جیسا اُس نے کیا
جب ہم ویسی خدمت کرنے کے متلاشی ہوں گے جیسی اُس نے کی، تو ہمیں خود کو بھولنے اور دوسروں کی اُبھارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
تقریباً اٹھارہ مہینے پہلے، ۲۰۱۷ کے موسمِ خزاں میں میرے ۶۴ سالہ بھائی مائیک نے مجھے اطلاع دی کہ اُس میں لبلبے کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ اُس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اُس نے اپنے خاندانی معلم سے کہانتی برکت حاصل کی تھی اور اُس نے اپنے اُسقف سے ملاقات کی تھی۔ اُس نے بعد ازاں مجھے اُس ہسپتال سے کھینچی گئی آک لینڈ کیلیفورنیا ہیکل کی ایک تصویر بھیجی جہاں سے وہ علاج کروا رہا تھا، اِس عنوان کے ساتھ ”دیکھو میں اپنے ہسپتال کے کمرے سے کیا دیکھ سکتا ہوں۔“۱
میں خاندانی معلمین، کہانتی برکات، اُسقف صاحبان اور ہیکلوں کے بارے میں اُس کی رائے جان کر اتنا ہی حیران ہوا تھا جتنا میں کینسر کی خبر سن کر ہوا تھا۔ میں اِس لیے حیران تھا کہ، مائیک، جو ہارونی کہانت کا ایک کاہن تھا، اُس نے تقریباً ۵۰ سال سے باقاعدگی سے کلیسیا میں شرکت نہیں کی تھی۔
خاندان کے طور پر، ہم اُس کی روحانی ترقی میں اتنی ہی دلچسپی رکھتے تھے جتنی اُس کی کینسر کی لڑائی میں پیش رفت میں، زیادہ تر مورمن کی کتاب، سربمہریت کی طاقت، اور موت کے بعد زندگی کے بارے میں سوالات کی وجہ سے جو اب وہ متواتر پوچھنے لگا تھا۔ کئی مہینے گزرنے اور کینسر پھیلنے کے بعد، بالآخر اضافی اور زیادہ مخصوص علاج کی ضرورت کے تحت مائیک کو یوٹاہ اور ہنٹس مین کینسر انسٹی ٹیوٹ میں لایا گیا۔
اُس کی آمد کے تھوڑی دیر بعد، جان ہالبروک جو حلقے کا تبلیغی راہ نما تھا مائیک سے ملنے گیا، کیوں کہ وہ اُس خدماتی ادارے کی دیکھ بھال پر مقرر تھا، جہاں مائیک اب رہ رہا تھا۔ جان نے کہا کہ ”مجھے یہ واضح تھا کہ مائیک خُدا کا بیٹا تھا“ اور یہ کہ اُن دونوں کے درمیان جلد ہی ایک تعلق اور دوستی نے فروغ پایا جس کی بدولت جان مائیک کا فی المعنٰی خدمت گزار بھائی بن گیا تھا۔ مبلغین سے ملاقات کی ایک فوری دعوت دی گئی، جس کو میرے بھائی نے بڑی شائستگی سے رد کر دیا، لیکن اُن کی دوستی کے ایک ماہ بعد، جان نے مائیک کو یہ وضاحت دیتے ہوئے، دوبارہ دعوت دی، ”مجھے لگتا ہے کہ اِنجیل کا پیغام سننے سے آپ کو خوشی حاصل ہو گی۔“۲ اِس بار دعوت قبول کر لی گئی، جس کے نتیجہ میں مبلغین کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، اور ساتھ ہی اُسقف جون شارپ اُس کو کئی بار ملنے آئے، جس کے ساتھ گفتگو نے یہ ممکن بنایا کہ مائیک نے اپنے بپتسمہ کے ۵۷ سال کے بعد بالآخر اپنی بطریقی برکت حاصل کی۔
