سیمنریاں اور انسٹی ٹیوٹ
اُن سے محبت رکھیں جِنھیں آپ تعلیم دیتے ہیں


”اُن سے محبت رکھیں جِنھیں آپ تعلیم دیتے ہیں،“ نجات دہندہ کے طریق پر تعلیم دینا: اُن سب حضرات کے لیے جو گھر اور کلِیسیا میں درس دیتے ہیں (۲۰۲۲)

”اُن سے محبت رکھیں جِنھیں آپ تعلیم دیتے ہیں،“ نجات دہندہ کے طریق پر تعلیم دینا

شبیہ
کنویں پر یِسُوع سامری عورت سے بات کرتے ہُوئے

نجات دہندہ جب ہمارے لیے مثال بنتا ہے، تو محبّت ہماری تدریِس کا محرک بن جاتی ہے۔

اُن سے محبت رکھیں جِنھیں آپ تعلیم دیتے ہیں

نجات دہندہ نے اپنی زمِینی خِدمت کے دوران میں جو کُچھ بھی کیا اُس کے پِیچھے محبّت محُرک تھا۔ جب ہم مسِیح کے سچے پیروکار بننے کی کوشش کرتے ہیں، توہم اُسی محبت سے معمُور ہو سکتے ہیں (دیکھیے یُوحنا ۱۳:‏۳۴–۳۵؛ مرونی ۷:‏۴۷—۴۸؛ ۸:‏۲۶)۔ جب نجات دہندہ کی محبّت ہمارے دِلوں میں ہوتی ہے، تو ہم مسِیح کے بارے میں سِیکھنے اور اُس کے پاس آنے میں دُوسروں کی مدد کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ تلاش کرتے ہیں۔ محبّت ہماری تدریس کا محُرک بن جاتی ہے۔

اُن سے محبت رکھیں جنھیں آپ تعلیم دیتے ہیں۔

  • جَیسے خُدا دیکھتا ہے مُتعلمین کو وَیسے دیکھیں۔

  • اُنھیں جاننے کی کوشش کریں—اُن کے حالات، ضروریات اور خُوبیوں کو سمجھیں۔

  • نام بنام اُن کے واسطے دُعا کریں۔

  • اَیسا محفوظ ماحول بنائیں جہاں سب کا احترام کیا جائے اور معلوم ہو کہ اُن کی شراکت کو سراہا جاتا ہے۔

  • اپنی محبت کے اظہار کے لیے مناسب طریقے تلاش کریں۔

نجات دہندہ نے جِس جِس کو اُس نے تعلیم دی اُن میں اِلہٰی صلاحیت دیکھی

یریحُو میں زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ جو کُچھ اُنھیں زکائی کی بابت جاننا تھا وہ اُنھیں معلوم تھا۔ وہ محصُول لینے والا اور محصُول کا ٹھیکہ دار تھا—درحقیقت، ٹھیکہ داروں کا سردار—اور بڑا مال دار تھا۔ واضح طور پر، اُن کا خیال تھا، وہ بے اِیمان اور بدعنوان ہوگا۔ لیکن یِسُوع نے زکائی کے دِل کو دیکھا تو عِزت دار ”فرزندِ ابرہام“ دِکھائی دِیا (دیکھیے لُوقا ۱۹:‏۱–۱۰)۔ نجات دہندہ نے لوگوں کو اِس طرح نہیں دیکھا جیسا کہ وہ دِکھائی دیتے تھے بلکہ جیسا کہ وہ واقعی تھے—اور جیسا کہ وہ بن سکتے تھے۔ شمعُون، اِندریاس، یعقُوب، اور یُوحنّا جیسے کم عِلم ماہی گِیروں میں، اُس نے اپنی کلِیسیا کے لیے مستقبل کے راہ نماؤں کو دیکھا۔ ہیبت ناک ظالم ساؤل میں، اُس نے اپنا ”چُنا ہُوا وسِیلہ“ دیکھا (دیکھیے اَعمال ۹:‏۱۰–۱۵)۔ اور آپ میں اور ہر اُس شخص میں جِنھیں آپ تعلیم دیتے ہیں، نجات دہندہ خُدا کے بیٹے یا بیٹی کو لامحدود صلاحیتوں کے ساتھ دیکھتا ہے۔

