۲۰۱۰–۲۰۱۹
روح القدس کو اپنا راہنما بنائیں
اپریل ٢٠١٨


2:3

روح القدس کو اپنا راہنما بنائیں

ایسا شاندار تحفہ اُن لوگوں کو ملتا ہے جو اپنا ایمان یسوع مسیح پر رکھتے ہیں۔ وہ تحفہ روح القدس ہے۔

ایسٹر کی اس صبح، ہماری سوچ خُداوند یسوع مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے اور اُس خالی قبر کی طرف مائل ہو جاتی ہے جو ہر ایمان رکھنے والے کو یقینی شکست پر مسیح کی فتح کی وجہ سے امید دلاتی ہے۔ میں پولوس رسول کی طرح، یقین رکھتا ہوں، کہ جیسے خُدا نے ”مسیح کو مُردوں میں سے جِلایا [ویسے ہی] [وہ][ہمارے] فانی بَدَنوں کو بھی اپنے اُس رُوح کے وسِیلہ سے جلائے گا جو تُم میں بسا ہُؤا ہے۔“ ۱

جلانے کامطلب زندگی بخشنا ہے۔ جس طرح مسیح اپنے جی اٹھنے کی قدرت سے ہمیں جسمانی موت کے بعد پھر سے ہمارے بدنوں کو زندگی بخشتا ہے، ویسے ہی وہ ہمیں روحانی موت سے بھی جلائے، یا زندگی بخشے گا۔۲ موسیٰ کی کتاب میں، ہم پڑھتے ہیں کہ آدم بھی ایسے ہی جِلایا گیا: [آدم] کا بپتسمہ ہوا، اور خُدا کا روح اُس پر نازل ہوا، اور یوں وہ روح سے پیدا ہوا اور اُس کے اندر کے انسان کوجِلایا گیا۔“ ۳

ایسا شاندار تحفہ اُن لوگوں کو ملتا ہے جو اپنا ایمان یسوع مسیح پر رکھتے ہیں۔ روح القدس ہمیں یہی تحفہ دیتا ہے جسے نئے عہد نامہ میں ”مسیح میں زندگی“ کا نام دیا گیا ہے۔۴ لیکن کیا ہم کبھی کبھار ایسے تحفے کی قدر نہیں کرتے ہیں؟

بھائیو اور بہنو، ” روح القدس کا [ہمارا] راہنما ہونا …بہت ہی بڑے اعزاز کی بات ہے“۔٥جیسا کہ مندرجہ ذیل کہانی سے ظاہر ہوتا ہے۔

انزائن  فرینک بلیئر

کورین جنگ کے دوران، انزائن فرینک بلیئر کو جاپان میں فوجیوں کو لانے لے جانے والے جہاز پر تعینات کیا گیا تھا۔٦ یہ بحری جہاز اتنا بڑا نہیں تھا کہ اُس پر باضابطہ طور پر فوجی پادری تعینات کیا جاتا، سو بھائی بلیئر سے جہاز کے کیپٹن نے کہا کہ وہ غیر رسمی طور پر جہاز پر پادری کی خدمات سرانجام دے، کیونکہ اُس نے دیکھا کہ یہ نوجوان باایمان اور بااصول مرد تھا، جسکی عزت تمام عملہ کرتا تھا۔

انزائن بلیئر

انزائن بلیئر نے لکھا: ”ہمارے جہاز کو بہت بڑے سمندری طوفان نے لپیٹ لیا۔ لہریں تقریبا ۴۵ فٹ [۱۴ میٹر] اونچی تھیں۔ مجھے نگرانی پر لگایا گیا تھا … جس دوران جہاز کے تین انجنوں میں سے ایک نے کام کرنا بند کر دیا اور جہاز کے مرکز میں ایک شگاف کی اطلاع ملی۔ دو انجن بچے تھے، جس میں سے ایک صرف نصف توانائی پر کام کر رہا تھا۔ ہم بڑی شدید مشکل میں تھے۔“

