اِلہامی خدمت
مجھے ایسا لگتا ہے کہ جب ہم دوسروں کی خدمت پر توجہ دیتے ہیں توخُدا کا رُوح ہم پر کثرت سے نازل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس کہانتی ذمہ داری ہے تاکہ نجات دہندہ کے واسطے خدمت کریں۔
پیارے بھائیو، اِس تاریخی مجلسِ عامہ میں آپ سے کلام کرنے کے موقع کے لیے میں مشکور ہوں۔ ہم نے صدررسل ایم نیلسن کی کلیسیائے یِسُوع مِسیح برائے مقدسینِ آخری ایام کے ستراویں صدر کی حیثیت سے تائید کر چکے ہیں۔ مجھے اُن کے ساتھ ہر روز کام کرنے کا شرف حاصل ہُوا،اِس دوران میں رُوح نے مجھے استحکام بخشا ہے کہ خُداوند کی کلیسیا کی راہ نمائی کے لیے صدر نیلسن کو بلاہٹ خُدا نےعطا کی ہے۔
میں اِس بات کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ برزگ گیرٹ گانگ اور بزرگ اُلیسیس سوارس بارہ رسولوں کی جماعت کے ارکان کی حیثیت سے بلائے گئے ہیں۔ میں اُن کی تائید کرتا ہوں اورپیاربھی۔ وہ اپنی خدمت کے ذریعے سے دُنیا بھر میں زندگیوں کو با برکت بنائیں گے۔
یہ اجلاس ایک اور لحاظ سے بھی تاریخی ہے۔ صدر نیلسن نے خُداوند کے منظم منصوبے کے تحت کلیسیا کے لیے آگے کی جانب الہامی قدم کا اعلان کیا ہے۔ اِس منصوبے میں شاخوں اور میخوں میں کہانتی جماعتوں کا نیا ڈھانچا شامل ہے تاکہ ہم اپنی کہانتی ذمہ داریوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے نبھا سکیں۔ اُن ذمہ داریوں کا تعلق اپنے آسمانی باپ کی اُمت کی کہانتی نگہبانی سے ہے۔
گزشتہ برسوں سےمقدسین کو محبت بھری نگہبانی مہیا کرنے کے لیےخُداوند کی حکمت عملی کئی صورتوں میں سامنے آئی ہے۔ ناوُہ کے اِبتدائی دِنوں میں، مفلس و نادار نئے نئے اِیمان داروں کا سیلاب شہر میں آرہا تھا اور اُن کی دیکھ بھال کے لیے نبی جوزف سمتھ کو کسی منظم طریقہ کار احساس ہُوا۔ اُن ناداروں میں میرےخاندان کے چار اَبائے بزرگ—آئرنگز، بنئنز، رومنیز، اور سمتھس شامل تھے۔ نبی نے جغرافیائی لحاظ سے منظم کرکے اُن کی دیکھ بھال کی۔ ایلانوئے میں شہر کی اُن حلقہ بندیوں کو ”حلقے کہا گیا۔“
مقدسین کی ہجرت کےدوران میں، ہر ایک کی نگہبانی کے لیے ”قافلے“ منظم کیےگئے تھے۔ میرے اَباواجداد میں سے ایک (دھدیال کی طرف سے) اپنے تبلیغی سفر ، اوکلاہوما، سے واپس آ رہے تھے تو راستے میں قافلے میں شامل ہُوئے۔ وہ بیماری کے سبب اِتنا کمزور ہوگئے تھے کہ ایک چھوٹی سی بیل گاڑی پر لیٹ گئے۔
