الہٰی بے قراری
الہٰی بے قراری ہمیں اِیمان سے آگے بڑھنے، نجات دہندہ کے نیکی کرنے کی دعوت پر عمل پیرا ہونے، اور اپنی اپنی زندگیاں عجز و اِنکسار سے اُس کے سپُرد کرنے کے لیے آمادہ کر سکتی ہے۔
جب میں ایلی منٹری سکول میں تھی، تو ہم ہموار پگ ڈنڈی سے گھر جاتے تھے جو بَل کھاتی ہُوئی پہاڑی اُوپر کی طرف جاتی تھی۔ ایک اور، کچا راستہ تھا جسے ”لڑکوں کی پگ ڈنڈی“ کہا جاتا تھا۔ لڑکوں کی پگ ڈنڈی مٹی کی دُھول کے درمیان میں سے سیدھا پہاڑی کے اُوپر تک جاتی تھی۔ یہ راستہ چھوٹا مگر زیادہ عمودی تھا۔ جب نوجوان لڑکی تھی تو سمجھتی تھی کہ جس جس راستے پر لڑکے جا سکتے ہیں میں بھی جا سکتی ہُوں۔ اُس سے زیادہ اہم بات، میں جانتی تھی کہ میں آخری ایام میں رہ رہی ہوں اور یہ کہ مجھے مشکل کام کرنے کی ضرورت ہوگی، ہمارے پیش رؤوں کی مانند—اور میں تیار ہونا چاہتی تھی۔ سو کبھی کبھار، ہموار پگ ڈنڈی پر میں اپنی دوستوں کے گروہ سے پیچھے رہ جاتی، اپنے جوتے اُتارتی، اور لڑکوں کی پگ ڈنڈی پر ننگے پاؤں چلتی۔ میں اپنے پیروں کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔
بچپن میں خود کو تیار کرنے کے حوالے سے میری یہ سوچ تھی۔ اب میں مختلف طریقے سے سوچتی ہوں! پہاڑی راستوں پر ننگے پاؤں چلنے کی بجائے، میں جانتی ہوں کہ رُوحُ القُدس کی سرگوشیوں پر عمل کرنے سے میں اپنے پیروں کو عہد کے راستے پر چلنے کے لیے تیار کر سکتی ہوں۔ پس خُداوند، اپنے نبی کے وسیلے سے، ہم میں سے ہر ایک کو ”بُلند اور مُقَدَّس راستے“ پر چلنے اور دیکھ بھال کرنے اور ”بڑا قدم اُٹھانے“ کے لیے پُکار رہا ہے۔۱
دعوتِ عمل کی یہ پیغمبرانہ صدائیں، ہمارے قدرتی شعور کے ساتھ مِلتی ہیں تو ہم بہت کچھ کر اور بن سکتے ہیں، بعض اوقات ہمارے اندر بقول بزرگ نیل اے میکس ویل ”الہٰی بے قراری“ پیدا ہو جاتی ہے۔۲ اِلہٰی بے قراری اُس وقت جنم لیتی ہے جب ”ہم کیا ہیں اور کیا بننے کی قدرت رکھتے ہیں“ کا موازنہ کرتے ہیں۔۳ ہم میں سے ہر ایک، اگر دیانت داری سے کام لے ، تو اُس خلّا کا احساس ہوتا ہے کہ ہم کون اور کہاں ہیں، اور ہمارا مقام کیا ہے اور ہمیں کیا بننا ہے۔ ہم اعلیٰ و ارفع ذاتی صلاحیت کے لیے تڑپتے ہیں۔ ہمیں اِن باتوں کا احساس ہوتا ہے کیوں کہ ہم خُدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، مِسیح کے نُور کے ساتھ پیدا ہُوئے مگر فنا پذیری کے عالم میں رہتے ہیں۔ یہ احساسات خُدا داد ہیں اور عمل کرنے میں تیزی لاتے ہیں۔
ہمیں الہٰی بے قراری کے احساسات کا خیرمقدم کرنا چاہیے جو اعلیٰ راستے پر گامزن ہونے کے لیے پُکارتے ہیں،جب کہ شیطان کی جعلسازی کو پہچانتے اور کنارا کشی کرتےہوئے—حوصلہ شکنی کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ یہی وہ نازک علاقہ ہے جہاں پر شیطان نہایت بے تابی سے کودنے کا شائق ہے۔ ہم بُلند راستے پر گام زن ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں جو ہمیں خُدا اور اُس کی سلامتی اور فضل کو پانے میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے، یا ہم شیطان کی سن سکتے ہیں، جو ہم پر پیغامات کی بمباری کرتا ہے کہ ہم کبھی بھی کافی نہ ہوں گے: کافی امیر، کافی ذہین ، کافی خوب صورت، کسی بھی شے میں کافی نہ ہوں گے۔ ہماری بے قراری ربانی—یا ویرانی بن سکتی ہے۔
