خدمت گزاری
خدمت گزاری کے لیے کامل ذہنی ہم آہنگی کو فروغ دینا
اُصول


اُصولِ خدمت گزاری، فروری ۲۰۱۹

خدمت گزاری کے لیے کامل ذہنی ہم آہنگی کو فروغ دینا

خدمت گزاری کے معنی الہام بخشنا ہے۔ ہم دوسروں کو تب الہام بخش سکتے ہیں جب ہم جانیں گے کہ وہ کن مشکلات سے دوچار ہیں اوراُنھیں بتائیں کہ ہم خوشی سے اُن کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔

Liahona, February 2019

کیونکہ ہمارا آسمانی باپ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی مانند بنیں، اگر ہم اُس پر بھروسہ رکھیں اور راہِ حق پر چلتے رہیں تو اِس زندگی کی درپیش مشکلات سیکھنے کے مواقع بن سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے، جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اکیلے اُن دشواریوں کا سامنا کررہے ہیں تو راہِ حق پر رہنا خاصا مشکل ہوسکتا ہے۔

لیکن ہمیں اِس راہ پر کبھی بھی اکیلے چلنے کی ضرورت نہیں۔ نجات دہندہ نے کامل ذہنی ہم آہنگی میں عبور حاصل کیا، وہ تمام چیزوں میں پست ہوا تاکہ وہ جانے کہ اُن کی تکلیفوں اور کمزوریوں میں اُن کی کیسے مدد کرے(دیکھیں ایلما ۷: ۱۱–۱۲؛ عقائد اور عہود ۱۲۲: ۸)۔ اُس کی مثال کی پیروی کرنے اور کامل ذہنی ہم آہنگی کا اظہار کرنے کی توقع وہ ہم میں سے ہر ایک سے رکھتا ہے۔ کلیسیا کے ہر رُکن نے عہد باندھا ہے کہ ”تُم غمزدوں کے غم میں شریک ہونا چاہتے ہو؛ ہاں اور اُنھیں تسلی دیتے ہو جنھیں تسلی کی ضرورت ہے“ (مضایاہ ۱۸: ۹)۔ ہماری اپنی ذاتی مشکلات کے باوجود، ہمیں تمام صحائف میں سکھایا گیا ہے کہ دوسروں کے بارے میں سوچو اور ”ڈھیلے ہاتھوں کو درُست اور سُست گھُٹنوں کو [مضبوط] کرو“اور ”اپنے پاؤں کے لِئے سیدھے راستے بناؤ تاکہ لنگڑا بے راہ نہ ہو“ (عبرانیوں ۱۲: ۱۲–۱۳؛ مزید دیکھیں یسعیاہ ۳۵: ۳–۴؛ عقائد اور عہود ۸۱: ۵–۶

جب ہم دوسروں کا ہاتھ تھامیں، تو اُنھیں اپنے پر تکیہ کرنے دیں، اور اُن کے ساتھ چلیں، راہِ حق پر تب تک اُن کے ساتھ رہیں جب تک نجات دہندہ نہ صرف اُنھیں تبدیل کرے—جو خدمت گزاری کا ایک کلیدی مقصد ہے—بلکہ انہیں شفا بھی بخشے (دیکھیں عقائد اور عہود ۱۱۲ :۱۳

کامل ذہنی ہم آہنگی کیا ہے؟

کامل ذہنی ہم آہنگی کسی دوسرے شخص کے جذبات، خیالات اور حالت کو اپنے بجائے اُس کے نقطہ نظر سے سمجھنا ہے۔۱

دوسروں کی خدمت گزاری کی اپنی کوششوں میں کامل ذہنی ہم آہنگی پر عبور حاصل کرنا اور خدمت گزار بھائیو اور بہنو کے طور پر اپنا مقصد پورا کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ہمیں کسی دوسرے شخص کے حالات میں اپنے آپ کو تصور کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

کسی دوسرے شخص کے حالات میں اپنے آپ کو تصور کرنا

یہ کہانی ایک شرمیلے مقدسینِ آخری ایام کی ہے جو اکثر عبادت گاہ کی پچھلی نشستوں میں اکیلا بیٹھتا تھا۔ جب بزرگوں کی جماعت کا ایک رکن اچانک سے مر گیا، تو اُسقف نے اُس بزرگ کے خاندان کے ارکان کو تسلی دینے کے لیے اُن کو کہانتی برکتیں دیں۔ انجمنِ خواتین کی بہنیں کھانا لے کر گئیں۔ قریبی دوستوں اور پڑوسیوں نے خاندان کے ساتھ ملاقات کی اور کہا، ”اگر کسی قسم کی مدد کی ضرورت پڑے تو ہمیں لازمی بتائیں۔“