قافلے کے راہ نما نے دو لڑکیوں کو بھیجا کہ جو کوئی بھی اُس گاڑی ہے جا کر اُس کی مددکریں۔ اُن میں سے ایک لڑکی جو سوئٹزرلینڈ سے اِیمان قبول کرکے آئی تھی، اُس نےجب اِس مبلغ کی حالت دیکھی تو بہت ترس آیا۔ مقدسین کی اِس ایک لڑکی کی نگہبانی سےوہ بچ گیا۔ وہ اس حد تک بھلا چنگا ہوگیاکہ اپنے محسن کے سہارے چلتے چلتے وادیِ سالٹ لیک تک پیدل پہنچ گیا۔ اِسی دوران میں اُنھیں محبت ہُوئی اور پھر شادی۔ یہ صاحب میرے پردادا ہنری آئرنگ بنے، اورماریہ بومیلی آئرنگ میری پردادی۔
برسوں بعد، جب لوگ تبصرہ کرتے کہ اِس برآعظم کو پار کرنا کتنا کٹھن تھا، وہ کہتی، ”نہ، بالکل دُشوار نہ تھا۔ بلکہ پیدل چلتے ہُوئے سارا راستا ہم اِس پر بات کرتے رہے کہ واہ یہ کیسا معجزا رُونما ہُوا کہ ہم دونوں نےیِسُوع مِسیح کی برحق اِنجیل کو گلے لگایا ہے۔ یہ میری زندگی کا حسین ترین لمحہ تھا جو مجھے آج بھی یاد آتا ہے۔“
تب سے، کئی طریقوں کو بُروئے کار لاتے ہُوئے خُداوند نے اپنے مقدسین کو ایک دوسرے کی نگہبانی کرناسیکھایا ہے۔ اب اُس نے ہمیں میخوں اور شاخوں کی سطح پر متحد اور مضبوط جماعتیں فراہم کی ہیں—جماعت شاخ کی تنظیموں کے باہمی تعاون سےخدمت کرتے ہیں۔
خُداوند کےمقدسین کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی اِس طرح نگہبانی کریں جیسے وہ اُن کی نگہبانی کرتا ہے، لہٰذا، علاقائی حلقہ بندیوں، قافلوں ، اور مضبوط جماعتوں یعنی سب کو خُداوند کے اِس اِرادے میں کامیاب ہونے کے لیے کم از کم دو باتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ اُس وقت کامیاب ہوتے ہیں جب مقدسین ذاتی مفاد سے بالا ہو کر مِسیح کے پیار کو ایک دوسرے کے لیے محسوس کرتے ہیں۔ صحائف اِس کو ”محبت … مِسیح کا سچا عشق“ کہتے ہیں (مرونی ۷: ۴۷)۔ اور وہ سُرخ رُو ہوتے ہیں جب رُوحُ القُدس نگہبان کو یہ جاننے کی معرفت عطا کرتا ہےکہ اُس شخص کے لیے خُداوند کی نظر میں کیا بہتر ہے جس کی وہ مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں بار بار، میری موجودگی میں کلیسیا کے ارکان نےایسے کام کیا ہےجیسے وہ جان گئے تھے کہ خُداوند کیا کرنے جا رہا تھا۔ میں آپ کے سامنے دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ اَول، ہارونی کہانت میں معلم کے عہدے فائز پر ۱۴ برس کی عمر کے ایک لڑکے کا عشائے ربانی کی عبادت میں سادہ سا پیغام جو سمجھتا ہے کہ کہانتی حاملین خُداوند کے واسطے اپنی اپنی خدمت میں کیا کیا حاصل کر سکتے ہیں۔ دوم، ملکِ صدق کہانت کا حامل جو مِسیح کے عشق سے سرشار کسی خاندان کی مدد کرنے کے حوالے سے اِلہام پاتا ہے۔
پہلی مثال،میں عشائے ربانی میں لڑکے کے پیغام کے الفاظ بیان کرتا ہُوں۔ میں فکر مند تھا۔ اپنے آپ کو ۱۴ برس کی عمر میں لے جائیں اور پھر سُنیں اور اَندازہ لگائیں کہ اِتنا چھوٹا لڑکا اور اِتنا زیادہ علم۔
