کرسمس کی عِبادات
دُنیا اپنے شہنشاہ کا اِستقبال کرے


11:46

دُنیا اپنے شہنشاہ کا اِستقبال کرے

صدارتِ اوّل کی کرسمس کی عِبادت ۲۰۲۲

بروز اِتوار، ۴ دسمبر، ۲۰۲۲

پانے کے واسطے ہمارے دِلوں کو کھولیں

اثر انگیز حمدوثنا کی تسلی اور اطمینان ہماری جانوں کو معمُور کرتا ہے۔

کرِسمس مُبارک ہو!

یہ سن ۱۹۴۳ کا دِسمبر تھا، اور دُنیا دُوسری جنگِ عظیم کی لپیٹ میں تھی۔ سبھی دُور دراز کے ساحلوں پر اپنے پیاروں کے لیے فِکر مند تھے، اور گھر میں پیسے اور خُوراک کی قِلت کی وجہ سے پریشانیاں بڑھ گئی تھیں۔ خاندانی وسائل کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے، میرے والد، ہیرلڈ ہیلم، جو کہ تب ایک نو برس کے لڑکے تھے، اُنھیں کرِسمس کا انوکھا تُحفہ ٹرین سیٹ مِلنا نہایت حیران کُن تھا۔ یہ کوئی پُرانی ٹرین نہیں تھی؛ یہ ٹرین خُود بخُود پٹڑیوں پر چلتی تھی۔ دھکیلنے کی ضرُورت نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ حقیقت میں ایسا حیرت انگیز تُحفہ مِلنا نامُمکن ہے۔ آہا، ہیرلڈ نے اِس ٹرین کو کِتنا عزیز رکھا۔

چند سال بعد، جب کرِسمس کے قریب آ رہا تھا، دُنیا جنگ سے باہر نِکل رہی تھی۔ تاہم چھوٹے سے سینٹ انتھونی، آئیڈاہو، میں مُعاشی حالات بہتر نہیں ہُوئے تھے، اور میرے والد کے خاندان کے لیے، وہ درحقیقت بَدتر ہو گئے تھے۔ ہیرلڈ کے والد شدید بیمار پڑ گئے، تقریباً قریب المرگ تھے۔ اُس کرسمس پر ہیرلیڈ اور اُس کے چھوٹے بھائی آرنلڈ سمیت کسی کو کوئی تحفہ مِلنے والا نہیں تھا۔

کرِسمس سے چند دِن قبل، ہیرلڈ کے والد اُس کے پاس آئے اور خاموشی سے پُوچھا، ”ہیرلڈ، کیا آپ آرنلڈ کو اپنی ٹرین دینے کے لیے راضی ہوں گے تاکہ وہ اِس سال کرِسمس کا تُحفہ پا سکے؟“

کیا اُس نے اپنے باپ کو صحیح سُنا تھا؟ اُس کی دِل پسند ٹرین؟ یہ تمام درخواستوں سے بڑی درخواست تھی۔

کرِسمس کی صُبح آئی، اور آرنلڈ نے خُوشی سے چیخ ماری جب اُسے ہیرلڈ کی طرح کی ٹرین مِلی تھی۔

آرنلڈ نے جلد ہی غور کِیا کہ ہیرلڈ اب اپنی ٹرین کے ساتھ نہیں کھیلتا تھا۔ آخِر کار، آرنلڈ کو احساس ہُوا کہ اُس کا قیمتی تُحفہ ہیرلڈ کی ٹرین کی طرح کا نہیں تھا—بلکہ یہ ہیرلڈ ہی کی ٹرین تھی ! جب آرنلڈ نے اِس تُحفے میں چُھپی اہمیت کو سمجھا، تو یہ ٹرین اَن مول بن گئی۔

میرے لیے، یہ خاندانی کہانی بذاتِ خُود ایک تُحفہ ہے—اور نہ صرف اِس لیے کہ یہ مُجھے میرے عزیز والد اور اُس کے پیارے بھائی کی یاد دِلاتا ہے۔ اِس سے بھی زیادہ اہم، یہ مُجھے خُدا کے المحبُوب بیٹے کی قُربانی—اور محبّت کی یاد دِلاتا ہے—جس کی وِلادت ہم مناتے ہیں۔

یِسُوع مسِیح کرِسمس کی ہماری ازلی و اَبدی نعمت تھی اور ہے۔ مَیں اِس سچّائی کی گواہی دیتی ہُوں: کہ وہ تولُّد ہُوا، وہ ہمارے لیے جِیا اور مُوا، اور وہ آج بھی―زِندہ ہے!

