۲۰۱۰–۲۰۱۹
خُدا کی عطا کردہ بیش قیمت نعمتیں
اپریل ٢٠١٨


2:3

خُدا کی عطا کردہ بیش قیمت نعمتیں

بھائیو اور بہنو،زندگی اِیمان، شادمانی، اُمید، خوشی، اور محبت سے معمور ہو سکتی ہے جب ہم مِسیح پر چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کے برابر توکل کرتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو، ہم ابھی ابھی مجلسِ مقدسہ میں شامل ہُوئے، یہ ایسا عمل ہے جس کا ثبوت بائِبل میں مل سکتا ہے جب اِسرائیل خُداوند کی حضوری محسوس کرنے اور اُس کی برکات کی خوشی منانے کے لیے اکٹھے ہوتے تھے۱ ہم خوش قسمت ہیں کہ ایسے زمانے میں رہتے ہیں جس میں یہ قدیم رسم نبی جوزف سمتھ کے وسیلے سےبحال کی گئی ہے۔۲ میں آپ کو تاکید کرتا ہوں کہ اپنے ذاتی روزنامچے میں لکھیں کہ آپ نے اِس مقدس ترین تقریب کے حوالے سے کیا محسوس کیا ہے جس میں آپ شامل ہُوئے ہیں۔

حال ہی میں ہم نے اپنے عزیز دوست اور نبی، صدر تھامس ایس۔ مانسن کو الوداع کیا ہے۔ بے شک ہم سب اُنھیں یاد کرتے ہیں اور ہم خُداوند کا لاکھ لاکھ شکر کرتے ہیں کہ نئے نبی، صدر رسل ایم۔ نیلسن کو اپنی کلیسیا کی صدارت کے لیے بلایا ہے۔ ہم نے بڑے باقاعدہ طریقے سے اپنی کلیسیائی تاریخ میں نئے باب کا آغاز کا کر دیا ہے۔ خدا کی طرف سے یہ بیش قیمت نعمت ہے۔

جب ہم میں سے ہر ایک نے ہاتھ اُٹھا کر صدر نیلسن کی تائید کی، تو ہم خُدا کے حضور گواہ ٹھہرے اور قبول کیا ہے کہ وہ صدر مانسن کے بعد جائز جانشین ہیں۔ جب ہم نے اپنے ہاتھ اٹھائے تو ہم نے اُس کی آواز پر کان لگانے کا وعدہ کیا کہ جونہی وہ خُداوند سے ہدایت پاتے ہیں۔

خُداوند نے فرمایا ہے:

’’تم اُس کی ساری[یعنی کہ کلیسیا کے صدر] باتوں اور حکموں پر دھیان دو جو وہ تمھیں دے گا جیسے وہ اُنھیں پاتا ہے …،

پس تم اُس کے کلام کوپورے صبر اور اِیمان کے ساتھ یوں قبول کرو گے، جیسے کہ وہ خود میرے منہ سے نکلا ہو۔‘‘۳

میں اپنے نئے نبی و صدر کو ساٹھ سال سے جانتا ہوں۔ میں نے بارہ رسولوں کی جماعت میں ۳۳ برس اُن کے ساتھ خدمت کی ہے میں گواہ ہوں کہ خُداوند کا ہاتھ سے اُنھیں تیار کرتا رہا ہے کہ وہ ہمارے صدراتی رسول اور نبی بنیں اور زمین پر مقدس کہانت کی تمام کنجیوں کے لیے خدمت گزاری کریں۔ میری دعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک مکمل طور پر اُن کی اور اُن کے مشیروں کی تائید کریں اور اُن کی ہدایات ہر عمل کریں۔ ہم بارہ رُسولوں کی جماعت کے اَرکان بُزرگ گانگ اور بُزرگ سوارس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

یِسُوع کے جی اُٹھنے کے بعد،ہم اِس کی عید مناتے ہیں، یہ عیدِ قیامت المِسیح اِس اِتوار ہے۔ وہ اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا اور فرمایا: تم پر سلامتی ہو: جیسے میرے باپ نے مجھے بھیجا ہے ویسے ہی میں تمھیں بھیجتا ہوں‘‘۴ اس دوہرے عمل پر غور کریں—خُدا اپنے بیٹے کو بھیجتا ہے۔ بیٹا اپنے خادموں—فانی مردوں اور عورتوں—کو اپنے کام کی تکمیل کے لیے بھیجتا ہے۔

