صحائف
ایلما ۵۷


باب ۵۷

ہیلیمن، انتیپارا کی فتح اور سُپردگی اور بعد میں قُمنی کے دِفاع کے بارے میں بیان کرتا ہے—اُس کے عمونی جواں مرد دلیری سے لڑتے ہیں؛ سب زخمی ہوتے ہیں، لیکن کوئی مارا نہیں جاتا—جد لامنی قیدیوں کے قتل اور فرار کی خبر دیتا ہے۔ قریباً ۶۳ ق۔م۔

۱ اور اب اَیسا ہُوا کہ مُجھے عیمرون بادِشاہ، کی طرف سے خط مِلا، جِس میں لِکھا تھا کہ اگر مَیں اُن جنگی قیدیوں کو چھوڑ دُوں جِنھیں ہم نے پکڑا تھا تو وہ انتیپارا کا شہر ہمارے حوالے کر دے گا۔

۲ مگر مَیں نے بادِشاہ کو خط بھیجا کہ ہمیں یقِین تھا کہ ہماری فَوجی قُوتوں کے بل پر انتیپارا کا شہر لینے کے لِیے ہماری فَوجی قُوت کافی تھی؛ اور اُس شہر کے قیدیوں کو رِہا کرنا ہماری بے عقلی ہو گی، اور کہ ہم اپنے قیدیوں کو صرف تبادلہ میں رِہا کریں گے۔

۳ اور عیمرون نے میرے خط کو رَد کر دِیا، کیوں کہ وہ قیدیوں کا تبادلہ نہیں کرنا چاہتا تھا؛ پَس ہم نے انتیپارا کے شہر کے خِلاف جانے کی تیاریاں شُروع کر دیں۔

۴ اَلبتہ انتیپارا کے لوگ شہر چھوڑ کر چلے گئے، اور دُوسرے شہروں کو بھاگ گئے، جہاں پر اُن کا قبضہ تھا، تاکہ اُن کی قلعہ بندی کریں؛ اور یُوں انتیپارا کا شہر ہمارے ہاتھوں میں آ گیا۔

۵ اور یُوں قضات کے عہدِ حُکُومت کا اٹھائِیسواں برس ختم ہُوا۔

۶ اور اَیسا ہُوا کہ اُنتِیسویں برس کے شُروع میں، ضریملہ کے مُلک اور ہمارے اِرد گِرد کے عِلاقوں سے ہمیں رسد کی کھیپ مِلی، میرے دو ہزار جوانوں کے چھوٹے دستہ میں عمونیوں کے ساٹھ بیٹوں کے علاوہ جو اپنے بھائیوں میں شامِل ہُوئے، ہماری فَوج میں چھے ہزار آدمیوں کا اضافہ بھی ہُوا۔ اور دیکھو، اب ہم مضبُوط ہو گئے تھے، ہاں، اور ہمیں وافر رسد بھی پُہنچائی گئی تھی۔

۷ اور اَیسا ہُوا کہ ہماری خواہش تھی کہ اُس فَوج کے ساتھ لڑائی لڑیں جو قُمنی شہر کی حِفاظت کے لِیے نافذ کی گئی تھی۔

۸ اور اب دیکھو، مَیں تُجھے دِکھاؤں گا کہ ہم نے جلد اپنی خواہش کو پُورا کر لِیا؛ ہاں، ہم نے اُن کو رسد کی کھیپ موصُول کرنے سے کُچھ دیر پہلے، اپنی مضبُوط فَوج کے ساتھ، یعنی اپنی مضبُوط فَوج کے ایک دستہ کے ساتھ، رات کو، قُمنی شہر کو گھیر لِیا۔

۹ اور اَیسا ہُوا کہ ہم نے کئی راتوں تک شہر کے اِرد گِرد خیمے لگائے رکھے، بلکہ ہم اپنی تلواروں پر سوتے، اور مُحافظ مُقرّر کرتے، تاکہ بنی لامن رات کے وقت ہم پر نہ چڑھ آئیں اور ہمیں ہلاک کر دیں، جِس کی اُنھوں نے کئی بار کوشِش کی تھی؛ لیکن جتنی مرتبہ اُنھوں نے اَیسا کِیا، اُن کا خُون بہایا گیا۔

