا رہایشی تھا، اور معزز کِسان تھا۔

۶۲ اِس بروقت اِمداد کے باعث مَیں پنسلوانیا میں اپنی منزلِ مقصُود تک پُہنچنے کے قابل ہُوا؛ اور وہاں اپنی آمد کے فوراً بعد مَیں نے اَوراق سے حرُوف نقل کرنا شُروع کیے۔ مَیں نے کافی تعداد میں اُن کی نقل نویسی کی، اَور اوریم اور تمیم کے وسِیلے سے مَیں نے اُن میں سے چند ایک کا ترجمہ کِیا، اِن کا مَیں نے اپنی اَہلیہ کے والِد کے گھر پر دسمبر کے مہینے میں اپنی آمد اور اگلی فروری کے دوران میں کِیا۔

۶۳ فروری کے اِس مہینے میں کسی وقت، مذکُورہ بالا محترم مارٹن ہیرس ہمارے گھر آئے، وہ حرُوف اپنے ساتھ لیے، جِنھیں مَیں نے اَوراق سے نقل کِیا تھا، نیویارک شہر کو روانہ ہُوا۔ پھِر اُس پر اور اُن حرُوف پر کیا بِیتی، مَیں اُس کی آپ بِیتی کا حوالہ دیتا ہُوں، جَیسا اُس نے اپنی آمد کے بعد مُجھے بتایا، جو اِس طرح درج ذیل تھا:

۶۴ ”مَیں نیویارک شہر گیا، اور حرُوف جِن کا ترجمہ ہو چُکا تھا، اُن کے ترجمے کے ساتھ پروفیسر چارلس انتھن کو دیا، ایک معزز شخص جو اپنی اَدبی کامرانیوں کے باعث نام ور تھا۔ پروفیسر انتھن نے بیان دیا کہ ترجمہ صحیح تھا، اُن مِصری ترجموں سے کہیں زیادہ جو اُس کی نظروں سے پہلے گُزر چُکے تھے۔ پھِر مَیں نے اُسے وہ دِکھائے جِن کا ابھی ترجمہ نہیں ہُوا تھا، اور اُس نے کہا کہ وہ مِصری، کسدی، اسوری، اور عربی تھے؛ اور اُس نے کہا کہ وہ حقیقی حرُوف تھے۔ اُس نے مُجھے ایک سنّد دی، جو پالمائرہ کے لوگوں کے لیے تصدیق تھی کہ وہ حرُوف حقِیقی تھے، اور کہ اُن میں سے جِن کا ترجمہ کِیا جا چُکا تھا وہ ترجمہ بھی دُرست تھا۔ مَیں نے وہ سنّد لی اور اپنی جیب میں رکھی، اور جُونہی گھر سے نِکلنے لگا، اُسی وقت محترم انتھن نے مُجھے واپس بُلایا اور مُجھ سے پُوچھا کہ اُس نوجوان آدمی کو عِلم کیسے ہُوا کہ وہاں پر سونے کے اَوراق ہیں جہاں پر اُس نے اُن کو پایا تھا۔ مَیں نے جواب دیا کہ خُدا کے فرِشتے نے اُس پر آشکار کِیا تھا۔

۶۵ ”اُس نے پھِر مُجھ سے کہا، ’مُجھے وہ سنّد دِکھانا۔‘ نتیجتاً مَیں نے وہ اپنی جیب سے نِکالی اور اُسے دے دی، اور پھِر اُس نے اُسے پکڑا اور پھاڑ کر یہ کہہ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دی، کہ اب فرِشتوں کی خدمت گُزاری جَیسی کوئی چِیز نہ تھی، اور کہ اگر مَیں اَوراق اُس کے پاس لاؤں تو وہ اُن کا ترجمہ کرے گا۔ مَیں نے اُسے مطلع کِیا کہ اَوراق کا حِصّہ مہر کِیا ہُوا تھا، اور مُجھے اُنھیں ساتھ لانے سے منع کِیا گیا تھا۔ اُس نے جواب دیا، ’مَیں مُہر کی ہُوئی کِتاب نہیں پڑھ سکتا۔‘ مَیں اُس سے رُخصت ہُوا اور ڈاکٹر مِچل کے پاس گیا، جِس نے اُس کی تصدِیق کی جو پروفیسر انتھن نے، دونوں، حرُوف اور ترجمہ کے بارے میں کہا تھا۔“