ہمیں یہ جان کر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ وہ افراد جنھیں کارِ خُداوند نبھانے کے لیے بلایا گیا ہے، وہ اِنسان ہونے کے ناطے کامل نہیں ہیں۔ وسیع و رفیع کارِ خُدا کو پُورا کرنے کے واسطے برگُزیدہ مردوں اور عورتوں کے ایسے واقعات سےبھری داستانیں صحائف میں محفوظ ہیں۔ہمارے آسمانی باپ نے اپنے نیک بیٹوں اور بیٹیوں کو جنھیں کلیسیا میں اپنے اپنے خدمت کے فرائض نبھانے کے لیے بُلایا گیا تھا، جو اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ خدمت فراہم کرنے کے لیے کوشاں تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی کامل نہ تھا۔ آج ہمارا حال ویسا ہی ہے۔

اِنسانی خامیوں اور کوتاہیوں کی حقیقت کو دیکھتے ہوئے، ہم ایک دوسرے کی تائید اور مدد کرتے ہوئے کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اس کا آغاز اِیمان سے ہوتا ہے—خُداوند یِسُوع مِسیح پر سچا اور خالص اِیمان۔ نجات دہندہ پر اِیمان، یہ مِسیح کی تعلیم اور اِنجیل کا پہلا اُصُول ہے۔

کئی برس پہلے میں ارضِ مقدس دیکھنے کے لیے گیا۔ جب ہم رائی کے پودے کے پاس سے گزرے تو بی–وائے–یو کے یروشلیم مرکز کے ڈائرکٹر نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی رائی کا بیج دیکھا ہے۔ میں نے نہ دیکھا تھا، اس لیے ہم رک گئے۔ اُس نے مجھے رائی کے بیج دکھائے۔ وہ نہایت چھوٹے تھے۔

تب مجھے یِسُوع کی بات یاد آئی: ’’کیوں کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی اِیمان ہو گا تو اِس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا؛ اور کوئی بات تمھارے لیے ناممکن نہ ہو گی۔‘‘۵

جب ہم خُدا کی اُمت کے ساتھ، بشمول، خاندان کے اَفراد، کلیسیا کے اَرکان، اور جوابھی تک کلیسیا کے رُکن نہیں ہیں، مل کر خدمت کرتے ہیں تو خُداوند ایسے کاموں میں آنے والے وہم اور مایوسی کے پہاڑوں کو ہٹانے میں ہماری مدد کرسکتا ہے اگر ہم میں رائی کے دانے برابر اِیمان ہوتا ہے۔

بھائیو اور بہنو، زندگی اِیمان، خوشی، شادمانی، اور محبت سے معمور ہو سکتی ہے۔جب ہم مِسیح پر چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کے برابر خالص اِیمان لاتے ہیں—یعنی رائی کے دانے جتنا اِیمان۔

بُزرگ جارج اے سمتھ کو وہ نصیحت یاد رہی جو نبی جوزف سمتھ نے اُن کو دی تھی: ’’اُنھوں نے مجھ سے فرمایا چاہے کیسی کیسی مُصیبتیں مجھے گھیر لیں، مجھے کبھی مایوس نہیں ہونا۔ اگر میں شمال مشرقی اَمریکہ کی نووا سکوٹیا کی گہری ترین کھائی میں دھکیل دیا جاؤں، اورمغربی اَمریکی پہاڑوں کا سلسلہ مجھ پر گرا دیا جائے، تو بھی مجھے مایوس نہیں ہونا چاہے، بلکہ توکل کی ڈوری کو تھامے رکھنااور حوصلہ بُلند رکھنا، اور بالاخر مجھے اُس پستی سے نکل کر چوٹی کی بُلندی تک آنا ہو گا‘‘۶

ہمیں پولوس کا اعلان یاد رکھنا چاہیے: ’’جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس مِسیح میں سب کچھ میں کر سکتا ہوں۔‘‘۷ یہ آگہی خُدا کی طرف سے ایک اور بیش قیمت نعمت ہے۔

اِن مُتذکرہ نعمتوں کے ساتھ ساتھ، اور بےشمار نعمتیں ہیں، بے شمار۔ چند کا تذکرہ یہاں کرتا ہوں—سبت کی نعمت، عشائے ربانی کی نعمت، دوسروں کی خدمت کی نعمت اور خُدا کی طرف سے ہمارے واسطے نجات دہندہ کی لاثانی نعمت۔

