۲۰۱۰–۲۰۱۹
دُعا کا جواب
مجلس عامہ اپریل ۲۰۱۹


دُعا کا جواب

باپ ہم سے واقف ہے، ہماری ضرورتیں جانتا ہے، اور ہماری بھرپُور مدد کرے گا۔

یِسُوع مِسیح کی اِنجیل کا اہم اور تسلی بخش پیغام یہ ہے کہ ہمارا آسمانی باپ اپنی اُمت کے واسطے کامل محبت رکھتا ہے۔ اُس کامل محبت کی بدولت، وہ نہ صرف ہماری خواہشوں اور ضرورتوں کے مطابق برکت دیتا ہے بلکہ اپنی لامحدود حکمت کے مطابق بھی۔ نیفی نبی نے صاف صاف بیان کیا، ”میں جانتا ہُوں کہ [خُدا] اپنی اُمت سے پیار کرتا ہے۔“۱

اِس کامل محبت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہماری زندگی کے ہر جُزو میں ہمارے آسمانی باپ کی شمولیت ہے، یعنی جب ہم آگاہ بھی نہیں ہوتے یا سمجھ نہیں پاتے۔ ہم سنجیدہ اور دِل سوز دُعا کے وسیلے سے آسمانی باپ کی اِلہٰی ہدایت اور مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنے عہود کی تعظیم و تعمیل کرتے اور زیادہ سے زیادہ اپنے نجات دہندہ کی مانند بننے کی کوشش کرتے ہیں، تو رُوحُ القُدس کی تاثیر اور اِلہام کے وسیلے سے ہم لگاتار۲ اِلہٰی ہدایت کے چشمے کے حق دار ہوتے ہیں۔

صحائف ہمیں سکھاتے ہیں: ”کیوں کہ تمھارا باپ تمھارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تم کن کن چیزوں کے مُحتاج ہو،“۳ اور وہ ”سب جانتا ہے ، کیوں کہ سب چیزیں [اُس کی] آنکھوں کے سامنے حاضر ہیں۔“۴

مورمن نبی اِس کی مثال ہے۔ وہ اپنی محنت کے پھل دیکھنے تک زندہ نہ رہا۔ تو بھی وہ جان گیا تھا کہ خُداوند اُس کی بڑی لگن سے ہدایت فرما رہا تھا۔ جب نیفی کے چھوٹے اَوراق کو اپنی سرگزشت میں شامل کرنے کا اِلہام اُس نے پایا، مورمن نے لکھا:”اور میں یہ دانا مقصد کے لیے کرتا ہوں؛ کیوں کہ خُداوند کے رُوح کے موافق جو مجھ میں کام کرتا ہے، مجھے یوں سرگوشی کرتا ہے۔ اور اب، مجھے سب باتوں کا علم نہیں؛لیکن خُداوند تمام باتیں جانتا ہے جو آنے کو ہیں؛ پس، وہ اپنی مرضی کے مطابق مجھ میں کام کرتا ہے۔“۵ اگرچہ مسوّدے کے ۱۱۶ صفحات کا مُستقبل میں کھو جانے کا علم مورمن کو نہ تھا، خُداوند جانتا تھا اور اِس پریشانی پر قابو پانے کے لیے راستہ تیار کیا۔

باپ ہم سے واقف ہے، ہماری ضرورتیں جانتا ہے، اور ہماری بھرپُور مدد کرے گا۔ بعض اوقات عین وقت پر مدد فراہم کر دی جاتی ہے یا کم از کم ہمارے مانگنے سے فوراً بعد۔ بعض اوقات ہماری راست اور دِلی خواہشوں کا جواب نہیں ملتا جن کی ہم آس لگائے ہوتے ہیں، مگر معرفت پاتے ہیں کہ خُداوند نے اِس سے بھی بڑی نعمتیں ہمارے واسطے رکھی ہُوئی ہیں۔ اور بعض اوقات، ہماری راست خواہشیں اِس زندگی میں بالکل پُوری نہیں ہو پاتیں۔ میں تین مُختلف واقعات کے ذریعے سے وضاحت کروں گا کہ ہمارا آسمانی باپ کن طریقوں سے ہماری دِل سوز مُناجات کا جواب دے سکتا ہے۔

ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا تبلیغی خدمت کے لیے پیرس فرانس بھیجا گیا تھا اِس خدمت کی تیاری کے لیے، ہم حسبِ معمول قمیصیں، سوٹس، ٹائیاں، جرابیں اور اوور کوٹ خریدنے اُس کے ساتھ گئے۔ بدقسمتی سے، اوور کوٹ جو چاہتا تھا اُس کے اپنے سائز کے مطابق فوراً سٹور میں دست یاب نہیں تھا۔ بہرحال، سٹور کے کلرک نے کہا کہ کوٹ چند ہفتوں میں مل جائے گا اور آپ کے بیٹے کی فرانس روانگی سے قبل تبلیغی تربیتی مرکز پرووہ بھیج دیا جائے گا۔ ہم نے کوٹ کی قیمت ادا کی اور اِس کے لیے مزید فکر مند نہ ہُوئے۔

جون میں ہمارا بیٹا تبلیغی تربیتی مرکز میں داخل ہُوا اور اُس کی طے شُدہ روانگی سے چند دِن پہلے اَگست میں اُسے کوٹ مل گیا۔ اُس نے کوٹ پہن کر نہیں دیکھا تھا بس جلدی میں اپنے سوٹ کیس میں دوسرے کپڑوں کے ساتھ رکھ دیا تھا۔

جب پیرس میں سردیاں آئیں، جہاں ہمارا بیٹا خدمت سرانجام دے رہا تھا، اُس نے ہمیں خط لکھا کہ اُس نے اپنا کوٹ نکالا، پہنا، مگر وہ اُس کے لیے بہت چھوٹا تھا۔ اِس لیے اُس کے اکاؤنٹ میں مزید پیسے بھیجے کہ وہ پیرس میں اپنے لیے کوٹ خرید سکے، اور اُس نے کوٹ خریدا۔ بس جھلاہٹ میں، میں نے اُس کو خط لکھا کہ وہ پہلے والا کوٹ کسی کو دے دے کیوں کہ خود وہ پہن نہ سکے گا۔

بعد میں ہمیں اُس کی یہ ای میل موصول ہُوئی:”یہاں پر شدید، شدید سردی پڑتی ہے۔ … اِس کے باوجود کہ میرا کوٹ اِنتہائی موٹا اور گرم ہے، مگر ایسا لگتا ہے ہَوا ہماری ہڈیوں کے اندر سے گُزرتی ہے۔ … میں نے اپنا دوسرا کوٹ [ایک دوسرے مُبلّغ] کو دے دیا ہے اُس نے بتایا کہ وہ دُعا کر رہا تھا کہ اُس کہیں سے کوئی اچھا سا کوٹ مل جائے۔ چند برس پہلے اُس نے اِیمان قبول کیا تھا اور اُس کی صرف ماں ہے … اور جس مُبلّغ نے اُس کو بپتسمہ دیا تھا اُس نے ہی اِس کا تبلیغی خدمت کا خرچہ اُٹھا رکھا ہے اور بس یہ اوور کوٹ اُس کی دُعا کا جواب تھا، اِس لیے میں بہت خُوش ہُوں۔“۶

آسمانی باپ جانتا تھا کہ یہ مُبلّغ جو اپنے گھر سے چھے ہزار دو سو میل (دس ہزار کلو میٹر) دُور فرانس میں خدمت کر رہا ہے اُس کو پیرس میں شدید سردی میں فوراً نئے اَوور کوٹ کی ضرورت پڑے گی لیکن اُس مُبلّغ کے پاس خریدنے کے وسائل نہ تھے۔ آسمانی باپ یہ بھی جانتا تھا کہ ہمارے بیٹے کو پرووہ، یوٹاہ سے کپڑوں کی دُکان سے چھوٹے سائز کا اَوور کوٹ ملے گا۔ اُسے علم تھا کہ یہ دو مُبلّغین اِکٹھے پیرس میں خدمت اَنجام دیں گے اور کوٹ اُس سنجیدہ اور دِل سوز دُعا کا جواب ہوگا جو اُس کی اَشد ضرورت ہے۔

نجات دہندہ نے سکھایا:

”کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بِکتیں؟ اور اُن میں سے ایک بھی تمھارے باپ کی مرضی کے بغیر زمین پر نہیں گِر سکتی۔

