چھوٹٰی اور سادہ چیزیں
ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مجموعی طور پر کافی مدت پر محیط عرصے میں بظاہر چھوٹی نظر آنے والی چیزیں عظیم چیزوں کا موجب بنتی ہیں۔
I۔
میزے عزیز بھائیو اور بہنو، آپ کی طرح مجھے بھی ہمارے اکٹھے گزرے وقت کے احساس، موسیقی اور الہامی پیغامات نے گہرے طور پر چھوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں آپ کی طرف سے بھی اُن بھائیوں اور بہنوں کا شکریہ ادا کر سکتا ہوں جنہوں نے خُداوند کے آلہِ کار بن کر ہمارے اکٹھے گزارے وقت میں ہمیں تقویت بخشی ہے۔
میں شکر گزار ہوں کہ ایسٹر کے اتوار کو اِن سامعین سے بات کر رہا ہوں۔ آج ہم دوسرے مسیحیوں کے ساتھ مل کر خُداوند یسوع مسیح کی قیامت کی عید منا رہے ہیں۔ کلیسیائے یسوع مسیح برائے مقدسینِ آخری ایام کے لیے یسوع مسیح کی قیامتِ حقیقی ہمارے ایمان کا ستون ہے۔
کیونکہ ہم بائیبل اور مورمن کی کتاب دونوں میں میں بتائی قیامتِ مسیح کے بیان پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ایسی ہی قیامت اُن تمام فانی انسانوں پر آئے گی جو اس زمین پر رہے ہیں۔ یہ جی اٹھنا ہمیں پطرس رسول کی کہی ہوئی ”زندہ امید“ دیتا ہے(۱ پطرس ۱: ۳) یہ زندہ امید ہمارا اعتماد ہے کہ موت ہماری شناخت کا اختتام نہیں ہے بلکہ اپنے بچوں کی نجات کے لیے ہمارے آسمانی باپ کے پُر رحم منصوبے کا اہم اگلا قدم ہے۔ فانیت سے لا فانیت کی جانب جانا اس منصوبے کا حصہ ہے۔ اس تبدیلی کے مرکز میں موت کا غروب آفتاب اور ہمارے خُداوند اور نجات دہندہ یسوع مسیح کی وجہ سے ممکن بنائی جی اٹھنے کی جلالی صبح شامل ہے۔
II۔
ایلایزہ آر۔ سنو کے لکھے گیت میں ہم گاتے ہیں:
کیسا عظیم، کیسا جلالی، کیسا کامل
مخلصی کا عظیم منصوبہ ہے
جہاں انصاف، محبت اور رحم ملتے ہیں
الہامی ہم آہنگی سے!۱
اس الہامی منصوبے اور ہم آہنگی کے لیے ہم عبادات میں اکٹھے ہوتے ہیں، بشمول اس کانفرنس کے جس میں ہم ایک دوسرے کو سکھاتے اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ آج صبح میں ایلما کی اپنے بیٹے کو دی ہوئی تعلیمات کو اپنے خطاب کے متن کے طور پر استعمال کروں جو مورمن کی کتاب میں مرقوم ہے کہ ”چھوٹی اور سادہ چیزوں سے عظیم چیزیں رونما ہوتی ہیں“ (ایلما ۳۷: ۶ )۔
یسوع مسیح کی انجیل میں ہمیں بہت سی چھوٹی اور سادی چیزیں سکھائی گئی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مجموعی طور پر کافی مدت پر محیط عرصے میں بظاہر چھوٹی نظر آنے والی چیزیں عظیم چیزوں کا موجب بنتی ہیں۔ اس موضوع پر کلیسیا کے بہت سے اعلیٰ عہدے داروں اور دیگر قابلِ تعظیم معلموں میں تعلیم دی ہے۔ یہ موضوع اس قدر اہم ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ پھر سے اس پر بات کروں۔
