صلح کی خوش خبری
کرسمس کے اِس وقت پوری دنیا یسوع میسح ”سلامتی کے شہزادے“ کی پیدائش کی خوشی مناتی ہے۔ فرشتے کے اُس پیدائش کے اعلان پر ہم سب شادمان ہوتے ہیں۔
”کیونکہ آج داوٗد کے شہر میں ہمارے لیے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خُداوند۔ …
”اور اچانک فرشتوں کا ایک گروہ خُدا کی تمجید کرتا اور کہتا ظاہر ہوا
”عالم بالا پر خُدا کی تمجید ہو اور زمین پر سلامتی اور آدمیوں کے لیے صلح۔“۱
اپنے بچوں کے لیے لکھے چارلز ڈکنز کے الفاظ مناسب طور پر بیان کرتے ہیں کہ مسیحی کیسے اپنے منجی کی تعظیم کرتے ہیں۔
”میرے عزیز بچو، میں بہت مشتاق ہوں کہ تم یسوع مسیح کی تاریخ کے بارے میں کچھ جانو۔ کیونکہ ہر ایک کو اُسے جاننا چاہیے۔ کبھی بھی کوئی ایسا شخص نہیں ہوا جو اتنا بھلا، اتنا خلیق اور بُرائی کرنے والوں کے لیے اتنا افسردہ ہو۔“
چارلز ڈکنز نے تعارف یوں کروایا۔ اُس نے اختتام یوں کیا:
”یاد رکھو!—ہمیشہ بھلائی کرنا ہی مسیحیت ہے—اُس کے ساتھ بھی جو ہمارے ساتھ بُرائی کریں۔ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھنا اور سب انسانوں کے ساتھ ایسا روئیہ رکھنا جیسا ہم چاہتے ہیں وہ ہمارے ساتھ رکھیں، مسیحیت ہے۔ نرم خو، مہربان اور معاف کرنے والا ہونا، اور اِن خوبیوں کو اپنے دلوں میں خاموشی سے رکھنا اور کبھی اِن کی، اپنی دعاوٗں کی یا خُدا سے اپنی محبت کی شیخی نہ بگھارنا بلکہ فروتنی میں بھلے کام کرتے ہوئے اُس سے اپنے پیار کا اظہار کرنا مسیحیت ہے۔ اگر ہم ایسا کریں اور اپنے خُداوند یسوع مسیح کی زندگی اور تعلیمات کو یاد رکھیں اور اُن پر عمل کی کوشش کریں، تع ہم پُر اعتماد ہو کر یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ خُدا ہمارے گناہ اور خطائیں معاف کرے گا اور ہمیں سلامتی میں جینے اور مرنے کے قابل بنائے گا۔“۲
جس طرح ڈکنز نے لکھا ”ہمارے خُداوند یسوع مسیح کی زندگی اور تعلیمات ہمیں صلح کی جانب لے جاتی ہیںَ پولوس رسول نے ہمارے نجات دہندہ کی تعلیمات کو ”صلح کی خوش خبری“ کا نام دیا ہے۔۳
صحائف میں لفظ صلح کے بہت سے معنی ہو سکتے ہیں۔ جب یسوع نے کہا ”تم پر سلامتی ہو“ تو واضع ہے وہ اُس سلامتی کی بات کر رہا تھا جس کا اعلان یسعیاہ نبی نے کیا ہے ”اور صداقت کا انجام صلح ہو گااور صداقت کا پھل ابدی آرام اور اطمینان۔ ہو گا۔“۴ نجات دہندہ نے وہ نبوت پوری کی۔ وہ واضع کرتا ہے: ”میں نے یہ باتیں اس لیے کہیں کہ تُم مجھ میں اطمینان پاوٗ۔“۵
اپنی آخری ہیدایات میں خُداوند یسوع مسیح نے رسولوں سے کہا، ”اطمینان میں اپنا اطمینان تمہیں دیئے جاتا ہوں، جس طرح دُنیا دیتی ہے میں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تمہار دل نہ گھبرائے اور نہ ہی ڈرے۔“۶
اِس کے تھوڑی ہی دیر بعد نئی دنیا میں راستبازوں کے پاس منجی نے یسعیاہ کے یہ الفاظ کہے ”تیرے سب فرزند خُداوند سے تعلیم پائیں گے اور تیرے فرزندوں کی سلامتی کامل ہو گی۔“۷
جو کچھ ہمارے منجی نے ہماری انفرادی زندگی میں صلح کے لیے کہا وہ خاندان میں صلح، قوم میں صلح اور دنیا میں صلح پر لاگو ہوتا ہے۔
