صحائف
ایلما ۲۷


باب ۲۷

خُداوند عنتی‐نِیفی‐لِحی کی اُمّت کو محفُوظ جگہ پر لے جانے کے لِیے عمون کو قیادت کرنے کا حُکم دیتا ہے—ایلما سے مُلاقات کے موقعہ پر، عمون اِس قدر خُوش ہوتا ہے کہ اُس کی ہمت جواب دے جاتی ہے—نیفی، عنتی‐نِیفی‐لِحی کے لوگوں کو یرشون کا مُلک دے دیتے ہیں—وہ عمون کی اُمّت کہلاتے ہیں۔ قریباً ۹۰–۷۷ ق۔م۔

۱ اب اَیسا ہُوا کہ جب اُن لامنوں نے جو نیفیوں کے خِلاف جنگ کرنے گئے تھے، اُنھیں تباہ و برباد کرنے کی اپنی بے تحاشہ کوشِشوں کے بعد یہ جان گئے تھے، کہ اُن کی ہلاکت کا خیال بے سُود تھا، تو وہ دوبارہ نِیفی کے مُلک کو لوٹ گئے۔

۲ اور اَیسا ہُوا کہ عمالیقی اپنے نقصان کے باعث شدِید غُصّے میں تھے۔ اور جب اُنھوں نے دیکھا کہ وہ نِیفیوں سے اِنتقام نہیں لے سکے، تو اُنھوں نے غُصّے میں اپنے بھائیوں، یعنی عنتی‐نِیفی‐لِحی، کی اُمّت کے خِلاف لوگوں کو بھڑکانا شُروع کر دیا، پَس وہ پھر اُنھیں ہلاک کرنے لگے۔

۳ اب اِن لوگوں نے پھر اپنے ہتھیار اُٹھانے سے اِنکار کِیا اور خُود کو اپنے دُشمنوں کی خواہشوں کے مُطابق ہلاک ہونے دِیا۔

۴ اب جب عمون اور اُس کے بھائیوں نے ہلاکت کے اِس کام کو اُن لوگوں کے درمیان میں دیکھا جِن کو وہ بُہت پیارے تھے، اور اُن کے درمیان میں جو اُنھیں بُہت پیارے تھےکیوں کہ اُن سے اَیسا برتاؤ کِیا جاتا تھا جَیسے وہ خُدا کی طرف سے اُنھیں اَبَدی ہلاکت سے بچانے کے لِیے بھیجے گئے فرِشتے ہوں—پَس، جب عمون اور اُس کے ہم خِدمت بھائیوں نے ہلاکت کا اَیسا گھناؤنا کام دیکھا، تو وہ رحم سے بھر گئے، اور اُنھوں نے بادِشاہ سے کہا:

۵ آؤ ہم خُداوند کی اِس قَوم کو اِکٹھا کریں، اور ہم اپنے بھائی نیفیوں کے پاس ضریملہ کے مُلک میں جائیں، اور اپنے دُشمنوں کے ہاتھوں سے دُور بھاگ جائیں تاکہ ہم ہلاک نہ ہوں۔

۶ اَلبتہ بادِشاہ نے اُن سے کہا: دیکھ، کیوں کہ ہم نے اُن کے خِلاف بُہت سارے قتل اور گُناہ کِیے ہیں، اِس سبب سے نیفی ہمیں ہلاک کر دیں گے۔

۷ اور عمون نے کہا: مَیں جاؤں گا اور خُداوند سے دریافت کرُوں گا، اور اگر وہ ہم سے کہے، اپنے بھائیوں کے پاس چلے جاؤ تو کیا تُم جاؤ گے؟

۸ اور بادِشاہ نے اُس سے کہا؛ ہاں، اگر خُداوند ہمیں جانے کو کہے، تو ہم اپنے بھائیوں کے پاس جائیں گے، اور ہم اُس وقت تک اُن کے غُلام رہیں گے جب تک ہمارے اُن گُناہوں اور خُون کا بدلہ پُورا نہ ہو جائے جو ہم نے اُن کے خِلاف کِیے ہیں۔

۹ بہرکیف عمون نے اُس سے کہا: اُن کے درمیان میں کسی کا غُلام ہونا، اَیسا ہمارے بھائیوں کے اُس آئِین کے خِلاف ہے جو میرے باپ نے قائم کِیا تھا؛ پَس آؤ چلیں اور اپنے بھائیوں کے رحم پر تکیہ کریں۔