۱۰ آخِر کار اُن کی رسد آ پُہنچی، اور وہ رات کے وقت شہر میں داخل ہونے کو تھے۔ اور بنی لامن کی بجائے، وہاں پر ہم نِیفی پُہنچ گئے؛ پَس، ہم نے اُنھیں اور اُن کی رسد کو ضبط کر لِیا۔

۱۱ اور اِس طرح سے بنی لامن کی رسد کٹنے کے باوجود، وہ شہر پر ہنُوز قابض رہنے کا تہیہ کِیے ہُوئے تھے؛ پَس یہ اہم ہو گیا کہ ہم اُس رسد کو لیں اور یہُودیہ کو بھیجیں، اور اپنے قیدیوں کو ضریملہ کے عِلاقہ کو بھیجیں۔

۱۲ اور اَیسا ہُوا کہ زیادہ دِن نہ گُزرے تھے کہ مدد پُہنچنے کی بنی لامن کی تمام اُمیدیں ختم ہونے لگیں، پَس اُنھوں نے شہر ہمارے حوالے کر دِیا اور یُوں ہم نے قُمنی کے شہر پر قابض ہونے کے اپنے منصوبے کو تکمیل تک پُہنچایا۔

۱۳ بلکہ اَیسا ہُوا کہ ہمارے قیدی بے شُمار تھے، کہ ہماری تعداد کثِیر ہونے کے باوجود ہمیں اپنی ساری فَوج کو اُن کی نِگرانی پر لگانا پڑا یا اُنھیں ہلاک کرنا پڑا۔

۱۴ پَس دیکھ، وہ بڑی تعداد میں ٹُوٹ کر باہر آ گئے، اور پتھروں کے ساتھ، اور لاٹھیوں کے ساتھ، یا جو کُچھ اُن کے ہاتھوں میں آیا، یہاں تک کہ ہم اُن کے ساتھ لڑے اور ہم نے اُن میں سے دو ہزار سے زیادہ کو قتل کر دِیا۔

۱۵ پَس ہمارے لِیے یہ ضرُوری ہو گیا تھا، کہ ہم اُن کی زِندگیاں ختم کریں، یا ہاتھوں میں تلواریں لِیے ضریملہ کے مُلک تک اُن کی نگرانی کریں؛ اور ہماری رسد ہمارے لوگوں کی ضرُورت سے زیادہ نہیں تھی، اگرچہ ہم بنی لامن کی رسد کو مالِ غنِیمت بنا چُکے تھے۔

۱۶ اور اب، اِن اِنتہائی نازک حالات میں، اِن جنگی قیدیوں کا مُعاملہ نہایت سنگین ہو گیا تھا؛ بہرکیف، ہم نے فیصلہ کِیا کہ اُنھیں ضریملہ کے عِلاقہ میں بھیج دِیا جائے؛ پَس ہم نے اپنے جنگ جُو مردوں کا ایک دستہ مُنتخب کِیا، اور ضریملہ کے عِلاقہ میں جانے کے لِیے اپنے قیدیوں پر اُنھیں اِختیار دِیا۔

۱۷ مگر اَیسا ہُوا کہ اگلی صُبح وہ واپس آ گئے۔ اور اب دیکھ، ہم نے اُن قیدیوں کے بارے میں کوئی باز پُرس نہ کی؛ پَس دیکھ، عیمرون نے اُن کی مدد کے لِیے رسد کی نئی کھیپ اور بے شُمار آدمیوں کی فَوج بھیج دی اور وہ ہمیں اُن کے ہاتھوں میں گِرنے سے بچانے کے لِیے بروقت واپس آئے۔ کیوں کہ دیکھ، بنی لامن نے ہم پر چڑھائی کر دی۔

