۲۰۱۰–۲۰۱۹
منکسر المزاج اور دِل کا فروتن
اپریل ٢٠١٨


16:2

منکسر المزاج اور دِل کا فروتن

اِنکساری نجات دہندہ کی ممتاز صفت ہے جو راست ہمدردی، خوشنودیِ اطاعت، اور مُستحکم ضبطِ نفس سےنمایاں ہوتی ہے۔

اور اِنتہائی خلوص کے ساتھ بزرگ گیرٹ گانگ اور بزرگ سوارس کو بارہ رسولوں کی جماعت میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اِن اِیمان دار مردوں کی خدمات دُنیا بھر میں فرداً فرداً اور خاندانوں کے لیے برکت کا باعث ہوں گی، اور میں چاہتا ہوں کہ آپ سے سیکھوں اور مل کر خدمت کروں۔

میں دُعا گو ہوں کہ رُوحُ القُدس ہمیں سکھائےاورمنور کرے جب ہم نجات دہندہ کی اِلہٰی سیرت ۱کےاہم پہلو کے بارے میں سیکھتے ہیں تاکہ ہم میں سے ہر کوئی تقلید کی جُستجو کرے۔

میں آپ کے سامنےچند مثالیں پیش کرتا ہوں جومثلِ مِسیح قدر کوواضح کرتی ہیں اور بعد میں خاص خاص صفات کی نشان دہی کروں گا۔ براہ کرم ہر مثال کو غور سے سُنیں اور میرے ساتھ ساتھ میری طرف سے اُٹھائے گئے سوالات کے ممکنہ جوابات سوچیں۔

مثال نمبر ۱۔ امیر نوجوان اور امیولک

نئے عہد نامے میں، ہم امیر نوجوان کے بارے میں جانتے ہیں جس نے یِسُوع سے پوچھا، ”اے نیک اُستاد میں کون سی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟“۲ نجات دہندہ نے پہلے اُس کو حکموں پر عمل کرنے تاکید کی۔ اِس کے بعد اُستاد نے اُس نوجوان کے مخصوص حالات اور ضروریات کے موافق اُس سے اگلے حکم پر عمل پیرا ہونے کا تقاضا کردیا۔

”یِسُوع نے اُس سے کہا، اگر تُو کامل ہونا چاہتا ہے، جا اور اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے، اور تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا؛ اور آ کر میرے پیچھے ہولے۔

”مگر وہ جوان یہ بات سُن کر غم گین ہو کر چلا گیا؛ کیوں کہ بڑا مال دار تھا۔“۳

اِس امیر نوجوان کے جواب کا موازنہ امیولک کے تجربے کے ساتھ کریں، جیسے مورمن کتا ب میں بیان کیا گیا ہے۔ امیولک بہت محنتی اور خوشحال آدمی تھا۔جس کے گھرانے اور دوست و احباب کثرت سے تھے۔۴ اُس نے اپنے بارے میں بیان کیا کہ ایسا آدمی جس کو کئی بار بُلاہٹ ہوئی لیکن اُس نے توجہ نہ دی؛ ایسا اِنسان جو خُدا کی باتوں سے واقف تھا مگر جاننا نہ چاہا۔۵ بُنیادی طور پر نیک اِنسان، امیولک دُنیاوی فکروں میں بٹا ہُوا تھا بالکل اُس امیر نوجوان کی طرح جس کا تذکرہ نئے عہد نامہ میں ہے۔

اگرچہ اُس نے ماضی میں اپنے دِل کو سخت کیا ہُوا تھا، امیولک نے فرشتے کی آواز کی تعمیل کی، اُس نے ایلما نبی کو اپنے گھر میں اُتارا، اور اُس کے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔ وہ ایلما کے قیام کے دوران میں روحانی طور پر جاگ اُٹھا اور اِنجیل کی منادی کے لیےبُلاہٹ پائی۔ اُس وقت امیولک نے ”اپنا سارا سونا، اور چاندی، اور قیمتی چیزیں ترک کردیں—خُداکے کلام کے واسطے، [اور] اُس کے باپ اور اُس کے گھرانے اوراُن لوگوں نے بھی اُس کو ٹھکرایا جو کسی زمانے میں اُس کے دوست تھے۔“۶

