12NIELSON-0
صدارتِ اوّل کا کرسمس ڈیوشنل
۶ دسمبر، ۲۰۲۰
سلامتی کا شہزادہ
بقلم ایلڈر برینٹ ایچ نِیلسن
ستر کی صدارت کے
یہ بات یہاں سے بہت دور کسی اور جگہ اور کسی اور وقت کی ہے، جب میرے والد، نارمن نِیلسن بطور مردِ کم سن، دُوسری عالمی جنگ کی لڑائی میں گزارے چار سالوں میں سے دوسرا سال بحرالکاہل کے محاذ پر گزار رہے تھے۔ یہاں اپنے خیمے کے سامنے تصویر میں کھڑے، وہ پاپوا نیو گنی کے جنگلوں میں بسیرا ڈالے ایک اینٹی ائیرکرافٹ سپیشلسٹ تھے۔ ۱۹۴۳ میں عیدِ ولادت المسِیح کے موقع پر، اُنھوں نے اپنی بیوہ والدہ کو یہ خط لکھا: ”جیسا کہ آپ کو تاریخ پڑھ کر اندازہ ہوگا کہ، آج کرسمس ہے۔ میں صبح سات بجے اُٹھا، ناشتہ کیا، اور پھر سہ پہر تین بجے تک کام کرتا رہا پھر میں اپنے کپڑے دھونے اور نہانے کے لیے ندی پر گیا تھا۔ آج رات کے کھانے میں ہمیں پیلو کا چھوٹا سا ٹکڑا، تھوڑی شکر قندی، مکئی، ڈریسنگ اور کشمش کی پائی پیش کی گئی۔ میں آپ کے اور خاندان کے ساتھ گھر میں اپنے پیر میز کے نیچے رکھنے اور وہ ساری چیزیں دُوبارہ کھانے کا نہایت مُشتاق ہوں جس سے ہم کچھ سال پہلے اکٹھے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ہم مایوس ہیں کہ ہمارے کرسمس پیکیجز کرسمس سے پہلے نہیں پہنچے۔ ہم میں سے بہت سارے ایسے ہیں جن کو کرسمس کے لیے کچھ نہیں مِلا۔ مجھے یاد ہے کہ آپ نے مجھے متعدد بار کہا تھا کہ جب کنواں خشک ہوجاتا ہے تب ہی آپ کو پانی کی قدر محسوس ہوتی ہے۔“
پچھلے سال میری اہلیہ، مارسیا، اور میری بہن، سُوزن، نے دُوسری جنگِ عظیم کے دوران میرے والد کی چار سالہ خدمت کی تاریخ درج کی۔ اُنہوں نے میرے والد کے اپنی ماں کو لکھے سب خطوط کو مُدوّن کیا۔ مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ جب میں نے اُس اداس کرسمس کے خط کو پڑھا تو، مَیں تھوڑا سا متشکک ہو گیا تھا۔ اگرچہ آپ کے لیے یہ معمولی سی بات ہوسکتی ہے، کیوں کہ یہ میرے والد سے متعلق تھی، جن سے مجھے پیار ہے، لہذا میں چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اُس کرسمس کے دن کے واقعات کو تبدیل کر دوں۔ مَیں اپنے دل میں پکار اُٹھا،: ”ایڈاہو سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان کتنی تکلیف برداشت کرسکتا ہے؟“ جب وہ صرف ۱۲ برس کے تھے تو اُن کے والد دِل کا دورہ پڑنے کے باعث فوت ہوگئے۔ اُن کی والدہ نے اُن کی پرورش کی، اُنھیں لازمی فوجی خدمت کے لیے مامور کر دیا گیا، اور اب وہ ایک بھیانک جنگ کے دوران جنگل میں رہ رہے تھے۔ کیا وہ کم از کم کرسمس کے تحفے کے حقدار نہیں؟ جب میں نے اُن کی صورتحال پر غور کیا تو، میں نے رُوح کو خود سے مخاطب ہوتے ہوئے محسوس کیا: ”برینٹ، کیا تُم جانتے ہو کہ اِس کہانی کا کیا انجام تھا۔ بالاخر تمہارے والد کو اہم ترین تحفہ ملا اور اُنہوں نے پُر ایمان زندگی گزاری ،جس میں کرسمس اُن کے لیے سال کا پسندیدہ ترین وقت تھا۔