اِیمان پر عمل پیرا ہوں
اِلہٰی بے قراری کو شیطان کی جعلسازی سے الگ بتانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ الہٰی بے قراری ہمیں اِیمان داری پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت کرے گی۔ الہٰی بے قراری اپنے مِنطقۂ راحت پر قیام کا دعوت نامہ نہیں، اور نہ یہ ہمیں مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔ میں جان گئی ہُوں کہ جب میں ہر بات کے بارے میں شدید فکرمند ہوتی ہُوں جو میں نہیں ہُوں، میں ترقی نہیں کرتی اور مجھے رُوح کو محسوس کرنے اور پیروی کرنے میں بہت زیادہ مشکل پیش آتی ہے۔۴
جب جوان لڑکے، جوزف سمتھ نے اپنی کمزوریوں کے بارے میں واضح آگاہی پائی اور ”[اپنی]دائمی رُوح کی فلاح“ کے بارے میں فکر مند ہوا۔ اُس کے الفاظ میں، ”میرا دماغ شدید تذب ذب کا شکار ہوا، کیوں کہ میں اپنے خطاؤں کے سبب نادم ہُوا، اور … اپنے گُناہوں اور دُنیا کے گناہوں کے لیے نوحہ گری کا احساس ہُوا۔“۵ یہ اُسے ”سنجیدہ غوروفکر اور بڑی بے چینی“ کی طرف لے گئی۔۶ کیا یہ واقع جانا پہچانا لگتا ہے؟ کیا آپ اپنی کمزوریوں کے باعث بے چین یا پریشان ہیں؟
خیر، جوزف نے کچھ کر گُزرنے کی ٹھانی۔ اُس نے بتایا، ”میں اکثر خود سے کہتا: کیا کیِا جائے؟“۷ جوزف نے اِیمان کے ساتھ عمل کیا۔ اُس نے صحیفے کی طرف رُخ کیا، یعقوب ۱:۵ میں دعوت نامہ پڑھا، اور مدد کے لیے خُدا کی طرف مُڑا۔ نتیجے میں ملنے والی رویا نے بحالی کاآغاز کیا۔ میں نہایت شکر گزار ہوں کہ جوزف کی الہٰی بے قراری، اُس کی بے چینی اور اُلجھن کے دورانیہ، نے اسے نیک فریضہ کے لیے مائل کیا۔
نیکی کی ترغیبات پر عمل کریں
پس دُنیا اکثر ہمارے خیالات کو خُود بینی اور ماضی کی جانب دھکیلتے ہُوئے بے قراری کے احساس کو اپنی شخصی جاذبیت کا بہانہ بناتی ہے،اور میں کیا ہوں، میں کیا نہیں ہوں، اور میں کیا چاہتی ہوں فرداً فرداً خود پر مُسلط کرتی ہے۔ الہٰی بے قراری ہمیں نجات دہندہ کی مثال پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، ”جو بھلائی کرتا تھا۔“۸ جب ہم شاگردی کی راہ پرگام زن ہوتے ہیں، تو دوسروں کی مدد کے لیے ہمیں روحانی اِشارے ملتے ہیں۔
ایک کہانی جو میں نے کئی سال پہلے سنی تھی وہ مجھے رُوحُ القُدس کی سرگوشیوں کو پہچاننے اور پھر اُن پر عمل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اَنجمنِ خواتین کی سابق عمومی صدر، بہن بونی ڈی پارکن، نے مندرجہ ذیل کا تذکرہ کیا:
”سوزن … ایک حیرت انگیز درزن تھی۔ صدر [سپنسر ڈبلیو] کمبل [اُس کے] حلقہ میں رہتے تھے۔ کسی اِتوار کو سوزن نے دیکھا کہ اُنھوں نے نیا سوٹ پہنا تھا۔ اُس کے والد نے حال ہی میں … اُس کے لیے عمدہ قسم کا ریشمی کپڑا خریدا تھا۔ سوزن نے سوچا کہ صدر کمبل کے نئے سوٹ کے ساتھ اِس کپڑے کی خوبصورت ٹائی بہت اچھی لگے گی۔ سو سوموار کو اُس نے ٹائی تیار کی۔ اُس نے اُسے ٹشو پیپر میں لپیٹا اور صدر کمبل کے گھر گئی۔