۱۰ لیکن بادِشاہ نے اُس سے کہا:خُداوند سے دریافت کر اور اگر اُس نے ہمیں جانے کو کہا تو ہم جائیں گے ورنہ ہم اِسی مُلک میں ہلاک ہوں گے۔

۱۱ اور اَیسا ہُوا کہ عمون گیا اور خُداوند سے دریافت کِیا، اور خُداوند نے اُس سے فرمایا:

۱۲ اِن لوگوں کو اِس مُلک سے لے کر نِکل جا تاکہ یہ ہلاک نہ ہوں؛ کیوں کہ عمالیقیوں کے دِلوں پر شَیطان کا بُہت بڑا غلبہ ہے، جو لامنوں کو اپنے بھائیوں کے خِلاف غُصّے میں بھڑکاتا ہے کہ اُنھیں ہلاک کریں؛ پَس تُم اِس مُلک سے نِکلو؛ اور اِس نسل کے یہ لوگ مُبارک ہیں، پَس مَیں اُنھیں محفُوظ رکھُوں گا۔

۱۳ اور اب اَیسا ہُوا کہ عمون بادِشاہ کے پاس گیا اور وہ سب باتیں بتائیں جو خُداوند نے اُس سے کہی تھیں۔

۱۴ اور اُنھوں نے اپنی پُوری قَوم کو اِکٹھا کِیا، ہاں، خُداوند کی ساری اُمّت کو اور اُن کے تمام گلوں اور ریوڑوں کو جمع کِیا اور مُلک سے روانہ ہُوئے، اور اُس بیابان میں آئے جو نِیفی کے مُلک کو ضریملہ کے مُلک سے الگ کرتا تھا اور اُس کو پار کر کے مُلک کی سرحدوں کے قریب پُہنچ گئے۔

۱۵ اور اَیسا ہُوا کہ عمون نے اُن سے کہا: دیکھو مَیں اور میرے ہم خِدمت بھائی ضریملہ کے مُلک جاتے ہیں، اور تُم ہمارے واپس آنے تک یہیں ٹھہرنا؛ اور ہم اپنے بھائیوں کے دِلوں کے خیالات جانیں گے، کہ آیا وہ چاہتے ہیں کہ تُم اُن کے مُلک میں آؤ۔

۱۶ اور اَیسا ہُوا کہ جب عمون اُس مُلک میں جا رہا تھا تو وہ اور اُس کے ہم خِدمت بھائی ایلما کو اُس جگہ مِلے جِس کا ذِکر کِیا گیا ہے؛ اور دیکھو، یہ مُلاقات خُوشی سے بھری تھی۔

۱۷ اب عمون کی خُوشی اِس قدر زیادہ تھی کہ وہ خُوشی سے مَعمُور ہو گیا؛ ہاں، وہ اپنے خُدا کی خُوشی میں مغلُوب ہُوا حتیٰ کہ اُس کی ہِمت جاتی رہی؛ اور وہ پھر سے زمِین پر گِر پڑا۔

۱۸ اب کیا یہ خُوشی کی اِنتہا نہ تھی؟ دیکھو، یہ وہ خُوشی ہے جو کوئی بھی نہیں پا سکتا، سِوا اُس کے جو سچّا تائب ہے اور اِقبال مندی کا فروتن مُشتاق ہے۔

۱۹ اب اپنے بھائیوں سے مِلنے پر ایلما کی خُوشی بھی درحقِیقت بُہت زیادہ تھی، اور ہارُون اور اومنر اور حمنی کی خُوشی بھی؛ بہرحال دیکھو اُن کی خُوشی اِتنی نہ تھی کہ اُن کی ہمت پر غالب آ جاتی۔

۲۰ اور اب اَیسا ہُوا کہ ایلما اپنے ہم خِدمت بھائیوں کو ساتھ لے کر ضریملہ کے مُلک لے آیا؛ یعنی اپنے آبائی گھر میں آیا۔ اور اُنھوں نے اعلیٰ قاضی کے پاس جا کر اُس کو وہ سارا ماجرا سُنایا جو نِیفی کے مُلک میں اُن کے لامنی بھائیوں کو در پیش آیا تھا۔

۲۱ اور اَیسا ہُوا کہ اعلیٰ قاضی نے پُورے مُلک میں اُن کے بھائیوں کو جو عنتی‐نِیفی‐لِحی کے لوگ تھے، اپنے مُلک میں آنے کی بابت لوگوں کی رائے جاننے کے لِیے فرمان جاری کِیا۔