جب مَیں نے اپنے والد کی تاریخ کو مزید پڑھا، تو مَیں فروری ۱۹۴۵ میں اپنی والدہ کو بھیجے گئے اُن کے آخری خطوط کی طرف متوجہ ہوا۔ اپنے چار سالوں کے دوران جنرل ڈگلس میک آرتھر کی سربراہی میں، اُنھوں نے ڈاروِن، آسٹریلیا، سے پاپوا نیو گنی، فلپائن کی خلیج لیٹ، اور بالآخر منیلا تک جنگ لڑی، جہاں سے وہ اپنی فوجی خدمات ختم کرکے گھر واپس لوٹے تھے۔ جنگ کے دوران جہاں اُنھوں نے زیادہ وقت اپنی خدمات سر انجام دی وہاں کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام کے اجلاس کا انعقاد نہیں ہوتا تھا، لیکن اپنی خدمت کے اختتام کے قریب، جب وہ فلپائن پہنچے تو، وہ کلیسیائی اجلاس میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اِس اجلاس میں شرکت کے بعد، اُنھوں نے اپنی ماں کو یہ دلچسپ خط لکھا: ”مَیں کل چرچ گیا لیکن خطاب کچھ خاص نہیں تھا۔ ماں بہت ساری چیزیں جو کبھی مجھے بہت اہم لگتی تھیں اب بہت معمولی معلوم ہوتی ہیں۔ مَیں خُدا پر اپنے اِیمان کی بات نہیں کر رہا، جو شاید پہلے کی طرح مضبوط ہے، لیکن مَیں خُدا کی ذات کو ایک ایسی ہستی کی حیثیت سے نہیں دیکھتا [جو] ہمیشہ آپ کے سر پر کھڑا رہے تاکہ آپ کی ہر غلطی کی سزا دے بلکہ اُسے زیادہ پیار کرنے والا اور فہیم سمجھتا ہوں۔“
رُوح نے مجھے سِکھایا کہ انتہائی پریشان کُن اوقات میں، ایک بھیانک جنگ میں حصّہ لینے کے بعد جہاں دونوں اطراف بہت سارے فوجی، نرسیں، ملاح، فضائیہ عملے کے افراد، اور بے گناہ شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، میرے والد کو تحفہ مِلا—اُنھیں عیدِ ولادت المسِیح کا صحیح شعور حاصل ہوا۔ اُنھوں نے جانا کہ اُن کا ایک پیار کرنے والا آسمانی باپ ہے جو اُنھیں سمجھتا اور اُن کا خیال رکھتا ہے۔ زِندگی کا سب سے نادر سبق جو اُنھوں نے سیکھا وہ یہ تھا: ”کِیُوں کہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بَیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔“۱ اپنے نہایت ناموافق احوال میں، جس حد تک وہ ذاتی طور پر آزمائے جا سکتے تھے، میرے والد نے محبّت رکھنے والے، مہربان آسمانی باپ کو پایا۔ میرے والد نے جو کچھ پایا اُس کے باعث اُنھیں الجھنوں اور تکلیفوں اور دکھوں سے بھری دُنیا میں اِطمینان اور خُوشی اور مسرت حاصل ہوئی۔ جنگ چھوڑتے ہی، وہ یہ تحفہ اپنے ساتھ گھر لے کر آئے۔
مجھے یقین نہیں ہے کہ گھر سے دور اُن تین سالوں کے کرسمس کے دوران مَیں اپنے والد کو درپیش مشکلات جیسی کسی چیز کو برداشت کرسکتا ہوں، لیکن مَیں جانتا ہوں کہ اُنھوں نے اور مَیں نے جو سبق سیکھا وہ یہ ہے کہ کرسمس کے موقع پر حقیقی تحفہ، جو ہمارے آسمانی باپ نے بخشا، وہ نجات دہندہ یِسُوع مسِیح ہے۔ اِس کرسمس کے موقع پر، عالمی حالات کی وجہ سے، ہم میں سے کچھ اپنے آپ کو خاندان سے بہت دُور یا اُن سے الگ تھلگ احوال میں پاتے ہیں اگرچہ وہ قریب ہی رہائش پذیر کیوں نہ ہوں۔ ہم میں سے کچھ کو شاید اِس سال کرسمس کی قدر ہو جیسے میرے والد کو ۱۹۴۳ میں ہوئی تھی۔ ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں کیوں کوئی تحفہ نہیں مِلا یا کوئی ہم سے ملنے کیوں نہیں آیا۔ لیکن اگر نظر اُٹھائیں اور خُدا کی طرف نگاہ لگائیں اور اُس کے احکامات کے موافق زِندگی گزاریں تو، ہم جانیں گے کہ یِسُوع مسِیح ہی سب سے عظیم تحفہ ہے۔ اِس تحفہ کو کھولنے سے ہم ایک شاندار، پُر امن زِندگی کی کُنجی پاتے ہیں۔