جِن لوگوں کو آپ پڑھاتے ہیں، اُن میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے جو مُخلص اور مغلُوب نظر آتے ہیں اور دُوسرے جو عدم دلچسپی کا مُظاہرہ کرتے یا حتیٰ کہ باغی دِکھائی دیتے ہیں۔ خبردار رہیں کہ صرف آپ جو دیکھتے ہیں اِس کی بُنیاد پر مفرُوضے نہ بنائیں۔ رُوحُ القُدس آپ کو ہر شخص میں نجات دہندہ کی نظروں سے کُچھ نہ کُچھ دیکھنے میں مدد کر سکتا ہے—اور آپ کو اُن سے اِس طرح پیار کرنے میں مدد کر سکتا ہے جس طرح وہ کرتا ہے۔

غَور و فِکر کے لیے سوالات: ہر اُس شخص کے بارے میں سوچیں جِس کو آپ سِکھاتے ہیں، اور غَور کریں کہ آسمانی باپ اور یِسُوع ہر ایک کے بارے میں کیسا محسُوس کرتے ہیں۔ وہ اِس میں یا اُس میں کیا دیکھ سکتے ہیں؟ اَیسے شخص کے لِیے یہ خیالات آپ کے اندازِ تدرِیس پر کیسے اَثر انداز ہوتے ہیں؟

صحائف سےماخُوذ: ۱ سموئیل ۱۶:‏۷؛ زبُور ۸:‏۴–۵؛ رُومِیوں ۸:‏۱۶–۱۷؛ عقائد اور عہُود ۱۸:‏۱۰–۱۴

نجات دہندہ ہمیں جانتا ہے اور ہماری طاقت، ہمارے حالات، اور ہماری ضرُوریات کو سمجھتا ہے

سامری عورت اِنجِیل کا پیغام سُننے کے لیے کنویں پر نہیں آئی تھی۔ وہ پانی بھرنے آئی تھی۔ لیکن نجات دہندہ سمجھ سکتا تھا کہ اُس کی پیاس طبعی پیاس سے کہیں زیادہ تھی۔ اُس کو معلوم تھا کہ ناپائیدار تعلُقات کی بِنا پر اُس کا ماضی مُصِیبت زدہ تھا۔ لہٰذا یِسُوع نے اِس طبعی ضرُورت کو دیکھا جِس میں اُس کی فوری دِل چسپی تھی—زِندگی برقرار رکھنے والا پانی—اور ”آبِ حیات“ اور ”ہمیشہ کی زِندگی“ کے لیے اُس کی معنی خیز رُوحانی ضرُوریات سے جوڑ دیا۔ اُن کی گفتگو کے اختتام تک، اُس عورت نے ذاتی گواہی پا لی تھی کہ یِسُوع المسِیح ہے، اِس کا اندازہ اُس کو کُچھ اِس بات سے ہُوا کہ وہ اِس کو کتنی اچھی طرح جانتا تھا۔ ”[اُس] نے میرے سب کام مُجھے بتا دِیے،“ عورت نے کہا۔ ”کیا مُمکِن ہے کہ مسِیح یِہی ہے؟“ (دیکھیے یُوحنّا ۴:‏۶–۲۹

