عقیدہِ وابستگی
عقیدہ وابستگی ہم میں سے ہر ایک پر لاگو ہوتا ہے: میں انجیلی عہد میں مسِیح کے ساتھ ایک ہوں۔
میں اِس سے متعلق بات کرنا چاہوں گا جِسے میں کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسِینِ آخِری ایّام میں عقیدہِ وابستگی کہتا ہوں۔ اِس عقیدہ کے تین جُز ہیں: (۱) خُدا کے موعودہ لوگوں کو جمع کرنے میں وابستگی کا کردار، (۲) وابستگی میں خدمت و ایثار کی اہمیت، اور (۳) وابستگی میں یِسُوع مسِیح کی مرکزیت۔
کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسِینِ آخِری ایّام اپنے آغاز میں بڑی حد تک سفید فام شمالی امریکی اور شمالی یورپی اور قدرے مُٹھی بھر مقامی امریکیوں، افریقی امریکیوں اور جزائرِ بحر الکاہل کے مُقدَ سِین پر مشتمل تھی۔ اب، اپنے قیام کی ۲۰۰ ویں سالگرہ سے آٹھ سال کے فاصلے پر، شمالی امریکہ اور باقی دنیا میں کلِیسیاکی تعداد اور تنوع میں اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
جیسے جیسے خُداوند کے موعودہ لوگوں کا طویل پیشین گوئی شدہ ایامِ آخر کا اجتماع زور پکڑتا ہے، ارکانِ کلِیسیا حقیقی معنوں میں ہر قوم، قبیلہ، زبان اور اُمت سے تشکیل پائیں گے۔۱ یہ کوئی حسابی یا زبردستی کا تنوع نہیں ہے بلکہ فطری طور پر رونماہونے والا واقعہ ہے جس کی ہم توقع کریں گے، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ انجیل کا جال ہر قوم اور ہر اُمت سے جمع کرتاہے۔
کتنے مبارک ہیں ہم یہ دیکھنے کے لیے کہ صِیّون ہر براعظم اور ہمارے اپنے پڑوس میں بیک وقت قائم ہو رہا ہے۔ جیسے نبی جوزف سمتھ نے فرمایاتھا، ہر زمانہ میں خُدا کے لوگ پُر مُسرت اُمِّید کے ساتھ اِس دِن کے منتظر رہے ہیں، اور ”ہم وہ پسندیدہ لوگ ہیں جنہیں خُدا نے یومِ آخرکے جلال کے لیے منتخب کیا ہے۔“۲
یہ اعزاز دیے جانے پر، ہم کسی نسل پرستی، قبائلی تعصب، یا دیگر تفرقات کو یِسُوع کی ایامِ آخر کی کلیِسیا میں موجود رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔ خُداوند نے ہمیں حکم دیا ہے ، ” ایک ہو، اوراگر تُم ایک نہیں تُم میرے نہیں ہو۔“۳ ہمیں کلیِسیا، اپنے گھروں، اور سب سے بڑھ کر، اپنے دلوں سے تعصب اور امتیاز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مستعد ہونا چاہیے۔ جیسے جیسے ہماری کلیسیا کی آبادی مزید متنوع ہوتی جاتی ہے، ہمارا استقبال مزید بے ساختہ اور گرمجوشی سے بڑھنا چاہیے۔ ہمیں ایک دُوسرے کی ضرورت ہے۔۴
کُرِنتھِیوں کے نام اپنے پہلے خط میں، پَولُس نے اعلان کیا کہ وہ سب جنہوں نے کلِیسیا میں بپتسما لیا مسِیح کے بدن میں ایک ہیں:
”کیونکہ جِس طرح بدن ایک ہے اور اُس کے اعضا بُہت سے ہیں اور بدن کے سب اعضا گو بُہت سے ہیں مگر باہم مِل کر ایک ہی بدن ہیں اُسی طرح مسِیح بھی ہے۔
”کیونکہ ہم سب نے خواہ یہُودی ہوں خواہ یُونانی خَواہ غُلام خَواہ آزاد ایک ہی رُوح کے وسِیلہ سے ایک بدن ہونے کے لِئے بپتِسمہ لِیا اور ہم سب کو ایک ہی رُوح پِلایا گیا۔ …
”تاکہ بدن میں تفرِقہ نہ پڑے بلکہ اعضا ایک دُوسرے کی برابر فِکر رکھّیں۔