· · · · · · ·

اولیور کاؤڈری مورمن کی کِتاب کے ترجمہ میں کاتب کی حیثیت سے خدمت کرتا ہے—جوزف اور اولیور، یُوحنّا بپتسما دینے والے سے ہارُونی کہانت پاتے ہیں—وہ بپتسما لیتے، تَقرُّری پاتے اور نبُوّت کی رُوح قبُول کرتے ہیں۔ (آیات ۶۶–۷۵۔)

۶۶ اَپریل کے پانچویں روز، ۱۸۲۹ کو، اولیور کاؤڈری میرے گھر آیا، اِس سے پہلے مَیں نے اُسے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اُس نے مُجھ سے تذکرہ کِیا کہ وہ اُس علاقے کے سکُول میں پڑھاتا تھا جہاں میرا والِد رہتا تھا، اور چُوں کہ میرا باپ اَیسوں میں سے تھا جو بچّوں کو سکول بھیجتے تھے، وہ اُس کے ہاں کُچھ عرصہ قیام کرنے کے لیے اُس کے گھر گیا، اور وہاں پر خاندان نے میرے اَوراق حاصل کرنے کے حالات کا ذِکر اُس سے کِیا، اور اُس کی بِنا پر وہ مُجھ سے سوال پُوچھنے کے لیے آیا تھا۔

۶۷ جناب کاؤڈری کے آنے کے دو روز بعد (اور یہ اَپریل کی ۷ تھی) مَیں نے مورمن کی کِتاب کا ترجمہ شُروع کِیا، اور اُس نے میرے لیے لِکھنا شُروع کِیا۔

· · · · · · ·

۶۸ ہم نے ترجمے کا عمل پیہم جاری رکھا، اور اُس دوران میں، اَگلے ماہ (مئی ۱۸۲۹) ہم کسی طے شُدہ دِن پر جنگل میں دُعا کرنے اور گُناہوں کی مُعافی کے بپتسما کی بابت خُداوند سے دریافت کرنے گئے، جِس کا ہم نے اَوراق کے ترجمہ میں ذِکر پایا۔ جب ہم دُعا کرنے اور خُداوند کو پُکارنے میں، یُوں مشغُول تھے، کہ آسمان سے ایک پیام بر نُور کے بادِل میں اُترا، اور اپنے ہاتھ ہم پر رکھنے کے بعد اُس نے ہمیں یہ کہہ کر مُقرّر کِیا:

۶۹ تُم پر میرے ہم خدمت گزارو، ممسُوح کے نام پر مَیں ہارُون کی کہانت عطا کرتا ہُوں، جِس کے پاس فرِشتوں کی خدمت گُزاری، اور توبہ کی اِنجِیل، اور گناہوں کی مُعافی کے لیے غوطے کے بپتسما کی کُنجیاں ہیں؛ اور اب یہ زمِین سے دوبارہ کبھی بھی اُٹھائی نہ جائے گی، جب تک لاوی کے بیٹے دوبارہ خُداوند کے حُضُور راست بازی میں نذر نہیں گُزرانتے۔

۷۰ اُس نے کہا، یہ ہارُونی کہانت رُوحُ القُدس کی نعمت عطا کرنے کے لیے ہاتھوں کے رکھے جانے کی قُدرت نہیں رکھتی، بلکہ یہ ہم پر اِس کے بعد عطا ہو گی؛ اور اُس نے ہمیں حُکم دیا کہ جائیں اور بپتسما پائیں، اور ہمیں ہدایات دیں کہ مَیں اولیور کاؤڈری کو بپتسما دُوں، اور کہ اُس کے بعد وہ مُجھے بپتسما دے۔