مانِندِ مسِیح مُعلم ہونے میں اُن لوگوں کو جاننا شامِل ہے جِنھیں آپ پڑھاتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے دِلوں میں کیا ہے۔ آپ اُن کی زِندگیوں میں دِل چسپی لے سکتے ہیں اور ہمدردی دِکھا سکتے ہیں۔ آپ اُن کے پس منظر، صلاحیتوں، دِل چسپیوں اور ضرُوریات کو سمجھنے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔ آپ یہ معلُوم کر سکتے ہیں کہ وہ کِس طرح عُمدہ طریقے سے سِیکھتے ہیں۔ آپ سوالات پُوچھ سکتے ہیں، غَور سے سُن سکتے ہیں اور مُشاہدہ کر سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر، آپ اِس سمجھ بُوجھ کے لیے دُعا کر سکتے ہیں جو صرف رُوح دے سکتا ہے۔ آپ کسی شخص کو جِس قدر بہتر جانتے ہیں، اُسی قدر آپ اِس لائق ہوں گے کہ یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل میں اِنفرادی معنی اور قُدرت کو تلاش کرنے میں اُن کی مدد کریں۔ ایک بار جب آپ کسی شخص کی پیاس کو سمجھ لیتے ہیں، تو رُوح آپ کو سِکھا سکتا ہے کہ اِس کو نجات دہندہ کے آبِ حیات سے پیاس بُجھانے میں کِس طرح مدد کی جائے۔

غَور و فکر کے لیے سوالات: آپ اِن لوگوں کی بابت کیا جانتے ہیں جِنھیں آپ پڑھاتے ہیں؟ اُن کے لیے کیا اہم ہے؟ اُن کی صلاحیتیں کون کون سی ہیں؟ کون کون سی کشمکش میں وہ مُبتلا ہیں؟ اُنھیں مزید بہتر طور پر جاننے کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

صحائف سے ماخُوذ: زبُور ۱۳۹:‏۱–۵؛ متّی ۶:‏۲۵–۳۲؛ مرقس ۱۰:‏۱۷–۲۱؛ یُوحنّا ۱۰:‏۱۴؛ ۳ نیفی ۱۷:‏۱–۹

نجات دہندہ نے جِن کو تعلیم دی اُن کے واسطے دُعا کی۔

تصوُّر کریں کہ شمعون پطرس نے کیسا محسُوس کیا ہوگا جب اُس نے نجات دہندہ کو یہ کہتے ہُوئے سُنا، ”شمعُون! شمعُوؔن! دیکھ شَیطان نے تُم کو مانگ لِیا، … لیکن مَیں نے تیرے لِیے دُعا کی کہ تیرا اِیمان جاتا نہ رہے“ (لُوقا ۲۲:‏۳۱–۳۲)۔ یہ جان کر آپ پر کیا اثر ہُوا ہوگا کہ یِسُوع مسِیح نے آپ کے واسطے باپ سے دُعا کی تھی؟ قدیم امریکہ کے باشندووں کو اِس طرح کا تجربہ تھا، اور اُنھوں نے اِس کو یُوں بیان کیا: ”کوئی اِنسان اُس شادمانی کا اِدراک نہیں کر سکتا، جس سے ہماری جانیں اُس وقت مَعمُور ہُوئیں جب ہم نے [یِسُوع] کو ہمارے لیے باپ سے دُعا کرتے ہُوئے سُنا“ (۳ نِیفی ۱۷:‏۱۷

آپ اِس کی بابت بھی سوچ سکتے ہیں کہ جب آپ کسی کے لیے مسلسل، نام لے کر دُعا کرتے ہیں تو آپ کے اندر کیا تبدیلی آتی ہے۔ آپ کی دُعائیں اُس شخص کے مُتعلق آپ کے احساسات کو کیسے متاثر کرتی ہیں؟ وہ آپ کے اَعمال پر کیسے اَثر پذیر ہوتی ہیں؟ بےشک ہمارا آسمانی باپ ہر اُس مُعلم کی پُرخلُوص دُعاؤں کو سُنتا اور جواب دیتا ہے جو کسی مُتعلم کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ اور بہت سے مُعاملات میں، اُن دُعاؤں کا جواب دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خُدا مُعلم کے دِل کو چُھوتا اور کُچھ اَیسا کہنے یا کرنے کی ترغیب دیتا ہے جو مُتعلم کو خُدا کی محبت کا احساس دِلانے میں مدد کرتا ہے۔

