کرسمس کی عِبادات
خوابِ بیت لحم


خوابِ بیت لحم

قدرت کی طرف سے مہیا کردہ پُر سکون ترین سماں تھا، بہار کی شروعات کی رات آئے چاہتی تھی۔ آسمان شفاف تھا، پہلے کچھ، پھر سینکڑوں، اور بالآخر ہزاروں کی تعداد میں تارے جگمگانے لگے تھے۔ چرواہے میدان میں دن کی دھوپ اور دیانت دارانہ محنت کی تھکان سے راحت پا رہے تھے۔ گاؤں کے اِس منظر میں واحد غیر معمولی—لیکن انتہائی خوبصورت—عنصر، گاؤں سے قریب تر میدان کے سرے کی پہاڑی ڈھلوان پر ایک اصطبل تھا، جس میں دو اِنسانی شبیہات چرنی میں لیٹے ایک نوزائیدہ بچّے کے اُوپر سمٹی کھڑی تھیں، جہاں صرف پالتو جانور اُس حیرت انگیز واقع کے گواہ بنے۔

اِن تین میں، جنہیں بیت لحم کے پُر ہجوم قصبے میں کوئی دوست یا خُوشی سے خیر مقدم کرنے والا میزبان نہیں ملا تھا، پہلی، ایک نوجوان کنواری ماں تھی جس کا نام مریم تھا (اگر اُس دور کی روایات کے مطابق دیکھیں تو جس کی عمر تیرہ سے اُنیس سال کے درمیان تھی)، جس کا بلند حوصلہ اور صریح اِیمان صحائف میں مرقوم کسی بھی چیز کی مانند درخشاں ہے۔ دُوسرا، یوسف نامی اُس کا شوہر تھا، جو عمر میں اپنی کمسن بیوی سے بڑا تھا لیکن، ضرور ہے کہ وہ زمین پر سب آدمیوں میں راست باز ترین شخص تھا جو ایسے بچّے کی پرورش کرے گا جو یوسف کا جسمانی بچّہ تو نہیں ہے، لیکن جو وقت کے ساتھ، یوسف کا رُوحانی باپ ہو گا۔ تیسرا، آخری، اور سب سے خوبصورت: بچّہ جس کا نام یِسُوع رکھا جانا تھا، جو کپڑے میں لپٹا اور مضطرب باپ کی اکٹھی کی ہوئی صاف خُشک گھاس پر لیٹا ہوا تھا۔

اِس خاموش، غیر تشہیر کردہ منظر کی ستم ظریفی نے اِس حقیقت کی تردید کی کہ، کبھی ایسا بچّہ پیدا ہی نہیں ہوا تھا جس کے بارے میں پہلے سے اِتنا کچھ پتہ ہو، جس کے بارے میں پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا تھا، اور جس سے پہلے ہی اِتنی اُمیدیں وابستہ ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ، اُس کے کون اور کیا ہونے کا علم آسمانی بادشاہتوں میں کسی کی بھی پیدائش سے پہلے شروع ہو گیا تھا! رُوحوں کی دُنیا میں باپ کے پہلوٹھے کی حیثیت سے۱، وہاں اُسے معین کیا گیا کہ وہ دُنیا کا مُنجّی ہو،۲ پہلے ہی مقرر کیا گیا وہ ”برہ جو بِنایِ عالم کے وقت سے ہی ذبح ہوا۔“۳ بعد میں، لیکن اُس کی پیدائش سے پیشتر، وہ پرانے عہدنامے کا عظیم یہوؔواہ تھا، جس نے نوح کی مدد کی کہ وہ سیلاب کے وقت اپنے خاندان کی حفاظت کرئے۴ اور یوسف کی معاونت کی کہ قحط کے دوران وہ اپنے خاندان کو بچائے۔۵ وہی با اختیار یہوؔواہ تھا جس کے ناموں میں ”عجیب، مُشیر، خُدای قادر، ابدیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ“۶ شامل ہیں۔ رحم کے عظیم منصوبہ میں وہی الفا اور اومیگا۷ تھا جس نے بالآخر ”حلیموں کو خوشخبری سنائی؛ … شکستہ دلوں کو تسلی، … قیدیوں کے لیے رہائی، اور اسیروں کے لیے [آزادی] کا اعلان“۸ کیا۔