انزائن بلیئر اپنی شفٹ ختم کر کے سونے لگا تھا جب کیپٹن نے آ کر اُس کا دروازہ کھٹکٹھایا۔ اُس نے کہا ”کیا تم برائے مہربانی اس جہاز کے لیے دعا کر سکتے ہو؟“ کیون نہیں،انزائن بلیئر نے آمادگی کا اظہار کیا۔

اُس وقت، انزائن بلیئر سادہ سی دعا کر کے کہ ”آسمانی باپ ہمارے جہاز پر برکت ڈال اور ہمیں محفوظ رکھ،“ سونے جا سکتا تھا۔ اس کے بجائے، اس نے یہ جاننے کے لیے دعا کی کہ اُس موقعے پر جہاز کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے وہ کیا کر سکتا ہے۔ بھائی بلیئر کی دعا کے جواب میں، روح القدس نے اںہیں تحریک بخشی کہ وہ پل پر جا کر، کیپٹن سے بات کرے، اور مزید معلومات حاصل کرے۔ اُسے پتہ چلا کہ کپتان یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ جہاز کے باقی انجنوں کو کتنا تیز چلانا چاہیے۔ انزائن بلیئر اپنے کمرے میں واپس گیا اور پھر سے دعا کی۔

اس نے دعا کہ ”انجنوں کے ساتھ مسئلے کے حل کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں؟“

جواب میں روح القدس نے سرگوشی کی کہ اُسے جہاز میں اِدھر اُدھرٹھہلنا، دیکھنا اور مزید معلومات اکٹھی کرنی ہیں۔ وہ پھر سے واپس کپتان کے پاس گیا اور اُس سے تختہ جہاز پر جانے کی اجازت مانگی۔ پھر، اپنی کمر سے بچاو رسی باندھ کر، وہ باہر طوفان میں چلا گیا۔

جہاز کے عقبی جانب کھڑے ہو کر، اُس نے جہازدھکیلنے والے بڑے پنکھوں کو جب وہ لہروں سے باہر آتے تھے دیکھا۔ اُن میں سے صرف ایک ہی مکمل طور پر کام کر رہا تھا، اور تیزی سے گھوم رہا تھا۔ یہ دیکھنے کے بعد، انزائن بلیئر نے ایک بار پھر دعا کی۔ اُسے واضح جواب ملا کہ کام کرنے والا اکیلا انجن بہت ہی زور لگا رہا ہے اور اُسے آہستہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سو وہ یہ تجویز لے کر کپتان کے پاس لوٹا۔ کپتان بہت حیران ہوا، کیونکہ جہاز کے انجینئر نے اُس کے بالکل برعکس بات کی تھی—کہ وہ اچھے انجن کی رفتار تیز کریں تاکہ طوفان سے باہر نکلا جا سکے۔ اس کے باوجود، کپتان نے انزائن بلیئر کی تجویز ماننے کا فیصلہ کیا اور انجن کو دھیما کر دیا۔ طلوعِ سورج تک جہاز پُر سکون پاینوں میں محفوظ پہنچ گیا۔

صرف دو گھنٹے بعد، اچھا کام کرنے والے انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ بچے ہوئے انجن کی آدھی قوت سے، جہاز لڑکھڑاتا ہوا بندرگاہ تک پہنچا۔

کپتان نے انزائن بلیئر سے کہا، ”اگر ہم اُسی وقت انجن کو آہستہ نہ کرتے تو طوفان کے عین درمیان ہی اُس نے کام کرنا چھوڑ دینا تھا۔“

اُس انجن کے بغیر، جہاز کو صحیح سمت میں چلانے کا کوئی طریقہ باقی نہیں بچنا تھا۔ جہاز نے الُٹ اور ڈوب جانا تھا۔ کپتان نے اس نوجوان ایل ڈی ایس افسر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اُسے یقین تھا کہ انزائن بلیئر کے روحانی تاثرات نے جہاز اور اُس کے عملے کی جانیں بچائی ہیں۔

اب، یہ کہانی تو انتہائی ڈرامائی ہے۔ اور گو کہ بہت کم ممکن ہو کہ ہم ایسے ہیبت ناک حالات کا سامنا کریں، لیکن میں یہ تجویز کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کہانی بتاتی ہے کہ ہم روح کی اور زیادہ راہنمائی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔

اول، جب مکاشفہ کی بات ہو، تو ہمیں بڑے مناسب طریقے سے اپنے ریسیور کو آسمانیفریکیونسی پر لگانے کی ضرورت ہے۔ انزائن بلیئر پاک اور وفادار زندگی گزار رہا تھا۔ اگر وہ فرمانبردار نہ ہوتا، تو اُس میں وہ روحانی اعتماد نہ ہوتا جو اُس طرح کی دعا کرنے کے لیے ضروری تھا، جو اُس نے اپنے جہاز کی حفاظت کے لیے کی اور ایسی مخصوص رہنمائی پائی۔ ہم سب کو اپنی زندگیاں خُدا کے احکام کے مطابق گزارنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اُس کی رہنمائی پا سکیں۔

بعض اوقات ہم آسمانی سگنل اس لیے نہیں سن سکتے کیونکہ ہم اہل نہیں ہوتے ہیں۔ توبہ اور فرمانبرداری وہ راستہ ہے جن سے واضح ابلاغ پھر سے پایا جا سکتا ہے۔ پرانے عہد نامہ میں توبہ کا مطلب ’پھرنا‘ یا ”واپس مڑنا“ ہے۔۷ جب آپ خُدا سے دوری محسوس کرتے ہیں، تو آپ اپنے گناہوں سے پھرنے اور نجات دہندہ کی جانب مڑنے کا فیصلہ کریں، جہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنی باہیں کھولے آپ کا منتظر ہے۔ وہ آپ کی راہنمائی کرنے کا مشتاق ہے، اور آپ وہ راہنمائی پانے کے لیے صرف ایک دعا کے فاصلے پر ہیں۔٨

دوسرا، انزائن بلیئر نے خُدا سے اپنا مسئلہ حل کرنے کی دعا نہیں کی۔ اُس نے دعا کی کہ وہ اس مسئلے کے حل میں اپنا حصہ کیسے ڈال سکتا ہے۔ اسی طرح ہم پوچھ سکتے ہیں، ”خداوند، مجھے حل کا حصہ بننے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟“ دعا میں ہماری مشکلات کی فہرست اور انکے حل کے لئے خداوند سے التجا کے بجائے، ہمیں خداوند کی مدد حاصل کرنے کے زیادہ فعال طریقے تلاش کرنے چاہئے اور روح کی راہنمائی کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ رکھنا چاہئے۔

انزائن بلیئر کی کہانی میں ایک تیسرا اہم سبق بھی ہے۔ اگر انزائن بلیئر نے اِس سے پہلے مواقعوں پر روح کی پدایات نہ پائی ہوتی تو کیا وہ ایسے پُر سکون طور سے دعا کر سکتا تھا؟ طوفان کے پہنچنے کا وقت ایسا وقت نہیں ہے کہ روح القدس کے تحفے پر سے گرد جھاڑی جائے اور اُس کا استعمال کرنا سیکھا جائے۔ یہ جوان مرد واضح طور پر ایک نمونے کی پیروی کر رہا تھا جسے اُس نے پہلے بہت بار، بمشول کُل وقتی خدمت کے دوران استعمال کیا تھا۔ ہمیں پُر سکون پانیوں میں روح کو اپنا راہنما بنانا چاہیے تاکہ اُس کی آواز کو شدید ترین طوفان میں واضح طور پر سمجھا جا سکے۔

شائد کچھ یہ سوچیں کہ ہمیں روزانہ روح القدس کی راہنمائی کی توقع نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ”یہ مناسب نہیں ہے کہ [خُدا] تمام چیزوں میں حکم جاری کرے،“ ایسا نہ ہو کہ ہم کاہل خادم بن جائیں۔9 یہ صحیفہ، البتہ، چند ابتدائی مبلغین کو دیا گیا تھا جنہوں نے جوزف سمتھ کو وہ مکاشفہ حاصل کرنے کا کہا جو انہیں خود کو حاصل کرنا چاہئے تھا۔ پچھلی آیت میں، خداوند نے انہیں مشن کے میدان میں ایسے آنے کا کہا”جیسے کہ وہ خود اور میرے مابین مشاورت کریں گے۔“ 10

