باب ۲۰
خُداوند عمون کو اپنے قیدی بھائیوں کی رہائی کے لیے مدونی بھیجتا ہے—عمون اور لمونی، لمونی کے باپ سے مِلتے ہیں جو پُورے مُلک کا بادِشاہ ہے—عمون، بُوڑھے بادِشاہ کو اپنے بھائیوں کی رہائی کی منظُوری کے لیے مجبُور کرتا ہے۔ قریباً ۹۰ ق۔م۔
۱ اور اَیسا ہُوا کہ جب وہ اُس مُلک میں کلِیسیا قائم کر چُکے تو لمونی بادِشاہ نے چاہا کہ عمون اُس کے ساتھ نِیفی کے مُلک جائے تاکہ وہ اُسے اپنے باپ کو دِکھائے۔
۲ اور عمون کو خُداوند کی آواز آئی، فرمایا: تُو نِیفی کے مُلک میں نہ جانا، پَس دیکھ بادِشاہ تیری جان کا خواہاں ہو گا بلکہ تُو مدونی کے مُلک میں جانا؛ کیوں کہ دیکھ تیرے بھائی ہارُون، اور میولکی اور آماہ بھی قید خانے میں ہیں۔
۳ اب اَیسا ہُوا کہ جب عمون نے یہ سُنا تو اُس نے لمونی سے کہا: دیکھ میرا بھائی اور میرے ہم خِدمت، مدونی کے قید خانے میں ہیں اور مُجھے جانا ہے تاکہ اُنھیں رہائی دِلا سکُوں۔
۴ اب لمونی نے عمون سے کہا: مَیں جانتا ہُوں کہ تُو زورِ خُداوندی سے سب کُچھ کر سکتا ہے۔ بہرحال دیکھ، مَیں تیرے ساتھ مدونی کے مُلک جاؤں گا؛ کیوں کہ مدونی کے مُلک کا بادِشاہ انطیامنو میرا دوست ہے؛ پَس مَیں مُلکِ مدونی کے لیے روانہ ہوتا ہُوں، تاکہ اُس مُلک کے بادِشاہ کی خُوشامد کروں، اور وہ تیرے بھائیوں کو قید خانے سے نِکال دے۔ اب لمونی نے اُس سے کہا: تُجھے کس نے بتایا کہ تیرے بھائی قید خانے میں ہیں؟
۵ اور عمون نے اُس سے کہا: مُجھے خُدا کے سِوا کسی اور نے نہیں بتایا، اور اُس نے مُجھ سے کہا—جا اور اپنے بھائیوں کو چُھڑا، کیوں کہ وہ مدونی کے مُلک کے قید خانہ میں ہیں۔
۶ اب جب لمونی نے یہ سُنا تو اُس نے حُکم دِیا کہ اُس کے نوکر اُس کے گھوڑے اور اُس کے رتھ تِیار کریں۔
۷ اور اُس نے عمون سے کہا: آ، مَیں تیرے ساتھ مدونی کے مُلک جاؤں گا اور وہاں مَیں بادِشاہ سے مِنّت سماجت کرُوں گا کہ وہ تیرے بھائیوں کو قید سے نِکال باہر کرے۔
۸ اور اَیسا ہُوا کہ جب عمون اور لمونی اُس طرف سفر جاری رکھے ہُوئے تھے، تو وہ لمونی کے باپ سے مِلے جو ساری سر زمِین کا بادِشاہ تھا۔
۹ اور دیکھو لمونی کے باپ نے اُس سے کہا: تُو اُس شان دار تہوار پر، جب مَیں نے اپنے بیٹوں کے لیے اور اپنے لوگوں کے لیے ضیافت تیار کی، کیوں نہیں آیا؟
۱۰ اور اُس نے یہ بھی کہا: تُو اِس نِیفی کے ساتھ کہاں جا رہا ہے جو جھوٹے شخص کی اَولاد میں سے ایک ہے؟
۱۱ اور اَیسا ہُوا کہ لمونی نے اُسے تفصیل سے بتایا کہ وہ کہاں جا رہا ہے کیوں کہ وہ اُسے ناراض کرنے سے ڈرتا تھا۔
۱۲ اور اُس نے اُسے وہ تمام اسباب بھی بتائے جِن کی وجہ سے وہ اپنی مملکت میں ہی رہا اور وہ اپنے باپ کی ضیافت میں نہیں پُہنچا تھا، جو اُس نے تیار کی تھی۔
