رُوحُ کےوسیلے سے معرفت پانا
ہم نہ صرف اِستدلالی فکر سے سچّائی اِدراک کریں بلکہ رُوح کی دھیمی اور مدھم سرگوشی سے بھی سیکھیں۔
پیارے بھائیو اور بہنو، خُداوند نے بار بار ہمیں بتایا ہے کہ ”علم تلاش کرو، حتیٰ کہ مطالعہ سے اور اِیمان سے بھی۔“۱ ہم نہ صرف بصیرت و فہم اِستدلالی فکر سے، بلکہ رُوحُ القُدس کی ہدایت اور اِلہام سے بھی پا سکتے ہیں۔
علم کا یہ عالی سرچشمہ ہمیشہ سے میری زندگی کا حصہ نہیں رہا۔
۳۱ برس پہلے میں اور میری اَہلیہ کلیسا میں شامل ہُوئے اُس وقت ہماری نئی نئی شادی ہُوئی تھی۔ ہم دونوں کولمبیا میں پلے بڑھے، مگر شادی کے چند ماہ بعد ،میری مُلازمت ہمیں جرمنی لے آئی۔ ہم جوان تھے اور بڑی اُمیدیں اور توقعات تھیں؛ ہمارے لیے یہ خاص طور پرپُرجوش اور خوش کن وقت تھا۔
جس دوران میں میری پُوری توجہ اپنی مُلازمت پر تھی، آئرین نے محسوس کیا کہ ہمیں آسمان سے کوئی پیغام ملے گا، کب اور کیسے کوئی علم نہیں۔ پس، اُس نے ہر قسم کے، اِنسائیکلوپیڈیاز، ویکیوم کلینرز، خانہ داری کی کتابیں، باروچی خانے کی اشیا وغیرہ اور اِس طرح کے دیگردست فروشوں کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت دینا شروع کر دی، ہر وقت کسی اَنوکھے پیغام کی مُنتظر رہتی۔
اُس نے مجھے بتایا کہ ایک شام دو نوجوان لڑکو ں نے ہمارے دروازے پر دستک دی وہ گہرے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھے اور یہ کہ اُس نے اُن کو اندر آنے کی اِجازت کے حوالے سے واضح اور مُنفرد تاثر پایا۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ اُس سے خُدا کے متعلق بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ دوبارہ واپس آئیں گے جب میں بھی گھر پر ہوں گا۔ کیا یہ وہی پیغام تھا جس کی اُمید تھی؟
اُنھوں نے ہم سے ملنا شروع کر دیا، اور اُن کی راہ نمائی میں، ہم نے صحائف کا مطالعہ کیا اور یِسُوع مِسیح کو اپنے نجات دہندہ اور بچانے والے کی خاص اہمیت کو سمجھا۔ ہمیں جلد ہی احساس ہُوا کہ ہمیں تو بچپن میں بپتسمہ دیا گیا تھا، جو شعوری معاہدہ نہیں تھا۔ تاہم، پھر سے بپتسمہ لینے کا مطلب اِس نئی کلیسیا کا رکن بننا تھا، لہٰذا ہمیں اِس کے متعلق ہر بات جاننے کی ضرورت تھی۔
لیکن مُبلّغین ہمیں جو مورمن کی کتاب کے متعلق، جوزف سمتھ کے متعلق، اور نجات کے منصوبے کے مُتعلق بتا رہے تھے وہ سب ہم کیسے مان لیتے کہ سچّ تھا؟ بہر کیف، ہم خُداوند کے کلام سے یہ بات تو سمجھ چُکے تھے کہ ہم ”اُن کے پھلوں سے پہچانیں گے۔“۲ لہٰذا، بڑے مؤثر اَنداز کے ساتھ، اپنی عقلی دلائل کی نظروں سے ہم نے اُن پھلوں کو تلاش کرنے کے لیے اِس کلیسیا کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ ہم نے کیا دیکھا؟ واقعی، ہم نے دیکھا:
-
ملنسار اور خُوش اِخلاق لوگ، ہشاش بشاش خاندان جو جانتے تھے کہ اِس زندگی سے مُراد صرف پریشانی اور مُصیبت نہیں بلکہ خُوشی منانا ہے۔
-
ایسی کلیسیا جہاں تنخواہ دار راہبوں کا فرقہ نہیں بلکہ ایسی ہے جہاں اَرکان فرائض اور ذُمہ داریاں خُود سنبھالتے ہیں۔
-
ایسی کلیسیا جہاں یِسُوع مِسیح اور خاندان ہر بات کا مرکز ہیں، جہاں اَرکان مہینے میں ایک بار روزہ رکھتے ہیں اور غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے ہدیے دیتے ہیں، جہاں صحت افزا عادات کو فروغ دیا جاتا،ہمیں نقصان دہ اشیا سے اجتناب کرنا سکھایا جاتا ہے۔
