پس تم کامل بنو — آخرکار
اگر ہم ثابت قدم رہیں ، تو پھر ابدیت میں کہیں ہمیں پاک کرنے کا عمل ختم اور مکمل ہو گا۔
صحائف ہمیں برکت دینے اور ہماری حوصلہ افزائی کے لئے لکھے گئے ، اور یقینناً وہ ایسا کرتے بھی ہیں۔ ہم ہر ایک باب اور آیت کے لئے عرش کے شکر گزار ہیں جو ہمیشہ ہمیں دی گئی ۔ لیکن کیا آپ نے غور کیا ہے کہ کبھی کبھار کوئی ایک عِبارت سامنے آئے گی اور ہمیں یاد دلائے گی کہہم وہ سب کچھ نہیں کر رہےجو ہمیں کرنا چاہیے؟ مثال کے طورپر، پہاڑی واعظ کا آغاز سکون بخش ، اعلیٰ مبارک بادیوں سے ہوتا ہے، مگر اُس کے بعد کی آیات میں، دوسری باتوں کے درمیان ـــــــ ہمیں بتایا گیا ہے ــــــ ہمیں خون نہیں کرنا چاہیے بلکہ کسی پر غصہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ زنا نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو کوئی کسی عورت پر بُری نگاہ بھی ڈالتا ہے وہ اُس کے ساتھ اپنے دل میں زِنا کر چکا۔ کوئی تجھ پر نالِش کرکے تیرا کُرتہ لینا چاہے تو اپنا چوغہ بھی اُس کے حوالے کردے ۔ ہمیں اپنے دشمنوں سے پیار کرنا ہے، اور جو ہمیں ستاتے ہیں اُن کو برکت دینی ہے، اور جو ہم سے نفرت کرتے ہیں ان کے ساتھ اچھائی کرنی ہے۔ 1
اگر یہ اآپ کا صبح کا مطالعہ صحائف ہو ، اور اِس حد تک پڑھنے کے بعد بھی ہمیں معمولی سا یقین ہو کہ ہم ااپنے انجیلی رپورٹ کارڈ پر اچھے نمبرز حاصل نہیں کر سکیں گے، کیونکہ اس زنجیر میں حتمی حکم اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ کام اختتام کو پہنچے: ” پس تم کامل بنو جیسا کہ تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔ “2 اِس اختتامی حکم کے ساتھ ، ہم بستر پر جانا اور اپنے سر کو ڈھانپ لینا چاہتے ہیں۔ ایسے سلیسٹیل مقاصد ہماری پہنچ سے باہر دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم یقینی طورپر خدا وند ہمیں کبھی کوئی ایسا حکم نہ دے گا جس کے بارے وہ جانتا تھا کہ ہم نہ کر پائیں گے۔ آئیں دیکھیں تذبذب کی یہ کیفیت ہمیں کہاں لے جاتی ہے ۔
کلیسیائی حلقے میں، مَیں نے بہت ساروں کو سنا ہے جو اِس مسئلے سے نبرد آزما ہیں: ”میں کوئی زیادہ اچھا نہیں ہوں۔“ ”میری حالت بہت ناقص ہی ہے۔“ ”میں کبھی بھی اہل نہ ہوں گا۔“ میں یہ نوخیزوں سے سنتا ہوں۔ میں یہ مشنریوں سے سنتاہوں۔ میں یہ نئے تبدیل ہونے والوں سے سنتا ہوں۔ میں یہ تاحیات ارکان سے سنتا ہوں۔ مقدسین آخری ایام کی ایک پُر بصیرت بہن ڈارلا ایسکسن نے دریافت کیا کہ ، شیطان نے کسی طرح سے عہود اور احکامات کو لعنتوں او رملامتوں کی مانند دکھانے کا انتظام کر لیا ہے۔ کچھ کے لئے اُس نے انجیل کے معیارات اور الہام کو نفرت انگیز اورمصیبت ساز بنا دیا ہے۔3
اب جو میں کہتا ہوں اسکا مقصد کسی بھی طریقہ سے خدا کی طرف سےملنے والے حکم کا انکار کرنا یا انکو کمتر سمجھنا نہیں ہے۔ میں اُس کی کاملیت پر ایمان رکھتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ ہم اُس کی مانند بننے کی الہیٰ قوت کے ساتھ اُس کے روحانی بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں ، کہ خدا کے بچوں کے طور پر، ہمیں خود کو گرانا یا بدنام نہیں کرنا چاہیے، جیسے اگر خود کو مارنے سے ہم کسی حد تک ایسا شخص بن جاتے ہیں جو خدا ہمیں بنانا چاہتا ہے ۔ نہیں ! میں اُمید کرتا ہوں کہ اپنے دلوں میں ہمیشہ توبہ کی آمادگی اور بڑھی ہوئی راست بازی کی خواہش کے ساتھ ، ہم ذاتی بہتری کا تعاقب اِس طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں جس میں السر اور بھوک کی کمی کی بیماری ، افسردگی کا احساس یا ذاتی وقار کی تباہی شامل نہیں ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جو خداوند پرائمری کے بچوں کے لئے یا کسی بھی ایسے شخص کے لئے چاہتا ہےجو گاتاہے ، ” میں یسوع کی مانند بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ “ 4
اِس نکتے کو اِس سیاق و سباق میں رکھتے ہوئے، کیا میں ہم سب کو یاد کرا سکتا ہوں کہ ہم سب گری ہوئی دنیا میں رہتے ہیں اور اب ہم گرے ہوئے لوگ ہیں۔ ہم ٹیلیسٹیل بادشاہت میں ہیں، ہجے ٹی, کے ساتھ کئے گئے ہیں نہ کہ سی. کے ساتھ ۔ جیسا کہ صدر رسل ایم۔ نیلسن نےسکھایا ہے، یہاں فانیت میں کاملیت ابھی تک ”زیر التواء“ ہے۔5
پس میں ایمان رکھتا ہوں کہ یسوع نے اِس موضوع پر اِس نیت سے وعظ نہ دیا تھا کہ وہ ہماری خامیوں کے بارے ہماریڈانٹ ڈپٹ کرنا چاہتا تھا۔ نہیں ، میرا ایمان ہے کہ اِس سے اُس کا ارادہ خراج تحسین پیش کرنے کا تھا کہ خدا ابدی باپ کون اور کیا ہے اور ہم ابدیت میں اُس کے ساتھ کیا کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔ کسی بھی حالت میں ، میں یہ جان کر شکر گزار ہوں کہ میرےاَدُھورے پن کے باوجود، کم از کم وہ تو کامل ہے ـــــــ کہ کم از کم وہ، مثال کے طورپر، اپنے دشمنوں سے محبت کرنے کے قابل ہے، کیوں کہ اکثر اوقات، اپنے اندر کے ، ”نفسانی آدمی“6 اور عورت کی وجہ سے ،آپ اور میں ہی بعض اوقات وہ دشمن ہوتے ہیں ۔ میں کتنا شکر گزار ہوں کہ کم از کم خدا اُن کو برکت دے سکتا ہے جو کینہ پروری کے ساتھ اُس کا استعمال کرتے ہیں کیوں کہ ، بغیر کسی چاہت اورارادے کے، بعض اوقات ہم سب کینہ پروری کے ساتھ اُس کا استعمال کرتے ہیں۔ میں شکر گزار ہوں کہ خدا رحم دل اور صلح جو ہےکیوں کہ مجھے رحم اور دنیا کو صلح کی ضرورت ہے۔ بے شک، جو سب ہم باپ کی پاکیزگی کے بارے میں کہتے ہیں وہ ہم اُس کے اکلوتے بیٹے کی بھی بارےمیں کہتے ہیں، جس نے ایسی ہی کاملیت کے ساتھ زندگی گزاری اور موا۔
میں کہنے میں جلد ی کرتا ہوں کہ اپنی ناکامیوں پر توجہ دینے کی بجائے باپ اور بیٹے کے کارناموں پر توجہ دینے سے، ہماری غیر منظم زندگیوں یا اپنے معیارات سے گرنے کا رتی بھر بھی جواز نہیں دے سکتیں۔ نہیں ، ابتدا سے انجیل ” مقدس لوگوں کی مکمل تربیت کرنے کے لئے ہے، … یہاں تک کہ ہم … کامل انسان بن کر ، مسیح کے قد کے اندازے تک پہنچ جائیں۔“7 میں سادہ سی تجویز دیتا ہوں کہ صحائف یا کسی ایک حکم کا ایک مقصد ہمیں یاد دلانا ہے کہ ” مسیح کی معموری کا قد “ کتنا شاندار ہے8 واقعی ہی، ہم میں اُس کے لئے عظیم محبت اور تعریف کا جوش پیدا کرتا ہےاور عظیم خواہش کہ اُس کی مانند بنیں ۔