۱۸ اور اَیسا ہُوا کہ اُن آدمیوں کو جِنھیں ہم نے قیدیوں کے ساتھ بھیجا، اُنھیں روکنے کے لِیے بروقت وہاں پُہنچے، جب کہ وہ ہم پر غالِب آنے کو تھے۔

۱۹ مگر دیکھ، میرے دو ہزار اور ساٹھ کا چھوٹا سا دستہ سب سے زیادہ تُندی سے لڑا؛ ہاں، وہ بنی لامن کے سامنے مضبُوط رہے، اور اُن سب کو موت کے گھاٹ اُتارتے رہے جو اُن کے مُقابل آئے۔

۲۰ اور جب ہماری باقی ماندہ فَوج بنی لامن کے سامنے پَسپا ہونے کو تھی، دیکھ، وہ دو ہزار اور ساٹھ مضبُوط اور پُر عزم رہے۔

۲۱ ہاں، اور اُنھوں نے حُکم کے ہر لفظ کو عین قطعیت سے مانا؛ اور جاں فشانی سے پُورا کِیا، ہاں اور حتیٰ کہ اُن کے اِیمان کے مُطابق اُن کے ساتھ کِیا گیا؛ اور مُجھے وہ الفاظ یاد آئے جو اُنھوں نے مُجھ سے کہے کہ اُن کی ماؤں نے اُنھیں سِکھایا تھا۔

۲۲ اور اب دیکھ یہی میرے وہ بیٹے، اور وہ جنگ جُو مرد تھے، جو قیدیوں کو لے جانے کے لِیے چُنے گئے تھے، اِس عظیم فتح کے لِیے ہم اِن کے قرض دار ہیں؛ پَس یہ وہی تھے جِنھوں نے بنی لامن کو شِکست دی تھی؛ چُناں چہ بنی لامن مانٹی کے شہر کی طرف دھکیل دِیے گئے تھے۔

۲۳ اور ہم نے اپنے شہر قُمنی کو بچائے رکھا، اور سب تلوار سے ہلاک تو نہ ہُوئے تھے؛ پھر بھی، ہمیں بڑا نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔

۲۴ اور اَیسا ہُوا کہ بنی لامن کے فرار ہو جانے کے بعد، مَیں نے فوراً حُکم دِیا کہ اپنے جنگ جُو مردوں کو جو زخمی تھے اُن کو لاشوں کے بِیچ میں سے نِکال لِیا جائے، اور اُن کے زخموں کی مرہم پٹی کی جائے۔

۲۵ اور اَیسا ہُوا کہ میرے دو ہزار اور ساٹھ نوجوانوں میں دو سو اَیسے تھے جو خُون بہنے کے باعث بے ہوش ہو گئے تھے؛ لہٰذا، ہمارے لِیے بڑی حیران کُن بات تھی، اور ہماری ساری فَوج کی خُوشی کا سبب بھی یہی تھا، کہ خُدا کی رحمت کے وسِیلے سے، اُن میں سے کوئی ایک جان بھی اَیسی نہ تھی جو ہلاک ہُوئی ہو؛ ہاں، اور نہ اُن میں کوئی اَیسی جان تھی، جِس کو کئی زخم نہ لگے ہوں۔

۲۶ اور اب اُن کا بچایا جانا ہماری ساری فَوج کے لِیے حیران کُن تھا، ہاں، کہ وہ بچا لِیے جائیں گے اگرچہ ہمارے بھائیوں میں سے ہزار تھے جو مارے گئے۔ اور ہم لائِق طور پر اِس ماجرا کو خُدا کی مُعجزانہ قُدرت سے تعبِیر کرتے ہیں، اُس بے حد اِیمان کی بدولت جس پر یقِین کرنے کی اُنھیں تعلِیم دی گئی تھی—کہ خُدا عادِل ہے اور جو کوئی بھی شک نہ کرے گا وہ خُدا کی حیرت خیز قُدرت سے بچا لِیا جائے گا۔