”پچھلے برس میں ۱۴ سال کا ہُوا ،تب سے اپنی حلقے میں معلموں کی جماعت کا رکن ہُوں اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ کیوں کہ معلم کے پاس کچھ نئی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ ساری ذمہ داریاں ہیں جو ڈیکن کے پاس ہوتی ہیں ۔
”ہم میں سے بعض معلم ہیں، اور باقی کچھ عرصہ کے بعد بن جائیں گے، اور کلیسیا میں ہر ایک کو کہانت عطا ہُوئی ہے، چناں چہ ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ ہم معلم کی ذمہ داریوں کے بارے میں جانیں۔
”سب سے پہلے، عقائد اور عہود۲۰: ۵۳ کہتا ہے۔’معلم کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ کلیسیا کی نگہبانی کرے، اور اُس کے ساتھ رہے اور مضبوطی فراہم کرے۔‘
”آگے چل کر،عقائد اور عہود ۲۰: ۵۴–۵۵ کہتے ہیں:
”’ اور دیکھ کہ کلیسیا میں کوئی بُرائی نہ ہو، ایک دوسرے کے ساتھ نہ کوئی کٹھورپن، نہ کوئی جھوٹ، عیب جوئی، نہ ہی بدگوئی؛
”’اور دیکھ کہ کلیسیا اکثر باہم جمع ہو، اور یہ بھی دیکھو کہ سارے ارکان اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔‘“
چھوٹا لڑکا اپنا پیغام جاری رکھتا ہے:
”خُداوند ہمیں سمجھا رہا ہے کہ ہماری ذمہ داری صرف کلیسیا کی نگہبانی نہیں بلکہ کلیسیا کے اندر لوگوں کی بھی نگہبانی اُس اَنداز سے کرنی ہے جیسے خُداوند چاہتا ہے کیوں یہ اُس کی کلیسیا ہے۔ اگر ہم اُس کے حکموں پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ نرمی برتیں، اچھے دوست بنیں، اور باہم مل بیٹھنے سے لطف اَندوز ہوں، تب ہم رُوح کی رفاقت کے قابل ہوں گے اور جانیں گے کہ آسمانی باپ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اگر ہم یہ نہیں کرتے تو پھر ہم اپنی بُلاہٹ کو پُورا نہیں کر سکتے۔“
چھوٹے لڑکے نے کہا:
”جب کوئی معلم مؤثر خاندانی اُستاد بن کر اچھی مثال قائم کرتا ہے، اَرکان کو کلیسیا میں خوش آمدید کہتا ہے، عشائے ربانی تیار کرتا ہے، گھر میں ہاتھ بٹاتا ہے، اور صلح کرانے والا ہے، تو ایسا کرنے سے وہ اپنی بُلاہٹ کو پورا کرتا اور اپنی کہانت کو توقیر بخشتا ہے۔
”اچھا معلم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف اُس وقت ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں جب کلیسیائی سرگرمیوں میں یا گرجا گھر میں ہیں۔ پولوس رُسول نے سکھایا،’تُو اِیمان داروں کے لیے کلام کرنے اور چال چلن اور محبت اوراِیمان اور پاکیزگی میں نمونہ بن‘ (۱تِیمُتھِیُس ۴: ۱۲)۔“
پھر چھوٹے لڑکے نے کہا:
”اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کہاں ہیں یا ہم کیا کر رہے ہیں، ہم ہر وقت اور ہر جگہ راست بازی کی اعلیٰ مثال بن سکتے ہیں۔
میرے اَبو اور میں براَؤن خاندان کے معلم ہیں۔۱ ہر بار اُن کے ہاں جاتے ہیں، میرا وقت اُن کے بارے میں جانتے ہوئے بہت اچھا گزرتا ہے۔ مجھے براَؤن خاندان کی ایک بات بہت پسند ہے کہ جب بھی ہم اُن کے گھر جاتے ہیں، وہ سب سننے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور ہمیشہ اچھی اچھی کہانیاں بھی سُناتے ہیں۔
”جب ہم ہوم ٹیچنگ کے نتیجے میں کلیسیا کے لوگوں کے اور قریب ہو تے ہیں تو معلم کو اپنا اگلا فرض جو کہ اَرکان کو کلیسیا میں خوش آمدید کہنا ہوتا ہے،نبھانے میں آسانی ہوتی ہے۔ لوگوں کو یہ احساس دلانا کہ اُن کا آنا اور کلیسیا میں شامل ہونا خوش آئند ہے جس سے حلقے کے سب ارکان ایک د وسرے کے لیے اُلفت محسوس کرتے ہیں اور عشائے ربانی میں شرکت کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
”گھرجا گھر آنے والے اَرکان کو خوش آمدید کہنے کے بعد معلم ہر اِتوار عشائے ربانی کی تیاری میں مدد کرتے ہیں۔ مجھے عشائے ربانی تیار کرنے اور بانٹنے سے بڑی راحت ملتی ہے، کیوں کہ ہر کوئی عزت سے پیش آتا ہے۔ میں رُوح کو محسوس کرسکتا ہوں جب عشائے ربانی پر برکت دی جاتی ہے اور لوگوں میں بانٹی جاتی ہے۔ ہر اِتوار اِس فرض کو نبھانا میرے لیے خاص رحمت ہے۔
”جب ہم عشائے ربانی بانٹتے ہیں تو بعض لوگ ہمارا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن عشائے ربانی کی تیاری پر کسی کی نظر نہیں پڑتی اِس لیے لوگ شکریہ نہیں کہتے۔ یہ اہم نہیں کہ لوگ ہمیں خدمت کرتے دیکھیں؛ اہم بات یہ کہ خُداوند جانتا ہے کہ ہم نے اُس کی خدمت کی ہے۔
معلم کی حیثیت سے اپنی کہانتی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہُوئے، ہمیں ہمیشہ کلیسیا کو ، اپنے دوستوں کو، اور اپنے خاندان کو مضبوط کرنا ہے۔ یہ ہر وقت آسان نہیں ہوتا، مگر خُدا ہمیں حکم نہیں دیتا جب تک وہ ہمارے لیے راہ تیار نہ کر لے جس کام کو کرنے کا وہ حکم دیتا ہے’ ( ۱ نیفی ۳: ۷)۔“
میں اُس کی ذہانت اور بالغ نظری پر سارا وقت حیران ہو تا رہا ، جب اُس چھوٹے نے نتیجہ نکالا۔ اُس نے یہ کہتے ہُوئے خلاصہ بیان کیا، ”میں جانتا ہوں ہم بہتر ہو جائیں گے اگر ہم [یِسُوع مِسیح ]کے پیچھے چلنے کا فیصلہ کریں۔“
پچھلے مہینے کسی حلقے کی عشائے ربانی کی عبادت کے دوران میں کہانتی خدمت کا ایک اور واقعہ سننے کو ملا۔ دوبارہ، میں وہاں موجود تھا۔ اِس تجربہ کار کہانتی حامل کو اندازہ نہ تھا کہ جو وہ بیان کر رہا تھا خُداوند چاہتا ہے کہ مضبوط کہانتی جماعتوں میں بالکل ایسا ہی رُونما ہو۔ اُس کے پیغام کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
