کرسمس کی عِبادات
اپنی روٹی کے ٹکڑے بکھیرتے رہنا


اپنی روٹی کے ٹکڑے بکھیرتے رہنا

میرے عزیز بھائیو اور بہنو، عزیز دوستو، میں آپ تک اپنے عزیز نبی صدر تھامس   ایس۔ مانسن کی تسلیمات اور برکات لے کر آیا ہوں۔ کرسمس کے اس وقت اور ہمیشہ وہ آپ کی دعاوں اور پیار کے لیے شکر گزار ہیں۔

میں ہمیشہ سے سال کے اِس وقت کو پسند کرتا ہوں۔ صدارتی مجلسِ اعلیٰ کے ساتھ یہ عبادت بشمول میرے خاندان کے، بہت سارے لوگوں کے لیے عزیز روایت بن گئی ہے۔ ہم ٹیمپل سکوائر کےآرکسٹرا اور مورمن ٹیبرنیکل کوائر کی بہترین ناقابلِ موازنہ موسیقی سے کرسمس کا آغاز کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔ پیغامات اور موسیقی کرسمس کے وقت کی روح کو جِلا بخشتی ہے اور ہمیں اُس گہری اہمیت کی یاد بھی دلاتی ہے کہ ہم کرسمس کیوں مناتے ہیں۔

جرمنی میں کرسمس

میرے بچپن کے اوائل میں کرسمس کی میری خواہشوں میں موسمِ سرما کی خوبصورتی بھی شامل ہوتی تھی۔ میرے لیے اس خوبصورتی کا مطلب، خنک ہوا، نیلا آسمان، اور سفید برف کی موٹی تازہ تہہ، تھا۔ اِس کی بجاے ،اکثر موسم سردیوں کے بارے میں میرے جادوئی خوابوں سے یکسر مخلتف ہوتا تھا، سیاہی مائل دھندلا آسمان، آدھی پگھلی گیلی برف، حتیٰ کہ بارش بھی ہوا کرتی تھی۔

تاہم کرسمس کے دن سے پہلے کی شام، ہماری ماں ہمیں سردیوں کے گرم کپڑے پہناتی تھی اور ہمارےابو اپنے قصبے کی گلیوں میں سیر کے لیے ہمیں لے جاتے تھے۔

ہمیں اس سالانہ سیر کا اصل مقصد پتہ تھا—ماں کو کرسمس ٹری سجانے، اُس کے نیچے تحفے رکھنے اور مقدس شام کے لیے دیوان خانے کو تیار کرنے کے لیے وقت جو چاہیے تھا۔ ہم اس سیر کو مختصر بنانے کے لیے پر حربہ استعمال کرتے تھے۔ لیکن ابو اپنی قوتِ تخلیق سے ایک اور چکر یا ایک اور موڑ کا اضافہ کر کے ماں کو مطلوبہ وقت مہیا کر دیا کرتے تھے۔

اُن دنوں میں زویکا (Zwickau) کی گلیاں شام میں کافی اندھیری ہوا کرتی تھیں۔ یہ دوسری جنگِ عظیم کے کچھ ہی بعد کی بات ہے اور اُس وقت سڑک پر روشنیاں کم ہی ہوتی تھیں۔ کچھ ہی دکانیں کھلی تھیں اور کچھ بمباری کا نشانہ بنے گھروں کے ساتھ تھیں جن سے اب بھی جنگ کی عجیب سی بو آتی تھی۔

اِس سیر کا ایک حصہ ہمیں بہت پسند تھا—زویکا کے بیچوں بیچ گرجا گھر کے پاس رُک کر کرسمس کے خوبصورت گیت اور آرگن کی شاندار آواز سننا؛ جو کرسمس کے دن سے پہلے کی شام … ہمیشہ بجتا تھا۔ کسی طور سے یہ موسیقی ہمارے شہر کی مدہم روشنیوں کو — گویا چمکتے تاروں کی طرح — چکاچوند کر دیتی تھی اور ہمارے کمسن دلوں میں توقعات کی شاندار روح پھونک دیتی تھی۔