اِس کی تکمیل کے لیے، اُسے مخلصی کے لیے تنِ تنہا ہی انگُور حوض میں روندنے تھے، کسی بھی فانی رفیق کے بغیر جو اُس کی مدد کرنا چاہے، اور معاونت کے قابل کسی بھی آسمانی رفیق کے بغیر۔ فانیت کے تمام گناہوں اور غموں کے بوجھ اُٹھا کر، اُس نے آدم سے لے کر دُنیا کے آخر تک تمام نسلِ اِنسانی کو نجات کا ناقابلِ فہم تحفہ عنایت کیا۔ اپنے سفر کے مکمل راستہ میں، اُسے ”[ہماری] رُوحوں کے گلّہ بان اور نِگہبان،“۹ ”آسمانی بُلاوے کا بڑا سردار کاہن“۱۰ ”تمام راست بازی کا بہتا چشمہ“۱۱ ہونا تھا۔ اِن تمام فانی فرائض اور مطالبات کو پورا کرنا باقی تھا۔ لیکن آج رات نہیں۔ اِس رات نہیں۔ یہاں تو بس ایک ماں کے بازوؤں میں ایک بچّہ تھا جسے وہ بہت چاہتی تھی، اور اُن کی نگرانی ایک شفیق اور مضبوط باپ کر رہا تھا۔

ارضی سرگرمیوں، زمین پر غریب ترین لوگوں اور اُن کی مشقتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے چرواہے جلد ہی وہاں پہنچے۔ ارضی کامیابیوں، زمین کے امیر ترین لوگوں اور اُن کے کاموں کی نمائندگی کرتے ہوئے، بعد ازاں، بادشاہ، مشرق سے مجوسی وہاں پہنچے۔ سب سے ارفع—واقعی—مقامِ ارفع سے فرشتے یہ گاتے ہوئے آئے ”عالمِ بالا پر خُدا کی تمجید ہو،“۱۲ اِس آسمانی لشکر کا ہجومِ حقیقی اِس چھوٹے بچے کی مدح سرائی کر رہا تھا جو بالآخر زمین پر آیا تھا۔ فرشتوں نے، درحقیقت، صدیوں سے اِس چرنی کی راہ روشنائی تھی۔ حال ہی میں، ایک فرشتہ مریم کے پاس بشارتِ جلالی لایا کہ اُسے کیا کرنے اور کیا بننے کے لیے چنا گیا ہے۔۱۳ ایک فرشتہ یوسف کے پاس آیا اور اِس نوجوان لڑکی کو بیانے کے لیے اُسے حوصلہ بخشا جو عجب طور پر پہلے سے ہی حاملہ تھی، جس حکم کی اُس نے فوری اور وفاداری کے ساتھ اُٹھتے ہی بجا آواری کی۔۱۴ پیدائش کے بعد، ایک فرشتے نے اِس نوجوان جوڑے کو بتایا کہ وہ بچ نکلیں—ہیرودیس کے قتالِ معصومین سے بچ نکلیں (وہ ننھے بچے نئے عہدنامہ کے اولین شہدا تھے)، اور پھر اُسی فرشتے نے جوڑے کو بتایا کہ کب وہ مصر سے لوٹ سکتے ہیں لیکن یہ کہ وہ بیت لحم یا یروشلم میں نہ رہیں بلکہ دور ناصرت میں جا بسیں۔۱۵ واضع طور پر، آسمان پر فرشتوں کو اِس پیدائش کے مفہوم اور اُس کے مشن کا اِنسانوں سے کہیں زیادہ علم تھا کہ وہ ”ہماری مشقتیں [اُٹھائے گا]، اور ہمارے غموں [کو برداشت کرے گا]: … ہماری خطاؤں کے لیے گھایل [کیا جائے گا]، [اور] ہماری بد کرداری کے باعث کچلا جائے گا: [یہ واضح کرتے ہوئے کہ] ہماری سلامتی کے لیے اُس پر سیاست ہو گی؛ اور [کہ] اُس کے مار کھانے سے ہم شفا [پائیں گے]۔۱۶