خاندانی تدریس کا معاون اور وہ ، سات خاندانوں کی خدمت پر مامور کیے گئے۔ تقریباً ساتوں کے ساتوں خاندان درس میں دلچسپی نہ لیتے تھے۔ جب خاندانی معلم اُن کے گھر جاتے، اُنھیں دروازہ بند ملتا۔ جب وہ ٹیلی فون کرتے، اُنھیں جواب نہ ملتا۔ جب وہ پیغام بھیجتے، اُنھیں جواب نہ آتا۔ پھرسینئر معاون نے خط لکھنے کی پُرانی روایت کو زندہ کردیا۔ وہ شوخ پیلے لفافوں میں چٹھیاں اِس اُمید کے ساتھ ارسال کرتا کہ شاید جواب جلدی آ جائے۔
اُن سات خاندانوں میں شامل ایک خاتون تھی جو یورپ سے ہجرت کی تھی۔ اُس کے اپنے دو چھوٹے بچے تھے۔
اُس خاتون سے رابطے کی کئی کوششوں کے بعد، خاندانی معلم کو ٹیکسٹ ملا۔ اُس نے جلد بازی میں اطلاع دی کہ وہ اپنی اِنتہائی مصروفیت کی وجہ سے خاندانی معلمین سے نہیں مل سکتی۔ وہ دو نوکریاں کرتی تھی اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ فوج میں بھی تھی۔ اُس کی بُنیادی ملازمت پولیس افسر کی تھی، اور اُس کی خواہش تھی کہ وہ جاسوس بنے اور پھر اپنے آبائی وطن واپس جائے اور وہاں اپنی ملازمت جاری رکھے۔
خاندانی معلم کو یہ نصیب نہ ہُو ا کہ اُس کے گھر کا دَورہ کر پاتا۔ وہ وقتاً فوقتاً اُس کو ٹیکسٹ کرتا رہتا۔ ہر مہینے اُس کو خط ارسال کرتا، اور ہر خوشی کے موقع پر علیحدہ علیحدہ بچوں کو کارڈز بھیجتا۔
اُسے کوئی جواب موصول نہ ہوتا۔ لیکن خاتون جانتی تھی کہ اُس کے خاندانی معلمین کون ہیں، اُن سے کیسے رابطہ کرنا ہے، اور وہ اپنی کہانتی خدمت فراہم کرنے کے لیے اصرار کرتے رہیں گے۔
پھر ایک دن خاتون کی طرف سے معلم کو ہنگامی ٹیکسٹ ملتا ہے۔ اُس کو مدد کی اشد ضرورت تھی۔ خاتون کو اپنے بشپ کا علم نہ تھا لیکن وہ اپنے خاندانی معلمین کو بنا دیکھے جانتی تھی۔
چند دِنوں میں ، اُسے ایک ماہ کی ملٹری ٹرینگ کے لیے دوسری ریاست جانا تھا۔ وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر نہیں جا سکتی تھی۔ اُس کی ماں جو بچوں کی نگہبانی کے لیے آنے والی تھی، اُس کو فوراً اپنے شوہر کی تیمار داری کے لیے یورپ جانا پڑا کیوں کہ وہ اِنتہائی طبی امداد کا طلب گار تھا۔
اُس نیم سرگرم بہن کے پاس اتنے پیسے تھے کہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے لیے یورپ جانے کی ٹکٹ خرید سکتی لیکن اپنے بڑے بیٹے ، ایرک، کے لیے نہیں جس کی عمر ۱۲ برس تھی۔۲ اُس نے اپنے خاندانی معلم سے التجا کی کہ وہ کوئی اچھا سا ایل ڈی ایس خاندان تلاش کرے جو ایک مہینے تک اُس کے بیٹے کو اپنے گھر میں پناہ دینے کے لیے تیار ہوں!