جب ہم واپس پہنچتے تو ماں اپنی تیاریاں ختم کر چکی ہوتی تھی، اور ہم قطار بنا کر باری باری نئے سجائے ہوئے سرو نما درخت دیکھنے جاتے تھے۔ اُن دنوں درخت مشکل ہی سے ملتے تھے اور جو کچھ ملتا تھا ہم لے آتے تھے۔ بعض دفعہ ہمیں درخت میں بہت سی شاخوں کا اضافہ کرنا پڑتا تھا تا کہ وہ واقعی درخت کی طرح نظر آئے۔ لیکن میری کم عمر آنکھوں کوکرسمس ٹری ہمیشہ پُر شکوہ دکھائی دیتا تھا۔

موم بتی کی ٹمٹماتی روشنی کمرے میں پُر اسرار بلکہ سحر انگیز دمک لے آتی تھی۔ ہم بڑے اشتیاق اور خوشی سے درخت کے نیچے رکھے تحائف کو دیکھ کر امید کرتے کہ ہماری دلی خواہش پوری ہو۔

تحفے ملنے کی خوشی، تحفے دینے کے جوش کے تقریبا برابر ہوا کرتی تھی۔ اکثر یہ تحفے ہاتھ کے بنے ہوتے تھے۔ ایک سال جب میں بہت چھوٹا تھا، تو میرے بھائی کے لیے میرا تحفہ، اُس کی تصویر تھی جو میں نے ہاتھ سے بنائی تھی۔ اپنے بنائے اِس شاہکار پر مجھے بہت فخر تھا۔ اور وہ شکر گزاری اور تعریف کرنے میں بہت مہربان اور رحیم تھا۔

میں مشرقی جرمنی میں اپنے بچپن کی یادوں کو ہمیشہ اپناسرمایہ سمجھوں گا۔

بے انتہا محبت

اس دنیا کی مختلف ثقافتوں اور قوموں میں کرسمس کی روایات شاندار اور نرالے انداز میں منائی جاتی ہیں۔ وہ سب خوبصورت اور شاندار، اور دوسروں سے مختلف ہیں۔

لیکن اُن سب میں ایک یکساں احساس ہے، ایک یکساں روح ، جب بھی ہم اپنےمسیح بادشاہ، اپنے غمخوار ، اپنی ڈھارس، اسرائیل کے غم گسار کی تسلی، کی پیدائش مناتے ہیں تو یہ موجود رہتی ہیں۔

اس احساس کو بیان کرنے کے لیے بہت سےالفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں: خوشی، امید، اشتیاق، مسرت۔ جسے ہم ”کرسمس کی روح“ کہتے ہیں، یہ الفاظ اُس کے کسی ایک حصے کی عکاسی کرتےہیں۔

میرے نزدیک ایک لفظ کرسمس کے وقت ملنے والے احساس کو بہترین طور پر بیان کرتا ہے، وہ لفظ محبتہے۔

آخر کار، جس تحفے کو ہم کرسمس پر مناتے ہیں وہ محبت کا تحفہ ہے—خُدا کی طرف سے اپنے بیٹے کا تحفہ۔ ”جو محبت خُدا کو ہم سے ہے وہ اس سے ظاہر ہوئی کہ خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دینا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اُس کے سبب سے زندہ رہیں۔ مبحت یہ ہے۔“1

اُس پیار کے چھوئے جانے سے دل موم ہوتے ہیں۔ ہم نرمی کا احساس پاتے ہیں جس کے سبب ہم دوسروں کے لیے شفقت اور مہربانی محسوس کرتے ہیں۔