ہم کتنے ہی مُبارک ہیں کہ ہم اِس پُر مَسرَّت نعمت کے پانے والے ہیں۔ کرِسمس کے ایک پسندیدہ گیت کے اَلفاظ میں رقم ہے”جہاں خُوشی منائے، خُداوند آیا ہے؛ دُنیا اپنے شہنشاہ کو اپنائے !“۱

بزرگ نیل اے میکسویل نے سِکھایا: ”خُدا نے ہمیں جو کُچھ عطا کِیا ہے اُس کے پیش نظر، ہمیں قبُول کرنے میں اِنتہائی موّثر ہونا چاہئے، مگر ہم نہیں ہیں۔ ہم جو اپنے آپ کو کافی خُود کفیل اور خُود مُختار سمجھتے ہیں اکثر قبُول کرنے کو معیوب سمجھتے، حتیٰ کہ کٹھن بھی پاتے ہیں۔ …

”[تاہم] خُدا کی نعمتیں، تہوار کے تحائف کے بَرعکس، اَبدی اور دائمی ہیں، جو جاری و ساری کرِسمس کو تشکیل دیتی ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتا!“۲

پَس ہم مُناسب طور پر ایسی نایاب نعمت کیسے پا سکتے ہیں؟ ہم روزانہ اپنے نجات دہندہ، اُس کی محبّت، اور اُس کے لامحدود کفّارے کی نعمت کا اِنتخاب کیسے کرسکتے ہیں؟

آئیں برف سے ڈھکی کھڑکیوں اور رنگ دار ٹافیوں سے آگے بڑھیں، اور آئیں ہم ننھے بچّے نجات دہندہ کو پانے والے پہلے لوگوں کے فروتن کِردار اور نقشِ قدم سے سیکھیں۔

اُس کی قُدّوسیت کو پائیں

جیسے جیسے نجات دہندہ کی وِلادت قریب آئی، تو مریم اور یُوسف بیت لحم کی گہما گہمی سے لڑتے رہے، مگر ساری سرائیں بھر گئی تھیں۔ کیا کِسی کے پاس اُن کے واسطے جگہ نہ تھی؟ کیا اُنھیں کوئی پناہ نہیں دے گا؟ مریم اُس نعمت کو جانتی تھی جو وہ اُٹھائے چل رہی تھی، مگر اُسے پانے کے واسطے، قبُول کرنے کے لیے کسی کے پاس جگہ نہ تھی۔

ہم حقیقتاً نہیں جان سکتے کہ مریم اور یُوسف پر اُس وقت کیا گُزری، مگر مَیں نے ہمیشہ اُنھیں خاموش قُوت اور بھروسے سے آگے بڑھنے کا تصوُّر کِیا ہے۔ فرشتے کے پیغام پر کان لگاتے ہُوئے کہ ” ڈرو مت “۳ اور اب یِسُوع کی وِلادت کی تیاری کرتے ہُوئے، وہ آرام دَہ رہایش کی ہر طرح کی توقعات کو رَد کرنے کے قابل ہوگئے تھے اور اِس کی بجائے ایک گُم نام، معمولی اصطبل میں ٹھہر گئے۔ سب کُچھ جو سادہ نظام کی طرح لگ رہا تھا بالکل ایسا نہیں رہے گا۔ خُداوند جلد ہی اِس بے وصفیت کو قُدّوسیت سے معمُور کر دے گا۔

جیسا کہ لُوقا ۲ : ۷ معروف انداز میں پڑھتے ہیں، ”اور اُس کا پہلوٹا بیٹا پَیدا ہُوا اور اُس نے اُس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھّا کِیُوں کہ اُن کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔“

