باب ۴۲
فانی زِندگی زمانہَ کارِ آموزی ہے جو اِنسان کو تَوبہ اور خُدا کی خِدمت کرنے کے لایق بناتا ہے—آدم کی زوال پذیری کُل بنی نوع اِنسان کے لِیے جِسمانی اور رُوحانی موت لائی—مُخلصی تَوبہ کی بدولت عطا ہوتی ہے—خُدا خُود جہان کے گُناہوں کا کَفارہ اَدا کرتا ہے—رحم اُن کے لِیے ہے جو تَوبہ کرتے ہیں—باقی سب اِنسان خُدا کے اِنصاف کے تحت ہیں—رحم کَفارہ کی بدولت نازِل ہوتا ہے—فقط سچّے تائب نجات پائیں گے۔ قریباً ۷۴ ق۔م۔
۱ اور اب، میرے بیٹے، مَیں سمجھتا ہُوں کہ مزید چند اور باتیں ہیں جو تیرے دِل کو پریشان کرتی ہیں، جِن کو تُو سمجھ نہیں سکتا—جو کہ خُدا کے اِنصاف کے مطابق گُناہ گار کی سزا کی بابت ہے؛ پَس تُو یہ سوچتا ہے کہ گُناہ گار کو بدحالی کی حالت کے حوالہ کرنا ناانصافی ہے۔
۲ اب دیکھ، میرے بیٹے، مَیں تیرے لِیے اِس بات کی وضاحت کرُوں گا۔ پَس دیکھ، خُداوند خُدا نے ہمارے پہلے والدین کو باغِ عدن سے باہر کر دِیا تاکہ وہ اُس زمِین کی جِس میں سے وہ لِیا گیا تھا کھیتی کرے—ہاں، اُس نے آدم کو وہاں سے نِکال دِیا اور باغِ عدن کے مشرِق کی طرف کرُّوبِیوں کو اور چَوگرد گُھومنے والی شُعلہ زن تلوار کو رکھّا کہ وہ زِندگی کے درخت کی راہ کی حِفاظت کریں—
۳ اب، ہم دیکھتے ہیں کہ اِنسان نیک اور بد کی پہچان میں خُدا کی مانِند ہو گیا تھا؛ اور کہِیں اَیسا نہ ہوتا کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھاتا اور حیات کے درخت سے بھی کُچھ لیتا اور کھاتا اور ہمیشہ تک جِیتا رہتا، خُداوند خُدا نے کرُّوبِی اور شُعلہ زن تلوار کو رکھا، تاکہ وہ اُس کا پھل نہ کھانے پائے—
۴ اور یُوں ہم دیکھتے ہیں، کہ اِنسان کو تَوبہ کے لِیے مُہلت دی گئی تھی، ہاں، زمانہِ کارِ آموزی، تَوبہ کرنے اور خُدا کی خِدمت کرنے کی مُہلت۔
۵ پَس دیکھ، اگر آدم نے فی اَلفور اپنا ہاتھ بڑھا لِیا ہوتا، اور زِندگی کے پھل میں سے کھا لِیا ہوتا، تو وہ خُدا کے کلام کے مُطابق ہمیشہ کے لِیے زِندہ رہتا، اور اُسے تَوبہ کی مُہلت نہ مِلتی؛ ہاں، اور خُدا کا کلام بھی بے سُود ہوتا، اور نجات کا عظیم اُلشان منصُوبہ کالعدم ہو گیا ہوتا۔
۶ مگر دیکھ، اِنسان کا مرنا مُقرّر کِیا گیا تھا—پَس، جِس طرح اُنھیں حیات کے درخت سے دُور کر دِیا گیا تھا، اُسی طرح رُویِ زمِین پر سے بھی مِٹا ڈالے جائیں گے—اِنسان ہمیشہ کے لِیے بھٹک گیا، ہاں، اور وہ زوال پذیر بشر بن گیے۔
۷ اور اب، اِس بات سے تُو سمجھتا ہے کہ ہمارے پہلے والدین جِسمانی اور رُوحانی دونوں طرح سے خُداوند کی حُضُوری سے کاٹ ڈالے گئے؛ اور یُوں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اِرادوں کی پیروی کرنے کے تابع ہُوئے۔
۸ اب دیکھ، یہ واجب نہ تھا کہ اِنسان کی اِس جِسمانی موت سے بازیابی ہوتی، پَس یُوں اِقبال مندی کا عظیم اُلشان منصُوبہ تباہ ہو جاتا۔