۷۱ اُس کے مُطابق ہم گئے اور بپتسما پایا۔ مَیں نے پہلے اُسے بپتسما دیا، اور اُس کے بعد اُس نے مُجھے بپتسما دیا—اُس کے بعد مَیں نے اپنے ہاتھ اُس کے سر پر رکھے اور اُسے ہارُونی کہانت میں مقرر کِیا، اور اُس کے بعد، اُس نے میرے سر پر ہاتھ رکھے اور مُجھے اِسی کہانت میں مقرر کِیا—کیوں کہ اَیسا کرنے کا ہمیں حُکم دیا گیا تھا۔*

۷۲ وہ پیام بر جو اِس موقع پر ہمارے پاس آیا اور یہ کہانت ہمیں عطا کی، اُس نے فرمایا کہ اُس کا نام یُوحنّا تھا، وہی جو نئے عہدنامے میں یُوحنّا بپتسما دینے والا کہلاتا ہے، اور کہ وہ پطرس، یعقوب اور یُوحنّا کے زیرِ ہدایت کام کر رہا تھا جو ملکِ صدق کی کہانت کی کُنجیوں کے حامِل تھے، جو کہانت، اُس نے کہا، مُقرّرہ وقت پر ہمیں عطا کی جائے گی، اور کہ مَیں کلِیسیا کا پہلا بُزرگ کہلاؤں اور وہ (اولیور کاؤڈری) دُوسرا۔ یہ مئی، ۱۸۲۹ کے پندرھویں روز رُونما ہُوا کہ ہم اِس پیام بر کے ہاتھ تلے مُقرّر ہُوئے اور بپتسما پایا۔

۷۳ ہمارے بپتسما پا کر پانی سے باہر آنے کے فوراً بعد، ہمیں آسمانی باپ کی طرف سے عظیم اور جلالی برکات کا تجربہ ہُوا۔ جَیسے ہی مَیں نے اولیور کاؤڈری کو بپتسما دیا، تب رُوحُ القُدس اُس پر نازِل ہُوا، اور وہ کھڑا ہُوا اور بُہت سی باتوں کی نبُوّت کی جو جلد ہونے کو تھیں۔ اور پھِر، جَیسے ہی مُجھے اُس نے بپتسما دیا، مُجھے بھی نبُوّت کی رُوح مِلی، اور تب، کھڑے ہو کر مَیں نے اِس کلِیسیا کے عرُوج اور کلِیسیا سے مُتعلّق بُہت سی دُوسری باتوں، اور بنی آدم کی اِس نسل کے بارے میں نبُوّت کی۔ ہم رُوحُ القُدس سے بھرے تھے، اور اپنی نجات کے خُدا میں شادمان ہُوئے۔

۷۴ اب ہمارے ذہن مُنوّر ہو گئے، صحائف ہماری عقلوں پر کھُلنا شُروع ہُوئے، اور اُن کے زیادہ بعیدالفہم حِصّوں کا اَصل مطلب اور تاکید اِس طریقے سے ہم پر آشکار ہُوئی جو ہم پہلے کبھی پا نہ سکے تھے، نہ ہی پہلے کبھی اِس کا خیال آیا تھا۔ اِس دوران میں ہمیں تاکید فرمائی گئی کہ ہم کہانت پانے، اور اپنے اپنے بپتسما لینے کے حالات و واقعات کو، ایذارسانی کے سلُوک کی وجہ سے پوشِیدہ رکھیں، جِس نے پہلے ہی خُود کو ہمارے علاقے میں ظاہر کر دیا تھا۔