سبت کے دن کی قدرت یہ ہے کہ ہم گرجا گھر اور اپنے گھر میں کسی قسم کے اِضطراب کے بغیر شادمانی، خوشی اور خُداوند کے رُوح کے احساس کی تپش محسوس کر سکتے ہیں۔

بہت سے لوگ اپنے برقی آلات کے ساتھ آن لائن زندگی بسر کرتے ہیں—سکرین کی روشنی رات دن اُن کے چہروں کو روشن کرتی ہے اور کانوں میں لگے ہیڈ فون روح کی دھیمی اور مدھم سرگوشی کو روک دیتے ہیں۔ اگر ہم اُنھیں کانوں سے نہیں نکالیں گے تو ممکن ہے کہ ہم اُس کی آواز سننے کا موقع گنوا دیں جس نے کہا ہے، ’’خاموش ہو جاو، اور جان لو کہ میں خُدا ہوں‘‘۸ اب خُدا کی قدرت سے ٹیکنالوجی میں نئی نئی آسانیوں سے مُستفید ہونا کوئی بُری بات نہیں،مگر اُنھیں دانش مندی سے اِستعمال کرنا لازم ہے۔ سبت کے دن کی نعمت کو یاد رکھو۔

عشائے ربانی کی عبادت کے دوران میں عشائے ربانی پانے کی برکت کو روزمرہ کامعمول یا کوئی ایسا عمل جسے ہم بس دُہراتے ہیں کبھی نہ بننے دینا۔ پورے ہفتے میں صرف ۷۰ منٹ ہیں جب ہم حاضر ہو سکتے ہیں اور اپنی زندگی میں اور زیادہ تسلی، شادمانی اور خوشی پاتے ہیں۔

عشائے ربانی میں شراکت اور اپنے عہود کی تجدید ، خُداوند کے لیے ہمارا اِشارہ ہے کہ ہم ہمیشہ اُسے یاد رکھتے ہیں۔ اُس کا کفارہ خُدا کی جانب سے پُر فضل نعمت ہے۔

آسمانی باپ کی اُمت کی خدمت کا حق، ایک اور موقع ہے کہ اُس کے المحبوب بیٹے کے نمونے پر چلتے ہُوئے ایک دوسرے کی خدمت کریں۔

خدمت کے بعض مواقع باضابطہ ہوتے ہیں—ہمارے خاندان میں، ہماری کلیسیائی بلاہٹوں میں، اور سماجی خدمت کی تنظیموں میں ہماری شمولیت شرط ہے۔

کلیسیائی اَرکان، خواہ مرد خواہ خواتین اگر اُن کی خواہش ہے کہ وہ جہاں بھی ہیں حکومتی سطح پر کسی سرکاری عہدے کے لیے اِنتخابی مہم میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیں۔ آج ہمارے نقطہ نظر کی پہچان ضروری ہے اور ہمارے تعلیمی اِداروں میں، ہمارے شہروں میں اور ہمارے مُلکوں میں بہت اہم ہے۔ جہاں جمہوریت ہے، وہاں ہمارے اَرکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اعلیٰ کردار کے مالک مردوں اور عورتوں کو ووٹ دیں، جو خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

خدمت کے کئی مواقع غیر رسمی ہوتے ہیں—بے لوث—اور ہمیں یہ مواقع اُس وقت ملتے ہیں جب ہم زندگی کے سفر میں دوسروں سے مل کر، اُن تک رسائی پاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ یِسُوع نے نیک سامری کی مثال دیتے ہوئے شرع کے عالم کو سکھایا تھا کہ ہمیں خُدا اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھنی چاہیے۔٩

خدمت سے وہ دریچہ کُھلتا ہے جس سے ہم مِسیح کی زندگی اور خدمت گزاری کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ خدمت کرنے کے لیے آیا، جیسا کہ صحائف سکھاتے ہیں، ’’چناں چہ ابنِ آدم اِس لیے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لیے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔‘‘١٠

زمین پر نجات دہندہ کی خدمت گُزاری کا بہترین حوالہ پطرس نے اِن پانچ الفاظ میں دیا جب اُس نے یِسُوع کے بارے میں کہا ’’وہ بھلائی کرتا پھرا‘‘ ١١

خُداوند یِسُوع مِسیح خُدا کی عطا کردہ نعمتوں میں سے سب سے زیادہ محبوب نعمت ہے۔ یِسُوع نے فرمایا، ’’راہ،حق اور زندگی میں ہوں، کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔‘‘١٢