لیکن اُسی دن بعد میں جب یہ شرمیلا شخص اُس خاندان کے گھر گیا، اُس نے دروازے کی گھنٹی بجائی اور جب بیوہ نے دروازہ کھولا، اُس نے مخص یہ کہا، ”میں آپ کے جوتے صاف کرنے آیا ہوں۔“ چند گھنٹوں میں، جنازے میں شرکت کے لیے خاندان کے تمام ارکان کے جوتے صاف اور چمک رہے تھے۔ اگلے اِتوار مرحوم بزرگ کا خاندان اُس شرمیلے شخص کے ساتھ پچھلی نشستوں پہ بیٹھا۔

یہ وہ شخص تھا جو ایک بن چکائی ضرورت کو پورا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ اِن دونوں نے اُس کی کامل ذہنی ہم آہنگی کی راہ نمائی میں کی جانے والی خدمت گزاری سے برکت پائی۔

میں کیسے کامل ذہنی ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہوں؟

کچھ لوگوں کو ذہنی طور پر ہم آہنگ ہونے کے تحفے کی برکت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو جدوجہد کر رہے ہیں، اُن کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ گزشتہ ۳۰ سالوں میں، محققین کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد نے کامل ذہنی ہم آہنگی کا مطالعہ کیا ہے۔ اگرچہ اُن میں سے زائد کا اِس موضوع کے بارے میں مختلف نقطہ نظر ہے، اُن میں سے اکثر متفق ہیں کہ کامل ذہنی ہم آہنگی ایک ایسی چیز ہے جو سیکھی جا سکتی ہے۔۲

ہم کامل ذہنی ہم آہنگی کے تحفہ کے لیے دُعا کر سکتے ہیں۔ ذاتی اصلاح کے لیے، کامل ذہنی ہم آہنگی کی کاروائی کے بارے میں بہتر فہم بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ذیل کی تجاویز عموماً کامل ذہنی ہم آہنگی کے بنیادی عناصر کے طور پر مانی جاتی ہیں۔۳ اگرچہ یہ اکثر تب رونما ہوتی ہیں جب ہمارے گمان میں بھی نہیں ہوتا، اِن کے بارے میں آگاہی ہمیں بہتر بننے کے مواقع مہیا کرتی ہیں۔

۱۔ فہم حاصل کرنا

کامل ذہنی ہم آہنگی کے لیے دوسرے کی صورت حال کے بارے میں کچھ فہم حاصل کرنا ضروری ہے۔ جتنا بہتر ہم اُن کے حالات کا فہم حاصل کریں گے، اتنا آسان یہ سمجھنا ہو جائے گا کہ وہ اِس کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں اور ہم کیا مدد کر سکتے ہیں۔

مؤثر طور پر اُن کی صورت حال کو سمجھنے کے لیے سننا، سوالات پوچھنا، اور اُن اور دیگر کے ساتھ مشاورت کرنا اہم کاروائی ہے۔ اِن تصورات کے بارے میں پچھلے خدمت گزاری کے مضامین میں سے مزید جانیں:

  • ”پانچ کام جواچھے سامعین کرتے ہیں،“ لیحونا، جون ٢٠١٨، ٦۔

  • ”اُن کے ساتھ مشاورت کریں،“ لیحونا، ستمبر ۲۰۱۸، ۶۔

  • ”ضرورت پڑنے پہ—خدمت گزاری میں دوسروں کو بھی شامل کریں،“ لیحونا، اکتوبر ۲۰۱۸، ۶۔

جب ہم فہم حاصل کرنے کے متلاشی ہوں، تو کسی دوسرے شخص کے تجربہ پر مبنی مفروضے بنانے کے بجائے ہمیں اُن کی مخصوص صورت حال کو سمجھنے کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ بصورت دیگر، اُن کی باتوں کا غلط مفہوم نکالتے ہوئے ہم اُنھیں سمجھنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔

2۔ تصور کریں

غمزدوں کے غم میں شریک ہونے اور تسلی کی ضرورت والوں کو تسلی دینے کے ہمارے عہود میں قائم رہنے کی ہماری کوششوں میں، ہم رُوحُ الُقدس کے ساتھ کے لیے دُعا کر سکتے ہیں کہ ہماری اِس بات کو سمجھنے میں مدد کرے کہ کوئی کیا محسوس کر سکتا ہے اور ہم کیسے مدد کر سکتے ہیں۔۴