آپ کے خیال میں امیولک اور امیر نوجوان کے جوابی ردِعمل میں فرق کیا واضح کرتا ہے؟

مثال نمبر ۲۔ فحورن

مورمن کی کتاب میں بیان کردہ جنگ کے خطرناک زمانے میں، اعلیٰ قاضی اور ملک کے حکمران، فحورن اور نیفیوں کی فوجوں کے سپاہ سالار مرونی کے درمیان میں خطوط کا تبادلہ ہُوا۔ حکومت کی طرف سے پہچنے والی رسد کی شدید کمی کے سبب سے اُس کی فوج مصیبت کا شکار تھی۔ مرونی نے فحورن کی ”مذمت کرنے کے لیے“ ۷ خط لکھا اور اُس پر اور اُس کے ساتھی قائدین پر لاپرواہی، کاہلی، غفلت، اوریہاں تک کہ غدار ہونے کا اِلزام لگایا۔۸

فحورن آسانی سے مرونی اور اُس کے بے بُنیاد اِلزامات کے سبب خفا ہوتا، مگر اُس نے ایسا نہ کیا۔ فحورن نے تشفی سے جواب دیا اور حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت کا حال بیان کیا جس کے بارے میں مرونی بالکل بے خبر تھا۔ اور پھرفحورن نے بیان کیا:

”دیکھ، مرونی، میں تجھ سے مخاطب ہُوں، کہ میں تیری بے تحاشا مصیبتوں میں خوشی نہیں مناتا، بلکہ میری جان غمگین ہوتی ہے۔ …

” …تُو نے اپنے خط میں مجھے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، مگر یہ اہم معاملہ نہیں؛ میں ناراض نہیں ہوں، بلکہ تیرے دل کی عظمت کو دیکھ کر میں شادمان ہوتا ہوں۔“۹

مرونی کے اِلزامات کے جواب میں فحورن کا جچا تُلا جواب آپ کے خیال میں کیا واضح کرتا ہے؟

مثال نمبر ۳۔ صدر رسل ایم نیلسن اور صدر ہنری بی آئرنگ

چھے ماہ پہلے مجلسِ عامہ کے دوران میں، صدر رسل ایم نیلسن نے صدر تھامس ایس مانسن کی طرف سے مورمن کی کتاب کے مطالعہ، غور و فکر، اور اِس کی بیان کردہ سچائیوں پر عمل پیرا ہونے کی دعوت کو قبول کیا۔ اُس نے کہا ”میں نے اِس مشورے پر چلنے کی کوشش کی۔ کئی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ، میں نے فہرستیں بنائیں: مورمن کی کتاب کس کے بارے میں ہے؟ یہ کن باتوں کی تصدیق کرتی ہے؟ یہ کن باتوں کی تردید کرتی ہے؟ یہ کن باتوں کی وضاحت کرتی ہے؟ یہ کن باتوں کو عیاں کرتی ہے؟ مورمن کی کتاب کو اِس زوایہِ نگاہ سے دیکھنے سے مجھےنئے شعور اور اِدراک کا تجربہ ہُوا۔ میں ہر ایک کو ایسا کرنے کی تجویز دیتا ہُوں۔“۱۰

اِسی طرح صدر ہنری بی آئرنگ نے اپنی زندگی میں صدر تھامس ایس مانسن کی درخواست کی اہمیت پر زور دیا۔ اُس نے کہا:

”میں پچھلے پچاس برسوں سے روزانہ مورمن کی کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اِس لیے ہو سکتا ہے میں نے جائز طور پر یہ خیال کر لیا ہوتا کہ صدر مانسن کے یہ الفاظ دوسرے لوگوں کے لیے تھے۔ پھر بھی، آپ میں سے بے شمار لوگوں کی طرح، مجھے نبی کی طرف سے حوصلہ اَفزائی کا احساس ہُوا اوراُس کے وعدے نے مجھے ذرا سخت کوشش کرنے کے لیے اُبھارا۔ —

”جس خوش گوار نتیجے کا نبی نے وعدہ کیا تھا، میرے لیے وہ خوش بخت ثابت ہُوا، اور آپ کے لیے بھی۔“۱۱

صدر تھامس ایس مانسن کی دعوت پر خُدا کی کلیسیا کےاِن راہ نماؤں کی فوراً اور پُرخلوص عملی کوشش آپ کے خیال میں کیا بیان کرتی ہے؟