ہمارا نجات دہندہ—زِندگی، اُمید، اور وعدہ کی وہ شان دار نعمت—زمین پر آ چُکا تھا۔

کیا ہم مسِیح کو پانے اور اُس کی قُدّوسیت کو اپنی بے وصف زِندگیوں میں بھرنے کے لیے اپنے دِلوں میں جگہ تیار کر سکتے ہیں؟ مریم اور یُوسف کی مانِند، کیا بعض اوقات اِنتہائی کٹھن حالات کے باوجود بھی ہم اُس پر بھروسا کر سکتے ہیں؟ ہدایت—حتیٰ کہ مُعجزے—جو ہماری زِندگیوں میں ہوتے ہیں شاید شوروغُل اور گہما گہمی میں نہیں ہوں گے، نہ سٹیج یا سٹیڈیم میں، بلکہ پُرسکون مقامات پر جہاں ہم رہتے اور کام کرتے ہیں اور―جہاں ہم مدد کے لیے جاتے ہیں۔ ہماری عاجِزانہ ضرُوریات جہاں کہیں بھی جنم لیتی ہیں، ہم اپنی سرگوشی میں کی گئی دُعاؤں کا جواب پا سکتے ہیں اور پائیں گے۔

اُس کی دعوتِ عمل کو پائیں

کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ خُدا کے برّے کی زیارت کرنے والے بعض پہلے افراد چرواہے تھے؟

رات نے زمین کو ڈھانپ دِیا تھا جب حیرت زدہ چرواہے روشنی کے تاب ناک منشُور کے نیچے جمع ہُوئے جب نجات دہندہ کی وِلادت کے اعلیٰ و ارفع واقعہ کے دوران میں آسمان اور زمِین کا آپس میں مِلاپ ہُوا۔

”اور فرِشتہ نے اُن سے کہا، ڈرو مَت: کیوں کہ دیکھو، مَیں تُمھیں بڑی خُوشی کی بشارت دیتا ہُوں …

”کیوں کہ آج داؤد کے شہر میں ہمارے لیے مُنجّی پَیدا ہُوا ہے یعنی مسِیح خُداوند۔“۴

ہمیں پسند ہے کہ اُن مامُور چرواہوں نے اپنے آنے میں تاخیر نہیں کی بلکہ اپنے شہنشاہ کے اِستقبال کے لیے فوراً روانہ ہُوئے۔ اُن سے، ہم سیکھتے ہیں کہ اِستقبال کرنا کوئی عملی لفظ ہے۔ لُوقا ہمیں بتاتا ہے کہ چرواہے ”فوراً گئے … اور اُس بچّے کو چرنی میں پڑا پایا۔“۵

کئی بار، خُداوند کی طرف سے ہماری مدھم، معمولی سرگوشِیاں شاید قبُول نہیں کر پاتے کیوں کہ وہ ہماری تاریخوں، منصُوبوں، یا وقت کے مُطابق نہیں ہوتیں۔ کرِسمس کی کہانی ہمیں اُن مامُور چرواہوں کی مانند بننے کی یاد دِلاتی ہے جنھوں نے اپنے شہنشاہ کے اِستقبال کے واسطےضرُوری اَمور میں تاخیر نہیں برتی۔

اب، کیا آپ نے غور کِیا کہ لُوقا کرِسمس کی کہانی میں ایک پُر مَسرّت ترغیب شامِل کرتا ہے کہ اُس کا اِستقبال کرنا اُس کا تذکرہ کرنا ہے، واضح کِیا ”اور جب وہ [یِسُوع] کو دیکھ چُکے، تو وہ بات جو اُس لڑکے کے حق میں اُن سے کہی گئی تھی مشہُور کی“؟۶ اِن چرواہوں نے یہ پیغام آسمان سے پایا، جلدی سے گئے، اور اِس کے فوراً بعد آسمانی پیامبر بن گئے، اور وہ ”جہاں خُوشی منائے“ کا اعلان کرتے ہُوئے، اور سب کو ”[ اپنے] شہنشاہ کا اِستقبال کرنے!“ کی دعوت دی۷