اِن مبلغین نے اپنے سفر کی منصوبہ بندی کے بارے میں ایک مخصوص مکاشفہ کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے ذاتی معاملات میں اپنی سمت کو ابھی تک تلاش کرنا نہیں سیکھا تھا۔ اور خُداوند نے اس طرح کے روئیے کو: کاہلی کا نام دیا تھا۔ کلیسیا کے ابتدائی اراکین سچا نبی پا کر اس قدر خوش ہوئے ہوں گے کہ شائد انہیں یہ خطرہ تھا کہ وہ خود سے مکاشفہ پانے کے بارے میں سیکھنے میں ناکام ہو جائیں گے۔ روحانی طور پر خود انحصار ہونا اپنی زندگی کے لیے اُس کے روح کے ذریعے خُداوند کی آواز سننا ہے۔

ایلما نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ ”اپنے تمام کاموں میں خُداوند سے مشورت کر۔“ 11 اس طرح سے زندگی گزارنا—جسے اکثر ہم ”روح کے مطابق زندگی گزارنا “کہتے ہیں—ایک اعلیٰ اعزاز ہے۔ یہ اپنے ساتھ سکون اور بھروسے کا احساس لاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ روح کے پھل جیسا کہ محبت، خوشی، اور سلامتی۔12

مکاشفہ پانے کی قابلیت سے انزائن بلیئر نے بڑھتے طوفان میں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان بچائی۔ آج اور طرح کے طوفان برپا ہیں۔ مورمن کی کتاب میں زندگی کے درخت کی تمثیل13 ایسی دنیا میں روحانی تحفظ پانے کی ایک قوی تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ خواب خُدا تک واپس جاتے ہوئے کلیسیا کے ارکان کے راستے میں اُنہیں روحانی طور پر تباہ کرنے کے لیے تاریکی کی دھند کے اچانک ابھرنے کے بارے میں بتاتا ہے۔14

لحی کا خواب

اس تصویر پر غور کرتے ہوئے، میرے ذہن کی آنکھ لوگوں کے اُس ہجوم کو دیکھتی ہے جو اُس راستے پر سفر کر رہے تھے، کچھ لوہے کی سلاخ کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے ہوئے، لیکن بہت سے صرف اپنے سامنےچلے والوں کے قدموں کی پیروی کرتے ہوئے۔ یہ بعد والے طریقے میں بہت کم سوچ اور کوشش درکار ہے۔ آپ صرف وہی کریں اور سوچیں جو دوسرے کر اور سوچ رہے ہیں۔ یہ واضح موسم کیلئے تو ٹھیک ہے۔ لیکن دھوکے کے طوفان اور جھوٹ کی دھند خبردار کیے بغیر آتے ہیں۔ ان حالات میں، روح القدس کی آواز سے شناسا ہونا روحانی زندگی یا موت کا معاملہ بن جاتا ہے۔

نیفی کا قوی وعدہ ہے کہ ”جو خُدا کے کلام کو سُنیں گے، اور اُسے مضبوطی سے تھامے رکھیں گے، وہ کبھی برباد نہ ہونگے؛ نہ ہی آزمائشیں اور دشمن کے آتشی تیر انہیں مغلوب کر کے اندھے پن کی تباہی کی طرف لے جا سکیں گے۔“15

اس راہ پر اپنے سامنے چلتے ہوئے لوگوں کے قدموں کی پیروی کرنا کافی نہیں ہے۔ ہم محض ایسا نہیں کر سکتے کہ وہی سوچیں اور کریں جو دوسرے سوچتے اور کرتے ہیں؛ ہمیں ایک ہدایت بخش زندگی گزارنی چاہئے۔ ہم میں سے ہر ایک کا اپنا ہاتھ لوہے کی سلاخ پر ہونا چاہیے۔ تب ہم خُداوند کے پاس فروتن اعتماد کیساتھ یہ جانتے ہوئے جا سکتے ہیں کہ ”وہ [ہمیں] ہاتھ پکڑ کر چلائے گا، اور [ہمیں] [ہماری] دعاوں کا جواب دے گا۔“16 یسوع مسیح کے نام میں، آمین۔