میں یہ تجویز نہیں کر رہا کہ صرف کسی ایک مثلِ مِسیح قدر کی بنا پر امیولک، فحورن، صدر نیلسن اور صدر آئرنگ کےٹھوس اور روحانی عملی اِقدامات کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ یقیناً، بہت ساری آپس میں جُڑی ہوئی صفات اور وسیع تجربوں کی بنا پر رُوحانی بالغ اُلنظری اِن چار نیک خادموں کی زندگیوں سے جھلکتی ہے۔ مگر نجات دہندہ اوراُس کے انبیا نے جس بُنیادی قدر کو ہم سب کے لیے اُجاگر کیا ہے اُس کی تہہ داریوں کو سمجھنا اور اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرنا ہے۔

اِنکساری

آپ غور کریں خُداوند نےاپنے آپ کی توضیح کرتے وقت پاک کلام یہ صفت اِستعمال کی تھی:”میرا جُواُٹھاؤ اور مجھ سے سیکھو؛ کیوں کہ میں فروتن اور دِل کا حلیم ہوں؛ اور تم اپنی رُوحوں کے لیے آرام پاؤ گے۔“۱۲

سیکھانے کی غرض سے، نجات دہندہ ساری صفات اور نیکیوں میں سے کوئی بھی چُن سکتا تھا، مگر اُس نے فروتنی کو چُنا اور مقدم ٹھہرایا۔

۱۸۲۹ میں نبی جوزف سمتھ پر نازل ہونے والے مکاشفہ میں بھی ایسا نمونہ نظر آتا ہے۔ خُداوند نے اعلان کیا، ”مجھ سے سیکھو، اور میرے کلام کو سُنو؛ میرے رُوح کی اِنکساری میں چلو، اور تم مجھ میں تسلی پاؤ گے۔“۱۳

اِنکساری نجات دہندہ کی ممتاز صفت ہے جو راست ہمدردی، خوشنودیِ اطاعت، اور مُستحکم ضبطِ نفس سےنمایاں ہوتی ہے۔ یہ وصف امیولک، فحورن، صدر نیلسن، اور صدر آئرنگ کے ردِعمل کو مکمل طور پر سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔

مثال کے طور پر، مورمن کی کتاب کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے حوالےسے صدر مانسن کی حوصلہ افزائی کے جواب میں صدر نیلسن اور صدرآئرنگ نے فوراً اور واجب طور پر قدم اُٹھایا۔ اگرچہ دونوں مرد کلیسیا کے بڑے اہم عہدوں پر خدمت سرانجام دے رہے تھے اور کئی دہائیوں سےصحائف کا گہرائی اور گیرائی سےمطالعہ کر چکے تھے، اُنھوں نے اپنے جواب میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ یا ذاتی انّا کے جذبے کا مظاہرہ نہ کیا۔

امیولک نے خوشی خوشی اپنے آپ کو خُدا کی مرضی کے حوالے کردیا، اِنجیل کی منادی کرنے کی بُلاہٹ کو قبول کیا، اوراپنےآرام دہ ماحول اور خاندانی رشتوں کی پرواہ نہ کی۔ اور فحورن نے مرونی کو حکومت کے خلاف بغاوت سے پیدا ہونے والے مسائل کی وضاحت بیان کرتے وقت ردعمل کی بجائے اپنے نقطہ نگاہ اور مُستحکم ضبطِ نفس کے تحت عمل کر کےخوش بخت ٹھہرا تھا۔

مثلِ مِسیح اِنکساری کی وصف کو اکثر ہماری معاصر دُنیا میں غلط تصور کیا جاتا ہے۔ اِنکساری مستحکم ہے، غیرمستحکم نہیں؛ فعال ہے، غیرفعال نہیں؛ دلیر ہے، بُزدل نہیں؛ مضبوط ہے، بکھری ہُوئی نہیں؛ شائستہ ہے، خود پرور نہیں؛ اور مہربان ہے، گُستاخ نہیں۔ منکسراُلمزاج شخص جھنجھلاتا نہیں، مصنوعی نمایش نہیں کرتا، یا گھمنڈی نہیں ہوتا اورفوراً سے پہلے دوسروں کی کامیابیوں کو سراہتا ہے۔