۱۳ اور اب جب لمونی یہ سب باتیں اُسے بتا چُکا، تو دیکھو وہ نہایت حیران ہُوا کہ اُس کا باپ اُس کے ساتھ ناراض ہُوا اور کہنے لگا: لمونی، تُو اِن نِیفیوں کو رہا کرانے جا رہا ہے جو جھوٹے شخص کے فرزند ہیں، دیکھ، اُس نے ہمارے باپ دادا کو لُوٹا اور اب اُس کے بیٹے بھی ہمارے ہاں آئے ہیں تاکہ وہ اپنی مکاری اور اپنے جھوٹ سے ہمیں دھوکا دیں تاکہ پھر سے ہماری جائداد لُوٹیں۔
۱۴ اب لمونی کے باپ نے اُسے حُکم دِیا کہ وہ تلوار کے ساتھ عمون کو قتل کرے۔ اور اُس نے اُسے یہ حُکم بھی دِیا کہ وہ مدونی کے مُلک میں نہ جائے، بلکہ وہ اُس کے ساتھ اسماعیل کے مُلک کی طرف لوٹے۔
۱۵ لیکن لمونی نے اُس سے کہا: مَیں نہ عمون کو قتل کروں گا نہ اِسماعیل کے مُلک جاؤں گا، بلکہ مَیں مدونی کے مُلک کے لیے روانہ ہوتا ہُوں تاکہ مَیں عمون کے بھائیوں کو رہا کراؤں، پَس مَیں جانتا ہُوں کہ وہ راست آدمی ہیں اور سچّے خُدا کے پاک نبی ہیں۔
۱۶ اب جب اُس کے باپ نے یہ باتیں سُنیں تو وہ اُس کے ساتھ خفا ہُوا اور اُس نے اپنی تلوار نِکالی تاکہ وہ اُسے مار کر زمِین پر گرائے۔
۱۷ بہرکیف عمون آگے بڑھا اور اُس سے کہا: دیکھ تُو اپنے بیٹے کو نہ مار؛ تو بھی، اگرچہ بہتر ہے کہ تیرے بجائے وہ مرے، کیوں کہ دیکھ، وہ اپنے گُناہوں سے تَوبہ کر چُکا ہے؛ لیکن اگر تُو اپنے قہر میں، اِس وقت، ہلاک ہُوا، تو تیری جان بچائی نہ جا سکے گی۔
۱۸ اور پھر، یہ بہتر ہے کہ تُو اپنے آپ کو باز رکھ؛ کیوں کہ اگر تُو نے اپنے بیٹے کو مارا، چُوں کہ وہ معصُوم اِنسان ہے، چُناں چہ اُس کا خُون زمِین سے خُداوند اُس کے خُدا کو تُجھ سے اِنتقام لینے کے لیے پُکارے گا اور شاید تُو اپنی جان کھو دے۔
۱۹ اب جب عمون نے اُس سے یہ باتیں کہیں تو اُس نے یہ کہہ کر جواب دِیا: مَیں جانتا ہُوں کہ اگر مَیں اپنے بیٹے کو قتل کرتا ہُوں، تو مَیں معصُوم خُون بہاتا ہُوں؛ کیوں کہ یہ تُو ہے جو اُسے تباہ کرنے کا خواہاں ہے۔
۲۰ اور اُس نے عمون کو قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن عمون نے اُس کے وار روکے اور اُس کے بازو پر بھی وار کِیا کہ وہ اُسے اِستعمال نہ کر سکے۔
۲۱ اب جب بادِشاہ نے دیکھا کہ عمون اُسے قتل کر دے گا، تو وہ عمون سے مِنّت کرنے لگا کہ وہ اُس کی زِندگی بخش دے۔
۲۲ لیکن عمون نے اپنی تلوار اُٹھائی اور اُس سے کہا: دیکھ، اگر تُو مُجھے میرے بھائیوں کو قید خانہ سے نِکالنے کی اِجازت نہ دے گا تو مَیں تُجھے ہلاک کر دُوں گا۔
۲۳ اب بادِشاہ نے اِس ڈر سے کہ کہیں وہ اپنی جان ہی نہ کھو دے کہا: اگر تُو میری زِندگی بخش دے تو جو تُو مانگے گا مَیں تُجھے دُوں گا، یعنی کہ آدھی سلطنت تک۔