۲۷ اب یہ اُن کا اِیمان تھا جِن کی بابت مَیں نے کہا تھا؛ وہ نوجوان ہیں، اور اُن کے ذہن پُختہ ہیں، اور وہ پیہم خُدا پر توکُّل کرتے ہیں۔

۲۸ اور اب اَیسا ہُوا کہ ہم نے اپنے زخمی آدمیوں کی اِس طرح دیکھ بھال کرنے کے بعد، اور اپنے مُردوں کو اور بنی لامن کے مُردوں کو بھی دفن کرنے کے بعد، جو کہ بے شُمار تھے، دیکھ، ہم نے جد سے اُن قیدیوں کی بابت دریافت کِیا جِن کے ساتھ وہ ضریملہ کے مُلک میں جانے کے لِیے روانہ ہُوا تھا۔

۲۹ اب جد اُس فَوجی دستہ کا سِپہ سالار تھا جِس نے اُنھیں اُس مُلک تک پُہنچانے کے لِیے نگرانی سنبھالی تھی۔

۳۰ اور اب، یہ وہ باتیں ہیں جو جد نے مُجھے بتائیں: دیکھ ہم نے اپنے قیدیوں کے ساتھ ضریملہ کے مُلک جانا شُروع کِیا۔ اور اَیسا ہوا کہ ہماری مُلاقات ہماری فَوجوں کے جاسُوسوں سے ہُوئی، جو بنی لامن کے پڑاؤ پر نظر رکھنے کے لِیے بھیجے گئے تھے۔

۳۱ اور اُنھوں نے چِیخ چِیخ کر ہم سے کہا—دیکھو، بنی لامن کی فَوجیں قُمنی کے شہر کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں؛ اور دیکھو، وہ اُن پر ٹُوٹ پڑیں گی، ہاں، ہمارے لوگوں کو تباہ و برباد کر دیں گی۔

۳۲ اور اَیسا ہُوا کہ ہمارے قیدیوں نے اُن کا چِلانا سُنا، جِس کی وجہ سے اُنھوں نے ہمت پکڑی اور وہ ہمارے خِلاف بغاوت کرنے کے لِیے اُٹھ کھڑے ہُوئے۔

۳۳ اور اَیسا ہُوا کہ اُن کی بغاوت کے باعث ہماری تلواریں اُن پر برسنے لگیں۔ اور اَیسا ہُوا کہ وہ اَیکا کر کے ہماری تلواروں کی طرف لپکے، جِس سے زیادہ تر ہلاک ہُوئے؛ اور باقی ماندہ صفوں کو توڑ کر ہمارے سامنے سے بھاگ نِکلے۔

۳۴ اور دیکھ جب وہ بھاگ گئے اور ہم اُن کو پکڑ نہ سکے، تو ہم نے بڑی تیزی سے قُمنی کے شہر کی طرف پیش قدمی کر دی؛ اور دیکھ، شہر کو بچانے کے لِیے ہم اپنے بھائیوں کی مدد کے واسطے بروقت پُہنچ گئے۔

۳۵ اور دیکھ، اب ہم ایک بار پھر دُشمن کے ہاتھوں سے چُھڑائے گئے ہیں۔ اور ہمارے خُدا کا نام مُبارک ہے؛ پَس دیکھ، یہ وہی ہے جِس نے ہمیں چُھڑایا ہے؛ ہاں، جِس نے ہمارے لِیے بڑے بڑے کام کِیے ہیں۔

۳۶ اب اَیسا ہُوا کہ جب مُجھ، ہیلیمن، نے جد کی یہ باتیں سُنیں، تو مَیں خُوشی سے بھر گیا کیوں کہ خُدا کی رحمت سے ہم بچائے گئے، تاکہ ہم سب ہلاک نہ کِیے جائیں؛ ہاں، میرا اِیمان ہے کہ اُن کی جانیں جو بنی لامن کے ہاتھوں مارے گئے ہیں خُدا کے آرام میں داخل ہو چُکی ہیں۔