۷۵ ہمیں وقتاً فوقتاً، جتھوں کے حملہ آور ہونے کی دھمکیاں مِلتی رہیں، اور یہ بھی عُلمائے دین سے۔ اور اُن کے جتھوں کے ساتھ مِل کر حملہ آور ہونے کے منصُوبے صرف میری زوجہ کے والِد کے خاندان کے اثر و رسُوخ (خُدا کی شفقت کے تحت) کی وجہ سے ناکام ہُوئے، وہ مُجھ پر بُہت مہربان تھے، اور جتھوں کے خِلاف تھے، اور رضامند تھے کہ مُجھے ترجمے کا فرض بغیر کسی خلل اندازی کے پُورا کرنے کی اِجازت دی جائے؛ اور اِس لیے وہ آگے آئے اور تمام غیرقانونی اِقدامات کے خِلاف ہمیں تحفُظ دینے کا وعدہ کِیا، جِس حد تک اُن کی پہنچ تھی۔

  • اولیور کاؤڈری اِن واقعات کو یُوں بیان کرتا ہے: ”یہ ناقابلِ فراموش ایّام تھے—ایک اَیسی آواز کی صدا تلے بیٹھنا جو آسمان کے اِلہام کے وسِیلے سے کلام کرتی ہو، اِس سِینے میں بےحد شُکر گُزاری کو بیدار کرتی ہو! روز بروز، مَیں بغیر کسی خلل کے اُس کے مُنہ سے تارِیخ یا سرگزشت کو جو ’مورمن کی کِتاب ‘ کہلاتی ہے لِکھتا رہا، جب وہ اوریم اور تمیم، یا جَیسے نیفیوں نے ’ترجمان‘ کہا ہوگا، کی مدد سے ترجمہ کرتا تھا۔

    توجہ کرنا، مورمن اور اُس کے وفادار بیٹے مرونی کے دیے ہُوئے دِلچسپ بیان، اَیسے لوگوں کا جو کسی زمانے میں آسمان کے محبُوب اور مَقبُول تھے، کا حوالہ صرف چند لفظوں میں دینا، میرے حالیہ موضوع سے بڑھ کر ہو گا؛ اِس لیے مَیں اِسے آیندہ کے لیے رکھ چھوڑتا ہُوں، اور جَیسا مَیں نے تعارف میں کہا، چند واقعات کے بار ے میں لِکھوں گا جو اِس کلِیسیا کے عرُوج کی بابت گہرے طور سے وابستہ ہیں، جو شاید چند ہزار کے لیے دِلچسپی کا باعث ہو جِنھوں نے متَعَصُّبیوں کی خفگی اور ریاکاروں کے بُہتان کے بِیچ میں قدم آگے بڑھایا، اور مسِیح کی اِنجِیل کو گلے لگایا۔

    ”کوئی اِنسان اپنے ہوش و حواس کے ساتھ نجات دہندہ کے مُنہ سے نیفیوں کے لیے نِکلی ہُوئی ہدایات کا ترجمہ اور کِتابت نہیں کر سکتا تھا، عین اُس طریق پر جِس کے تحت اِنسان کو اُس (نجات دہندہ) کی کلِیسیا کو تعمیر کرنا چاہیے، اور خاص طور پر جب بدعنوانی نے بےیقینی ہر اُس اِدارے اور نظام میں پھیلا دی ہو جہاں جہاں اِنسان فرائض انجام دیتے تھے، کسی معاوضے کی آرزُو کیے بغیر مائع قبر میں دفن ہونے سے دِلی رضامندی کا اِظہار کرنا، یِسُوع مسِیح کے جی اُٹھنے کے وسِیلے سے نیک نیت کی طلب مُراد ہے۔‘

