“ دراصل ، میں ایک ہوں ”
ایبی تھورن، یوٹاہ،یو ۔ایس۔ اے
میں ابھی بس میں بیٹھی ہی تھی جب راہداری کے پار سے ا یک آدمی میری طرف جھکا اور کہا، “ آپ ایک خوبصورت روح رکھتی ہیں ۔”
بِلاشبہہ ، میں حیران ہوگئی تھی۔ میں نے اِس سے پہلےکبھی بھی اپنی روحکی تعریف نہیں پائی تھی۔ نہ جانتے ہوئے کہ کیا جواب دوں، میں نےے صرف کہا، “ آپکا شکریہ۔”
آدمی نے مجھے بتایاکہ وہ اپنے مذہبی گروہ کے ساتھ کام کرنے کی بدولت ایسابتا سکا۔ میں نے اُسے سُنا جب اُس نے مجھے اپنی روح کو خوبصورت رکھنے سے متعلق نصحیت کی۔
جب بس ایک سٹاپ پر رُکی، ہم دونوں اُترنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُس نے مجھے ایکحتمیٰرائے دی: “ یقینی بناؤ کہ تم اُن مورمنوں کو نہیں سُنوں گی۔”
ایک لمحے کے لئے وقت جیسے تھم سا گیا۔ اِس آدمی نے میرے چہرے پر کچھ خاص دیکھا تھا، مگر اُسے کوئی انداز ہ نہ تھا کہ یہ میرے مذہب کی بدولت تھا۔
مجھے کیسے جواب دینا چاہیے تھا؟ دیانتداری سے، میریپہلی سوچ یہ تھی کہ کچھ بھی نہ کہوں اور ظاہر کروں کہ میں نے سُنا ہی نہیں ہے۔ میں پریشان تھی کہ اگر میں اُسے بتاؤں کہ میں کلیسیا کی رکن ہوں ، شاید وہ منفی طور پر یا شاید سختی سے جواب دے۔
مگر پھر ایک صحیفہ ذہن میں آیا: “ کیونکہ میں مسیح کی انجیل سے شرماتا نہیں: اِسلئے کہ وہ ہر ایمان لانے والے کے واسطے نجات کے لئے خُدا کی قدرت ہے” ( رومیوں ۱۶:۱)۔ میں نے محسو س کیا کہ میں انجیل سے شرمندہ نہیں ہوں ، اور میں جانتی تھی کہ میری جان دوسروں کے لئے چمک نہیں سکتی اگر میں بطور گواہ کھڑی نہ ہوئی۔ اپنے نئے ارادہ کے ساتھ، میں نے آدمی کی جانب دیکھا اور کہا، “دراصل ، میں ہوں”۔
آدمی مجھے تکنے لگا اور میں واپس اُسے تکنے لگی۔ میری حیرانی کو، وہ ہنسا اور کہا وہ کلیسیا میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ کافی کا بہت شوقین ہے۔ میں بھی ہنس دی، اور ہم اپنی الگ الگ راہ پر چلے گئے۔
آج دِن تک میں اُس انتخاب کے بارے خوش ہوں جو میں نے کیا۔ میں جانتی ہوں کہ بطور رکنِ کلیسیاء کھڑا ہونا مشکل ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ خوفزدہگیہو سکتا ہے! مگر جب ہم خُدا کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ، ہماری جانیں دُنیا کے لئے بطور روشنیاں چمک سکتی ہیں۔