مجھے کچھ عرصے پر محیط چھوٹی اور سادہ چیزوں کی قوت کا اندازہ صبح کی سیر کے دوران ہوا۔ یہ وہ تصویر ہے جو میں نے کھینچی۔ کنکریٹ کے اس موٹے اور مضبوط فٹ پاتھ میں دراڑ پڑ رہی ہے۔ کیا یہ کسی بہت بڑی اور قوی قوت کا نتیجہ ہے؟ نہیںِ اس دراڑ کی وجہ قریبی درخت کی ایک جڑ کی آہستہ اور معمولی افزائش ہے۔ ایسی ہی ایک اور مثال میں نے ایک اور گلی میں بھی دیکھی۔
کنکریٹ کے اِن بھاری فٹ پاتھوں کو دھکیل کر توڑنے والی قوت اس قدر آہستگی سے کارفرما تھی کہ اُسے روزانہ یا ماہانہ بنیاد پر بھی مانپا نہیں جا سکتا تھا، لیکن وقت گرزنے کے ساتھ اس کا اثر انتہائی قوی تھا۔
اسی طرح ہمیں صحائف اور زندہ نبیوں کے ذریعے سکھایا گیا ہے کہ سادہ اور چھوٹی چیزوں کا اثر بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوی ہی ہوتا ہے۔ مطالعہِ صحائف کو ہی لیں جس کے بارے میں ہمیں کہا گیا ہے کہ اسے اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں۔ یا ذاتی دعا اور خاندان کے طور پر گھٹنے ہو کر دعا کرنا دیکھیں، جو وفادار آخری ایام کے مقدسین کے خاندان کا باقائدہ حصہ ہیں۔ نوجوانوں کا سیمنری جانا اور نوجوان بالغوں کا انسٹیٹیوٹ کلاس میں جانا دیکھیں۔ گو کہ یہ اعمال معمولی اور سادہ نظر آتے ہیں وقت گزرنے پر ان کا نتیجہ قوی روحانی بہتری اور ترقی ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ تمام معمولی اور سادہ چیزیں روح القدس کی رفاقت کو مدعو کرتی ہیں، جو گواہی دینے والا ہے جو ہمیں سچائی کی جانب لے جاتا ہے جیسا صدر آئرنگ نے بیان کیا ہے۔
روحانی بہتری اور ترقی کا ایک اور ذریعہ بظاہر معمولی خطاوں سے توبہ کرتے رہنا ہے۔ ہمارا الہامی ذاتی مشاہدہ یہ عیاں کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے ہم میں کیا خامیاں ہیں اور ہم کیا بہتر کر سکتے ہیں۔ ایسی تونہ ہمارے ہر ہفتے عشائے ربانی لینے سے پہلے ہونی چاہیے۔ توبہ کے اس عمل میں اپنے سامنے رکھنے کے کچھ مجوزہ موضوعات گیت ”کیا میں نے آج کچھ اچھا کیا “ میں بتائے گئے ہیں۔
کیا میں نے آج کچھ اچھا کیا؟
کیا کسی ضرورت مند کا میں حادی ہوا؟
کیا میں نے اداسوں کو بخشی خوشی؟
گر نہیں تو یقینا میں ناکام ہوا۔
کیا کسی کا بوجھ آج ہلکا ہوا
کیونکہ میں بانٹنے پر رضامند تھا؟
کیا بیماروں اور ماندوں کی مدد ہوئی؟
کیا اُن کی ضرورت میں میں وہاں تھا؟۲
یقینا یہ معمولی چیزیں ہیں، لیکن یقینا یہ ایلما کی اپنے بیٹے کو دی ہوئی تعلیم کی اچھی مثال ہیں۔ کہ ”خُداوند خُدا زریوں سے اپنے عظیم اور ابدی مقاصد پورے کرتا ہے، اور بہت معمولی زریعوں سے خُداوند … بہت سی جانوں کو نجات دیتا ہے“(ایلما ۳۷: ۷ )۔