مزید براں:
-
ذاتی ترقی، تعلیم، سخت محنت، اور خود انحصاری پر اصرار ہمیں پسند آیا۔
-
ہم نے قابل ذکر اِنسانی فلاح و بہبود کے لائحہ عمل کے متعلق سیکھا۔
-
اور مجلسِ عامہ کے رُوح پرور گیتوں اور گہری رُوحانی سچّائیوں سے ہم متاثر ہوئے۔
یہ سب دیکھ کر، ہم کلیسیا میں کوئی نقص نہ ڈھونڈ سکے۔ اِس کے بر عکس، سب کچھ جوہم نے دیکھا بہت پسند کیا۔ بہر کیف، ابھی تک ہم بپتسمہ لینے کا فیصلہ نہ کر سکے کیوں کہ ایسا کرنے سے پہلے ہم سب کچھ جاننا چاہتے تھے۔
بلکہ،ہمارے تذب ذب میں بھی، خُداوند ہمیں تحمل کے ساتھ تیار کرتا رہا، وہ ہمیں سانچے میں ڈھالتا رہا، اور دریافت کرنے میں ہماری مدد کرتا رہا کہ ہم نہ صرف اِستدلالی فکر سےمعلوم کرنا سیکھیں بلکہ رُوح کی دھیمی اور مدھم آواز سے بھی سیکھیں، جو خاص طور پر ہمارے دِل سے کلام کرتی ہے۔
۱۰ ماہ تک اِنجیل کا بغور مطالعہ کرتے رہنے کے بعد ایک شام کو وہ آواز اور اُس سے ملنے وال تاثر نازل ہُوا، جب ہم نے مضایاہ ۱۸باب کا مطالعہ کیا:”چوں کہتم چاہتے ہو کہ … ایک دوسرے کا بوجھ اُٹھاؤ، … اور جنھیں تسلی کی ضرورت ہے اُنھیں تسلی دو، … اگر تمھارے دِل یہی چاہتے ہیں، پھر خُداوند کے نام پر بپتسمہ لینے سے تمھیں کس نے روکا ہے؟“۳
مورمن کی کتاب کا وہ اقتباس ہمارے دِل اور رُوح میں اُتر گیا، اور ہم نے فوراً محسوس کیا اور جان لیا کہ بپتسمہ نہ پانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ہمیں احساس ہُوا کہ اِن آیات میں جن آرزوؤں کا ذِکر کیا گیا ہے وہی خواہشیں ہمارے دِلوں کی بھی تھیں اور وہ باتیں بہت اہمیت کی حامل تھیں۔ ہر بات سمجھنے سے زیادہ اہم یہ باتیں تھیں کیوں کہ پہلے سے کافی کچھ جانتے تھے۔ ہم نے ہمیشہ پیارے آسمانی باپ کے ہدایت بخش ہاتھ پر توکل کیا تھا اور ہمیں بھروسہ تھا کہ وہ ہمیں مسلسل ہدایت دیتا رہے گا۔
لہٰذا، اُسی دن،ہم نے بپتسمہ لینے کی تاریخ طے کر لی، اور جلد ہی ہم نے بپتسمہ پا لیا، بالآخر!
ہم نےاُس تجربہ سے کیا سِیکھا؟
اَوّل، ہم نے سیکھا کہ ہم اپنے پیارے آسمانی باپ پر کامل بھروسہ کر سکتے ہیں، جو لگاتار ہماری مدد کر رہا کہ ہم ایسے اِنسان بنیں جیسے وہ جانتا ہے کہ ہم بن سکتے ہیں۔ ہم نے اُس کے کلام کی گہری سچائی کی تصدیق کی جب خُدوند خُدا نے فرمایا: ”میں بنی آدم کو فرمان پر فرمان، حکم پر حکم بخشوں گا تھوڑا یہاں اور تھوڑا وہاں؛اور مبارک ہیں وہ جو میرے فرمانوں کو سنتے ہیں، … کیوں کہ وہ حکمت سیکھیں گے؛ کیوں کہ جس کے پاس ہے اُسے اور دیا جائےگا۔“۴
اور دوم، ہم نے سیکھا ہے کہ اِستدلالی فکر کے ساتھ ساتھ ہم کسی دوسرے وسیلے سے علم پا سکتے ہیں جو ہمیں فہم اور فراست عطا کر سکتا ہے۔ یہ اُس کے رُوحُ القُدس کی دھیمی اور مدھم آواز ہے جو ہمارے دلوں اور ذہنوں سے کلام کرتی ہے۔
میں اِس اُصول کا موازنہ اپنی بصری صلاحیت سے کرنا چاہتا ہُوں۔ ہمارے آسمانی باپ نے ہمیں نہ صرف ایک بلکہ دو طبعی آنکھیں عطا کی ہیں۔ ہم صرف ایک آنکھ سے بھی واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں، لیکن دوسری آنکھ ہمیں ایک اور نقطہ نظر دِکھاتی ہے۔ جب دونوں نقطہ نظر ہمارے ذہن میں ملتے ہیں، تو وہ ہمارے ارد گرد کی تین جہتی تصویر تیار کرتے ہیں۔