میرے لیے ذاتی طور پر، اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ رات میں بتدریج واضح ہوا، اُس وقت جب عضلات کو سکون ملتا ہے اور تھکان آرام میں بدلتی ہے، جب دُعائیں مانگی جاتی ہیں، جب مُکاشفہ متوقع ہوتا ہے، اور الٰہی مخلوق کے قریب تر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اور سال میں ایک بار، رات ایسا وقت ہوتا ہے جب بچّے اپنے اندر اُمڈتی اُس خوشی کے باعث جو اُن کے اندر ہلچل مچاتی ہے بمشکل اپنی آنکھیں بند کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ کل کرسمس کی صبح ہو گی۔ ہاں، ہمارا دن کتنا بھی مشکل کیوں نہ ہو، ہمارے شریں خوابِ شب سب کچھ ٹھیک کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایلڈر پارلی پی پریٹ نے ایک بار تحریر کیا تھا:

”خُدا نے خوابوں کے ذریعہ … بہت ساری اہم ہدایات منکشف کیں۔ … [پھر] اعصاب بے لگام [ہوتے] ہیں، اور پوری فانی اِنسانیت پُرسکون [نیند] میں مضمر ہوتی ہے اور … رُوحانی اعضاء … خُدا، … فرشتوں کے ساتھ مخاطب ہوتے، اور راست باز آدمیوں کی رُوحیں کامل ہوتی ہیں۔“۱۷

اور تاہم محو جلالی یہ وہ رات تھی جب حقیقی طور پر ”برسوں کے تمام خدشات و توقعات“۱۸ بیت لحم کے خوابوں میں پوری ہوئیں۔

اُس رات یہودیہ کے افلاک پر

تاراِ الٰہی جب جوت جگاتا تھا،

اندھا یہ خواب [سجاتا] تھا،

[کہ] نورِ بینائی آ ہی چلا۔

اُس رات جب گڈریوں نے گیت سنا

مدح سرائی کرتے آسمانی لشکر کا،

ایک بہرا محوِ خواب مسحور ہو چلا،

[کہ] اب نہ رہا وہ نا شنوا۔

اُس رات جب ایک طبیلے میں

بچہ اور ماں [بِن کہے] شب خوابی کی کیفیت میں،

معذور [شخص] اپنے کمزور اعضاء کو پلٹے،

اور دیکھے خواب [کہ] اپنے پاؤں پہ خود [کھڑا ہوسکے]۔

اُس رات جب ننھے بچے پہ

مریم نے پیار سے کیا اپنا سایہ،

نیند میں ایک تنفّر کوڑھی مسکایا،

[کہ] اب کے تو وہ پاکیزگی پایا۔

اُس رات جب ماں نے چھاتی پر

شاہِ عالم کو لیا بھینچ،

فاحشہ کی نیند تو ہوئی فُرحاں،

[کہ] ہو جائے گی اب وہ بے عیب۔

اُس رات جب تھا چرنی میں پڑا

وہ پاک، نگہبانِ کُل جہاں،

خوابیدہِ مرگ نے جان لیا،

کہ موت کا اب تو ڈنگ نہ رہا۔۱۹

میں آپ کے ساتھ، کرسمس کے تحفے کے طور پر، بیت لحم کے خوابوں کو چھوڑتا ہوں۔ اور میں یہ اُس بچّے کے نام پر چھوڑتا ہوں جس نے اُن تمام خوابوں کو حقیقت میں بدل دیا، یعنی یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔

شائع کرنا