۹ پَس، چُوں کہ رُوح کبھی نہیں مر سکتی، اور زوال پذیری کُل بنی نوع اِنسان پر رُوحانی موت کے ساتھ ساتھ جِسمانی موت بھی لے کر آئی، یعنی کہ، وہ خُداوند کی حُضُوری سے کاٹ ڈالے گئے تھے، تو واجب تھا کہ بنی نوع اِنسان کو رُوحانی موت سے بازیاب کرایا جائے۔
۱۰ پَس چُوں کہ وہ نفسانی، شہوانی، اور اِبلِیسی بن گئے تھے، سرشِت کے اِعتبار سے تو یہ کیفیتِ کارِ آمُوزی اُن کے لِیے تیاری کرنے کا زمانہ بنا؛ یہ حالتِ تیاری بن گئی۔
۱۱ اور اب یاد رکھ، میرے بیٹے، (فرض کریں) اگر رہائی کا یہ منصُوبہ نہ ہوتا، تو جُوںہی وہ وفات پاتے، خُداوند کی حُضُوری سے کاٹ ڈالے جانے پر، اُن کی رُوحیں بدحال ہوتیں۔
۱۲ اور اب، اِنسان کو اِس زوال پذیری کی حالت سے بچانے کا کوئی وسِیلہ نہ تھا جِس کو اِنسان خُود اپنی نافرمانی کے سبب سے اپنے اُوپر لایا تھا؛
۱۳ پَس، اِنصاف کے تقاضوں کے باعث، مُخلصی کا منصُوبہ اَثر پذیر نہیں ہو سکتا تھا، سِوا اِس بات کے کہ اِنسان اِس کیفیتِ کارِ آمُوزی کے دوران میں تَوبہ کی شرائط کو پُورا کرے، ہاں، اِس حالتِ تیاری میں؛ پَس اِن شرائط کے بغیر، رحم اَثر پذِیر نہیں ہو سکتا تھا سِوا اِس کے کہ یہ اِنصاف کے عمل کو منسُوخ کر دیتا۔ اب اِنصاف کا عمل تو منسُوخ نہیں کِیا جا سکتا تھا؛ اگر اَیسا ہوتا، تو خُدا، خُدا نہ رہتا۔
۱۴ اور یُوں ہم دیکھتے ہیں کہ کُل بنی نوع اِنسان زوال پذیر ہو گئے تھے، اور وہ اِنصاف کی گرفت میں تھے؛ ہاں، خُدا کا اِنصاف، جو اُنھیں اُس کی حُضُوری سے ہمیشہ کے لِیے کاٹ ڈالنے کے لِیے بھیج دِیا جاتا۔
۱۵ اور اب، کَفارہ اَدا کِیے بغیر رحم کے منصُوبہ کا ظہُور نہیں ہو سکتا تھا؛ پَس، خُدا نے رحم کے منصُوبہ کو فعال بنانے کے واسطے خُود دُنیا کے گُناہوں اور اِنصاف کے تقاضوں کی تشفی کے لِیے کَفارہ دِیا، چُوں کہ خُدا کامِل ہے، خُدا عادِل ہے، اور خُدا رحم دِل بھی ہے۔
۱۶ اب، اِنسان کو تَوبہ مُیّسر نہ ہوتی اگر سزا نہ ہوتی، جو کہ اَبَدی بھی تھی جَیسا کہ رُوح کی زِندگی ہونی چاہیے، اِقبال مندی کے منصُوبہ کی ضِد مُقرّر تھی، جو کہ رُوح کی حیات کی مانِند اَبَدی بھی تھی۔
۱۷ اب، اِنسان گُناہ کِیے بغیر تَوبہ کیسے کر سکتا تھا؟ اگر شریعت نہ ہوتی تو وہ گُناہ کا مُرتکب کیوں کر ہوتا؟ اگر سزا نہ ہوتی تو پھر شریعت کیوں کر ہوتی؟
۱۸ اب، سزا مُقرّر کی گئی تھی، اور راست شریعت دی گئی، جِس نے اِنسان کو شعُوری پچھتاوا دِلایا۔
۱۹ اب، اگر شریعت نہ دی گئی ہوتی—تو اگر کسی آدمی نے خُون کِیا تو وہ مارا جائے—تو کیا اُس کو اِس بات کا خوف ہو گا کہ اگر اُس نے خُون کِیا تو وہ ہلاک کِیا جائے گا؟
۲۰ اور یہ بھی، کہ اگر گُناہ کے خِلاف شریعت نہ دی جاتی تو اِنسان گُناہ کرنے سے نہ ڈرتے۔
۲۱ اور اگر شریعت نہ دی گئی ہوتی، اور اگر اِنسان گُناہ کے مُرتکِب ہوتے تو اِنصاف یا رحم کیا کر سکتے تھے، پَس اُن کا خلق پر کوئی دعویٰ نہ ہوتا؟