اسی طرح ،ہمیں اپنی دُنیاوی اور روحانی صلاحیتوں کے دو ذرائع فراہم کیے گئے ہیں۔ ہمارا ذہن ہمارے طبعی حواس اور منطق کے ذریعےسے ایک تصور پیدا کرتا ہے۔ لیکن رُوحُ القُدس کی نعمت کے وسیلے سے،باپ نے ہمیں ایک دوسرا نقطہ نظر بھی مہیا کر رکھا ہے، جو کہ سب سے زیادہ اہم اور سچّا ہے، کیوں کہ اِس کی آمد براہ راست اُسی سے ہوتی ہے۔ چوں کہ، رُوح کی سرگوشیاں اتنی لطیف و دقیق ہوتی ہیں، کہ بہت سے لوگ اِس فاضل سرچشمے سے شعوری طور پر آگاہ نہیں ہوتے۔
جب یہ دونوں نقطہ نظر ہماری روحوں میں ملتے ہیں، تو چیزوں کی ایک کامل اور حقیقی تصویر جیسا کہ وہ سچ مچ ہیں، ظاہر کرتی ہیں۔ دراصل، رُوحُ القُدس کے فاضل نقطۂ نظر کے بغیر، جب خاص ”حقیقتوں،“ کی تصویر اِستدلالی فکر کے ذریعے سے بناتے ہیں، تو بالکل غلط یا گُمراہ کُن ہو سکتی ہے۔ مرونی کے کلام کو یاد کرو:”رُوحُ القُدس کی قدرت سےتُم ہر چیز کی سچائی جان لو گے۔“۵
کلیسیائی رُکن کی حیثیت سے ۳۱ برسوں میں، میں نے کئی بار تجربہ کیا ہے کہ اگر ہم صرف اپنی عقل پر تکیہ کرتے ہیں اور رُوحُ القُدس کی سرگوشیوں اور تاثیروں سے ملنے والے رُوحانی اِدراک کو اِرد یا نظرانداز کرتے ہیں، تو یہ ایسے ہے جیسے ہم زندگی میں صرف ایک ہی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اِستعاراً کہتا ہُوں، ہمیں حقیقت میں ”دو آنکھیں“ دی گئی ہیں۔ صرف دونوں مناظرکا ملاپ کامل اور سچّی تصویر فراہم کر سکتا ہے اور زندگی کا ہر معاملہ،اور اِس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے آسمانی باپ کے بچوں کی حیثیت سے اپنی شناخت اور مقصد میں گہری اور کامل سمجھ پا سکتے ہیں۔
میں اُس بات کو یاد کرتا ہُوں جو صدر رسل ایم نیلسن نے گُزِشتہ برس ہمیں سِکھائی جب اُس نے کہا کہ ”آنے والے دِنوں میں، رُوحُ القُدس کی ہدایت، راہ نمائی، تسلی، اور مسلسل اثر کے بغیر روحانی طور پر زندہ رہنا ممکن نہ ہو گا“۶
میں کامل یقین سے یہ جان گیا ہوں کہ:
-
ہمارا پیارا آسمانی باپ موجود ہے، اور الہٰی منصوبہ کے تحت ہم سب اِس زمین پر آنے کے لیے رضا مند تھے۔
-
کہ یِسُوع المِسیح ہے؛ وہ زندہ ہے اور میرا نجات دہندہ اور بچانے والاہے۔
-
جوزف، حلیم کسان لڑکے کو بلایا گیا اور عظیم نبی بنایا گیا جس نے، خُدا کی پاک کہانت کے اِختیار، قُدرت،اور اُس کی تمام کُنجیوں کے ساتھ، اور اِس فضل کی معموری کے دَور کا آغاز کیا۔
-
مورمن کی کتاب یِسُوع مِسیح کی ایک اور گواہی ہے، اور خاندان ہمیشہ تک قائم و دائم رہنے کے لیے ہیں۔
-
ہمارا خُداوند یِسُوع مِسیح، آج اپنے زندہ نبی، صدر رسل ایم نیلسن، کے وسیلے سے اپنی بحال شُدہ کلیسیا کی قیادت کرتا ہے۔
یہ اور بہت سی بیش قیمت سچائیاں روحانی تعمیر کے لیے اِینٹیں بن گئی ہیں جس کو بنانے میں خُدا میری مدد کرتا ہے۔ اور میں مزید نئی تعلیم کا مُنتظر ہوں، جو وہ مزید چاہتا ہے کہ میں—اور آپ—حاصل کریں جوں جوں ہم یہ خوبصورت زندگی گزارتے ہیں، ”… یعنی مطالعہ اور اِیمان سے سیکھتے ہیں۔“
میں جانتا ہوں کہ یہ سب باتیں سچ ہیں اور میں یِسُوع مِسیح کے نام پر گواہی دیتا ہوں، آمین۔