۲۰۱۰–۲۰۱۹
اُس کا رُوح آپ کے ساتھ ہو
اپریل ٢٠١٨


2:3

اُس کا رُوح آپ کے ساتھ ہو

مَیں پورے دِل کے ساتھ دُعا کرتا ہوں کہ تم رُوح کی آواز سُن سکو، جو تمھارے پاس کثرت سے بھیجا گیا ہے۔

میرے بھائیو اور بہنو، میں شکر گزار ہوں آج کے لیے کہ عید قیامت المِسیح کے موقعہ پر، کلیسیا کی مجلسِ عامہ میں، خُداوند کے سبت کے دن آپ سے کلام کر رہا ہوں، میں ہمارے آسمانی باپ کا مشکور ہوں، اُس کے پیارے بیٹے کے لیے، جو اِس دھرتی پر ہمارابے لوث مسیحا بننے کے لیے آیا۔ میں اِس معرفت کے لیے شکر گزار ہوں کہ اُس نے ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کیا اور قیامت کے لیے جی اُٹھا۔ ہر دِن معرفت کی یہ رحمت پاتا ہوں کہ اُس کے کفارے کی بدولت، میں کسی دِن جی اُٹھوں گا کہ پیارے خاندان میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہوں۔

مجھے ان باتوں کا علم اُسی ایک طریقے سے ہُواہے جس کو ہر کوئی جانتا ہے۔ رُوحُ القُدس نےدل اور دماغ سے کلام کیا کہ یہ سچ ہے—ایک بار نہیں بلکہ کئی بار۔ مجھے اِس تسلی کی لگاتار ضرورت ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی المیے سے گزرتے ہیں، اِس دوران میں ہمیں رُوح کی تسلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے اِس تسلی کو ایک دِن محسوس کیا تھا جب میں ہسپتال میں اپنے والد کے ساتھ کھڑا تھا۔ ہم دیکھ رہے تھے، میری ماں نے چند چھوٹی چھوٹی سانسیں لیں—اور اِس کے بعد کوئی نہیں۔ جب ہم نے اُس کے چہرے پر نظر کی، وہ مسکرا رہی تھی جیسے درد ختم ہوجائے۔ چند خاموش لمحات کے بعد، میرا باپ پہلی بار بولا۔ اُس نے کہا، ” ننھی گڑیا اپنے گھر چلی گئی ہے۔“

اُس نے یہ آہستہ سے کہا۔ بظاہر وہ پُر سکون دکھائی دیتے تھے۔ وہ اُس بات کی خبر دے رہے تھے جو وہ جانتے تھے کہ سچی ہے۔ وہ خاموشی سے ماں کاسامان کو جمع کرنے لگا۔ وہ باہر برآمدے میں گیا ڈاکٹروں اور نرسوں کا باری باری شکریہ ادا کیا جو کئی دِنوں سے ماں کی خدمت کررہے تھے۔

میرے باپ کے پاس اُس لمحے محسوس کرنے، سوچنے، اور قدم اُٹھانے کے لیے رُوحُ القُدس کا سہارا تھا اوراُس دِن جو کچھ بھی اُس نےکیا۔ اُس کے لیے وہ وعدہ پورا ہُوا: ”کہ اُن کے پاس اُس کا رُوح ہو تاکہ اُن کے ساتھ رہے۔“(عق و عہ ۲٠: ۷٩

آج میری تمنا ہے کہ رُوحُ القُدس کو پانے کے لیے تمھاری آرزو اور تمھاری لیاقت کو بڑھاؤں۔ یاد رکھو، وہ الوہیت کا تیسرا رکن ہے۔ باپ اور بیٹا جیتی جاگتی ہستیاں ہیں۔ رُوحُ القُدس رُوح کاشخص ہے۔ ( دیکھئے عق و عہ ۱٣۰: ۲۲۔) اُس کو پانا اوراُس کو اپنے دِل اور دماغ میں خوش آمدید کہنایہ آپ کی پسند ہے۔