کرسمس ہمیں تحریک بخشتا ہےکہ بہتر طور پر محبت دکھائیں۔

یہ کہتے ہوئے بھی میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ لفظ محبت ناکافی ہے۔ دوسری کئی زبانوں کی طرح انگریزی زبان میں بھی ”محبت“ کے کئی معنی ہیں۔ مثال کے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے موسم سے ”محبت“ ہے۔ یا مجھے تمہارے نئے کپڑوں سے ”محبت“ ہے، میں یہ بھی کہہ سکتاہوں کی مجھےٹینس کی گیند والے ڈبے کی خوشبو سے ”محبت“ ہے۔

لیکن جس محبت کی بات میں کر رہا ہوں وہ اس سے کہیں گہری ہے۔ محبت کے بارے میں ہمارا فانی فہم وسیع ساحلِ سمندر پر ریت کے ایک زرے کی طرح ہے۔

اُس کی محبت لا محدود اور لازوال رحم ہے۔ الہی محبت ابدیت کو معمور کرتی ہے۔ یہ الہی فضل سے لبریز ہے۔ یہ ہاتھ بڑھاتی اور سرفراز کرتی ہے۔ یہ معاف کرتی ہے۔ یہ برکت دیتی ہے۔ یہ مخلصی دیتی ہے۔

الہی محبت شخصیت، تہذیب اور اعتقادات سے ماورا ہے۔ یہ راحت،پہنچانے رحم کرنے، اور دوسروں کو سمجھنے کی راہ میں حائل بدگمانی، تعصب اور ایک دوسرے کو نہ سمجھنے کی نفی کرتی ہے۔ یہ ستانے، تفریق برتنے اور تکبر سے خالی ہے۔ الہی محبت ہمیں وہ کچھ کرنے کی تحریک بخشتی ہے جو یسوع نے کیا: ”کہ کمزوروں کی مددکریں، کمزور ہاتھوں کو اٹھائیں، اور کمزور گھٹنوں کو تقویت بخشیں“2

یہی وہ محبت ہے جس کی ہمیں جستجو کرنی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر یہی ہماری امتیازی خصوصیت ہونی چاہیے۔

ممکن ہے کہ اس زندگی میں ہم الہی محبت کی مکمل طور پر نمو نہ کر سکیں، لیکن کبھی بھی ہمیں کوشش ختم نہیں کر دینی چاہیے۔ لیکن اگر سال کاکوئی وقت ہے جس میں ہم اس کے قریب تر ہوتے ہیں تو وہ کرسمس کا وقت ہے، جب ہمار ےدل اور خیال، الہی محبت کے زندہ ظہور، یعنی نجات دہندہ یسوع مسیح کی پیدائش کی جانب پھرتے ہیں۔

شہر کا کمشنر اور لڑکا

میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محبت ہماری زندگیوں میں کس طرح کام کر سکتی ہے۔ ۸۵ سال پہلے عظیم معاشی بحران کے دوران، کرسمس دن سے پہلے کی شام شہر کا ایک کمشنر سردیوں کے طوفان کے بعد سڑکوں کا معائنہ کر رہا تھا۔ گاڑی چلاتے ہوئے اُس نے چھوٹے لڑکے کو دیکھا، جو کوٹ، دستانوں اور جوتوں کے بغیر سڑکے کے کنارے کھڑا تھا۔ کمشنر نے گاڑی روکی، لڑکے کو گاڑی کی گرمائش میں بیٹھنے کی دعوت دی اور پوچھا کہ کیاوہ کرسمس کی آمد پر خوش ہے؟ لڑکے نے جواب دیا ”ہمارے گھر میں کرسمس نہیں منایا جائے گا؛۔ تین ماہ پہلے میرے ابو کی موت ہو گئی اور اب میری ماں، میں اور میرا چھوٹا بھائی اور بہن بچے ہیں۔“

شہر کے کمشنر نے گاڑی میں حدت بڑھاتے ہوئے کہا ”بیٹا، مجھے اپنا نام اور پتہ دو۔ کوئی تمہارے گھر آئے گا—تم بھولے نہیں جاو گے۔“