صدر سٹیون سی۔ ویلرائٹ نے بریگھم ینگ یونیورسٹی –ہوائی میں سامعین کو ایلما کی تعلیمات کا یہ الہامی بیان دیا: ”ایلما نے اپنے بیٹے کے لیے اس بات کی تصدیق کی کہ جب ہم خُداوند پر ایمان رکھتے ہیں اور معمولی اور سادہ چیزوں میں اُس کی مشورت پر عمل کرتے ہیں تو خُداوند اس نمونے پر ہمیں روزانہ کے چھوٹے معجزے اور وقت کزرنے کے ساتھ ساتھ شاندار کاموں کی برکت دیتا ہے۔۳
صدر ہاورڈ ڈبلیو ہنٹر نے سکھایا کہ ”ا جہاں تک اُن چیزوں کا تعلق ہے جنہیں دنیا عظیم جانتی ہے تو اکثر …دوسروں کی زندگی پر سب سے ذیادہ مثبت اثر عام چیزوں کا ہی ہوتا ہے۔۴
اینڈیانا کہ ایک سابقہ سینیٹر ڈین کوٹس نے اسی اصول کی دنیاوی تعلیم دی اور لکھا: ”ایک زندگی یا ایک قوم کو بدل دینے والے فیصلے کی تیاری نصف شعوری، اور خودی کو بیان کرنے والے اُن سینکڑوں اور ہزاروں بظاہر غیراہم فیصلوں میں ہوتی ہے جو ہم نجی طور پر کرتے ہیں۔۵
اُن بظاہر ”غیر اہم نجی فیصلوں“ میں شامل ہے کہ ہم اپنے وقت کا کیسے استعمال کرتے ہیں، ہم ٹیلی وژن اور انٹر نیٹ پر کیا دیکھتے ہیں، کیا پڑھتے ہیں، گھروں اور دفاتر میں اپنے گرد کس طرح کا آرٹ اور موسیقی رکھتے ہیں، تفریح کے لیے کن چیزوں کی خواہش کرتے ہی، اور دیانت دار اور سچے رہنے کی ذمہ داری کو کس طرح نبھاتے ہیں۔ ایک اور بظاہر معمولی اور سادہ چیز یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی روابط میں مہذب اور شادمان ہوں۔
ان قابلِ خواہش معمولی اور سادہ چیزوں میں کوئی واحد چیز ہمیمں بلندی کی جانب تب تک نہیں لے کر جائے گی جب تک ہم متواتر اور مسلسل ان چیزوں پر عمل پیرا نہ ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ صدر بریگھم ینگ نے کہا کہ ”ہماری زندگی چھوٹے معمولی حالات سے بنی ہے جو مجموعی طور پر ایک بڑی بات بن جاتے ہیں اور مرد و زن کی زندگی کا خلاصہ ہوتے ہیں۔“۶
ہم میڈیا کے اثرات اور ثقافتی تنزل میں گھرے ہوئے ہیں، اگر ہم مسلسل مزاحمت نہ کریں تو یہ ہماری اقدار کو بہا کر نیچے لے جائیں گے۔ تیر کر اپنے ابدی مقاصد کی جانب بڑھنے کے لیے ہمیں مسلسل چپو چلاتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایسی ٹیم کا حصہ ہوں جو جہاز میں ایک ساتھ چپو چلانے والے عملے کی طرح ہو تو یہ اور بھی اچھا ہے۔ اسی مثال کو آگے بڑھائیں تو یہ ثقافتی لہریں اس قدر قوی ہیں کہ اگر ہم چپو چلانا چھوڑ دیں تو ہمیں یہ ہمیں بہا کر ایسی منزل پر لے جائیں گی جہاں ہم جانا تو نہیں چاہتے، لیکن جہاں جانا ناگزیر ہو جاتا ہے، اگر ہم مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔
ایک بظاہر معمولی نظر آنے والے واقعہ بیان کرنے کے بعد جس کے نتائج بہت بڑے تھے نیفی نے لکھا: ”اور یوں ہم دیکھتے ہیں کہ خُداوند معمولی طریقوں سے عظیم باتیں رونما کروا سکتا ہے“ (۱ نیفی ۱۶: ۲۹)۔ پرانے عہد نامے میں اس کی ایک یادگار مثال ہے۔ وہاں ہم پڑھتے ہیں کہ اسرائیلوں میں آتشی سانپ آئے۔ بہت سے لوگ اُن کے کاٹنے سے مرے ( دیکھیںگنتی ۲۱: ۶ )۔ جب موسی نے راحت کے لیے دعا کی تو اُسے الہام ملا کہ وہ ”پیتل کا سانپ بنا کر اُسے بلی پر لٹکائے“ پھر ”اگر سان کے ڈسے ہوئے جس جس آدمی ن پیتل کے سانپ پر نگاہ کی وہ بچ گیا “(آیت ۹ )۔ ایسی معمولی سی چیز کا ایسا شاندار نتیجہ! تاہم جیسا خُداوند کے خلاف سرکشی کرنے والوں کو نیفی نے سکھایا کہ خُداوند نے اُن کی شفا کے لیے سادہ راہ تیار بھی کی تھی، لیکن ”راہ کی سادگی یا آسانی کے سبب بہت سے تھے جو ہلاک ہوئے“ ( ۱ نیفی ۱۷: ۴۱ )۔
یہ مثال اور یہ تعلیم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ راہ کی سادگی یا حکم کی آسانی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہماری راست خواہشوں کو پانا غیر اہم ہے۔
اسی طرح، نافرمانی کے چھوٹے کام اور راست اعمال کی پیروی نہ کرنا ہمیں ایسے نتیجے کی جانب لےجاسکتے ہیں جس سے ہمیں خبردار کیا گیا ہے۔ حکمت کا کلام اسی کی مثال ہے۔ ممکن ہے کہ ایک سگریٹ، یا شراب کے ایک پیالے، یا کسی اور ممنوعہ دوا کی ایک خوارک کا جسم پر اثر مانپا نہ جا سکے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مسلسل استعمال کا اثر قوی اور ناقابلِ تنسیخ ہے۔ درخت کی جڑوں کے آہستہ پھیلاو سے فٹ پاتھ کا ٹوٹنا یاد رکھیں۔ ایک بات یقینی ہے، کہ کوئی بھی عادت بنانے والی جیز جیسے کے ممنوعہ ادویات جو ہمارے جسم پر حملہ کرتی ہیں یا فحش مواد جو ہماری سوچ کو تنزلی دیتا ہے، کُلی طور پر ان سے بچنا ممکن ہے اگر ہم پہلی بار بھی ان میں حصہ نہ لیں—ایک بار بھی نہیں۔
بہت سال پہلے صدر اہم رسل بیلیرڈ نے جنرل کانفرنس کے سامعین کو بتایا کہ ”کیسے معمولی اور سادہ چیزیں کسی شخص کی نجات کے لیے منفی اور تباہ کُن ہو سکتی ہیں۔“ اُنہوں نے سکھایا ”کہ سوت بنانے والی کمزور لڑیاں، جُر کر اور اور پھر مضبوط رسی بن جاتی ہیں، اسی طرح معمولی چیزیں مل کر اتنی مضبوط ہو جاتی ہیں کہ اُنہیں توڑا نہ جا سکے۔“ اُنہوں نے کہا کہ ”ہمیں روحانیت کی تعمیر میں ہمیں معمولی اور سادہ چیزوں کی طاقت سے باخبر رہنا چاہیے“ ”اسی طرھ ہمیں باخبر رہنا چاہیے کہ شیطان معمولی اور سادہ چیزیں استعمال کر کے ہمیں مایوسی اور غم میں لے جاتا ہے۔“ ۷