جب کہ عاجزی عام طور خُدا پر توکل اور ہمہ وقت اُس کی راہ نمائی اور مدد کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہے، اِنکساری کی یہ اِمتیازی خوبی ہےجو رُوحُ القُدس سے اوراُن عوام سے معرفت پانے کےلیے ایسی خاص روحانی تاثیر ہے جو شاید بظاہرکم فہم، نیم تجربہ کار، یا کم تعلیم یافتہ ہوں، جوشاید اہم عہدوں پر فائز نہ ہوں،یا بصورتِ دیگر جن کے پاس ایسا دِکھائی دے کہ دینے کی سکت کچھ زیادہ نہیں ہے۔ یاد کریں، شاہِ ارام کےلشکر کا سردار نعمان، کیسے اُس نے اِنکساری سے اپنے نوکروں کے مشورے کو قبول کیا اور الیشع نبی کی بات ماننے اور دریائے یردن میں سات بار غوطہ لگانے سے اپنے تکبر پر قابو پایا۔۱۴ اِنکساری سب سے بڑی ڈھال ہےغرور کے اندھے پن کے خلاف جو اکثر شہرت، عہدے، اِقتدار، دولت، اور خوشامد سے لاحق ہوتا ہے۔

اِنکساری—مثلِ مِسیح صفت اور رُوحانی نعمت

اِنکساری صفت ہے جو خواہش سے ، آزادیِ اِخلاق کی راست حکمتِ عملی سے، اور ہر وقت گناہوں کی معافی کو مدِنظر رکھتے ہُوئے فروغ پاتی ہے۔۱۵ یہ رُوحانی نعمت بھی ہے جس کو ہم واجب طریقے سے تلاش کر سکتے ہیں۔۱۶ بہر حال ہمیں اُن مقاصد کو یاد رکھنا چاہیے، جن کے لیے ایسی نعمت عطا کی گئی ہے، یعنی اُمتِ خُداوندی کی خدمت اور فلاح و بہبود۔۱۷

جب ہم نجات دہندہ کے پاس آتے اور تقلید کرتےہیں، ہم درجہ بہ درجہ آگے بڑھتے ہوئے اِس لائق ہو جاتے ہیں کہ اُس کی مانند اور زیادہ بنیں۔ بااُصول ضبطِ نفس اور مستقل مزاجی اورتحمل مزاجی کے ساتھ ہم رُوح سے قوت پاتے ہیں۔ یوں،ہم اُستاد کے مُنکسر المزاج شاگردبنتے ہیں اورنہ کہ ہم صرف کوئی کام سرانجام دیتے ہیں۔

”موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور کلام اور کام میں سُورما تھا۔“۱۸ اِس کے باوجود، وہ ” رُویِ زمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔“۱۹ موسیٰ کی تعلیم اور اہلیت اُس کی مغروری کا سبب بن سکتی تھی۔ لیکن ،اِنکساری کی رُوحانی نعمت اور وصف کے ساتھ جس سے اُس نے فیض پایا تھا اپنی زندگی میں تکبر کو مدھم کردیا اور خُدا کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے موسیٰ کو وسیلے کی حیثیت سے نمایاں کر دیا۔

اُستاد بحیثیت اِنکساری کی مثال

سب سے زیادہ اعلیٰ و ارفع اوربامعنی اِنکساری کی مثالیں نجات دہندہ کی اپنی زندگی میں پائی جاتی ہیں۔

عظیم مخلصی دینے والا، جو ”زمین کے نیچے کے علاقہ میں اُترا“۲۰ اور دُکھ اُٹھایا، اپناخون بہایا، اور مارا گیا کہ ”ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرے،“۲۱ شفقت سے اپنے شاگردوں کے گرد آلود پاؤں دھوئے۔۲۲ ایسی اِنکساری خادم اور راہ نما کی صورت میں خُداوند کی خوبی کی کسوٹی ہے۔

یِسُوع راست ہمدردی اور خوشنودیِ اطاعت کی اِتنہائی بُلند مثال قائم کرتا ہے جب اُس نے گتسمنی میں اِنتہائی جان کنی کی حالت میں دُکھ اُٹھایا۔

”اور اُس جگہ پہنچ کر اُس نے اُن[اپنے شاگردوں]سے کہا دُعا کرو کہ آزمایش میں نہ پڑو۔

”اور اُس … گھٹنے ٹیکے، اور دُعا کی،

”یوں کہتے ہوئے، اے باپ، اگر تُو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹالے: تو بھی میرے مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو۔“۲۳

نجات دہندہ کی اِنکساری اِس اِنتہائی لازمی اور درد ناک تجربے میں اِس اہمیت کو واضح کرتی ہے کہ ہماری اپنی حکمت کی نسبت خُداکی حکمت پر توکل کرنا ضروری ہے۔