شہر کا کمشنر سالٹ لیک سٹی شہر کی سٹیک کا صدر بھی تھا۔ وہ اپنی سٹیک کے ارکان کے ساتھ کام کر رہا تھا کہ جو خاندان اپنے لیے مہیا کرنے کے قابل نہیں اُن کو کھانا اور تحائف مہیا کیے جائیں۔ وہ لڑکا کلیسیائے یسوع مسیح برائے مقدسین آخری ایام کا رکن نہیں تھا لیکن کمشنر کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اُس رات اُس نے اور اُس کی سٹیک کے ایک بشپ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ لڑکے کے خاندان کو کرسمس کی بھری ہوئی ٹوکری ملے۔3

اس لڑکے سے ملاقات نے سٹیک کے صدر پر گہرا اثر ڈالا۔ اُس کا ارادہ اور بھی مصمم ہو گیا کہ جہاں بھی مصیبت دیکھے اُس کا ازالہ کرے۔ یہی اُس کی زدنگی کی پہچان بن گیا۔

شہر کے اس کمشنر کا نام ہیرلڈ بریگھم لی تھا، اور چالس سال بعد وہ کلسیائے یسوع مسیح برائے مقدسینِ آخری ایام کا گیارہواں صدر بنا۔

مشکل میں لوگوں کو راحت پہنچانے اور خُدا کے تمام بچوں کی خود انحصار ہونے میں مدد کے لیے کلیسیا کے وسیع پروگرام کے ارتقا میں صدر لی مرکزی شخصیت تھے۔

اپنی زندگی کے آخر میں صدر لی نے کہا کہ وہ اپنی غریب اور سادہ شروعات کی وجہ سے مشکل میں اور راحت کے منتظر لوگوں کو سمجھتے تھے۔4

ضروری یہ نہیں کہ آپ کے پاس کیا کچھ ہے بلکہ یہ کہ آپ کتنی محبت رکھتے ہیں

میرے خیال میں آپ کو پتہ ہے کہ صدر لی کیا محسوس کرتے تھے۔

میرا خاندان بھی بعض اوقات بہت غریب حالات میں ہوتا تھا۔ سات سال میں دو بار ہم نے بطور پناہ گزین اپنا گھر اور سب کچھ چھوڑا۔ مغربی جرمنی میں بھی ہم ایک کھیت کے گودام کے بالاخانہ میں کرائے پر رہتے تھے۔ اس کے دو چھوٹے کمرے تھے اور ہم سب ایک کمرے میں سوتے تھے۔ جگہ اتنی کم تھی کہ بستروں کے درمیان چلنے کے لیے پہلو کی طرف چلنا پڑتا تھا۔

میری ماں کے پاس بجلی سے چلنے والی چھوٹی سی پلیٹ تھی جسے ہم بطور چولہا استعمال کرتے تھے۔ اور ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتے ہوئے ہمیں کھیتی کے اوزاروں، صندوقوں اور خشک ہونے کے لیے چھت سے لٹکائے ہوئے گوشت سے بچ کر جانا ہوتا تھا۔ ایک دفعہ جب میں ییمار تھا مجھے سارا دن بستر پر رہنا پڑا، میں فرش پر اُن چوہوں کو دیکھتا رہا جو بالا خانہ میں ہمارے ساتھ مقیم تھے۔ پانی کو اٹھا کر اوپر ہمارے کمروں میں لایا جاتا تھا اور باتھ روم، کھلے صحن کے دوسری طرف، گودام کے ساتھ تھا۔ اتوار کو فرینکفرٹ، چرچ جانے اور آنے کے لیے ہمیں دو گھنٹے پیدل چلنا پڑتا تھا۔ بس پر بیٹھ کر جانے کے لیے پیسے کبھی کبھار ہی ہوا کرتے تھے۔