”بلکہ تمھارے سر کے بال بھی سب گِنے ہُوئے ہیں۔

”پس ڈرو نہیں، تمھاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔“۷

دیگر صورتوں میں، جب ہماری جائز آرزوؤں کی ہماری مرضی کے مطابق تکمیل نہیں ہوتی، تو یہ ہمارے فائدے کے واسطے ہیں۔ مثال کے طور پر، یعقوب کا بیٹا یُوسُف اپنے بھائیوں کی نفرت اور حسد کا اِس حد تک شکار ہُوا کہ اُنھوں نے یُوسُف کے قتل کا منصوبہ بنایا بعد میں، اُنھوں نے اُس کو مِصر میں غُلام بنا کر بیچ ڈالا۔۸ اگر کبھی کسی شخص کو لگا ہو کہ اُس کی دُعاؤں کا جواب اُس کی منشا کے مطابق نہیں مِلا ، تو وہ یُوسُف ہی ہو سکتا ہے۔ حقیقت میں، اُس کو دِکھائی دینے والی زحمت اُس کے واسطے نعمت بن گئی اور قحط سے اُس نے اپنے خاندان کو بچا لیا۔ بعد ازاں، مِصر میں اپنے اِیمان اور حکمت کے ساتھ قابلِ اعتماد راہ نما بننے کے بعد اُس نے اپنے بھائیوں سے کہا:

”اور اِس بات سے کہ تم نے مجھے بیچ کر یہاں پہنچوایا نہ تو غم گین ہو اور نہ اپنے اپنے دِل میں پریشان ہو کیوں کہ خُداوند نے جانوں کو بچانے کے لیے مجھے تم سے آگے بھیجا۔

”اِس لیے کہ اب دو برس سے مُلک میں کال ہے: اور ابھی پانچ برس اَور ایسے ہیں، جن میں نہ تو ہل چلے گا اور نہ فصل کٹے گی۔

”اور خُدا نے مجھ کو تمھارے آگے بھیجا تاکہ تمھارا بقیہ زمین پر سلامت رکھے، اور تم کو بڑی رہائی کے وسیلہ سے زندہ رکھے۔

”پس تم نے نہیں بلکہ خُدا نے مجھے یہاں بھیجا۔“۹

کالج کے زمانے میں، ہمارے سب سے بڑے بیٹے کو اُس کی پسندیدہ عارضی نوکری مِل گئی اور توقع تھی کہ فارغ اُلتحصیل ہونے کے بعد مُستقل جاذبِ نظر ملازمت کی راہ ہم وار کرے گی۔ اُس نے چار برس تک بڑی لگن سے فرائض انجام دیے، بہت کام یابی پائی، اور اپنے نگرانوں اور ساتھیوں کی نظر میں مقبول ہُوا۔ آخری برس کے اختتام پر، جیسا قدرت کو منظور تھا (کم از کم ہمارے بیٹے کی یہی سوچ تھی)، مُستقل آسامی کُھلی، اور وہ سب سے بڑا اُمیدوار تھا، ہر شرط اور ہر بات اُس کے حق میں جاتی تھی، کہ اُسے یہ ملازمت مِلے گی۔

خیر، اُس کو نہ چُنا گیا۔ یہ ہماری سمجھ سے باہر تھا۔ اُس نے خوب تیاری کی تھی، اِنٹرویو بہت زبردست رہا، وہ سب سے زیادہ موزوں اُمیدوار تھا، اور بڑی آس اور اُمید کے ساتھ دُعا کرتا تھا۔ وہ مایوس اور بددِل ہو گیا، اور اِس سارے قِصّے میں ہم سر پٹختے رہ گئے۔ کہ خُدا نے اُس کی جائز تمنا کو رد کیوں کر دیا؟

چند برسوں کے بعد کہیں جا کر ہمیں اِس کا جواب مِلا۔ اگر فارغ اُلتحصیل ہونے کے بعد اُس کو اپنی پسندیدہ ملازمت مِل گئی ہوتی، تو زندگی کا رُخ بدل دینے والا موقع وہ کھو چُکا ہوتا جس سے ثابت ہُوا ہے کہ یہ اُس کی ابدی فلاح اور رحمت کے لیے تھا۔ خُدا کو شروع سے آخر تک علم تھا (جیسا کہ اُس کو ہمیشہ سے ہے)، اور اِس مسئلے میں،کہیں زیادہ اعلیٰ نتیجے کے خاطر، بہت ساری راست دُعاؤں کا جواب نفی میں تھا۔

اور بعض اوقات، بڑی شدت سے، سنجیدگی سے، اور راستی سے مانگی گئی دُعا کا جواب اِس زندگی میں نہیں مِل پاتا۔