گزشتہ سال دسمبر کے آغاز میں، کئی ماہ کے طبی طریقہ کار کے بعد، مائیک نے کینسر کے علاج کو روکنے کا فیصلہ کیا، جو شدید ناموافق ذیلی اثرات پیدا کر رہا تھا، اور فقط فطرت کو اپنا عمل دکھانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں اُس کے ڈاکٹر نے مطلع کیا تھا کہ مائیک اب تقریباً تین ماہ تک زندہ رہے گا۔ اِس دوران میں، اِنجیل سے متعلق سوالات جاری رہے—ساتھ ہی اُس کے مقامی کہانتی راہ نماؤں کی ملاقاتیں اور معاونت جاری رہی۔ مائیک کے ساتھ ہماری ملاقات کے وقت، جب ہم اِنجیل کی بحالی، کہانتی کنجیوں، ہیکلی رسومات اور انسان کی دائمی نوعیت کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے تھے تو، ہم اکثر اُس کے بستر کے ساتھ پڑی چھوٹی میز پر ایک کُھلی مورمن کی کتاب کو دیکھتے تھے۔
دسمبر کے وسط تک، ہاتھ میں اپنی بطریقی برکت کے ساتھ، مائیک حقیقاً کافی مضبوط نظر آ رہا تھا، اور صرف تین مہینے زندہ رہنے کی بابت قیاس آرائی غلط محسوس ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ ہم نے عیدِ ولادت المِسیح، نیا سال، اور اُس کے بعد بھی اپنے ساتھ اُس کی شمولیت کی منصوبہ بندی کی۔ ۱۶ دسمبر کو، میں نے اُسقف شارپ کی غیر متوقع کال موصول کی، جنھوں نے مجھے بتایا کہ اُنھوں نے اور المیخ کے صدر نے مائیک کا انٹرویو کیا تھا، اُنھوں نے اُسے ملکِ صدق کہانت حاصل کرنے کے لیے اہل پایا، اور پوچھا کہ میں شرکت کے لیے کب وقت نکال سکتا ہوں۔ ہم نے اُس جمعہ، ۲۱ دسمبر کو رسم ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔
جب دن آیا، تو میری بیوی، کیرل، اور میں دیکھ بھال کی سہولت میں پہنچے اور فوری طور پر اُس کے کمرے کے قریب ہال میں ہمیں بتایا گیا کہ مائیک کی نبض نہیں چل رہی تھی۔ جب ہم کمرے میں داخل ہوئے، تو بطریق، اُس کا اُسقف اور اُس کی المیخ کا صدر پہلے سے ہی ہمارا انتظار کر رہے تھے—اور پھر مائیک نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اُس نے مجھے پہچانا اور اِس بات کا اعتراف کیا کہ وہ مجھے سن سکتا تھا اور کہانت حاصل کرنے کے لیے تیار تھا۔ مائیک کے ہارونی کہانت میں ایک کاہن کے طور پر مقرر ہونے کے پچاس سال کے بعد، اُس کے مقامی راہ نماؤں کی موجودگی میں، مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ، میں اُسے ملکِ صدق کہانت عطا کروں اور اپنے بھائی کو بزرگ مقرر کروں۔ پانچ گھنٹوں کے بعد، مائیک وفات پا گیا، ملکِ صدق کہانت کے حامل کے طور پر اپنے والدین سے ملنے کے لیے پردہ کے اُس پار چلا گیا۔
صرف ایک سال پہلے، صدر رِسل ایم نیلسن نے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے بھائیو اور بہنو کی زیادہ ”ارفع و پاکیزہ“ خدمت کرنے کی بلاہٹ دی تھی۔۳ نجات دہندہ کے بارے میں کلام کرتے ہوئے، صدر نیلسن نے سکھایا کہ ”چوں کہ یہ اُس کی کلیسیا ہے، ہم اُس کے خادموں کی حیثیت سے ہر فرد کی ایسے خدمت کریں گے جیسے اُس نے کی۔ ہم اُس کے نام، اُس کے اِختیار اور اُس کی قدرت، اور اُس کی پیار بھری شفقت کے ساتھ خدمت کریں گے۔“۴