    ”اِس براعظم پر یعقوب کی نسل کے بقیہ کے واسطے نجات دہندہ کی خدمت کے واقعہ کو لِکھنے کے بعد، اُس کو دیکھنا آسان ہوگیا تھا، جِس کا نبی نے فرمایا تھا کہ اَیسا ہُوا، کہ تارِیکی زمِین پر چھا گئی اور تِیرگی اُمتوں کے ذہنوں پر۔ اِس پر مزید غَور کر کے دیکھنا آسان ہوگیا تھا کہ مذہب کے مُتعلّق بڑے بڑے جھگڑوں اور شور شرابوں کے دوران میں کسی کے پاس اِنجِیل کی رُسُوم اَدا کرنے کے لیے خُدا کی طرف سے اِختیار نہ تھا۔ پَس یہ سوال پُوچھا جا سکتا تھا، کیا اِنسان کے پاس مسِیح کے نام پر خدمت کرنے کا اِختیار ہے، کون مُکاشفوں کا اِنکار کرتا ہے، جب کہ اُس کی گواہی نبُوّت کی رُوح سے کم نہیں، اور اُس کے مذہب کی نیؤ، قیام، اور اِستحکام براہ راست مُکاشفوں پر ہے، دُنیا کے ہر زمانے میں جب بھی اُس کی اُمت زمِین پر تھی؟ اگر اِن حقائق کو دفنا دیا گیا ہوتا، اور جِن لوگوں کا فریب خطرے میں پڑ گیا تھا، مکاری سے اِسے چُھپا دیا ہوتا، اگر ایک بار آدمیوں کے سامنے روشن ہونے کا موقعہ مِلے تو، آگے کو وہ ہمارے لیے مدفون نہ ہوتے، اور ہم صرف یہی حُکم پانے کے مُنتظر ہوتے، ”اُٹھو اور بپتسما پاؤ۔“

    ”اِس میں زیادہ دیر نہ ہُوئی تھی کہ ہمیں یہ اَحساس ہُوا۔ خُداوند جو رحم میں دھنی ہے، اور حلیم لوگوں کی مُسلسل دُعا کا جواب دینے میں ہمیشہ راضی ہوتا ہے۔ لوگوں کے گھروں سے دُور ہم نے عقیدت مندانہ طریقے سے اُسے پُکارا جس کے بعد ہم پر اپنی ظاہر کر کے اُس نے اپنا کرم دِکھایا۔ اچانک، جَیسے کہ اَبدیّت کے بِیچ سے، مُخلصی دینے والی کی آواز نے ہم پر سلامتی بھیجی، جب پردہ کُھلا تھا اور خُدا کا فرِشتہ، جلال میں مُلبّس نِیچے آیا، اور وہ پیغام دیا جِس کا بےچینی سے اِنتظار تھا، اور توبہ کی اِنجِیل کی کُنجیاں بھی۔ کیا شادمانی! کیا عجب انگیزی! کیا حیرت خیزی! جب دُنیا تکلیف میں اور بدحواسی میں تھی—جب لاکھوں یُوں ٹٹولتے تھے جَیسے اندھے دیوار کو، اور جب تمام آدمی ایک عام ہجوم کی طرح بےیقینی پر اِنحِصار کرتے تھے، ہماری آنکھوں نے دیکھا، اور ہمارے کانوں نے سُنا، جَیسے کہ ’دِن کی پُوری روشنی میں؛ ہاں، مزید—مئی میں سُورج کی تاب ناک کِرنوں سے زیادہ چمک دار، جِس نے پھِر اپنا نُور فِطرت کے چہرے پر پھیلا دیا! پھِر اُس کی آواز، گو کہ دھیمی، دِل کے آر پار ہوگئی اور اُس کے کلمات، ’مَیں تُمھارا ہم خدمت ہُوں‘ نے ہر خَوف کو دُور کر دیا۔ ہم نے سُنا، ہم نے شوق سے دیکھا، ہم نے ستایش کی! یہ جلال سے ایک فرِشتے کی آواز تھے، یہ حق تعالیٰ کی طرف سے پیغام تھا! اور جب ہم سُنتے تھے ہم شادمان ہوتے تھے، جب اُس کے پیار نے ہماری جانوں کو جلا بخشی، اور قادرِ مُطلق کی رویا نے ہمیں لپیٹ لیا! شک کے لیے جگہ کہاں تھی، کہیں بھی نہیں؛ بےیقینی بھاگ گئی تھی، شک پھِر نہ طلُوع ہونے کے لیے ڈُوب گیا تھا، اَفسانہ اور دھوکا ہمیشہ کے لیے بھاگ گئے تھے!