غَور و فکر کے لیے سوالات: جب آپ اُن لوگوں کے مُتعلق سوچتے ہیں جِنھیں آپ پڑھاتے ہیں، کیا کوئی اَیسا ہے جِس کی بابت آپ محسُوس کرتے ہیں کہ آپ کی دُعاؤں کی کوئی خاص ضرورت ہے؟ اُس شخص کے واسطے یا اُس کی طرف سے دُعا کرنے کے لیے کس بات نے آپ کو آمادہ کیا ہے؟ جب آپ مُتعلمین کو ایک دُوسرے کے لیے دُعا کرنے کی دعوت دیتے ہیں تو کون سی رحمتیں نازِل ہو سکتی ہیں؟

صحائف سے ماخُوذ: یُوحنّا ۱۷؛ ایلما ۳۱:‏۲۴–۳۶؛ ۳ نِیفی ۱۸:‏۱۵–۲۴؛ ۱۹:‏۱۹–۲۳، ۲۷–۳۴

نجات دہندہ نے اِس بات کو یقینی بنایا کہ سب کو احساس دِلایا جائے کہ وہ قابلِ احترام اور قابلِ قدر ہیں۔

یِسُوع کے دَور میں مذہبی قائدین کے ہاں عمومی رویہ یہ تھا کہ گُناہ گاروں سے کِنارہ کشی اِختیار کی جائے۔ اِسی وجہ سے، جب اِن قائدین نے یِسُوع کو گُناہ گاروں کے ساتھ بات چیت کرتے دیکھا، تو وہ گھبرا گئے تھے۔ اَیسے لوگوں سے تُعلق رکھنے والا رُوحانی مُعلم کیوں کر ہو سکتا ہے؟

بِلاشُبہ، یِسُوع کا اَندازِ نظر مُختلف تھا۔ اُس نے اُنھیں شِفا دینا چاہا جو رُوحانی طور پر بِیمار تھے (دیکھیے مرقس ۲:‏۱۵–۱۷؛ لُوقا ۴:‏۱۷–۱۸)۔ وہ مستقل طور پر اُن لوگوں تک پہنچا جو اپنے آس پاس کے لوگوں سے مختلف تھے یا جِن کا ماضی پریشان کن تھا، اور اُس نے اُن لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھا جو گُناہ کے مُرتکب ہُوئے تھا۔ اُس نے رُومی صوبہ دار کے اِیمان کو بہت سراہا (دیکھیے متّی ۸:‏۵–۱۳)۔ اُس نے ناقابلِ بھروسا محصُول لینے والے کو اپنے قابلِ اعتبار شاگِردوں میں ایک ہونے کے لِیے بُلایا (دیکھیے مرقس ۲:‏۱۴)۔ جب کسی عورت پر زنا کاری کا اِلزام لگایا گیا، تو اُس نے اُسے اَحساسِ تحفُظ دیا اور اُسے توبہ کرنے اور بہتر زِندگی گُزارنے کی ترغیب دی (دیکھیے یُوحنّا ۸:‏۱–۱۱

بلکہ یِسُوع نے اِس سے بھی بڑھ بہت کُچھ انجام دیا۔ اُس نے اپنے پیروکاروں میں قبولیت اور محبت کے اِسی رویہ کو فروغ دیا۔ اُس کی مثال یقیناً اُس کے رسُولوں کے دِلوں میں تھی جب اُن کے لیے اِنجِیل کو ساری دُنیا تک پہنچانے کا وقت آیا۔ پطرس کے کلام سے یہ ظاہر ہو گیا: ”مُجھے پُورا یقِین ہو گیا کہ خُدا کسی کا طرف دار نہِیں ہے“ (اعمال ۱۰:‏۳۴