خُدا کے نبی کی طرف سے دی گئی اُس دعوت کے جواب میں، دُنیا بھر میں ہر فرد کی خدمت گزاری کے لیے نمایاں کوششیں کی جا رہی ہیں، دونوں مربوط کوششیں، جب اَرکان اِیمانداری سے اپنی خدمت گزاری کی تفویضات کو پورا کرتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ جسے میں کہوں گا ”فی البدیہہ“ خدمت گزاری میں، جب غیر متوقع مواقع کے جواب میں بہت سے اَرکان مسیح جیسی محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے خاندان میں، ہم نے ذاتی طور پر، اِس قسم کی خدمت گزاری کا مشاہدہ کیا ہے۔
جان، جو مائیک کا دوست، خدمت گزار بھائی، اور ایک سابق مشن کا صدر تھا، اپنے مبلغین کو بتاتا تھا کہ ”اگر اُن کی فہرست میں کوئی ایسا شخص ہے جو کہتا ہے کہ وہ ’دلچسپی نہیں رکھتا،‘ تو اُس کی خدمت گزاری کرنا مت چھوڑیں۔ لوگ تبدیل ہو جاتے ہیں۔“ اُس نے ہمیں بتایا، ”مائیک نے عظیم تبدیلی کا تجربہ حاصل کیا تھا۔“۵ کثیر حوصلہ افزائی اور سہارا فراہم کرتے ہوئے، جان پہلے دوست بنا—لیکن اُس کی خدمت گزاری دوستانہ ملاقاتوں کے دوران بھی جاری رہی۔ جان جانتا تھا کہ خدمت گزار دوست سے بڑھ کر ہوتا ہے اور دوستی کو تب عظمت ملتی ہے جب ہم خدمت گزاری کرتے ہیں۔
میرے بھائی کی مانند، یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی کو خطرناک بیماری کی وجہ سے خدمت گزاری کی ضرورت پڑے گی۔ یہ ضروریات بہت سے مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اکیلے والدین؛ ایک غیر فعال جوڑا؛ ایک جدوجہد کرنے والا نوجوان؛ ایک مغلوب الجذبات ماں؛ عقیدے کا امتحان؛ یا مالیاتی، صحت سے متعلق، یا شادی کے معاملات—فہرست تقریباً لامتناہی ہے۔ تاہم، مائیک کی طرح، کوئی بھی مدد حاصل کرسکتا ہے، اور نجات دہندہ کا پیار بھرا ساتھ پانے کے لیے کبھی دیر نہیں ہو تی ہے۔
ہمیں کلیسیا کی خدمت گزاری سے متعلق ویب سائٹ پر سکھایا گیا ہے کہ ”گو خدمت گزاری کے بہت سے مقاصد ہیں، ہماری کوششوں میں ہماری راہ نما یہ خواہش ہونی چاہیے کہ ہم دوسروں کی گہری انفرادی تبدیلی پانے اور مزید نجات دہندہ کی مانند بننے میں مدد کریں۔“۶ بزرگ نیل ایل اینڈرسن نے اِس طرح اِس کا بیان کیا ہے:
”اچھے دل کا مالک کوئی بھی شخص ٹائر ٹھیک کرنے میں کسی کی مدد کر سکتا ہے، ساتھ رہنے والے کو ڈاکٹر کے پاس لے جا سکتا ہے، کسی غمگین کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا سکتا ہے، یا مسکرانے اور سلام کرنے سے کسی کا دن روشن بنا سکتا ہے۔
”لیکن پہلے حکم کے پیروکار قدرتی طور پر خدمت کے اِن اہم کاموں کو مزید بہتر بنائیں گے۔“۷
اپنی خدمت گزاری کو اُس کے جیسا بناتے ہوئے، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اُس کی محبت کرنے، ابھارنے، خدمت کرنے، اور برکت دینے کی کوششوں کا مقصد فوری ضرورت کو پورا کرنے سے بڑھ کر تھا۔ یقیناً وہ اُن کی روزمرہ کی ضروریات کو جانتا تھا اور اُن کی موجودہ مصیبت پر ترس کھاتا تھا جب وہ اُنھیں شفا دیتا، سیر کرتا، معاف کرتا، اور سکھاتا تھا۔ لیکن وہ وقتی دیکھ بھال سے کچھ زیادہ کرنے کا مُشتاق تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کے آس پاس کے لوگ اُس کی پیروی کریں، اُسے جانیں اور اپنے الٰہی مقدور تک پہنچ سکیں۔۸