”پس اگر ایک عُضو دُکھ پاتا ہے تو سب اعضا اُس کے ساتھ دُکھ پاتے ہیں اور اگر ایک عُضو عِزّت پاتا ہے تو سب اعضا اُس کے ساتھ خُوش ہوتے ہیں۔“۵
ہماری جسمانی، ذہنی، اور روحانی-صحت کے لیے احساسِ وابستگی نہایت اہم ہے۔ تاہم یہ عین ممکن ہے کہ بعض اوقات ہم میں سے ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے کہ ہم فٹ نہیں بیٹھتے ہیں۔ حوصلہ شکن لمحات میں، ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ ہم کبھی بھی مسِیح کے پُورے قَد کے اندازہ تک یا توقعات پر پورا نہیں اُتریں گے۔۔۶ ہم نادانستہ طور پر دوسروں پر—یا یہاں تک کہ خود پر—ایسی توقعات مسلط کر سکتے ہیں، جو خُداوند کی توقعات نہیں ہیں۔ ہم مکارانہ انداز میں سے بات کر سکتے ہیں کہ جان کی قدر خاص کامیابیوں یا بُلاہٹوں پر مبنی ہے، لیکن یہ خُداوند کی نظروں میں ہماری حیثیت کا پیمانہ نہیں ہیں۔ ”خُداوند دِل پر نظر کرتا ہے“۷ وہ ہماری خواہشات اور آرزوئوں کی پرواہ کرتا ہے اور ہم کیا بن رہے ہیں۔۸
بہن جوڈی کنگ نے اپنے ماضی کے سالوں کے تجربات کے متعلق لکھا:
”میں نے کبھی بھی ایسا محسوس نہیں کیا کہ میرا تعلق کلیِسیا سے نہیں ہے جب تک میرا شوہر، کیمرون، اور میں بانجھ پن سے نبردآزما نہ ہوئے۔ بچے اور خاندان جنہیں کلیِسیا میں دیکھنا عموماً میرے لیے باعث راحت تھا اب میرے لیے درد و الم کا موجب بننے لگے۔
” اپنے بازوں میں بچے یا اپنے ہاتھوں میں ڈائپر کے تھیلے کے بغیر میں نے بانجھ محسوس کیا۔…
”ایک نئے حلقہ میں ہمارا پہلا اتوار مُشکل ترین تھا۔ کیونہ ہمارے بچے نہیں تھے، ہمیں پوچھا گیا کہ کیا ہم نیا بیاہتا جوڑا ہیں اور ہم خاندان کا آغاز کرنے کا کب منصوبہ رکھتے ہیں۔ میں نے ان سوالوں کو مجھ پر اثر انداز ہونے کی اجازت دیے بغیر جواب دینے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کر لی تھی—میں جانتی تھی کہ ان کا مقصد تکلیف دینا نہیں تھا۔
”تاہم، اِس خاص اتوارکو، اِن سوالات کے جواب دینا خصوصاً دشوار تھا۔ ہمیں ابھی ابھی معلوم ہوا تھا، یہ اُمید کرتے ہوئے کہ ہم تھے— تاہم ایک بار پھرسے—حاملہ نہیں تھی۔
”میں اداس محسوس کرتے ہوئے مجلسِ عشائے ربانی میں گئی، اور اُن مخصوص ’تعارفی‘ سوالات کا جواب دینا میرے لیے مشکل تھا۔ …
”مگر سبت سکول میں مجھے واقعی بہت دکھ پہنچا۔ سبق—جس کا مقصد مائوں کے الہٰی کردار سے متلعق ہونا تھا—فوراً ہی رُخ بدل لیا اور شکایتی اجلاس بن گیا۔ میرا دِل ڈوب گیا اور آنسو خاموشی سے میرے گالوں پر بہنے لگے جب میں نے خواتین کو اُس برکت سے متعلق شکایت کرتے ہوئے سُنا جس کے لیے میں کچھ بھی دے دوں گی۔
”میں چرچ سے باہر نکل آئی۔ پہلے پہل، میں واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ میں اُس احساسِ تنہائی کا بھر سے تجربہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مگر اُس رات، اپنے شوہر سے بات کرنے کے بعد، ہم جانتے تھے کہ ہم چرچ جاتے رہیں گے صرف اِس لیے نہیں کہ خُداوند نے ہمیں حُکم دیا ہے بلکہ اِس لیے بھی کہ ہم دونوں جانتے تھے کہ تجدید عہد سے جو خُوشی ملتی ہے اور چرچ میں جو رُوح محسوس ہوتا ہے اُس اُداسی سے بالا تر ہے جو میں نے اُس دِن محسوس کی۔ …