    ”بلکہ، پیارے بھائی، سوچ، ایک لمحے کے لیے مزید سوچ، کس قدر خُوشی نے ہمارے دِلوں کو بھرا، اور کِس حیرانی سے ہم ضرور سجدہ ریز ہُوئے ہوں گے (بھلا کون اَیسی برکت کے لیے گُھٹنا نہ جُھکاتا؟)جب ہم نے اُس کے ہاتھ تلے مُقَدَّس کہانت پائی جب اُس نے کہا، ’تُم پر میرے ہم خدمت گُزارو، ممسُوح کے نام پر مَیں یہ کہانت اور کہ اِختیار عطا کرتا ہُوں، جو زمِین پر رہے گا کہ لاوی کے بیٹے اب بھی خُداوند کے لیے راست بازی میں نذر گُزران سکیں!‘

    ”مَیں تیرے واسطے اِس دِل کے جذبات کی تصویر کشی کی سعی نہ کرُوں گا، نہ اُس پُروقار حُسن اور جلال کی جِس نے اِس موقع پر ہمیں گھیرا تھا؛ بلکہ تُو میرا یقین کر جب مَیں کہتا ہُوں کہ نہ دُنیا، نہ اِنسان، نہ زمانہ فصاحت و بلاغت کے ساتھ، اَیسی زبان کو اَیسے حسِین و جمِیل اور پُرشکوہ طریقے سے مُلبّس کرنا شُروع کر سکتے ہیں جَیسا اِس پاک شخصیت نے کِیا۔ نہیں؛ نہ اِس زمِین میں قُدرت ہے کہ خُوشی دے، یا امن عطا کرے، یا حِکمت کو سمجھے جو ہر فقرے میں شامل تھی جب وہ رُوحُ القُدس کی قُدرت سے عطا کیے جا رہے تھے! اِنسان دُوسرے اِنسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے، دھوکا دھوکے کی پیروی کر سکتا ہے، اِبلِیس کے بچّوں کے پاس طاقت ہو سکتی ہے کہ احمقوں اور لاعِلموں کو بہکا سکیں، چُوں کہ اَفسانہ بُہت سوں کی پرورِش کرتا ہے، اور جُھوٹ کا پھل اپنے بہاؤ میں من موجیوں کو قبر تک لے جاتا ہے؛ بلکہ، اِس کے پیار کی اُنگلی کا ایک لمس، ہاں، عالمِ بالا سے جلال کی ایک کِرن، یا نجات دہندہ کے مُنہ سے ایک کلمہ، اَبَد کے سِینے سے اِن سب کو ٹھوکر مار کر بےمعنی کر دیتا ہے، اور ہمیشہ کے لیے اِسے دماغ سے مِٹا دیتا ہے۔ یہ یقین دہانی کہ ہم ایک فرِشتے کی حُضُوری میں تھے، یہ حقِیقت کہ ہم نے یِسُوع کی آواز سُنی، اور، خُدا کی مرضی کے زیر ہدایت آلودگی سے پاک سچّائی جَیسے وہ پاکِیزہ ہستی سے بہتی تھی، میرے لیے بیان سے باہر ہے، اور مَیں ہمیشہ تک جب تک مُجھے ٹھہرے رہنے کی اِجازت ہے نجات دہندہ کی اِس نیکی کو ہمیشہ تعجب اور شُکرگُزاری سے دیکُھوں گا؛ اور اُن مکانوں میں جہاں کامِلیت بستی ہے اور گُناہ کبھی نہیں گُھس آتا، مَیں اُمید کرتا ہُوں کہ اُس دِن مَیں عِبادت کرُوں جو کبھی نہ ختم ہو گا۔“ Messenger and Advocate جلد ۱ (اَکتوبر ۱۸۳۴)، صفحات ۱۴–۱۶۔