اِس بات کا بہت زیادہ اِتفاق ہو سکتا ہے کہ تقریباً ہر وہ شخص جسے آپ کو پڑھانے کے لیے بُلایا جاتا ہے کسی نہ کسی طریقے سے احساسِ احترام اور قدر کی کشمکش میں مُبتلا رہا ہے۔ جس طرح سے آپ اُن سے پیار کرتے ہیں اور اُن کا احترام کرتے ہیں، آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ نہ صرف خوش آیند ہیں بلکہ ضرُوری ہیں۔ آپ اُن لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں جو شرکت نہیں کرتے، جو کشمکش میں مُبتلا ہیں، یا جو دِل چسپی نہیں دِکھاتے، اگر پیش رفت سست نظر آتی ہے تو صبر کریں۔ آپ ساتھی مومنین کے ساتھ اُن کے خدشات ظاہر کرنے سے ہر کسی کو احساسِ تحفُظ اور بےتُکلفی کا احساس پیدا کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اور آپ اِس سے بڑھ کر کہیں زیادہ کر سکتے ہیں۔ آپ سب مُتعلمین کو ایک ایسا ماحول بنانے میں مدد کرنے کے لیے ترغیب دے سکتے ہیں جہاں احترام، اپنایت اور محبت کے جذبے سے پڑھایا جاتا ہے۔

غَور و فکر کے لیے سوالات: کون سا امر کسی شخص کو عزت اور قدر کا احساس دِلانے میں مدد دیتا ہے؟ کون سا امر کسی شخص کو دُوسروں کی عزت اور قدر کرنے لیے آمادہ کرتا ہے؟ جب آپ دُعا گو ہو کر اُن لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں جنھیں آپ پڑھاتے ہیں، آپ کیا کرنے کی ترغیب پاتے ہیں تاکہ اُن سب کو اپنی قبُولیت اور اَہمیت کا احساس ہو سکے؟

صحائف سے ماخُوذ: یُوحنّا ۴؛ ۲ نِیفی ۲۶:‏۲۷–۲۸، ۳۳؛ ایلما ۱:‏۲۶؛ ۳ نِیفی ۱۸:‏۲۲–۲۵

شبیہ
والِد بچّوں کو پڑھاتے ہُوئے

مُعلمین جِنھیں پڑھاتے ہیں اُنھیں احساس دِلا سکتے ہیں کہ اُن سے پیار کیا جاتا ہے۔

نجات دہندہ نے اُن لوگوں کے لیے اپنی محبت کا اِظہار کیا جنھیں وہ تعلیم دیتا تھا۔

نِیفیوں کے درمیان میں تعلیم اور خِدمت کے حیرت خیز، رفعت بخش دِن کے اختتام پر، یِسُوع نے فرمایا کیا کہ اُس کے جانے کا وقت آگیا ہے۔ اُس نے دُوسرے لوگوں کی مُلاقات کے لیے جانا تھا۔ ”اپنے اپنے گھر جاؤ،“ اُس نے فرمایا، ”اور کل کے لیے اپنے اپنے ذہن کو تیار کرو۔“ بلکہ لوگ وہاں بیٹھے رہے ”اَشک بار،“ بس” مُسلسل اُس کو دیکھتے رہے گویا جَیسے وہ تھوڑی دیر اور اُس کو اپنے پاس ٹھہرنے کے لیے کہہ رہے ہوں۔“ اُن کی اَن کہی اَحتیاج کو جان کر اور ”رحم سے لبریز ہو کر،“ یِسُوع تھوڑا عرصہ مزید اُن کے ساتھ ٹھہرا رہا (۳ نِیفی ۱۷:‏۳، ۵–۶)۔ اُس نے اُن کے بِیماروں اور مُصِیبت زدوں کو برکت دی۔ اُس نے گھٹنے ٹیکے اور اُن کے ساتھ مِل کر دُعا کی۔ وہ ان کے ساتھ اشک بار ہُوا، اور وہ اُن کے ساتھ خُوشی منائی۔