نئے عہد نامے میں مرقس باب ۴ میں، نجات دہندہ کے شاگِردوں کے ساتھ ایک خوفناک واقعہ رونما ہوا۔ وہ گلیِؔل کی جِھیل میں نجات دہندہ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے جب ایک زبردست طوفان برپا ہوا۔ شاگِرد خوفزدہ ہوگئے، اور نجات دہندہ اُن سے، یہ کہتے ہوئے مخاطب ہوا، ”تُم کِیُوں ڈرتے ہو؟ اَب تک اِیمان نہِیں رکھتے؟“۲ زبانی ہدایت کے ذریعہ، نجات دہندہ ہواؤں اور لہروں کو تھما دینے کا سبب بنا۔ تب شاگِردوں نے یہ پُر اثر سوال پوچھا جس کے بارے میں مَیں آپ سے اِس کرسمس کے موقع پر غور کرنے کو کہتا ہوں: ”یہ کَون ہے کہ ہوا اورپانی بھی اُس کا حُکم مانتے ہیں؟“۳ میں اِس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ یِسُوع مسِیح ہی ”[عجِیب مُشِیر]، خُدایِ قادِر، ابدِیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ“ ہے۔۴ ”اُس کے سبب سے، اور اُس کے وسیلےسے، اور اُس کے لیے دُنیائیں خلق ہوتی ہیں اور خلق کی گئیں۔“۵ وہ ہمارا مُنجّی اور مَخلصی دینے والا ہے؛ وہ باپ کا پہلوٹھا ہے۔
یسعیاہ نجات دہندہ کو اِس طرح بیان کرتا ہے: ”کیا تُو نہیں جانتا؟ کیا تُو نے نہیں سُنا، کہ خُداوند خُدایِ ابدی و تمام زمین کا خالِق تھکتا نہیں اور ماندہ نہیں ہوتا؟ اُس کی حِکمت اِدراک سے باہر ہے۔؟ … لیکن خُداوند کا اِنتظار کرنے والے ازسر نَو زور حاصِل کریں گے؛ وہ عُقابوں کی مانِند بال و پر سے اُڑیں گے وہ دوڑیں گے اور نہ تھکیں گے؛ وہ چلیں گے اور ماندہ نہ ہوں گے۔“۶
اِسی پس منظر کے ساتھ ہی نجات دہندہ ہم سب کو اِس کرسمس کے تہوار پہ اور ہمیشہ یہی دعوت دیتا ہے ”اَے محِنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو، سب میرے پاس آؤ، مَیں تُم کو آرام دُوں گا۔ … کِیُونکہ مَیں حلِیم ہُوں اور دِل کا فروتن: تو تُمہاری جانیں آرام پائیں گی۔ کِیُوں کہ میرا جُوا ملائِم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔“۷ ہمیں وہ دعوت دیتا ہے کہ ”میرے پاس آؤ۔“
کرسمس کے اِس تہوار کے دوران میں اُمید کرتا ہوں کہ ہمارے حالات، ہم کہاں رہائش پذیر ہیں، اور آیا ہم خاندان یا دوستوں سے الگ ہوں اِن تمام عناصر سے قطع نظر، ہم یاد رکھیں کہ، نجات دہندہ یِسُوع مسِیح، حقیقی تحفہ ہے؛ کہ جب ہم اُس کی طرف رجوع لائیں گے تو، وہ ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے گا؛ اور یہ کہ ہم اُسے یوں پا لیں ، جیسے میرے والد نے ایک خوفناک جنگ کے دوران اُسے ہا لیا تھا۔ نجات دہندہ نے کہا، ”مَیں تُمہیں اِطمینان دِیئے جاتا ہوں، اپنا اِطمینان تُمہیں دیتا ہوں: جِس طرح دُنیا دیتی ہے مَیں تُمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تُمہارا دِل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے۔“۸ جب ہم اُس پر بھروسا رکھتے ہیں تو، ہمارے موجودہ حالات سے قطع نظر، ہمیں اِطمینان اور شادمانی حاصل ہوگی۔
میں آپ سب کو عیدِ ولادت المسِیح کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دُعا گو ہوں کہ اِس سال، جب ماندہ دُنیا خُوشی منائے گی، تو آپ اُس تحفے کو قبول کریں اور اُس کا اعتراف کریں جو ایک مُحب باپ نے ہمیں دیا تھا جب اُس نے اپنے اکلوتے بَیٹے کی قربانی کی اجازت دی۔ مَیں اُس پیارے آسمانی باپ اور اُس کے کامل بَیٹے، سلامتی کے شہزادے کی اپنی ذاتی گواہی دیتا ہوں۔ یِسُوع مسِیح کے نام سے آمین۔