دائمی اِیمان کے ساتھ قبُول کریں

اب آئیں اپنی توجہ مجُوسیوں کی طرف مبذول کریں۔ وہ یِسُوع مسِیح کے عظیم ترین مُتلاشیوں میں نُمایاں ہیں۔ اُنھوں نے جاں فِشانی سے اپنی زِندگیاں آسمانی ظہُور کو دیکھتے ہُوئے گُزاریں، اور جب وہ وقت آیا، تو اُنھوں نے ستارے کی پیروی کرنے اور اپنے شہنشاہ کو ڈھونڈنے کے لیے مانُوس مقامات، ملازمتوں، گھرانوں، اور دوستوں کو پیچھے چھوڑ دِیا۔

چرواہوں کی زِندگی کے بَرعکس، اِن کا طویل جاری و ساری سفر تھا جس میں وقت لگا۔ اُنھیں ڈھونڈنا، مانگنا، اِنتظار کرنا، اور آگے بڑھنا تھا، اور پھر دوبارہ ایسا کرنا تھا، جب تک کہ آخِر کار اُنھوں نے چھوٹے بچّے کو اُس کی ماں، مریم کے ساتھ نہ دیکھ لِیا۔ اُنھوں نے وہ تحائف پیش کیے جو نہایت قیمتی تھے اور اُس کے آگے سِجدہ ریز ہُوئے اور اُس کی پرستش کی۔۸

مَیں نے اکثر غور و خوض کِیا ہے کہ: مسِیح کو قبُول کرنے میں، کیا ہم جاں فِشانی سے اُس کی تلاش کرتے ہیں اور پھر اُس پر توّکل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے سفر کو اجبنی مقامات اور لوگوں کی طرف لے جائے؟ ہم کیسے اپنے تحائف اور عِبادت کے ذریعے سے اپنے تشکر کا اِظہار کر سکتے ہیں؟

مُبارک ہیں وہ جو قبُول کرتے ہیں

پَس، یہ ہے—کرِسمس کی عظِیمُ الشان کہانی۔

میرے عزیز دوستو، مُبارک ہیں وہ جو قبُول کرتے ہیں۔ جیسا کہ میرے والِد کی ٹرین کا تُحفہ اور ہر سُو خاندانوں کے توسط سے تخلیق کیے گئے محبّت بھرے لمحات کے تحائف اور اِقدار بہت عزیز ہیں، مگر یہ تحائف کرِسمس کی حقیقی نعمت کی نِسبت ہلکے ہیں—جو کہ یِسُوع مسِیح ہے۔

”پَس اِس سے آدمی کو کیا فائدہ کہ اُسے اِنعام بخشا جائے، اور وہ اُس اِنعام کو قَبُول نہ کرے؟“۹

اِس اَبدی سچائی کی روشنی میں اِس صحیفے پر غور کریں: ”کِیُوں کہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بَیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔“۱۰

مُجھے اِس میں کیے گئے وعدے سے پیار ہے: کہ جو کوئی حقیقی طور پر اُس مُقدّس رات کو عطا کی گئی نعمت یعنی مسِیح کو قبُول کرے گا ہمیشہ کی زِندگی پائے گا!

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مسِیح کو مزید بھرپُور طریقے سے پانے کی اپنی روز مرّہ کی کاوشوں کے ذریعے، ہم ویسے بنیں گے جیسے ہمارے نبی، صدر رسل ایم نیلسن، نے دعوت دی ہے کہ: ”ایسی اُمت بنیں جو خُداوند کی آمدِ ثانی پر اُس کا اِستقبال کرنے کے لائق، تیار، اور اہل ہو، ایسی اُمت جِس نے پہلے ہی یِسُوع مسِیح کو چُن لِیا ہے۔“۱۱

اُس دِن کا تصوُّر کرنا کتنا جلالی ہے جب ہم باہم مِل کر دوبارہ اعلان کریں گے: ”جہاں خُوشی منائے، خُداوند آیا ہے؛ دُنیا [اور ہم میں سے ہر ایک] اپنے شہنشاہ کے اِستقبال کو نکلے!“۱۲ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