”دروازے پر پہنچتے ہی، وہ اچانک رُکی اور سوچنے لگی، ’نبی کے لیے ٹائی بنانے والی میں کون ہوتی ہوں؟ اُن کے پاس شاید بہت سی ہوں گی۔‘ یہ سوچ کر کہ اُس نے غلطی کی ہے، وہ واپس جانے کے لیے مُڑی۔
”تبھی بہن کمبل نے دروازہ کھولا اور کہا، ’اوہ، سوزن!‘
لڑکھڑاتے ہوئے، سوزن نے کہا، ’اِتوار والے دِن میں نے صدر کمبل کو نیا سوٹ پہنے دیکھا تھا۔ والد صاحب میرے لیے نیویارک سے ریشمی کپڑا لائے تھے … لہٰذا میں نے اُن کے لیے ٹائی بنائی ہے۔‘
”اِس سے پہلے کہ سوزن مزید کہتی، بہن کمبل نے اُسے روک دیا، اُس شانوں پر ہاتھ رکھا، اور کہا: ’سوزن،فراخ دلی کو کبھی بھی دبانا نہیں چاہیے۔‘“۹
مجھے یہ بہت پسند ہے! ”فیاض دلی کو کبھی بھی دبانا نہیں چاہیے۔“ جب کبھی کسی کے لیے کچھ کرنے کا خیال ذہن میں آتا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ آیا یہ سرگوشی ہے یا مخص میرے اپنے خیالات۔ لیکن مجھے باور کرایا جاتا ہے کہ، ”لیکن دیکھو جو خُدا کی طرف سے ہے، مسلسل نیک کام کرنے کی دعوت دیتا اور راغب کرتا ہے؛ پس، ہر وہ بات جو نیکی کرنے، اور خُدا سے محبت رکھنے، اور اُس کی خدمت کرنے کے لیے مدعو اور راغب کرتی ہے، خُدا کے الہام سے ہے۔“۱۰
چاہے وہ واضح سرگوشیاں ہوں یا مخص مدد کرنے کا خیال، کوئی بھی اچھا کام رائیگاں نہیں جاتا، کیوں کہ ”محبّت کو زوال نہیں“۱۱—اور یہ کبھی بھی غلط جواب نہیں ہوتا۔
اکثر وقت نکالنا مُشکل ہوتا ہے، اور ہم اپنی خدمت کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے اَثرات کو بمُشکل جان پاتے ہیں۔ لیکن گاہے بگاہے، ہم جانیں گے کہ ہم خُدا کے ہاتھوں میں وسیلہ تھے اور ہم یہ جان کر شکر گزار ہوں گے کہ رُوحُ القُدس کا ہمارے ذریعے کام کرنا خُدا کی منظوری کا اظہار ہے۔
بہنو، آپ اور میں رُوحُ القُدس سے درخواست کر سکتی ہیں کہ وہ ہمیں ”سب باتیں بتائے جو [ہمیں] کرنی ہیں،“۱۲ بے شک ہمارے سرانجام دینے والے کاموں کی فہرست پہلے سے ہی طویل ہے۔ جب بچے کی پڑھائی، کسی دوست کی مزاج پُرسی، کسی پڑوسی کے بچوں کی دیکھ بھال، یا ہیکل میں خدمت گُزاری کے لیے ترغیب پاتے ہیں تو ہم دھونے والے برتنوں سے بھرا سنک اور اہم جواب طلب ای میلز کو چھوڑ سکتے ہیں۔ مجھے غلط نہ سمجھیں—میں خود منصوبہ ساز ہوں؛مجھے بھی فہرست سے چیزوں کو کاٹنا پسند ہے۔ مگر تسلی اِس بات کو جان کر ہوتی ہے کہ زیادہ مؤثر اِنسان ہونا زیادہ کام کرنے کے مترادف ہرگز نہیں۔ سرگوشیوں کی تقلید کے عزم سے بے قراری کا جواب ”اپنے وقت“ سے متعلق میری سوچ کو بدل دیتا ہے، اور میں لوگوں کورکاوٹیں نہیں بلکہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہوں۔
الہٰی بےقراری ہمیں مِسیح کے پاس لے جاتی ہے
الہٰی عدم اطمینان فروتنی کی طرف لے جاتا ہے، نہ کہ خود ترسی اور حوصلہ شکنی کی طرف جو کہ موازنہ کرنے سے پیدا ہوتی ہیں جس سے ہم ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔ عہد کو قائم رکھنے والی خواتین ہر قد اور صورت میں دستیاب ہوتی ہیں؛ اُن کے خاندان، اُن کی زندگی کے تجربات، اور اُن کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔
یقینا، ہم سب کی اپنی الہیٰ صلاحیت کم ہو گی، اور یہ حقیقت سچ ہے کہ اکیلے ہم کافی نہیں۔ لیکن اِنجیل کی خوشخبری یہ ہے کہ خدا کے فضل کے ساتھ، ہم کافی ہیں۔ مِسیح کی مدد سے، ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔۱۳ صحائف وعدہ کرتے ہیں کہ ”ہم فضل حاصل کریں گے جو ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے گا۔“ ۱۴
حیرت انگیز سچائی یہ ہے کہ ہماری کمزوریاں ایک نعمت بن سکتی ہیں جب یہ ہمیں فروتن بناتی ہیں اور مسیح کی طرف مائل کرتی ہیں۔۱۵ خود ترسی سے ہچکچانے کی بجائے، جب ہم یِسُوع مِسیح کے پاس حلیمی سے اپنی ضرورت کے ساتھ جاتے ہیں تو عدم اطمینان الہٰی بن جاتا ہے۔
دراصل،یسوع کے معجزات اکثر چاہت، ضرورت، ناکامی، یا ناکافی کی شناخت سے شروع ہوتے تھے۔ کیا آپکو روٹیاں اور مچھلیاں یاد ہیں؟ انجیل کے ہر مصنف نے بتاتا ہے کہ کس طرح سے یسوع نے اپنی پیروی کرنے والوں کو معجزانہ طور پر کھانا کھلایا۔۱۶ لیکن کہانی شاگردوں کے فقدان کی شناخت کیساتھ شروع ہوتی ہے؛ انہوں نے جانا کہ انکے پاس صرف”جَوکی پانچ روٹِیاں اور دو مچھلِیاں ہیں مگر یہ اِتنے لوگوں میں کیا ہیں؟“۱۷ شاگرد درست تھے: ان کے پاس کھانا کافی نہیں تھا، لیکن انہوں نے یسوع کو وہ سب دے دیا، اور پھر اس نے معجزہ کیا۔
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپکی صلاحیتیں اور تحائف آئندہ کے کاموں کیلئے بہت کم تھے؟ میں نے ایسا محسوس کیا ہے۔ لیکن آپ اور میں اپنا سب کچھ مسیح کو سونپ سکتے ہیں، اور وہ ہماری کوششوں کو بڑھا دے گا۔ اگر آپ خدا کے فضل پر اعتماد رکھتے ہیں— توآپکی انسانی خطاوں اور کمزوریوں سمیت—آپ کی پیشکش کافی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک خدا سے ایک ہی نسل دور ہے—ہر ایک طفلِ خدا۔۱۸ اور جیسا اس نے کئی ادوار میں دونوں نبیوں اور عام مردوں اور عورتوں کے ساتھ کیا ہے، اُسی طرح آسمانی باپ ہمیں بھی تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سی۔ ایس۔ لوئیس نے خُدا کی تبدیلی کی طاقت کی اِس طرح سے وضاحت کی ہے: ”اپنے آپ کو ایک زندہ گھر کے طور پر تصور کریں۔ خُدا اِس گھر کو دوبارہ بنانے کیلئے آتا ہے۔ پہلے پہل، شاید، آپ سمجھ سکیں کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ وہ پانی کے نکاس کو ٹھیک کر رہا ہے اور چھت کے شگافوں کو بند کر رہا ہے اور اِسی طرح کے دیگر امور؛ جو آپ جانتے تھے کہ ضروری تھے اور آپ پریشان نہیں ہوتے۔ پھر اچانک وہ گھر میں ایسی بڑی بڑی تبدیلیاں کرنا شروع کرتا ہے جس سے شدید صدمہ ہوتا ہے۔ … [آپ دیکھیں،] وہ آپ کی سوچ سے بالکل مختلف گھر تعمیر کر رہا ہے۔ … آپ نے سوچا کہ آپ کو معقول سی چھوٹی سی جھونپڑی بنایا جا [رہا] ہے: لیکن وہ محل تعمیر کررہا ہے۔ وہ خود اِس میں آنے اور رہنے کا اِرادہ رکھتا ہے۔“۱۹
ہمارے نجات دہندہ کی قربانی کی وجہ سے، ہم اپنے آیندہ کے کاموں کے لائق بن سکتے ہیں۔ نبیوں نے سکھایا ہے کہ ہم شاگردی کے راستے پر چلتے ہُوئے مِسیح کے فضل سے پاک ہو سکتے ہیں۔ الہٰی بے قراری ہمیں اِیمان سے آگے بڑھنے، نجات دہندہ کے نیکی کرنے کی دعوت پر عمل پیرا ہونے، اور اپنی اپنی زندگیاں عجز و اِنکسار سے اُس کے سپُرد کرنے کے لیے آمادہ کر سکتی ہے۔ یِسُوع مِسیح کے نام پر، آمین۔