کسی کی حالت کو سمجھنے کے بعد، ہم میں سے ہر ایک——چاہے یہ قدرتی طور پر ہو یا نہ—تصور کی مشق کے ذریعے جان سکتے ہیں کہ ہم اُس صورت حال میں کیا سوچیں گے یا کیسا محسوس کریں گے۔ اُن خیالات اور جذبات کا فہم، رُوحُ الُقدس کی ہدایت کے ہمراہ، اُن کی صورت حال کے بارے میں ہمارے ردِعمل کی راہ نمائی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

جب ہم کسی دوسرے کے حالات کو سمجھیں اور تصور کریں کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں، تو ضروری ہے کہ ہم اُن کی غیر مناسب طریقے سے عیب جوئی نہ کریں (دیکھیں متی ۷: ۱)۔ کسی کے بارے میں تنقید کرنا کہ کوئی کس طرح سے اُن حالات تک پہنچا ہے آپ کو اُس صورتحال کے سبب سے پیدا ہونے والے درد کی پوری سمجھ سے محروم رکھ سکتا ہے۔

3۔ حسبِ ہدایت عمل کریں

یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ہم کس طرح سے حسبِ ہدایت عمل کرتے ہیں کیونکہ اِس سے ہماری کامل ذہنی ہم آہنگی کا اظہار ہوتا ہے۔ اپنے فہم کے اشتراک کے بے شمار لفظی اور غیر لفظی طریقے موجود ہیں۔ یہ یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ ہمارا مقصد لازماً مسئلہ کو حل کرنا نہیں ہے۔ اکثر مقصد صرف اُن کے حوصلے بلند کرنا اوراُنھیں یہ بتانے سے مضبوطی بخشنا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اِس کے معنی یہ کہنا ہو سکتا ہے کہ، ”مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے مجھے بتایا“ یا ”مجھے نہایت افسوس ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ ہوگا۔“

ہر صورت میں ہمارا جواب بناوٹی نہیں ہونا چاہیے۔ اور جب مناسب ہو، تو دوسروں کو اپنی ذاتی کمزوریوں اور عدم تحفظات دکھانے کے لیے عاجز ہونے سے ایک قابلِ قدر احساسِ اتصال قائم ہو سکتا ہے۔

دعوتِ عمل

جب آپ اُن لوگوں کے حالات پر غور کرتے ہیں جن کی آپ خدمت گزاری کے لیے مقرر ہیں، تو اپنے آپ کو اُن کی حالت میں تصور کریں اور اگر آپ اُن کی جگہ ہوتے تو آپ کو کونسی چیز زیادہ فائدہ مند لگتی۔ یہ فہم حاصل کرنے کے لیے کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں دُعا کریں اور حسبِ ہدایت عمل کریں۔ آپ کا ردعمل سادہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ معنی خیز ہوگا۔

حوالہ جات

  1. دیکھیں ڈبلیو ایکز، Empathic Accuracy (۱۹۹۷)؛ اور ایم ایل ہوف مین، Empathy and Moral Development: Implications for Caring and Justice (۲۰۰۰)۔

  2. دیکھیں، مثال کے طور پر، ایملی ٹیڈی وین برخوٹ اور جان ایم مالوف، ”The Efficacy of Empathy Training: A Meta-Analysis of Randomized Controlled Trials,” Journal of Counseling Psychology (۲۰۱۶)، ۶۳(۱)، ۳۲–۴۱۔

  3. دیکھیں، مثال کے طور پر، برینے براؤن، I Thought It Was Just Me (But It Isn’t) (۲۰۰۸)؛ تھریسا وائزمین، “A Concept Analysis of Empathy,” Journal of Advanced Nursing (۱۹۹۶), ۲۳, ۱۱۶۲–۶۷؛ اور ایڈ نیوکرگ اور دیگر، “Creative and Novel Approaches to Empathy: a Neo-Rogerian Perspective,” Journal of Mental Health Counseling, ۳۵(۱) (جنوری ۲۰۱۳)، ۲۹–۴۲۔

  4. دیکھیں ہنیری بی آئرنگ ،”تسلی دینے والا،“ لیحونا، مئی ۲۰۱۵، ۱۷–۲۱۔