” ہاں ، مسیح کی طرف رجوع لاؤ، اور اُس میں کامل بنو … ،“ مرونی التجا کرتاہے۔ ” خدا کو اپنی ساری عقل، قوت اور طاقت سے سے پیار کرو، پھر … خدا کے فضل کے وسیلے تم مسیح میں کامل بنو۔ “ 9 کامل سچائی کی ہماری واحد اُمید عرش کے تحفے کے طورپر اُسے پانا ہے ـــــ ہم اِسے ”خود سے حاصل“ نہیں کر سکتے۔ پس، فضل نہ صرف ہمیں دکھوں اورگناہ اور موت سے نجات کی پیش کش کرتاہےبلکہ ہماری اپنی مستقل خود تنقیدی سے بھی نجات بخشتا ہے۔
میں اِس کو تھوڑا مختلف طریقے سے بتانے کے لئے نجات دہندہ کی ایک تمثیل استعمال کرنا چاہوں گا۔ ایک نوکر تھا جو اپنے بادشاہ کا 10000 توڑوں کا مقروض تھا۔ نوکر کی صبر اور رحم کی التجا سن کر ، ”اُس مالک نے ترس کھایا ، اور قرض معاف کر دیا۔ “ مگر اُسی نوکر نے اپنے ہم خدمت کو معاف نہ کیا جو اُس کا 100سکوں کا مقروض تھا۔ جب بادشاہ نے یہ واقعہ سنا، تو اُسے اُس نوکر کر افسوس ہوا جسے اُس نے معاف کیا تھا، ” کیا تجھ پر لازم نہ تھا کہ جیسا میں نے تجھ پر ترس کھایا تو بھی اپنے ہم خدمت پر ترس کھاتا “؟ 10
جس رقم کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اِس کے بارے علماء کی رائے کے درمیان تھوڑا فرق ہے __ اور یو۔ایس کے مالیاتی حوالے کو تو معاف کریں ، مگر حساب کی آسانی کے لئے ، اگر سو سکوں جیسی چھوٹی رقم بطور قرض معاف نہ کی جا سکتی تھی ، جو موجود وقت کے 100 ڈالرذ کے برابر ہے، تو پھر 10000 توڑوں کا قرض جو مفت میں معاف کیا گیا تھا وہ 1 بلین ڈالرذ — یا زیادہ ہوگا!
جس طرح ذاتی قرض، جو تعداد میں بہت ہی زیادہ ہے؛ مکمل طورپر ہماری سمجھ سے بھی بالاتر ہے ۔ ( کوئی بھی اتنی خریداری نہیں کر سکتا!) خیر، اِس تمثیل کے مقاصد کے لئے، یہ فرض کریں کہ یہ عقل سے بڑھ کر ہے؛ فرض کریں، ہماری سمجھنے کی قوت سے بڑھ کر ہے، بلکہ اِس کی دوبارہ ادائیگی ہی ہماری قابلیت سے بڑھ کے ہے۔ کیونکہ یہ نئے عہد نامے میں دو نوکروں کی تکرار کے بارے کہانی نہیں ۔ یہ ہمارے بارے میں ایک کہانی ہے، گرے ہوئے انسانی خاندان کے بارے میں ، فانی قرض داروں ، خطاکاروں، اور سب قیدیوں کے بارے میں۔ ہم میں سے ہر ایک قرض دار ہے، اور اِس کا فیصلہ ہم میں سے ہر ایک کی قید کا تھا۔ وہاں ہم سب کو رہنا پڑنا تھا اگر یہ ہمارے بادشاہ کا فضل نہ ہوتا، جس نے ہمیں آزاد کیا کیوں کہ وہ ہم سے پیار کرتا ہےاور ”ہمارے لئے رحم رکھتاہے۔“ 11
یہاں پر یسوع ایک انتہائی گہری پیمائش کا استعمال کرتاہےکیوں کہ اُس کا کفارہ بے پناہ گہرا انعام ہے جو ناقابل فہم قیمت پر دیا گیا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ کم از کم اِس مفہوم کے پیچھے یسو ع کا حکم کامل بننے کا ہے ۔ ہو سکتاہے ہم ابھی 10000 توڑوں جیسی کاملیت کا مظاہرہ نہ کر سکیں جسے باپ اور بیٹے نے حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ اُن کے لئے کہنا بہت زیادہ نہیں ہے، کہ ہم چھوٹی چیزوں میں زیادہ خدا کی مانند ہوں، کہ ہم کم از کم 100 سکوں کی کاملیت کے معیار کے مطابق بات اور عمل کریں، محبت کریں اور معاف کریں، توبہ کریں اور ترقی کریں، جو واضح طور پر ہماری صلاحیت کے اندر ہے۔
بھائیو اور بہنو، سوائے یسوع کے، اِس زمینی سفر میں کسی اور کی کارکردگی خامیوں سے پاک نہیں ہے، پس اس فانیت کے دوران آئیں ہم مستحکم بہتری کے لئے کوشش کرتے ہیں کرداری علوم کے سائنسدانوں کے بقول ” کامل ہونےکی غیر صحت مند سرگرمی ۔ “ کے جنون سے باہر رہتے ہوئے۔ 12 ہمیں خود کو بعد میں ملنے والی اپنی اور دوسروں کی اور میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں ، اُن کی توقعات سے بچنا چاہیےجن کو کلیسیا میں خدمت کے لئے بلایا گیا ہے ــــــ مقدسین آخری ایام کے لئے جس کا مطلب ہر کوئی ہےکیوں کہ ہم سب کو کہیں نہ کہیں خدمت کے لئے بلایا گیا ہے۔