”کلیسیا میں، بیوہ، طلاق یافتہ، اور اکیلےارکان ہیں؛ وہ لوگ جن کے افرادِ خاندان تارکینِ انجیل ہیں؛ دائمی بیماریوں یا مالی جدوجہد کے ساتھ لوگ؛ وہ اراکین جو ہم جنس کی کشش کا تجربہ کرتے ہیں؛ لت یا شکوک و شبہات پر قابو پانے کے لیے کام کرنے والے اراکین، نئے تبدیل شدگان؛ علاقے میں نئے آنے والے؛ والدین جن کے بچے گھر چھوڑ گئے ہیں اور فہرست جاری رہتی ہے۔ …
”—ہمارے حالات سے قطع نظر—یِسُوع مسِیح ہمیں اپنے پاس آنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہم اپنے عہود کی تجدید کرنے، اپنے ایمان کو بڑھانے، اطمینان پانے، اور ویسا کرنے آتے ہیں جو اُس نے اپنے زندگی میں کاملیت سے کیا—اُن کی خدمت کرنا جو محسوس کرتے ہیں کہ وہ تعلق نہیں رکھتے ہیں۔“۹
پَولُس وضاحت کرتا ہے کہ کلیِسیا اور اِس کے عہدے دران خُدا کی طرف سے دیے گئے ہیں تاکہ ”مُقدس لوگ کامل بنیں، خدمت گذاری کا کام کیا جائے، مسِیح کا بدن ترقی پائے:
”جب تک ہم سب کے سب خُدا کے بیٹے کے اِیمان اور اُس کی پہچان میں ایک نہ ہو جائیں اور کامِل اِنسان نہ بنیں یعنی مسِیح کے پُورے قَد کے اندازہ تک نہ پُہنچ جائیں۔“۱۰
یہ ایک افسوسناک ستم ظریفی ہے، پھر، جب کوئی، یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں آئیڈیل پر پورا نہیں اترتا، یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ نا وہ آدمی یا نا وہ عورت اِس تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں جو خدا کی طرف سے آئیڈیل کی طرف بڑھنے میں ہماری مدد کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
آئیے ہم فیصلہ خداوند اور اُن کے ہاتھوں میں چھوڑ دیں جنہیں اُس نے مامور کیاہے اور ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنے پر راضی ہوں۔ آئیں اُسے ہمیں راہ دِکھانے کو کہیں، روز بہ روز، ” … غرِیبوں لُنجوں اندھوں اور لنگڑوں“ ۱۱—اُن سب کو—خُداوند کی عظیم ضِافت میں لے کر آئیں۔
اور عقیدہِ وابستگی کی دوسری حقیقت ہمارے ذاتی شراکتوں سے متعلق ہے۔ اگرچہ ہم اِسکے متعلق شاذو نادر ہی سوچتے ہیں ، ہماری زیادہ تر وابستگی ہماری خدمت اور ایثار سے آتی ہے جو ہم دُوسروں اور خُدا کے لیے کرتے ہیں۔ اپنی ذاتی ضروریات یا ہمارے ذاتی آرام پر زیادہ توجہ دینا اُس احساسِ وابستگی کو مایوس کر سکتا ہے۔
ہم نجات دہندہ کے عقیدہ کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
”بلکہ جو تم میں سے بڑا ہونا چاہے، تمھارا خادم بنے۔ …
”کِیُونکہ ابِن آدم بھی اِسلئِے نہِیں آیا کہ خِدمت لے بلکہ اِسلئِے کہ خِدمت کرے اور اپنی جان بہُتیروں کے بدلے فِدیہ میں دے۔“۱۲
وابستگی اِس کے منتظر رہنے سے نہیں آتی بلکہ جب ہم ایک دُوسترے کی مدد کرنے کے لیے باہر نکلتے ہیں۔