اُن دنوں کو اب بھی میں غم اور خوشی دونوں سے یاد کرتا ہوں۔ ہمارے لیے مہیا کرنے کے لیے میرے والدین پوری کوشش کرتے تھے اور ہم یہ جانتے تھے کہ وہ ہم سے محبت رکھتے ہیں۔ ہاں، یہ بڑی حاجت مندی کے دن تھے لیکن میں انہیں خوشی کے دنوں کے طور پر یاد کرتا ہوں کیونکہ ہم ایک دوسرے، خُداوند اور اُس کی کلیسیا کی محبت محسوس کرتے تھے۔

غریب ہونا شرمندگی کی بات نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ دنیا کا نجات دہندہ اصطبل میں پیدا ہوا اور چرنی میں رکھا گیا کیونکہ ”سرائے میں [اُس کے لیے] جگہ نہ تھی“5 پھر اُس کے کچھ ہی عرصہ بعد، مریم اور یوسف پناہ گزین بن گے، اور قاتل ہیرودیس سے بچنے کے لیے مصر کو بھاگ گئے۔ اپنی عوامی خدمت میں یسوع ٹُوٹے ہوؤں، بھوکوں اور بیماروں کےدرمیان چلا۔ اُس کے دن اُن کی خدمت میں گزرتے تھے۔ وہ ”غریبوں کو خوشخبری دینے کے لیے آیا۔“6 بہت طریقوں سے تو وہ اُنہی میں سے تھا، کیونکہ اُس کے پاس بھی ”سر رکھنے کی جگہ“ نہیں تھی۔7

اُس نے اُس غریب بیوہ کی تعریف کی جس نے اپنی غریبی میں بھی یہودی ذخیرہ خانہ میں اپنی دو دمڑیاں ڈالیں۔8 اور فانیت میں اُس کے آخری پیغامات میں سے ایک پیغام یہ تھا کہ ہم دوسروں کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں—خاص طور پر اُن لوگوں کے ساتھ جنہیں ”سب سےچھوٹا“ سمجھا جاتا ہے—کیونکہ جب تم نے[اِن] سب سے چھوٹوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ سلوک کیا توتم نے میرے ساتھ کیا۔“9

انیسویں صدی کے انگریز شاعر نے یہ الفاظ کہے:

سرد اولوں اور برف میں،

سرخ چڑیا آئے؛

رحم کرنا، اُسے اُڑا نہ دینا،

بلکہ اپنے بچے ٹکڑے بکھیر دینا …

 

بچتا تو ہر ایک کے پاس ہے، ایسا غریب تو کوئی بھی نہیں،

سردیوں میں تو ضرورت مندی ہوتی ہی ہے؛

پوری روٹی تو کبھی اپنی نہیں ہوتی،

تو پھر بچے ٹکڑے بکھیر دینا۔

 

جلد ہی تمہاری زندگی کی سردی آ پڑے گی،

یومِ حساب آئے گا:

حکمِ اعلیٰ گناہوں کا حساب مانگے گا،

کیا تمہارے بکھیرے ٹکڑے وزن میں بھاری ہوں گے10

زندگی میں ہمارے عہدوں سے بالا تر ہم سب خُدا کے سامنے — ایک بھکاری — شرمیلی لال چڑیا ہیں۔ ہمارا انحصار اُس کے فضل پر ہے۔ یہ خوشی کے عظیم منصوبہ کے حصہ کے طور پر یسوع مسیح ہمارے نجات دہندہ کے کفارے کے سبب سے ہی ہے کہ ہم نجات اور رحم کی امید رکھ سکتے ہیں۔ یہ روحانی تحفہ ہمیں خُدا کے حکم ماننے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں تک رحم میں رسائی کرنے کی تحریک بخشتا ہے۔ چاہے ہمارے پاس بکھیرنے کےلیے تھوڑے سے ٹکڑے ہی کیوں نہ ہوں ہم خوشی سے اِنہیں اُن کے ساتھ شیئر کرتے ہیں جو جذباتی، روحانی یا جسمانی طور پر ضرورت مند ہیں، اُس ضیافت کی شکرگزاری کے لیے جو خُدا نے ہمارے لیے تیاری کی ہے۔۔