نیفی نے ہمارے نجات دہندہ کی اہمیت یوں بیان کی ’’ہم مِسیح کی بات کرتے ہیں، ہم مِسیح میں شادمان ہوتے ہیں، ہم مِسیح کی منادی کرتے ہیں، ہم مِسیح کی نبوت کرتے ہیں، اور اپنی نبوتوں کے مطابق قلم بند کرتے ہیں تاکہ ہمارے بچے جان لیں کہ اپنے گناہوں کی معافی کے لیے کس سرچشمہ کے پاس جانا ہے۔١٣ ہمیں ضرور ہر وقت اور ہر جگہ مِسیح کو اپنی زندگی کا مرکز بنا کر رکھنا ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اُس کا نام ہماری عبادت گاہوں پر ظاہر ہوتا ہے؛ ہم اُس کے نام پربپتسمہ پاتے ہیں؛اور ہم اِستحکام ، تقرر، ودیعت اور نکاح کی مہر بندی اُس کے نام سے پاتے ہیں۔ ہم عشائے ربانی پاتے ہیں اور اُس کا نام خود پر لینے کا وعدہ کرتے ہیں—اور سچے مِسیحی بنتے ہیں۔ آخر میں عشائے ربانی کی دُعا میں ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم ’’ہمیشہ اُسے یاد رکھیں‘‘١٤

جب ہم ایسٹر کے اِتوار کے لیے جو کل ہے تیاری کرتے ہیں تو آئیں ہم یاد رکھیں کہ مِسیح بلند و برتر ہے۔ وہ راست منصف ہے، ہمارا وفادار ثالث، مبارک مخلصی دینے والا، اچھا چرواہا، موعودِ ممسوح، سچا دوست، اور اس سے بھی بڑھ کر سب کچھ۔ وہ واقعی ہمارے باپ کی ہمارے واسطے محبوب ترین نعمت ہے۔

ہماری شاگردیت میں ہمارے بہت سارے تقاضے، خدشات، اور فرائض ہیں۔ تاہم بعض سرگرمیاں ہماری کلیسیائی رکنیت کا ہمیشہ لازم مرکز ہوں۔ خُداوند حکم دیتا ہے ’’پس، اِیمان دار بن؛ اُس عہدے پر قائم رہ جس میں میں نے تجھے مقرر کیا ہے؛ کمزوروں کی دست گیری کر، اور اُن ہاتھوں کو اُٹھا جو نیچے لٹکے ہوئےہیں، اور ناتواں گھٹنوں کو توانا کر۔‘‘١٥

یہ کلیسیا مصروفِ عمل ہے خالص دین داری یہی ہے! اِنجیل کی اصل اساس یہی ہے کہ ہم مدد کریں، اُٹھائیں، اور روحانی اور دُنیاوی حاجت مندوں کو تقویت دیں! ایسا کرنے کے لیے ہمیں اُن کے پاس جانا اور اُن کی مدد کرنا ہے، ١٦، تاکہ آسمانی باپ اور یِسُوع مِسیح اور اُس کے کفارہ کے بارے میں اُن کی گواہیاں اُن کے دلوں میں مضبوط ہوں۔

میری دعا ہے کہ خُداوند ہمیں برکت دے اور مدد کرے کہ ہم خُدا کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر کریں، بشمول اُس کی بحال شدہ کلیسیا میں اپنی رکنیت کے لیے۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ ہم خُدا کے تمام بچوں کے لیے پیار سے معمور ہوں، اور اُن کی ضرورتوں کو پہچانیں، اور اِنجیل کے بارے میں اُن کے سوالات اور خدشات کا نرم اور واضح انداز میں جواب دیں اِس سے ایک دوسرے کو سمجھنے اور قدر شناسی میں اضافہ ہو گا۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ یِسُوع مِسیح ہمارا نجات دہندہ ہے۔ جو ہمیں اس مجلسِ عامہ میں سکھایا جائے گا، وہ، ہم تک رسولوں اور نبیوں، کلیسیا کے اعلیٰ عہدے داروں اور کلیسیا کی عمومی رہنما بہنوں کے وسیلے سے اِلہامی ہے۔ میری عاجزانہ دُعا ہے کہ خُدا کی شادمانی اور سلامتی آپ میں سے ہر ایک کے ساتھ ہو، یسوع مسیح کے نام سے آمین۔