آج، بدقسمتی سے، کسی کا خُود کو ایک مقصد یا کسی کے لیے کسی چیز کی قربانی دینے کے لیے وقف کرنا خلافِ ثقافت بن رہا ہے۔ پچھلے سال ڈیزرٹ میگزین Deseret Magazine کے لیے ایک مضمون میں مصنف روڈ ڈیہر نے بُوداپسٹ میں ایک نوجوان ماں کے ساتھ گفتگو کا تذکرہ کیا:
”میں بوڈاپیسٹ ٹرام پر … اپنی ایک ۳۰ سالہ دوست کے ساتھ ہوں—آئیے اُسے کرسٹینا کہتے ہیں—جب کہ ہم ایک بوڑھی [مسِیحی] خاتون کا انٹرویو کرنے جا رہے ہیں جس نے، اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ، کمیونسٹ ریاست کے ظلم و ستم کا مقابلہ کیا تھا۔ جب ہم شہر کی گلیوں میں گھوم رہےتھے، کرسٹینا نے اِس بارے میں بات کی کہ اپنی عمر کے دوستوں کے ساتھ اُن تکالیف کے بارے میں جن کا سامنا اُسے بطور بیوی اور چھوٹے بچوں کی ماں کرنا پڑتا ہے اِس سے متعلق ایماندار ہونا کتنا مشکل ہے۔
”ایک نوجوان خاتون کے لیےماں اور بیوی بننے کا طریقہ سیکھنے والی کرسٹینا کی مشکلات بالکل عام ہیں—پھر بھی اس کی نسل میں مروجہ رویہ یہ ہے کہ زندگی کی مشکلات کسی کی فلاح و بہبود کے لیے خطرہ ہیں اور ان سے انکار کیا جانا چاہیے۔ کیا وہ اور اُس کا شوہر بعض اوقات تکرار کرتے ہیں؟ پھر اُسےاُس کو چھوڑ دینا چاہیے، وہ کہتے ہیں۔ کیا اُس کے بچے اُسے آزراداہ (پریشان) کرتے ہیں؟ پھراُس اُنہیں ڈے کئیر میں بھیجنا چاہیے۔
”کرسٹینا کو اِس بات کی فکر ہے کہ اُس کے دوست اُس آزمائش کو سمجھ نہیں پاتے ہیں، اور یہاں تک کہ مصائب بھی زندگی کا ایک عام حصہ ہیں—اور شاید اچھی زندگی کا حصہ بھی، اگر یہ تکلیف ہمیں سکھاتی ہے کہ کس طرح صابر، مہربان اور محبت کرنے والا بننا ہے۔ …
”… نوٹر ڈیم یونیورسٹی کے ماہر سماجیات برائے مذہب کرسچن سمتھ نے ۱۸ سے ۲۳ سال کے بالغوں کے بارے میں اپنے مطالعے میں پایا کہ ان میں سے اکثر کا خیال ہے کہ معاشرہ ’زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ’خودمختار افراد کے مجموعے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘۱۳
اس فلسفے کی رو سے، کوئی بھی چیز جو کسی کو مشکل لگتی ہے ”وہ ظلم کی ایک شکل ہے۔“ ۱۴
اس کے برعکس، ہمارے پیش رو اسلاف نے اپنے مشنوں کی خدمت کرنے، ہَیکَلوں کی تعمیر کرنے، دباؤ کے تحت آرام دہ گھروں کو ترک کرنے اور دوبارہ شروع کرنے کے لیے قربانیوں کے ذریعے مسِیح میں تعلق، اتحاد اور اُمید کا گہرا احساس حاصل کیا، اور بہت سے دوسرے طریقوں سے صیون کے مقصد کے لیے خُود کو اور اپنے ذرائع کو وقف کیا۔ وہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنے کے لیے رضامند تھے اگر ضروری ہو۔ اور ہم سب اُن کی برداشت سے مُستفید ہوتے ہیں۔ آجکل بہت سے لوگوں کے لیے بھی ایسا ہی ہے جو بپتسمہ لینے کے نتیجے میں خاندان اور دوستوں کو کھو سکتے ہیں، روزگار کے مواقعوں سے محروم ہو کھو سکتے ہیں، یا بصورت دیگر امتیازی سلوک یا تعصب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اُن کا اجر، موعودہ لوگوں کے مابین قوی احساسِ وابستگی ہے۔ خُداوند کے مقصد کے لیے ہم کوئی بھی قربانی دیتے ہیں ہمیں اُس کے ساتھ اپنے مقام کو مستحکم کرنے میں مدد دیتی ہے جس نے بہتیروں کے لیے اپنی جان کا فدیہ دیا۔