۲۴ اب جب عمون نے دیکھا کہ جو اُس نے بادِشاہ کے ساتھ کِیا اُس کا اَثر اُس کی خواہش کے مُطابق ہُوا ہے، تو اُس نے اُس سے کہا: اگر تُو میرے بھائیوں کو قید خانہ سے باہر نِکالنے کی اِجازت دے، اور یہ بھی کہ لمونی اپنی سلطنت کا مالِک رہے، اور تُو اُس سے خفا نہ رہے، بلکہ ہر ایک بات میں جو وہ سوچتا ہے اُس کو اپنی مرضی سے انجام دینے کی اِجازت دے، تو پھر مَیں تیری جان بخش دُوں گا؛ ورنہ مَیں تُجھے زمِین میں گاڑھ دُوں گا۔
۲۵ اب جب عمون یہ باتیں کہہ چُکا تو بادِشاہ اپنی زِندگی کے باعث خُوش ہونے لگا۔
۲۶ اور جب اُس نے دیکھا کہ عمون اُسے قتل کرنے کا خواہاں نہ تھا، اور جب اُس نے یہ بھی دیکھا کہ وہ اُس کے بیٹے لمونی کے لِیے بڑی محبّت رکھتا ہے، تو وہ بہت زیادہ حیران ہُوا اور کہا: چُوں کہ تیری آرزُو یہی تھی کہ مَیں تیرے بھائیوں کو رہا کرُوں، اور کہ مَیں اپنے بیٹے کو اُس کی سلطنت پر برقرار رکھُوں، تو دیکھ، مَیں تُجھ سے وعدہ کرتا ہُوں کہ میرا بیٹا اِس وقت سے ہمیشہ تک اپنی سلطنت پر قائم رہے گا؛ اور مَیں مزید اِس پر حاکم نہیں ہُوں گا—
۲۷ اور مَیں تُجھے یہ منظُوری بھی دُوں گا کہ تیرے بھائی قید خانے سے نِکالے جائیں، اور تُو اور تیرے بھائی، میری سلطنت میں میرے پاس آئیں، کیوں کہ مَیں بڑی شدت سے تُجھے مِلنے کا خواہش مند رہوں گا۔ پَس بادِشاہ اُن باتوں پر جو اُس نے کہیں، اور اُن باتوں پر بھی جو اُس کے بیٹے لمونی نے کہیں، بہت زیادہ حیران ہُوا، لہٰذا وہ اِنھیں سِیکھنے کا طلب گار تھا۔
۲۸ اور اَیسا ہُوا کہ عمون اور لمونی نے مدونی کے مُلک کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ اور لمونی اُس مُلک کے بادِشاہ کا منظُورِ نظر ہُوا، پَس عمون کے بھائی قید خانے سے باہر لائے گئے۔
۲۹ اور جب عمون اُن سے مِلا تو نہایت غم زدہ ہُوا، کیوں کہ دیکھو وہ ننگے تھے اور اُن کی چمڑیاں مضبُوط رسیّوں کے ساتھ بندھے رہنے کی باعث بُری طرح چِھلی ہُوئی تھیں۔ اور اُنھوں نے بُھوک پیاس اور ہر طرح کی مُصِیبتیں بھی اُٹھائی تھیں، اِس کے باوجُود وہ اپنے سارے دُکھوں میں صابر تھے۔
۳۰ اور یُوں ہُوا کہ یہ اُن کی قِسمت تھی کہ وہ زیادہ سخت دِل اور زیادہ سرکش لوگوں کے ہاتھوں میں آ پڑے تھے، اِس سبب سے اُنھوں نے اُن کے کلام پر کان نہ لگایا، اور اُنھوں نے اُنھیں باہر پھینکوایا، اور اُنھیں مارا پِیٹا، اور اُنھیں ایک گھر سے دُوسرے گھر اور ایک مقام سے دُوسرے مقام تک گھسِیٹا گیا یعنی جب تک اُنھیں مدونی کے مُلک میں پُہنچا نہ دِیا؛ اور وہاں اُنھیں پکڑا گیا اور قید خانے میں ڈالا گیا، اور مضبُوط رسیّوں سے باندھا گیا؛ اور کئی دِنوں تک قید خانے میں رکھا گیا، اور پھر وہ لمونی اور عمون کے وسیلے سے رہا کِیے گئے۔