وہ شرائط جن کی بنا پر ہم یہ آسمانی برکت پاسکتے ہیں واضح کردی گئی ہیں اُس کلام میں جو ہفتہ وار دیا جاتا ہے لیکن ہو سکتا ہے وہ ہر بار ہمارے دِل اور دماغ میں گھر نہیں کر پاتا۔ اپنے پاس بھیجے گئے رُوح کورکھنے کے لیے ہمیں نجات دہندہ کو لازم ”ہمیشہ یاد رکھنا“ ہے اور”اُس کے حکموں کو ماننا “ہے (عق و عہ ۲۰: ۷۷)۔

سال کا یہ موسم نجات دہندہ کی قربانی اوراُس کے قبر سے جلالی ہستی کی صورت میں جی اُٹھنےکی یاد دِلاتا ہے۔ ہم میں سے کئی اُن مناظر کی تصویروں کو اپنی یادوں میں محفوظ رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ یروشلم میں قبر کے باہر کھڑے تھے۔ کئی لوگوں کا اِیمان ہے کہ یہ وہی قبر ہے جس میں سےمصلوب نجات دہندہ جی اُٹھے اور زندہ خُدا باہر آئے۔

معزز گائیڈ نے اپنے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے کہا، ”آؤ، خالی قبر کو دیکھو۔“

ہم داخل ہونے کے جھکے۔ ہم نے پتھر کا بنچ دیوار کے پاس پڑا دیکھا۔ لیکن میرے دماغ میں کوئی دوسری تصویر آئی، بالکل اصلی جیسے اُس دِن تھی۔ وہ مریم تھی جس کورسول قبر پر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ رُوح نے مجھے اپنے دماغ میں یہی دیکھنے اور سُننے کی اِجازت دی، اتنی واضح جیسے میں وہاں پرتھا:

”لیکن مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی :اور جب روتے روتے قبر کی طرف جھک کر اندر نظر کی،

”تو دو فرشتوں کو سفید پوشاک پہنے ہُوئے ایک کو سرہانے اور دوسرے کو پینتانے بیٹھے دیکھا جہاں یِسُوع کی لاش پڑی تھی۔

”اُنھوں نے اُس سے کہا، اے عورت ،تُو کیوں روتی ہے؟ اُس نے اُن سے کہا، میرے خُداوند کو اُٹھا لے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اُسے کہاں رکھا ہے۔

”یہ کہہ کر وہ پیچھے مُڑی اور یِسُوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یِسُوع ہے۔

”یِسُوع نے اُس سے کہا اے عورت تُو کیوں روتی ہے؟ کس کو ڈھونڈتی ہے؟ اُس نے باغ بان سمجھ کر اُس سے کہا میاں اگر تُو نے اُس کو یہاں سے اُٹھایا ہو تو مجھے بتا دے کہ اُسے کہاں رکھا ہے تاکہ مَیں اُسے لے جاؤں۔

”یِسُوع نے اُس نے کہا، مریم۔ اُس نے مڑ کر اُس سے کہا، ربونی؛ یعنی اے اُستاد۔

”یِسُوع نے اُس سے کہا مجھے نہ چھُو کیوں کہ میں اب تک باپ کے پاس اُوہر نہیں گیا، لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر اُن سے کہہ کہ مَیں اپنے باپ اور تمھارے باپ اور اپنے خُدا اور تمھارے خُدا کے پاس اُوہر جاتا ہُوں“ (یوحنا ۲۰: ۱۱–۱۷)۔

میں اِجازت مانگی کہ مجھے بھی ویسا محسوس ہو جیسا مریم نے قبر پر محسوس کیا تھا اور جیسا دو شاگردوں نےاِماؤس کے راستے پر جی اُٹھے نجات دہندہ کے ساتھ چلتے ہُوئے محسوس کیا تھا، جسے وہ سمجھے کہ یروشلم جانے والا کوئی مسافر ہے:

”اُنھوں نےاُسے یہ کہہ کر مجبور کیا کہ ہمارے ساتھ رہ کیوں کہ شام ہُوا چاہتی ہے اور دِن اب بہت ڈھل گیا۔ پس وہ اندر گیا تاکہ اُن کے ساتھ رہے۔

”جب وہ اُن کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تو اَیسا ہُوا کہ اُس نے روٹی لے کر برکت دی اور توڑ کر اُن کو دینے لگا۔