خُداوند کی خوشنودیِ اطاعت اور مستحکم ضبط نفس کی مستقل مزاجی ہم سب کے لیے اَثر ا اَنگیز اور سبق اَموز ہے۔ جب ہیکل کا حفاظتی مسلح دستہ اور رومی فوجی گتسمنی کا محاصرہ اور یِسُوع کو گرفتار کرنے پہنچے تھے، پطرس نے تلوار نکالی اور کاہن اعلیٰ کے نوکر کا دایاں کان اُڑا دیا۔۲۴ نجات دہندہ نے اُس وقت نوکر کے کان کو چُھوا اور اُس کو شفا دی۔۲۵ مہربانی سے غور کریں کہ یِسُوع آگے بڑھا اور اُسی قدرت کو بروئے کار لاتے ہوئے جس سے وہ اپنی گرفتاری اور مصلوبیت کو روک سکتا تھا اُس نے اپنے ممکنہ گرفتار کرنے والے کو شفا دی۔

اِس ہر بھی غورکریں کہ پیلاطوس کے سامنے صلیب دینے کے لیے اُستاد پر کیسے اِلزام لگایا گیا اور مجرم ٹھہرایا گیا۔۲۶ یِسُوع نے اپنے پکڑوائے جانے کے دوران میں اعلان کیا ”کیا تُونہیں سمجھتاکہ میں اپنے باپ سے منت کرسکتا ہوں اور اپنے فرشتوں کے بارہ تمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کردے گا؟,“۲۷ پھر بھی ”زندوں اور مردوں دونوں کے ابدی منصف“۲۸ خلافِ فطرت عارضی سیاسی نمائندے کے سامنے عدالت کے لیے کھڑا تھا۔ ”اور یِسُوع نے اُس کو کسی بات کا جواب نہ دیا؛ یہاں تک کہ حاکم نے بہت تعجب کیا۔“۲۹ نجات دہندہ کی اِنکساری کا ثبوت اُس کے بااُصول جواب میں ، مضبوط ضبط میں، اوراپنے ذاتی مفاد کے لیے لامحدود قدرت کے اِستعمال سے اِجتناب میں، موجود ہے۔

وعدہ اور شہادت

مورمن اِنکساری کی وضاحت ایسے منبع کی حیثیت سے کرتا ہے جس میں سےتمام رُوحانی صلاحیتیں اور نعتیں جنم لیتی ہیں۔

”پس، اگر اِنسان اِیمان لاتا ہےتو اُسے یقیناً اُمید بھی ہونی چاہیے؛ کیوں کہ اِیمان کے بغیر اُمید نہیں ہے۔

”اور پھر ، دیکھو میں تم سے کہتا ہوں کہ وہ اِیمان اور اُمید حاصل نہیں کرسکتا سوائے اِس کے کہ وہ مُنکسرالمزاج، اور دل کا فروتن ہو۔

”اگر ایسا ہے، تو اُس کا اِیمان اور اُمید بے فائدہ ہے، کیوں کہ خُدا کے سامنےمنکسر المزاج اور دل کے فروتن کے سِوا کوئی بھی قابلِ لائق نہیں؛ اور اگر اِنسان منکسر المزاج اوردِل کا فروتن ہو، اوررُوحُ القُدس کی قدرت سے اِقرار کرے کہ یِسُوع ہی مِسیح ہے، ضرور ہے کہ اُس میں محبت ہو، پس اگر اُس میں محبت نہیں وہ کچھ بھی نہیں؛ پس ضرور ہے کہ اُس میں محبت ہو۔“۳۰

نجات دہندہ نے فرمایا، ”منکسرالمزاج مبارک ہیں: کیوں کہ وہ زمین کی میراث پائیں گے۔“۳۱ اِنکساری اِلہٰی فطرت کا اہم پہلو ہے اور یہ نجات دہندہ کے کفارے کی بدولت اور وسیلے سے حاصل کیا جاسکتاہے اور ہماری زندگیوں میں پرورش پا سکتا ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ یِسُوع مِسیح ہمارا جی اُٹھا اور زندہ مخلصی دینے والا ہے۔ اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ راہ نمائی، حفاظت اور مضبوطی بخشتا ہے جب ہم اُس کے رُوح کی اِنکساری میں چلتے ہیں۔ میں اِن سچائیوں اور وعدوں کی بابت اپنی یقینی گواہی کا اعلان کرتا ہوں، خُداوند یِسُوع مِسیح کے مقدس نام پر، آمین۔