صدر ویل رئٹ نے بی وائی یو ہوائی میں سامعین کو ایسی ہی تنبیہ کی: ”معمولی اور سادہ چیزوں پر عمل پیرا نہ ہونے سے ہی ایمان ڈگمگاتا ہے، معجزے بند ہو جاتے ہیں اور پہلے تو خُداوند اور آسمان کی بادشاہی کی جانب ترقی میں توقف آتا ہے اور جب فانی کوششیں اور دنیاوی تمنائیں اس کی جگہ لے لیتی ہیں تو یہ ختم ہو جاتا ہے۔“ ۸
ہماری روحانی ترقی کی تباہی والے مجموعی منفی اثرات کے سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں معمولی اور سادہ چیزوں کے روحانی نمونے پر عمل کرنا چاہیے۔ ایلڈ ڈیوڈ اے۔ بیڈنار نے بی وائی یو کی کانفرنس برائے خواتین میں اس اصول کو بیان کیا ”ہم اس روحانی نمونے کی اہمیت اور فطرت …پانی کے مٹی پر آہستگی سے ٹپکنے کی تکنیک سے سیکھ سکتے ہیں“ بجائے اس کے کہ پانی کی بڑی مقدار کو اسی جگہ پر اُنڈیل دیا جائے جہاں اس کی ضرورت نہ ہو۔
اُنہوں نے بیان کیا ”پانی کے قطروں کے ٹپکنے سے پانی زمین کی گہرائی تک چلا جاتا ہے اور مٹی میں نمی فراہم کرتا ہے جس سے پودوں کو نشونما ملتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ اور میں اکثر اور مستقل روحانی قطروں کی نشونما پانے پر توجہ مرکوز کریں تو انجیل کی جڑیں ہماری روحوں کی گہرائی میں جا کر قائم ہوسکتی ہیں اور غیر معمولی لذید پھل لا سکتی ہیں۔“
اُنہوں نے مزید کہا ”معمولی اور سادہ چیزوں کا روحانی نمونہ مضبوطی اور ثابت قدمی، گہرا تر لگاو اور خُداوند یسوع مسیں اور اُس کی انجیل کی جانب مزید کامل رجوع کرنا لاتا ہے۔“۹
نبی جوزف سمتھ نے یہ اصول ان الفاظ میں سکھایا جو اب تعلیم اور عہود کا حصہ ہیں ”کوئی شخص بھی انہیں معمولی چیزیں نہ گردانے کیونکہ مقدسین کے بارے میں …بہت سی چیزیں ہیں جو ان پر منحر ہیں۔(تعلیم اور عہود ۱۲۳: ۱۵ )۔
میزوری میں کلیسیا قائم کرنے کی ابتدائی کوششوں میں خُداوند نے صبر کی مشورت دی کیونکہ ”تمام چیزوں کا اپنے وقت پر ہونا ضرور ہے“ (تعلیم اور عہود ۶۴: ۳۲ )۔ پھر اس نے یہ تعلیم دی ”اس لیے بھلائی کرنے میں نہ تھکو، کیونکہ تم عظیم کام کی بنیاد ڈال رہے ہو۔ اور چھوٹی چیزوں سے ہی عظمت صادر ہوتی ہے“ (تعلیم اور عہود ۶۴: ۳۳ )۔
میرا یقین ہے کہ ہم سب صدر رسل ایم نیلسن کے چیلنچ کو قبول کر کے موعودہ راہ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔“۱۰ ہمیں یسوع مسیح کی انجیل اور اُس کی کلیسیا کے رہنما سکھاتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے ”معمولی چیزوں“ کی پیروی کر کے ہمیں تقویت ملتی ہے۔ میں اُس کی گواہی دیتا ہوں اور اُس کی برکات اُن تمام کے لیے مانگتا ہوں جو اُس کی موعودہ راہ پر چلنا چاہتےہیں، یسوع مسیح نے نام سے، آمین۔