”اِس پر اُن کی آنکھیں کھُل گئیں اور اُنھو ں نے اُس کو پہچان لیا؛ اور وہ اُن کی نظروں سے غائب ہو گیا۔

”اُنھوں نے آپس میں کہا کہ جب وہ راہ میں ہم سے باتیں کرتا اور ہم پر نوشتوں کا بھید کھولتا تھا تو کیا ہمارے دِل جوش سے نہ بھر گئے تھے؟“ (لوقا ۲۴: ۲۹–۳۲)۔

اسی طرح کے الفاظ کسی عشائے ربانی کی عبادت میں دہرائے گئے تھے، جس میں ستر برس سے بھی زیادہ عرصہ پہلے شمولیت کی تھی۔ اُن دِنوں عشائے ربانی کی عبادت شام کو ہُوا کرتی تھی۔ باہر بہت اندھیرا تھا۔ جماعت نے یہ جان پہچانا گیت گایا۔ میں نے اِسے کئی بار سُنا ہے لیکن میری یاداشت میں اُس ایک خاص رات کا احساس ہے۔ جو مجھے نجات دہندہ کے اور نزدیک لے آتی ہے۔ اگر میں اُن اَلفاظ کو دُہراوں تو ہوسکتا ہے ہم سب کی یاد تازہ ہو جائے:

شام ہے، میرے پاس رہو۔

دِن چڑھا اورڈھل کیا؛

شام کے سائے طویل ہیں؛

شب آنےوالی ہے۔

مہمان خوش آمدید، میرے دل میں،

اور میرے گھر میں۔

شام ہے، میرے پاس رہو۔

تیرے ساتھ آج چلتے چلتے

میرا سینہ جوش سے بھرگیا،

تیرے ساتھ باتیں کرتے کرتے۔

تیری پیاری باتیں میرے دل میں گھر کر گئی

تیرے وصل کی چاہ جاگ اُٹھی۔

اے مسیحا، آج کی رات میرے پاس رہو؛

دیکھ، شام ہے۔

اے مسیحا، آج کی رات میرے پاس رہو؛

دیکھ، شام ہے۔۱

واقعات کی یاد سے زیادہ قیمتی دل کو چھونے والی اور ہمہ وقت سچائی کا ثبوت دینے والی رُوحُ القُدس کی یاد ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھنے، یا سُنے ہُوے اور پڑھے ہوئے لفظوں کو یاد کرنے سے زیادہ قیمتی اُن احساسات کو یاد کرنا جو رُوح کی مدھم سرگوشی سے وابستہ ہے۔ بہت کم، میں نے اِماؤس جانے والے اُن مسافروں کی طرح جن کے دِل جوش سے بھر گئے تھے، محسوس کیا۔ اکثر اوقات، یہ اُمید اور تسلی بخش یقین کا احساس ہے۔

ہمارے پاس ایک مددگار کی صورت میں رُوحُ القُدس کا اَنمول وعدہ ہے، اِس کے ساتھ ساتھ اِس نعمت کو پانے کے لیے ہمارے پاس درست ہدایات بھی ہیں۔ خُداوند کے مُجاز خادم نے ہمارے سر پر ہاتھ رکھتے ہُوئے یہ اَلفاظ کہے تھے: ”رُوحُ القُدس پاؤ۔“ اُس لمحے، مجھے اور آپ کو یہ یقین ہُوا کہ وہ بھیجا جائے گا۔ لیکن رُوح کی اِعانت کو قبول کرنے کے لیے ہمارا فرض ہے اپنے دلوں کو عمر بھر کھولے رکھیں۔

نبی جوزف سمتھ کے معاملات وتجربات ہمیں راستہ دکھاتے ہیں۔ اُس نے اپنے اِس حتمی نقطہ نظر سے خدمت شروع کی اور جاری رکھی کہ اُس کی اپنی حکمت کافی نہیں تھی یہ جاننے کے لیے کہ کون سا راستا اپنائے۔ اُس نے خُدا کے حضور فروتن ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