۲۲ اور اَیسا ہُوا کہ لوگوں کی یہ رائے سامنے آئی: دیکھو، ہم یرشون کا مُلک جو سَمُندر کے مشرِق کی طرف ہے، اور جو فراوانی کے مُلک کے ساتھ مِلتا ہے، جو فراوانی کے مُلک کے جنُوب میں ہے؛ اور مُلکِ یرشون وہ مُلک ہے جو ہم وراثت کے لِیے اپنے بھائیوں کو دے دیں گے۔

۲۳ اور دیکھو، ہم یرشون کے مُلک اور نِیفی کے مُلک کے درمیان میں اپنی فَوجیں تعیُّنات کریں گے، تاکہ ہم یرشون کے مُلک میں اپنے بھائیوں کی حِفاظت کر سکیں؛ اور اَیسا ہم اپنے بھائیوں کے لِیے کرتے ہیں، کیوں کہ اُنھیں خَوف ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے خِلاف ہتھیار اُٹھا کر گُناہ کا اِرتکاب نہ کر بیٹھیں؛ اور اُن پر یہ خَوف اُن کی دِلی تَوبہ کے باعث طاری ہُوا ہے، اَیسا بے شُمار قتل و غارت اور گھناؤنی بدیوں کے اِرتکاب کی وجہ سے تھا۔

۲۴ اور اب دیکھو، اَیسا ہم اپنے بھائیوں کے لِیے اِس واسطے کریں گے، تاکہ وہ مُلکِ یرشون کے وارِث ہوں؛ اور ہم اپنی فَوجوں کے ساتھ اُن کے دُشمنوں سے اُنھیں محفُوظ رکھیں گے، بہ شرطِ کہ وہ اپنے مال کا کُچھ حِصّہ ہماری اِعانت کے لِیے دیں جِس سے ہم اپنی فَوجوں کی کفالت کر سکیں۔

۲۵ اب اَیسا ہُوا کہ جب عمون نے یہ سُنا، تو ہو عنتی‐نِیفی‐لِحی کے لوگوں کے پاس بیابان میں اُس جگہ واپس آیا، جہاں اُنھوں نے اپنے خیمے لگائے ہُوئے تھے، اور ایلما بھی اُس کے ساتھ آیا، اور اُنھیں یہ سب باتیں بتائیں۔ اور ایلما نے عمون اور ہارُون اور اپنے ہم خِدمت بھائیوں کے ساتھ اپنے رُجُوع لانے کے حوالے سے بھی اُنھیں بتایا۔

۲۶ اور اَیسا ہُوا کہ اِس وجہ سے اُن کی خُوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اور وہ یرشون کے مُلک میں گئے، اور یرشون کے مُلک پر قابِض ہُوئے؛ اور بنی نِیفی نے اُنھیں عمون کی قَوم کہا؛ پَس اِس کے بعد سے ہمیشہ تک اِسی نام سے اُن کی پہچان ہُوئی۔

۲۷ اور وہ اب نِیفی کی قَوم کے بِیچ میں تھے، اور خُدا کی کلِیسیا کے لوگوں میں بھی اُن کا شُمار ہونے لگا۔ اور خُدا کے واسطے اپنے جوش و خروش کی بابت بھی نمایاں مقام رکھتے تھے، اور اِنسان کے واسطے بھی؛ پَس وہ اپنے سارے مُعاملات میں کُلی طور پر دیانت دار اور امانت دار تھے؛ اور آخِر تک مسِیح پر اُن کا اِیمان پُختہ تھا۔

۲۸ اور اُن کی نظر میں اپنے بھائیوں کا خُون بہانا اِنتہائی گھناؤنا فعل تھا؛ اور اُنھیں اپنے بھائیوں کے خِلاف ہتھیار اُٹھانے کے لِیے کبھی راغب نہیں کِیا جا سکتا تھا؛ اور مسِیح کے اِدراک اور قیامت اور اپنی اُمِید کی بدولت اُنھوں نے رتی برابر موت سے کبھی خَوف نہ کھایا؛ پَس، اُن کے واسطے موت مسِیح کی فتح کا لُقمہ بن چُکی تھی۔

۲۹ پَس، بجائے اِس کے کہ وہ اُنھیں مارنے کے لِیے اُن پر تلوار یا بُغدا اُٹھاتے، اُنھیں اپنے بھائیوں کی طرف سے وہ نہایت دردناک اور تکلیف دہ موت گوارہ تھی جو اُن کے بھائی اُن پر لاتے۔

۳۰ اور یُوں وہ جوشِیلے اور محبُوب لوگ تھے، خُداوند کی اِنتہائی مقبُولِ نظر اُمّت۔