منجی اور اُس کے رسولوں کے پاس دنیا میں صلح کے لیے ذاتی راستبازی کے علاوہ اور کوئی پراگرام نہیں ہے۔ اُنہوں نے روم کی حکمرانی یا اُس کے مقامی غاصبوں کے راج کی مخالفت منظم نہیں کی۔ اُنہوں نے انفرادی راستبازی کی منادی کی اور سکھایا کہ اطفالِ ربی کو اپنے دشمنوں سے محبت رکھنی چاہیے۸ اور یہ کہ ”تمام لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھو۔“۹
جنگ اور تصادم بدکاری کا نتیجہ ہیں؛ صلح راستبازی کا پھل ہے۔ انجیل کی برکات اور صلح کا فارمولابھی آفاقی ہیں: خُدا کے احکام پر عمل کرو۔
صدر ہاورڈ ڈبلیو ہنٹر نے یہ سکھایا:
”جس صلح کی دنیا منتظر ہے وہ جارہانہ کاروائیوں کی معطلی ہے؛ لیکن آدمی یہ احساس نہیں کرتے یہ صلح، وجود کی ایسی حالت ہے جو صرف شرائط و ضوابطِ الہی کی پابندی سے ہی مل سکتی ہے کسی اور طریقے سے نہیں …
”… اگر ہم آدمیوں اور دنیا کی راہوں کو دیکھیں تو ہمیں افراتفری اور ابتری ملےگی۔ اگر ہم خُدا پر رجوع لائیں تو بے چین جانوں کو اطمینان ملے گا …
”یہ اطمینان ہمیں دنیا کی افراتفری سے بچاتا ہے۔“۱۰
جدید مکاشفہ میں ہم پڑھتے ہیں ”لیکن جان لو کہ وہ جو راستبازی کے کام کرتا ہے وہ اپنا اجر پائے گا حتیٰ کہ اس دُنیا میں اطمینان اور آنیوالی دنیا میں ابدی زندگی“۱۱
صلح ہمارے نجات دہندہ کا وعدہ ہے اور صلح ہمارا مقصد ہے۔ اُس نے صلح کا وعدہ اُس احساسِ بہبود اور احساسِ اطمینان کی صورت میں بھی کیا ہے جو اُس کے احکام پر عمل کرنے سے آتے ہیں۔ صدر سپنسر ڈبلیو قمبل نے کہا ہے:
”صلح راستبازی کا پھل ہے۔ اِسے پیسوں سے خریدا نہیں جا سکتا، نہ ہی اس کی تجارت یا مبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ اِسے کمانا پڑتا ہے۔“۱۲ ” شیریں ہے وہ صلح جو انجیل کی دیِن ہے“۱۳ اور ایک اور گیت میں ہم یہ دعا گنگناتے ہیں:
”زمین پر صلح ہو
اور اس کا آغاز مجھ سے ہو“۱۴
ہم قوموں میں تب تک صلح نہیں دیکھ سکتے جب تک ہم اُن کے رہنے والے لوگ راستبازیِ عامہ تک نہ پہنچیں۔ جنگ عظیم دوئم میں ایلڈر جان اے۔ وڈسو نے تعلیم دی:
”صلح کے سماج کی تعمیر کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایسے مرد و زن کی تعمیر کی جائے صلح کے محب اور صنعت گر ہوں۔ مسیح کی اُس تعلیم اور اُس کلیسیا سے ہر فرد اپنے ہاتھوں میں دنیا کی سلامتی تھامے ہے۔
”یہ مجھے دینا میں صلح کا ذمہ دار بنا دیتا ہے اور آپ کو انفرادی طور پر دنیا میں صلح کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ یہ ذمہ داری کسی اور کو نہیں سونپی جا سکتی۔“۱۵
تقریباً تیس سال بعد ایک اور کلیسیائی رہنما، الڈریڈ جی سمتھ نے یہی سچائی سکھائی:
”اگر ہر شخص کی جان میں صلح ہے اور خاندان میں صلح ہو گی۔ اگر ہر خاندان میں صلح ہے تو قوم میں صلح ہو گی۔ اور اگر قوموں میں صلح ہے تو دنیا میں صلح ہو گی۔
”آئیں ہم صرف یہ گنگنائیں نہیں کہ ’زمین پر صلح ہو اور اس کا آغاز مجھ سے ہو‘ بلکہ ہمارے الفاظ ہمارے لیے معنی رکھتے ہوں۔ اسے میرا مقصد—اپنا مقصد بنا لیں۔“١٦
میری پسندیدہ کہانیوں میں سے ایک ڈیزیرٹ نیوز میں تیس سال پہلے شائع ہوئی۔ اس میں ایک گیارہ سالہ لڑکی اور اُس اسباق کا ذکر ہے جو اُس نے اُس تکلیف سے سیکھا جب اُسے اپنی مرضی کا تحفہ نہیں ملا اور اپنے اطمینان میں سیکھا سبق جب وہ جان لیتی ہے کہ کرسمس کے وقت تحائف سے خوشی منانے کا کیا مطلب ہے۔ میں ہمارے درمیان نوجوانوں اور بچوں کے لیے خاص طور پر یہ کہانی سنا رہا ہوں۔