کرسمس پر دوسروں کو برکت بخشنا

کرسمس کے اس پسندیدہ وقت میں یہ مناسب ہے کہ ہم روشنیوں، موسیقی، تحائف اور چکاچوند کی وجہ سے خوش ہوں۔ سال کے اس حصے کو پسند کرنے کی وجوہات میں یہ بھی شامل ہیں۔

لیکن، آئیں ہم یہ کبھی نہ بھولیں کہ ہم یسوع مسیح، زندہ خُدا کے زندہ بیٹے کے شاگرد اور پیروکار ہیں۔ دنیا میں اُس کے آنے کی حقیقی تعظیم کے لیے، ہمیں وہی کچھ کرنا چاہیے جو وہ کرتا تھا، اور ہمدردی اور رحم دلی سے اپنے ہم عصروں تک رسائی کرنی چاہیے ہم اپنے الفاظ اور کاموں سے ایسا ہر روز کر سکتے ہیں۔ چاہے آپ کہیں بھی ہوں، ہم اسے کرسمس کی روایت بنا لیں—کہ زیادہ رحمدلی کریں، زیادہ معاف کریں، دوسروں کے بارے میں کم بُرا سوچیں، زیادہ شکر گزاری کریں اور خود کو ملی کثرت میں سے ضرورت مندوں کی زیادہ مدد کریں۔

میری دعا ہے کہ بیت الحم میں یسوع کی پیدائش ک بارے میں سوچنا ہمیں اُس کی مانند بننے کی تحریک بخشے۔ مسیح کا مقصد اور مثال ہمارے دلوں کو خُدا اور اپنے ہم عصروں کی محبت سے بھر دے۔ اور ہم بڑی فراخدلی اور بے پناہ محبت میں اپنے ٹکڑے بکھیرتے رہیں۔ کرسمس کے اس وقت اور ہمیشہ کے لیے میری یہی دعا اور برکت ہے، یسوع مسیح کے نام سے آمین۔

حوالہ جات

  1. 1  یوحنا 4: 9–10.

  2. تعلیم اور عہود 81: 5.

  3. See Harold B. Lee, Ye Are the Light of the World (1974), 346–47.

  4. See L. Brent Goates, Harold B. Lee: Prophet and Seer (1985), chapter 32.

  5. لوقا 2: 7.

  6. لوقا 4: 18 انگلش سٹینڈرڈ ورژن

  7. متی 8: 20 انگلش سٹینڈرڈ ورژن

  8. دیکھیںمرقس 12: 42–.

  9. دیکھیں متی 25: 32–46

  10. Alfred Crowquill, “Scatter Your Crumbs,” in Robert Chambers, ed., The Book of Days (1881), 2:752. پوری نظم یوں ہے:

    سرد اولوں اور برف میں،

    سرخ چڑیا آئے؛

    رحم کرنا، اُسے اُڑا نہ دینا،

    بلکہ اپنے بچے ٹکڑے بکھیر دینا

    اپنا دروازہ کھلا رکھنا

    کسی کے آںے کے لیے بھی؛

    زیادہ غریب کو ذیادہ خوش آمدید کہنا،

    اور اپنے ٹکڑے بکھیرتے رہنا۔

    بچتا تو ہر ایک کے پاس ہے، ایسا غریب تو کوئی بھی نہیں،

    سردیوں میں تو ضرورت مندی ہوتی ہی ہے؛

    پوری روٹی تو کبھی اپنی نہیں ہوتی،

    تو پھر بچے ٹکڑے بکھیر دینا۔

    جلد ہی تمہاری زندگی کی سردی آ پڑے گی،

    یومِ حساب آئے گا:

    حکمِ اعلیٰ گناہوں کا حساب مانگے گا،

    کیا تمھارے ٹکڑے گناہوں سے بھاری ہوں گے۔

شائع کرنا