بہن پیٹریشیا پارکن سن جب پیدا ہُوئیں تو اُن کی بِینائی ٹھیک تھی، مگر سات برس کی عمر میں اُن کی بِینائی جاتی رہی۔ نو برس کی عمر میں پَیٹ کو اپنے گھر سے نوے میل کی دُوری پر، آگڈن، یوٹاہ کے اَندھوں اور بہروں کے سکول میں داخلہ مِل گیا، اُس کو مجبوراً ہوسٹل میں رہنا تھا—نو برس کی عمر میں گھر کی یاد بہت ستاتی تھی۔

گیارہ برس تک پہنچتے پہنچتے اُس کی ساری بِنیائی جا چُکی تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں پَیٹ گھر لوٹ آئی اور مقامی ہائی سکول میں داخلہ لے لیا۔ وہ کالج گئی اور نفسیات اور کمیونی کیشن ڈِس آرڈر میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی، بڑی شدید تگ و دو کے بعد اُس کو یونی ور سٹی میں داخلہ مل گیا جہاں سے اُس نے سپیچ لینگوئج پیتھالوجی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ پَیٹ اب اپنے سکول ڈسٹرکٹ میں ترِپن ایلی مینٹری سکولوں کے طلبا اور چار سپیچ لینگوئج ٹیک نی شنز کی کے ساتھ کام کرتی ہے۔ اُس کا اپنا گھر ہے اور اپنی گاڑی، جب کبھی اُسے کہیں جانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اُس کے دوست یا خاندان والے اُس کی گاڑی چلاتے ہیں۔

شبیہ
بہن پیَٹریشیا پارکن سن

دس برس کی عمر میں، پَیٹ کی جاتی ہُوئی بِینائی کی وجوہات جاننے کے لیے ایک اور سرجری کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اُس کے طبی معائنے کے حوالے سے والدین ہر بات صاف صاف بتاتے تھے، لیکن کسی وجہ سے اُنھوں نے اِس سرجری کا ذِکر تک نہ کیا۔ بالآخر جب اُس کے والدین نے بتایا کہ سرجری کا اِنتظام ہو گیا ہے، تو اُس کی ماں کے مطابق، پَیٹ، ”آگ بگُولا ہو گئی۔“ پَیٹ رُوٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی لیکن تھوڑی دیر بعد واپس آئی اور غُصّے سے اپنے والدین کو کہا، ”میں آپ کو بتاتی ہُوں کہ کیا۔ میں جانتی ہُوں، خُدا جانتا ہے، اور شاید آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں باقی کی ساری زندگی نابِینا رہُوں گی!“

کئی برسوں بعد پَیٹ اپنے خاندان والوں سے ملنے کیلی فورنیا گئی۔ جب وہ باہر اپنے تین برس کے بھتیجے کے ساتھ تھی، اُس نے کہا، ”آنٹی، آپ آسمانی باپ سے کیوں نہیں کہتیں کہ وہ آپ کو نئی آنکھیں عطا کرے؟ اگر آپ آسمانی باپ سے مانگو گے، تو وہ آپ کو ہر شے عطا کرے گا۔ آپ کو بس مانگنا ہے۔“

پَیٹ نے بتایا وہ اِس سوال پر چونک گئی اور جواب دیا، ”ٹھیک ہے، لیکن کبھی کبھی آسمانی باپ ایسا نہیں کرتا۔ بعض اوقات وہ چاہتا ہے کہ ہم کچھ سیکھیں، اِس لیے وہ سب کچھ عطا نہیں کرتا جس کی ہمیں تمنا ہوتی ہے۔ بعض دفعہ آپ کو اِنتظار کرنا پڑتا ہے۔ آسمانی باپ اور نجات دہندہ سب جانتے ہیں کہ ہمیں کس کس چیز کی ضرورت ہے اور ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ اِس لیے، آپ کو وہ سب کچھ عطا نہیں کرتے جو آپ چاہتے ہیں جس لمحے آپ مانگتے ہیں۔“