ایک گیارہ سالہ لڑکی اداس تھی کیونکہ اُسے وہ نئی گڑیا نہیں ملی تھی جس کی وہ بہت دیر سے خواہش رکھے تھی۔
اُسے تسلی دیتے ہوئے اُس کی ماں نے کہا ”تم بڑی ہو رہی ہو ایسی باتیں نہ کرو۔“ بچی نے سوچا کیا واقعی کرسمس منانے کرسمس منانے کی عمر گزرگئی؟ اُس کے باپ نے بتایا:
”میری پیاری ننھی بچی۔ بڑے ہونے میں بہت دکھ اور خوشی شامل ہیں نہیں تمہاری کرسمس منانے کی عمر نہیں گزری۔ اس سے بھی بڑی کر اہم چیز رونما ہو رہی ہے۔ تم جتنا بچپن میں سمجھتی تھی اب بڑی ہو کر سمجھ رہی ہو کہ بہت سی باتوں کے معنی گہرے اور اہم تر ہیں… تم نے سنا ہے کہ ہم تحفے اس لیے دیتے ہیں کیونکہ چرواہے اور مجوسی ننھے مسیح کے لیے تحفے لائے تھے۔ لیکن میں تمہیں کرسمس کے اولین اصل تحفے کے بارے میں بتاتا ہوں۔“
اُس کے باپ نے آسمانی باپ اور اُس کے سب سے بڑے فرزند کی عظیم محبت کی گواہی دی ”جو بڑی مشکل اور سرکش واقعات میں اُس کے ساتھ وفا دار رہا تھا اور جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کی تخلیق میں بھی آسمانی باپ کی مدد کی تھی۔“ باپ نے بتایا کہ آسمانی باپ نے وہ بیٹا، خُداوند یسوع مسیح ہمیں منجی کے طور پر دیا۔
باپ نے مورمن کی کتاب میں سے پڑھا کہ کیسے بیٹا ”بنی نوح انسان میں رہنے کے لیے آسمان سے نیچے آئے گا اور مٹی کے خیمے میں بسے گا … اور دیکھو وہ آزمائشیں اور جسم کی تکلیف، بھوک، پیاس اور تھکان جھیلے گا، اس سے ذیادہ کو کسی بھی شخص نے جھیلی ہوں کیونکہ دیکھو اُس کے لوگوں کی بدکاری اور کراہت کے لیے اُس کی تکلیف اس قدر ہو گی کہ اُس ہر مسام سے خون نکلے گا۔ اور وہ یسوع مسیح کہلائے گا، خُدا کا بیٹا آسمان اور زمین کا باپ“(مضایاہ ۳: ۵،۷–۸)
کتاب بند کرتے ہوئے اُس نے کہا:
”گو کہ باپ جانتا تھا کہ یہ سب کچھ اُس کے پیارے بیٹے پر آنے کو ہے، اُس نے اپی لا محدود محبت اور حکمت میں اپنا بیٹا دنیا کو دیا۔ اور اس شاندار تحفے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ سب جانتے ہوئے بیٹے نے رضامندی سے اپنے آپ کو پیش کیا تاکہ ہم ابدی زندگی پائیں۔“
سالوں بعد جب یہ بچی بڑھ کر عورت ہو گئی تو اُس نے یہ الفاظ لکھے:
”مجھے یاد ہے کہ وہ کرسمس کی پہلی رات تھی جب میں تکیے پر اپنی کرسمس والی گڑیا کے ساتھ نہیں سوئی۔ میرے پاس اُس سے بہتر چیز تھی۔ میرے دل میں نیا سنسنی خیز اطمینان تھا۔ میں ایسا تحفہ جان گئی تھی جو بوسیدہ یا کھو نہیں سکتا تھا، ایسا تحفہ جو میرے لیے چھوٹا نہیں ہو سکتا بلکہ جس کے لیے مجھے بڑا ہوتا تھا … اور میں نے دعا کی … کہ کسی روز مجھے خُدا اصل بچوں کی نعمت سے نوازے اور پھر میں محبت کے تحفے کے باقی کو بھی سمجھ جاوٗں گی۔“۱۷
میں صدر رسل ایم نیلسن کی تعلیمات سے اختتام کرتا ہوں جو اُنہوں کے صدارتِ اوّل کے سابقہ سال کے کرسمس ڈیوشنل میں سکھائی: ”یسوع مسیح خُدا کا اعلیٰ ترین تحفہ ہے—باپ کا اپنے تمام بچوں کے لیے تحفہ۔“۱۸
”کِیُوں کہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بَیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔“19
میری دعا ہے کہ ہم کرسمس کے اس موقعہ پر جو بھی کچھ کریں ابدی سچائی اُس میں سرائیت کرے، یسوع مسیح کے نام سے، آمین۔