۳ نِیفی ۱۷ میں نجات دہندہ کے کلام اور اعمال پر دُعاگو ہوکر مُطالعہ کرنے پر غور کریں۔ اُس محبت پر غور و فکر کریں جس کا اِظہار یِسُوع نے اُن کے لیے کیا جِن کو اُس نے تعلیم دی۔ صحیفوں میں دُوسری جگہوں پر اُس کی محبت کے اِظہار کو تلاش کریں۔ پھر اُن لوگوں کی بابت سوچیں جنھیں آپ پڑھاتے ہیں۔ ہم اُن کے واسطے واجب طریقے سے اپنی محبّت کا اِظہار کیسے کرتے ہیں؟ رُوح کو اپنے مُطالعہ کی راہ نمائی کرنے دیں۔ اگر آپ کو اُن کے لیے محبت محسوس کرنا یا اُن کے واسطے محبت کا اِظہار کرنا مشکل لگتا ہے، تو خُدا کی محبت کی گواہی دینا شروع کریں۔ ہم”باپ سے اپنے دِل کی ساری طاقت کے ساتھ دُعا کرو، کہ تُمھیں [مسِیح کے سچّے عِشق] سے سرشار کر دے، جو اُس نے اُن سب کو عطا کیا ہُوا ہے جو اُس کے بیٹے، یِسُوع مسِیح، کے سچّے شاگِرد ہیں“ (مرونی ۷:‏۴۸)۔ اور یاد رکھیں کہ سبق پڑھانے کے لیے آپ کی فکرمندی آپ کو اپنے قول و فعل سے محبّت کے اِظہار سے کبھی نہیں ہٹانی چاہیے۔ اکثر آپ کا لوگوں کے ساتھ برتاؤ اِتنا ہی اہم ہے جتنا کہ آپ اُنھیں پڑھاتے ہیں۔

غَور و فکر کے لیے سوالات: نجات دہندہ نے آپ کے واسطے اپنی محبّت کو عیاں کرنے میں آپ کی کیسے مدد کی ہے؟ والدین یا دُوسرے مُعلم نے اُس کی محبّت کو محسوس کرنے میں کس طرح مدد کی ہے؟ کیا وہ لوگ جِن کو آپ پڑھاتے ہیں اُنھیں عِلم ہے کہ آپ اُن سے محبّت کرتے ہیں؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ نجات دہندہ اُن سے محبت کرتا ہے؟

صحائف سے ماخُوذ: مرقس ۶:‏۳۱–۴۲؛ یُوحنّا ۱۳:‏۳–۱۶، ۳۴–۳۵؛ ۱۵:‏۱۲–۱۳؛ ۱ کرنتھیوں ۱۳‏۱–۷؛ ۱ یُوحنّا ۴:‏۷–۱۱

جو کُچھ آپ سیکھ رہے ہیں اُسے لاگو کرنے کے چند طریقے

  • اگر آپ کسی کلاس کو پڑھا رہے ہیں تو مُتعلمین کے نام سیکھیں اور پڑھاتے وقت اُن کا اِستعمال کریں۔

  • جب مُتعلمین تعاون کرتے ہیں تو شُکریہ ادا کریں۔

  • آپ پڑھانے سے پہلے اور بعد میں مُتعلمین کے ساتھ بات چیت کریں۔

  • مُتعلمین کو ایک دُوسرے کے واسطے محبّت اور احترام کی فضا پیدا کرنے میں مدد کریں۔

  • خلُوصِ نیّت سے سُنیں—جب آپ پڑھاتے ہوں اور دیگر لمحات میں۔

  • جِن لوگوں کو آپ پڑھاتے ہیں اُن کے لیے خدمت کے فرائض انجام دیں۔

  • اُن اُصُولوں پر زیادہ وقت گُزارنے کے لیے اپنے تدریسی منصوبوں کو تبدیل کرنے کے لیے تیار رہیں جو آپ کے پڑھانے والوں کے لیے معنی خیز ہوں۔

شائع کرنا