خاندانی معلم نے تسلی دیتے ہُوئے کہا کہ وہ پوری کوشش کرے گا۔ پھر اُس نے اپنے کہانتی راہ نما سے رابطہ کیا۔ بشپ نے اُس کو اِجازت دی کہ وہ حلقے کی مشاورتی مجلس کے ارکان سے بات کرے، بشمول اَنجُمنِ خواتین کے صدر۔
اَنجُمنِ خواتین کی صدر نےفوراً چار بہترین خاندانوں کو ڈھونڈ لیا، جن کے بچے ایرک کے ہم عمر تھے، جو اُسے بار باری ایک ایک ہفتہ اپنے گھر رکھیں گے۔ اگلے سارے مہینے، اِن خاندانوں نے اُسے کھانا کھلایا، اپنے چھوٹے یا گُنجان گھروں میں جگہ دی، وہ اُس کو پہلے سے طے شدہ گرمیوں کی سیر کے لیے اپنے ساتھ لے جاتے، اُس کو گرجا گھر لے کر جاتے، اُس کو اپنی خاندانی شام کی تقریب میں شامل کرتے وغیرہ وغیرہ۔
وہ خاندان جن میں ایرک کی عمر کے لڑکے تھے، اور وہ ایرک کو اپنے ڈیکن کی جماعت کے اجلاس میں اور سرگرمیوں میں شامل کرتے تھے۔ تیس دِن کے دورانیہ میں پہلی بار ایرک ہر اِتوار چرچ گیا تھا۔
امی کی فوجی تربیت سے واپسی کے بعد بھی، ایرک ، ایل ڈی ایس خاندانوں کے ساتھ چرچ جاتا رہا، اور اِن میں اُس کی امی کی وزٹنگ معلمائیں بھی شامل تھیں۔ تھوڑے ہی عرصہ میں، وہ ڈیکن مقرر ہو گیا باقاعدگی سے عشائے ربانی دینا شروع دینا کردی۔
اب، ایرک کے مستقبل میں جھانک کر دیکھیں۔ ہمیں تعجب نہ ہوگا اگر وہ اپنے خاندان کے ساتھ اپنے اَبائی وطن واپس جا کر کلیسیا میں راہ نما بن کر اُبھرتا ہے—یہ سب اُن مقدسین کے وجہ سے ہُوا جنھوں نے مُتحد ہو کر، اُسقف کی زیرِ ہدایت، دِلی ہمدردی اور رُوحُ القُدس کے زیرِ اَثر خدمت سرانجام دی تھی۔
ہم جانتے ہیں کہ خُدا کی بادشاہت میں نجات کی أساس محبت ہے۔ مرونی فرماتے ہیں، ”سوائے اِس کے کہ تجھ میں محبت ہے تُو خُدا کی بادشاہی میں ہرگز بچایا نہ جائے گا“ (مرونی۱۰: ۲۱؛ مزید دیکھیے عیتر ۱۲: ۳۴)۔
ہم بھی جانتے ہیں کہ اپنی ساری چارہ جوئی کے بعد ہم پر نعمت کی عطا محبت ہے۔ ہم”آسمانی باپ سے اپنے دل کی ساری طاقت کے ساتھ دُعا کریں، کہ ہم کو اِس محبت سے سرشار کر دے، جو اُس نے اپنے بیٹے، یِسُوع مِسیح کے سچے شاگردوں کو عطا کی ہُوئی ہے“ (مرونی ۷: ۴۸)۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ جب ہم دوسروں کی خدمت پر توجہ دیتے ہیں توخُدا کا رُوح ہم پر کثرت سے نازل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس کہانتی ذمہ داری ہے تاکہ نجات دہندہ کے واسطے خدمت کریں۔ جب ہم دوسروں کی خدمت میں مشغول ہیں، ہم اپنی خود نمائی کا نہیں سوچتے، اور رُوحُ القُدس خوشی خوشی ہمارے پاس آ سکتا ہے اور محبت کی عطا کو بخشیش میں پانے کی خاطر کی جانے والی زندگی بھر کی طویل جدوجہدمیں ہماری راہ نمائی کر سکتا ہے۔
میں اِس بات کا شاہد ہوں کہ کہانتی خدمت میں ہمیں زیادہ سے زیادہ شفیق اور مؤثر بنانے کے لیے خُداوند نے ہمارے لیے اپنے منصوبے میں ایک بہت بڑا قدم پہلے سے ہی اُٹھا لیا ہُوا ہے۔ میں اُس کی محبت کا شکر گزار ہوں، جو وہ ہم پر کثرت سے نچھاور کرتا ہے۔ میں یِسُوع مِسیح کے نام پر گواہی دیتا ہوں، آمین۔