جب ہم ویسی خدمت کرنے کے متلاشی ہوں گے جیسی اُس نے کی،۹ تو ہمیں خود کو بھولنے اور دوسروں کی اُبھارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ یہ مواقع اکثر تکلیف دہ ہوسکتے ہیں اور مالک کی مانند مزید بننے کی ہماری خواہش کا امتحان لے سکتے ہیں، جس کی سب سے عظیم خدمت، اُس کا لامحدود کفارہ، بالکل بھی آسان نہیں تھا۔ متّی کا ۲۵ باب، ہماری یاد دہانی کراتا ہے کہ خُداوند ہمارے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے، جب، اُس کی مانند، ہم اُن لوگوں کا احساس کرتے ہیں جو جدوجہد کر رہے ہوں، آزمائش میں پڑے ہوں، اور بہت سی چنوتیوں کا سامنا کر رہے ہوں لیکن جو اکثر نظر انداز ہو سکتی ہیں:
” آؤ میرے باپ کے مُبارک لوگو جو بادشاہی بنایِ عالم سے تُمہارے لِئے تیّار کی گئی ہے اُسے مِیراث میں لو:
”کیوں کہ مَیں بھُوکا تھا، تُم نے مُجھے کھانا کھِلایا: میں پیاسا تھا، تُم نے مُجھے پانی پِلایا: میں پردیسی تھا، تُم نے مُجھے اپنے گھر میں اُتارا۔ …
”تب راست باز جواب میں، اُس سے کہیں گے، اَے خُداوند! ہم نے کب تُجھے بھُوکا دیکھ کر کھانا کھِلایا؟ یا پیاسا دیکھ کر، پانی پِلایا؟
”ہم نے کب تُجھے پردیسی دیکھ کر، گھر میں اُتارا؟ …
”بادشاہ جواب میں اُن سے کہے گا مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں چُونکہ تُم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائِیوں میں سے کِسی ایک کے ساتھ یہ سُلُوک کِیا اِس لِئے میرے ہی ساتھ کِیا۔“۱۰
چاہے ہم خدمت گزار بھائیو یا بہنو کے طور پر خدمت کریں، یا محض جب ہمیں کسی کی تکلیف سے آگاہ کیا جائے، ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ رُوح کی راہ نمائی اور ہدایت کے خواہاں ہوں—اور پھر اُس ہدایت پر عمل کریں۔ ہمیں گماں ہو سکتا ہے کہ کس طرح بہترین خدمت کرنی چاہیے، لیکن خُداوند جانتا ہے، اور اُس کی رُوح کے ذریعے ہم اپنی کوششوں میں ہدایت پائیں گے۔ نیفی کی مانند، جس کی ”رُوح نے راہ نمائی کی، پہلے سے معلوم نہ تھا کہ [اُسے] کیا کرنا ہے،“۱۱ رُوح ہماری بھی راہ نمائی کرسکے گا جب ہم اُس کے بچوں کو برکت دینے کے لیے خُداوند کے ہاتھوں کا وسیلہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم رُوح کی راہ نمائی کے خواہاں ہوتے ہیں اور خُداوند پر بھروسہ رکھتے ہیں، تو ہمیں ایسے ماحول اور حالات میں رکھا جائے گا جہاں ہم کام کرسکیں اور برکت دے سکیں گے—دوسرے الفاظ، خدمت گزاری کر سکیں گے۔