۲۲ لیکن شریعت دی گئی ہے، اور سزا مُقرّر کی گئی ہے، اور تَوبہ بخشی گئی؛ جِس تَوبہ پر رحم کا دعویٰ ہوتا ہے؛ ورنہ، اِنصاف خلق پر دعویٰ کرتا اور شریعت کے ماتحت لاتا، اور شریعت سزا لاگو کرتی؛ اگر اَیسا نہ ہوتا، تو اِنصاف کے اَعمال منسُوخ ہو گئے ہوتے، اور خُدا خُدا نہ رہتا۔
۲۳ مگر خُدا خُدائی سے نہیں تھکتا، اور رحم تَوبہ کرنے والوں پر دعویٰ جتاتا ہے، اور رحم کَفارہ کے سبب سے آتا ہے؛ اور کَفارہ کی بدولت مرُدوں کی قیامت آتی ہے؛ اور مُردوں کی قیامت اِنسان کو واپس خُدا کی حُضُوری میں لاتی ہے؛ اور یُوں وہ اپنے اَعمال کے موافق، شریعت اور اِنصاف کے مطابق، اپنی عدالت کے لِیے اُس کی حُضُوری میں بحال ہوتے ہیں۔
۲۴ پَس دیکھ، اِنصاف اپنے سارے تقاضے پُورے کرتا ہے اور رحم بھی اُن سب پر دعویٰ جتاتا ہے جو اُس کے اپنے ہیں؛ اور یُوں، سچّی تَوبہ کرنے والوں کے سِوا کوئی بھی بچایا نہیں جاتا۔
۲۵ تُو کیا سمجھتا ہے، کہ رحم اِنصاف کو ٹھگ سکتا ہے؟ مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں، نہیں؛ ایک رتی بھی نہیں۔ اگر اَیسا ہوتا، تو خُدا خُدا نہ رہتا۔
۲۶ اور یُوں خُدا اپنے عظیم اُلشان اور اَبَدی اِرادوں کو جو بِنائے عالم ہی سے تیار کیے گئے ہیں پُورا کرتا ہے۔ اور یُوں اِنسان کی نجات اور مُخلصی، اور اُن کی تباہی اور بدحالی بھی انجام پاتی ہے۔
۲۷ پَس، اَے میرے بیٹے، جو کوئی آنا چاہتا ہے وہ آئے اور آبِ حیات میں سے مُفت پِیے؛ اور جو کوئی نہیں آنا چاہتا اُس کو آنے کے لِیے مجبُور نہیں کِیا جاتا؛ لیکن یومِ آخِر کو اُس کے اپنے اَعمال کے موافق اُس کو بحال کِیا جائے گا۔
۲۸ اور اگر اُس نے بُرائی کرنے کا اِرادہ کِیا، اور اپنے ایّام کے دوران میں تَوبہ نہیں کی، تو دیکھ، خُدا کی بحالی کے مُوافِق اُس کا انجام بُرا ہی ہو گا۔
۲۹ اور اب، میرے بیٹے، میری تمنا ہے کہ تُو اپنے آپ کو اِن باتوں سے مزید پریشان نہ کر، اور تُو فقط اپنے گُناہوں پر پشیمان ہو، اَیسی پشیمانی جو تُجھے تَوبہ کی طرف لائے گی۔
۳۰ اَے میرے بیٹے، مَیں چاہتا ہُوں کہ تُو مزید خُدا کے اِنصاف کا اِنکار نہ کرے۔ اور اپنے گُناہوں کے سبب سے خُدا کے اِنصاف کا رتی برابر بھی اِنکار کرنے کی نِیّت نہ کرنا؛ بلکہ خُدا کے اِنصاف اور اُس کے رحم اور اُس کے صبر کو، اپنے دِل میں پُورے طور پر اَثر کرنے دینا؛ اور اِس کے باعث اپنے آپ کو خاک کی مانِند حلیم ہونے دینا۔
۳۱ اور اب، اَے میرے بیٹے، تُو اِس اُمّت میں کلام کی مُنادی کے لِیے خُدا کی طرف سے بُلایا گیا ہے۔ اور اب، میرے بیٹے، جا، کلام کا سچّائی اور سنجیدگی سے اِعلان کر، تاکہ تُو جانوں کو تَوبہ کی طرف لا سکے، کہ رحم کے عظیم اُلشان منصُوبہ کا اُن پر دعویٰ ہو۔ اور خُدا تُجھے میرے کلام کے موافق توفِیق عطا کرے۔ آمین۔