اِس لحاظ سے، لیو ٹالسٹائی نے ایک کاہن کا بیان تحریر کیا جسے اُس کی کلیسیا کے رکن نے تنقیدکا نشانہ بنایا کہ جس طرح سے اُسے عزم و استقلال سے زندگی گزارنی چاہیے تھی اُس نے ایسے نہیں گزاری، ناقد نے یہ بھی شامل کیا کہ وہ اصول جو اُس غلط پادری نے سکھائے وہ بھی اِس وجہ سے غلط ہونگے۔
اُس تنقید کے جواب میں لیو ٹالسٹائی کہتا ہے: ”اب میری زندگی کو دیکھو اور اِس کا موازنہ میری سابقہ زندگی سے کرو۔ آپ دیکھو گے کہ میں جس سچائی کا اعلان کرتاہوں اُس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔“ جن اعلیٰ معیارات کی اُس نے تعلیم دی اُن کے مطابق زندگی گزارنے سے قاصر، کاہن نے اقرار کیا کہ وہ ناکام ہو گیا ہے۔ مگر وہ چلایا:
” مجھ پر حملہ کرو، [اگر تمہاری خواہش ہے،] میں یہ خود سے کرتا ہوں، مگر میں جس راہ کی پیرو ی کرتا ہوں اَس پر حملہ [مت ] کرو۔ … اگر میں گھر کا راستہ جانتا ہوں [مگر ] میں اُس پر نشہ کی حالت میں چل رہا ہوں ، تو کیا یہ معمولی سا بھی صحیح راستہ نہیں ہے اسلئے کہ میں اِدھر اُدھر جھوم رہا ہوں؟
”… خوشی سے چلاؤ مت، ’ اُسے دیکھو! … وہ وہاں دلدل میں پھنسا رینگ رہا ہے!‘ نہیں ، ناز سے نہ دیکھو، بلکہ اسکی مدد [ کرو جو واپس خدا کی طرف جانے والی راہ پر چلتا ہے۔ ]“13
بھائیو اور بہنو، ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہے کہ عام کامیاب زندگی سے بڑھ کر مسیح کی مانند زندگی گزاریں۔ اگر ہم دیانتداری سے اِس کا اقرار کرتے ہیں اور بہتر ہونے کی کوشش رہے ہیں ، تو ہم منافق نہیں ؛ بلکہ ہم انسان ہیں ۔ کاش ہم اپنی فانی غلطیوں کا انکار کر سکیں، اور یہاں تک کہ اپنے ارد گرد کے بہترین مرد و خواتین کی نا گزیر خامیوں کا بھی، جو ہمیں انجیل کی سچائیوں یا مستقبل کی ہماری اُمید یا حقیقی خدا پرستی کی ممکنات کے بارے منکر بناتی ہے ۔ اگر ہم ثابت قدم رہیں ، تو پھر ابدیت میں کہیں تو پھر ابدیت میں کہیں ہمیں پاک کرنے کا عمل ختم اور مکمل ہو گا — جسکا نئے عہد نامے میں مطلب کاملیت ہے۔ 14
میں اُس عظیم منزل کی گواہی دیتا ہوں ، جو خداوند یسوع مسیح کے کفارے کے وسیلے سے ہمارے لئے دستیاب ہے، جس نے خود ”فضل در فضل “ 15 کام جاری رکھا جب تک اُس نے اپنی لافانیت میں 16 سلیسٹیل جلال کی کامل معموری کونہ پایا۔17 میں گواہی دیتاہوں کہ ہر گھڑی وہ کیلوں کے نشان والے ہاتھوں کے ساتھ ، ہمیں تھامے ہوئے اور ہمیں ہمت دیتے ہوئے وہی فضل ہمیں دیتاہے ، جب تک ہم سلامتی سے آسمانی والدین کے گھر پہنچ کر اُن سےبغل گیر نہ ہو جائیں ۔ ایسے کامل لمحے کے لئے ، میں کوشش تو جاری رکھتا ہوں مگر اناڑی پن سے۔ ایسے کامل تحفہ کے لئے، میں شکر گزاری جاری رکھتاہوں، مگر ناکافی طورپر۔ میں ایسا اُسی نام سے کرتا ہوں جو خود میں کامل ہے، جو خود سے کبھی بھی اناڑی یا ناکافی نہیں رہا بلکہ جو ہم سب سے پیار کرتاہے، یسوع مسیح کے نام میں، آمین۔