لیکن کئی اوقات ایسے بھی ہوتے ہیں جب ہم ایک ضرورت کی شناخت تو کرتے ہیں مگر جواب دینے کے لیے خود کو ادنٰی محسوس کرسکتے ہیں، یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہماری پیشکش ناکافی ہوگی۔ ویسا کرنے کے لیے جیسا اُس نے کیا،۱۲ تاہم، ہمیں خدمت گزاری کرتے وقت وہ سب پیش کرنا چاہیے جو ہم دینے کی استعداد رکھتے ہیں اور بھروسہ رکھیں کہ خُداوند ہمارے ”ساتھی مسافروں کی اِس فانی سفر“ میں برکت دینے کی ہماری کوششوں کو عظمت بخشے گا۔۱۳ کچھ لوگ، وقت اور مہارتوں کا تحفہ دے سکتے ہیں؛ دوسرے، شفیق الفاظ یا جسمانی مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ ہماری کوششیں ناکافی ہیں، صدر ڈیلن ایچ اوکس نے ”چھوٹی اور سادہ“ باتوں کے متعلق ایک اہم اُصول کا اشتراک کیا ہے۔ اُنھوں نے سکھایا کہ چھوٹے اور سادہ کام ”رُوحُ الُقدس کی رفاقت“ کو دعوت دیتے ہیں۱۴ ایک ایسا ساتھی جو دینے اور لینے والے دونوں کو برکت دیتا ہے۔
یہ جانتے ہوئے کہ وہ جلد ہی مر جائے گا، میرے بھائی مائیک نے کہا، ”یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ لبلبے کا کینسر کس طرح سب سے اہم بات کی طرف آپ کو متوجہ کرسکتا ہے۔“۱۵ حیرت انگیز مردوں اور خواتین کا شکریہ جنہوں نے ایک ضرورت کو دیکھا، تنقید نہیں کی، اور نجات دہندہ کی مانند خدمت کی، کہ مائیک نے بہت دیر نہیں کی تھی۔ کچھ لوگوں کے لیے، تبدیلی جلد ہی رونما ہوسکتی ہے؛ دوسروں کے لیے، شاید پردہ کے اُس پار۔ البتہ، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی دیر نہیں ہوتی ہے اور کوئی بھی راستے سے اتنی دور نہیں بھٹکتا یا بھٹکتی کہ وہ یِسُوع مِسیح کے لامحدود کفارے کی پہنچ سے باہر نکل جائے، جو اپنی اثنا اور نوعیت میں غیر محدود ہے۔
گزشتہ اکتوبر کی مجلسِ عامہ میں، بزرگ ڈیل جی رِنلنڈ نے سکھایا کہ ”اس سے قطع نظر کہ ہم کب سے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں اور کتنی دور تک بھٹک کے چلے گئے ہیں … ، جب ہم بدلنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو خُدا لوٹنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔“۱۶ تاہم، تبدیل ہونے کا فیصلہ اکثر ایک دعوت کا نتیجہ ہوتا ہے جیسا کہ، ”مجھے لگتا ہے کہ اِنجیل کا پیغام سننے سے آپ کو خوشی حاصل ہو گی۔“ جس طرح نجات دہندہ کے لیے کبھی دیر نہیں ہوتی،اُسی طرح ہمارے لیے کسی کو دعوت دینے کا کوئی جلد وقت نہیں ہوتا۔
یہ عیدِ قیامت المِسیح، ہمیں ایک بار پھر، ہمارے نجات دہندہ، یِسُوع مِسیح، کی عظیم مخلصی دینے والی قربانی پر غور کرنے کا ایک شاندار موقع فراہم کرتی ہے اور اُس نے ہم سب کے لیے اُس مہیب قیمت کے عوث کیا کیا—وہ قیمت جس کے بارے میں خود اُس نے اعلان کیا ”جس کی وجہ سے [وہ]، جو سب سے افضل ہے، درد کے مارے کانپ اٹھا۔“ ”اِس کے باوجود“ وہ بیان کرتا ہے، ”میں بنی آدم کے لیے اپنی تیاریوں میں شریک ہوا اور اِنھیں اختیام پذیر کیا ہے۔“۱۷
میں گواہی دیتا ہوں کہ کیوں کہ ”سب تمام ہوا،“ ہے، تاہم اُمید ہمیشہ رہے گی۔ یِسُوع مِسیح کے نام میں آمین۔