عقیدہِ وابستگی کا حتمی اور اہم ترین عنصر یِسُوع مسِیح کا مرکزی کردار ہے۔ یہ جتنی بھی اہم ہے، ہم محض رفاقت کے لیے کلیِسیا میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ ہم یِسُوع مسِیح کی محبت اور فضل کے ذریعے مخلصی پانے کے لیے شامل ہوتے ہیں۔ ہم اپنے لیے اور حجاب کے دونوں اطراف اپنے پیاروں کے لیے نجات اور سرفرازی کی رسومات کو محفوظ کرنے کے لیے شامل ہوتے ہیں۔ ہم خُداوند کی آمد کی تیاری میں صیون کی تعمیر کے عظیم منصوبہ میں حصہ لینے کے لیے شامل ہوتے ہیں۔
کلیِسیا نجات و سرفرازی کے عہود کی نگہبان ہے جو خُدا ہمیں پاک کہانت کی رسومات کے ذریعے پیش کرتا ہے۔۱۵ اِن عہود کی بجا آوری سے ہی ہم اعلٰی و عمیق ترین احساسِ وابستگی حاصل کرتے ہیں۔ صدر رسل ایم نیلسن نے حال ہی میں لکھا ہے:
”ایک بار جب آپ نے اور مَیں نے خُدا کے ساتھ عہد باندھ لِیا ہے، تو اُس کے ساتھ ہمارا رِشتہ ہمارے عہد سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔ اب ہم باہم باندھے گئے ہیں۔ خُدا کے ساتھ ہمارے عہد کی بدولت، وہ ہماری مدد کرنے کی اپنی کاوِشوں میں کبھی نہیں تھکے گا، اور ہم اپنے ساتھ اُس کے شفِیق صبر کو کبھی کم نہیں کر سکیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک خُدا کے دِل میں خاص مقام رکھتا ہے۔
”… یِسُوع مسِیح اُن عہُود کا ضامن ہے (دیکھیے عِبرانیوں ۷:۲۲؛ ۸:۶)۔“۱۶
اگر ہم یہ یاد رکھیں گے، تو خُداوند کی ہم سے اُمیدیں ہمیں الہاٰم بخشیں گی، نہ کہ ہماری حوصلہ شِکنی کریں گیں۔
ہم خوشی محسوس کر سکتے ہیں جب ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر، ”مسِیح کے پُورے قَد کے اندازہ تک“ پہنچنے کی پیروی کرتے ہیں۔“۱۷ راستے میں مایوسیوں اور ناکامیوں کے باوجود، یہ ایک عظیم جستجو ہے۔ ہم اوپر کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے ایک دوسرے کو اٹھاتے اور حوصلہ دیتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ کسی مصیبت اور وعدہ شدہ نعمتوں میں تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم”خاطِر جمع رکھّو [کیونکہ یِسُوع مسِیح] دُنیا پر غالِب آیا ہُے۔“۱۸ اور ہم اُس کے ساتھ ہیں۔ بے شک باپ، بیٹے اور رُوحُ القُدس کے ساتھ ایک ہونا وابستگی میں حتمی ہے۔۱۹
پس، عقیدہِ وابستگی اس بات پر آتا ہے—ہم میں سے ہر ایک تصدیق کر سکتا ہے: یِسُوع مسِیح میرے لیے موا؛ اُس نے مجھے اپنے خون کے اہل سمجھا۔ وہ مجھ سے مُحبّت کرتا ہے اور میری زندگی کی تمام کمیوں کو پورا کر سکتا ہے۔ جب میں توبہ کرتا ہوں، اُس کا فضل مُجھے بدل دے گا۔ میں انجیلی عہد میں اُس کے ساتھ ایک ہوں، میں اُس کی کلِسیا اور بادشاہی سے تعلق رکھتا ہوں؛ اور میں اُس کے سب بچوں کے لیے مخلصی لانے کے اُس کے مقصد سے تعلق رکھتا ہوں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا تعلق ہے، یِسُوع مسِیح کے نام سے، آمین۔