پھر اُس نے فیصلہ کیا کہ خُدا سے پوچھنا ہے۔ اُس نے اِس اِیمان کے ساتھ دُعا کی کہ خُدا جواب دے گا۔ جب وہ نوجوان لڑکا تھا تو جواب آ گیا۔ پھر وہ پیغامات آئے جب اُسے یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ خُداوند کیسے اپنی کلیسیا کی تعمیر و ترقی چاہتا ہے۔ رُوحُ القُدس نے اُس کی ساری زندگی مدد کی اور راہ نمائی فرمائی۔

وہ مشکل حالات کے دوران میں اِلہام کافرمان بردار رہا۔ مثال کے طور پر، اُس کو ہدایت ملی کہ اِنگلستان بارہ کو بھیجے جب کہ یہاں اشد ضرورت تھی۔ اُس نے اُنھیں بھیجا۔

اُس نے تنبیہ اور تسلی رُوح سے پائی جب وہ قید کیا گیا اور مقدسین کو بے دردی سے کچلاگیا۔ اور وہ فرمان بردار رہا اگرچہ اُسے علم تھاکہ اُس کی جان کو خطرے کا سامنا ہےوہ پھر بھی کارتھیج کے راستے پر گیا۔

نبی جوزف سمتھ نے ہمارے لیے مثال قائم کردی کہ کس طرح لگا تار رُوحانی ہدایت اور مدد رُوحُ القُدس کے وسیلے سے پانی ہے۔

اُس کی پہلی ترجیح خُدا کے حضور فروتن بنناتھی۔

اور دوسری یِسُوع مِسیح پر اِیمان کے ساتھ دُعا کرنا تھی۔

اور تیسری من وعن فرمان بردار ہونا تھا۔ فرمان برداری کا مطلب شاید فوراً عمل پیرا ہونا۔ اِس کا مطلب شاید تیاری کرنا۔ یا اِس کا مطلب شاید صبر کے ساتھ مزید اَلہام کا اِنتظار کرنا۔

اور چوتھی دُعا کرنا تاکہ دوسروں کی ضرورتوں اور جذبات کو جانے اور خُداوند کے واسطے اُن کی کیسے مدد کرے۔ جوزف نے پریشانی میں مُبتلا مقدسین کے لیے دُعا کی جب وہ قید میں تھا۔ یہ میری خوش قسمتی رہی کہ میں نے خُدا کے نبیوں کو دُعا کرتے، اِلہام پاتے، ہدایت لیتے، اور اُس پر عمل کرتے دیکھا ہے۔

میں نے دیکھا ہے کہ کتنی بار اُن دُعائیں اُن لوگوں کے لیے جن کی یہ خدمت کرتے اور پیار کرتے ہیں۔ دوسروں کے لیے اُن کی فکر مندی لگتا ہے اُن کے دِل کے دروازوں کو اِلہام پانے لے لیے کھولتی ہے۔ یہی بات آپ کے لیے بھی سچ ہو سکتی ہے۔

اِلہام خُداوند کے واسطے دوسروں کی خدمت کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ اپنے تجربات میں آپ نے ایسا دیکھا ہو گا، جیسا میں نے دیکھا۔ میرے بشپ نے ایک دفعہ مجھے کہا—اُسی لمحے جب میری بیوی اپنی زندگی کی چکی کے شدید دباؤ پِس رہی تھی—”ہر بار کسی کے بار میں سُنتا جس کو وارڈ میں مدد کی ضرورت ہے، جب میں وہاں مدد کرنے پہنچتا، میں دیکھتا کہ تیری بیوی وہاں مجھ سے پہلے پہنچی ہوتی تھی۔ وہ یہ سب کیسے کر پاتی ہے؟“

وہ خُداوند کی بادشاہت میں اُن سب عظیم خادموں کی طرح ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ وہ دو کام کرتے ہیں۔ عظیم خدام رُوحُ القُدس کی ہمہ وقت رفاقت کے لائق ہوتے ہیں۔ اور وہ محبت کی نعمت کے لائق ہوتے ہیں، جو مِسیح کا سچا عشق ہے۔ وہ نعمتیں اُن میں پروان چڑھی ہیں جب اُنھیں بے لوث خدمت کے دوران میں وہ خُداوند کے واسطے بروئے کار لائے تھے۔

جس طریقے سے دُعا، اِلہام، اور خُدا کی محبت یکجا ہو کر ہماری خدمت میں کام کرتے ہیں اِن لفظوں میں یقینی طور پر میرے لیے بیان کیے گئے ہیں:

”اگر میرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو گے تو میں وہی کروں گا

”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہوتو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔

”اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے۔

”یعنی سچائی کا رُوح؛ جسے دُنیا حاصل نہیں کرسکتی کیوں کہ نہ اُے دیکھتی اور نہ جانتی ہے: تم اُسے جانتے ہو؛ کیوں کہ وہ تمھارے ساتھ رہتا ہے اور تمھارے اندر ہوگا۔

”میں تمھیں یتیم نہ چھوڑوں گا: میں تھارے پاس آؤں گا۔

”تھوڑی دیر باقی ہے کہ دُنیا مجھے نہ دیکھے گی؛ مگر تم مجھے دیکھتے رہو گے: چُوں کہ میں جیتا ہوں، تم بھی جیتے رہو گے۔

”اُس روز تم جانو گے کہ میں اپنےباپ میں ہُوں، اور تم مجھ میں اورمَیں تم میں۔

”جس کے پاس میرے حکم ہیں اور وہ اُن پرعمل کرتا ہے وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے: اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ میرے باپ کا پیارا ہو گا اور میں اُس سے محبت رکھوں گا اور اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کروں گا“ (یوحنا ۱۴: ۱۴–۲۱)۔

میں اپنی ذاتی گواہی دیتا ہوں کہ اِس لمحے باپ آپ کی خبر گیری کرتا ہے اور ہر ایک کی رُوحانی اور دُنیاوی ضروریات سے باخبر ہے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ باپ اور بیٹا اُن سب پر رُوحُ القُدس بھیجتے ہیں جن کے پاس یہ نعمت ہے، جو اِس برکت کے لائق ہونے کے طلب گار ہیں۔ نہ باپ، نہ بیٹا، اور نہ ہی رُوحُ القُدس زبردستی ہماری زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔ ہم فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔ خُداوند نے ہم سب سے فرمایا ہے:

”دیکھ مَیں دروازہ پر کھڑا ہُوا کھٹکھٹاتا ہوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو مَیں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ۔

جو غالب آئے مَیں اُسے اپنے ساتھ اپنے تخت پر بٹھاؤں گا۔ جس طرح مَیں غالب آ کر اپنے باپ کے ساتھ اُس کے تخت پر بیٹھ گیا۔

” جس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کیا فرماتا ہے“ (مُکاشفہ ۳: ۲۰–۲۲)۔

مَیں پورے دِل کے ساتھ دُعا کرتا ہوں کہ تم رُوح کی آواز سُن سکو، جو تمھارے پاس کثرت سے بھیجا گیا ہے۔ اور میں دُعا کرتا ہوں کہ تم اُسے پانے کے لیے ہمیشہ دِل کھولو گے۔ اگر تم اِلہام نیک اِرادے سے اور یِسُوع مِسیح پر اِیمان کے ساتھ مانگو گے تو تم اُسے خُداوند کے طریق اور وقت کے مطابق پاؤ گے۔ خُدا نے لڑکے جوزف سمتھ کے لیے ایسا کیا۔ وہ آج ہمارے زندہ نبی، صدر رسل ایم نیلسن، کے لیے ایسا کرتا ہے۔ خُدانےتمھیں مقرر کیا ہےکہ تم اُس کی خاطر اُس کے دوسرے بچوں کی زندگی میں خدمت سرانجام دو۔ مَیں جانتا ہوں کہ نہ صرف مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بلکہ اِس سے زیادہ زور سے جو رُوح نے میرے دِل میں سرگوشی کی ہے۔

میں نے باپ اور اُس کے اَلمحبوب بیٹے کی محبت کو اِس جہان میں خُدا کی ساری اُمت کے لیے اور عالمِ اَرواح میں اُس کے بچوں کے لیے محسوس کیا ہے۔ مَیں نے رُوحُ القُدس کی اعانت اور ہدایت کو محسوس کیا ہے۔ مَیں دُعا گو ہوں کہ تم رُوح کی رفاقت سے مسرور ہوتے رہو۔ یسوع مسیح کے نام پر، آمین۔

حوالہ جات

  1. “Abide with Me; ’Tis Eventide,” Hymns, no. 165.