میں پَیٹ کو کئی برسوں سے جانتا ہُوں اور حال ہی میں بتایا کہ میں اُس کے ہمہ وقت مُثبت اور خُوش گوار رویے کو سراہتا ہُوں۔ اُس نے جواب دیا، ”خیر، آپ میرے گھر میں نہیں رہتے، ایسا ہی ہے نا؟ ایسے لمحے آتے ہیں۔ جب مجھے مایوسی کے دَورے پڑتے ہیں، اور میں بہت روتی ہُوں۔“ بہرحال، اُس نے مزید بتایا، ” جب سے میں نے اپنی بِنیائی کھونا شروع کی، عجیب بات ہے، مگر مجھے احساس ہُوا کہ آسمانی باپ اور نجات دہندہ میرے اور میرے خاندان کے ساتھ تھے۔ جتنا ہو سکتا تھا ہم نے اپنے آپ کو سنبھالا، اور میرے خیال میں ہم نے کافی بہتر طور پر سنبھالا۔ کسی حد تک میں کام یاب شخص ہُوں، اور عام طور پر خُوش اِخلاق بھی ہُوں۔ ہر بات میں اُس کا ہاتھ دیکھتی ہُوں جو مجھ سے پُوچھتے ہیں کہ نابِینا ہونے کی وجہ سے کیا میں ناراض ہُوں، میں جواب دیتی ہُوں: ’میں نے کس سے ناراض ہونا ہے؟‘ میں تنہا نہیں ہُوں؛ اِس سارے معاملے میں آسمانی باپ میرے ساتھ ہے۔ وہ ہر وقت میرے ساتھ ہے۔“

اِس معاملے میں، پَیٹ کی بِینائی پانے کی آرزو اِس زندگی میں پُوری نہ ہوگی۔ بلکہ اُس کے باپ نے بتایا کہ اُس کا یقین ہے، ”یہ بھی گُزر جائے گا۔“۱۰

صدر ہنری بی آئرنگ نے فرمایا، ” کہ اِس لمحے باپ آپ کی خبر گیری کرتا ہے اور ہر ایک کی رُوحانی اور دُنیاوی حاجتوں سے باخبر ہے۔“۱۱ اِس تسلی بخش اور سب سے زیادہ بڑی سچّائی کو ہم اِن تین کہانیوں میں دیکھ سکتے ہیں جو میں نے بتائیں ہیں۔

بھائیو اور بہنو، بعض اوقات ہماری دُعاؤں کا جواب ہماری مرضی کے مطابق فوراً مِل جاتا ہے۔ کبھی کبھی، ہماری دُعاؤں کا جواب ہماری مرضی کے مطابق نہیں مِلتا، تو بھی وقت کے ساتھ ساتھ ہم سیکھتے ہیں کہ ہماری توقع سے بڑھ کر خُدا نے ہمارے واسطے زیادہ بہتر نعمتیں رکھی تھیں۔ اور کبھی کبھار ہماری راست مُناجات کا جواب ہمیں اِس فانی زندگی میں نہیں ملے گا۔۱۲ جیسا کہ بُزرگ نیل اے میکس ویل نے فرمایا، ”خُدا کے وقت پر توّکل کرنا بھی اِیمان کا حصّہ ہے۔“۱۳

ہمیں یقین دہانی ہے کہ اُس کے اپنے طریق کے مُطابق اور اُس کے اپنے وقت پر، آسمانی باپ ہمیں برکت بخشے گا اور ہماری سب مایوسیوں پریشانیوں، اور نااِنصافیوں کو رفع کر دیا جائے گا۔

بِنیامین بادشاہ کا قول ہے: ”اور مزید برآں، میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم اِن کی بابرکت اور مسرور حالت پر غور کرو جو خُدا کے حکموں کو مانتے ہیں۔ کیوں کہ دیکھو، وہ ساری باتوں میں بابرکت ہیں، رُوحانی اور دُیناوی دونوں میں؛اور اگر وہ آخر تک وفادار رہیں گے تو آسمان میں اُن کا اِستقبال ہوگا، تا کہ وہ کبھی نہ ختم ہونے والی خوشی کی حالت میں خُدا کے ساتھ قیام کریں۔ اے یاد رکھو، یاد رکھو کہ یہ باتیں سچ ہیں؛ کیوں کہ خُداوند خُدا نے فرمائیں ہیں۔“۱۴

میں جانتا ہُوں کہ خُدا ہماری دُعائیں سُنتا ہے۔۱۵ میں جانتا ہُوں کہ ہمہ دان، شفیق باپ، ہماری دُعاؤں کا کامل جواب دیتا ہے، اپنی لامحدود حکمت، اور اپنے طریق کے مُطابق جو ہمارے لیے سب سے زیادہ مُفید اور باعث رحمت ہوتا ہے۔ میں اِس کی گواہی یِسُوع مِسیح کے نام پر دیتا ہوں، آمین۔