۲۰۱۰–۲۰۱۹
بے لوث خدمت کی خوشی
اکتوبر ۲۰۱۸


2:3

بے لوث خدمت کی خوشی

ہم نے اپنے آسمانی باپ سے وعدہ کیا ہے کہ ہم اُس کی اور دوسروں کی خدمت محبت کے ساتھ کریں گے اور ہر بات میں اُس کی مرضی کو پورا کریں گے۔

گزشتہ مجلس عامہ کے بعد، بہت سے لوگوں نے اِسی سوال کے ساتھ مجھ سے رابطہ کیا: ”کیا وہ کرسیاں آرام دہ ہیں؟“ میرا جواب ہر بار ایک ہی ہوتا تھا: ”اگر آپ کو وعظ کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تو وہ کرسیاں بہت آرام دہ ہیں۔“ یہ سچ ہے، ہے ناں؟ میری کرسی اِس مجلس میں اِتنی آرام دہ نہیں ہے، لیکن آج شام کو آپ سے کلام کرنا میرے لیے واقعی باعثِ عزت اور باعثِ برکت ہے۔

بعض اوقات خدمت کرتے ہوئے، ہمیں مختلف نشستوں پہ بیٹھنا پڑ تا ہے۔ جن میں سے کچھ بہت آرام دہ ہوتی ہیں اور کچھ نہیں، مگر ہم نے اپنے آسمانی باپ سے وعدہ کیا ہے کہ ہم اُس کی اور دوسروں کی خدمت محبت کے ساتھ کریں گے اور ہر بات میں اُس کی مرضی کو پورا کریں گے۔

چند برس قبل، کلیسیا میں نوجوانوں نے سیکھا کہ ”جب آپ ’خُداکی خدمت کا آغاز کرتے ہیں‘ [عقائد اور عہود ۴:‏۲]، تو آپ سب سے بڑے سفر کے لیے شامل ہو جاتے ہیں۔ آپ خُدا کی مدد کرتے ہیں کہ اُس کے کام کو سُبک رفتاری سے کیا جائے، اور یہ اِنتہائی اعلیٰ و ارفع، راحت افزا اور نرالا تجربہ ہے۔“۱ یہ سفر سب—عمر والوں—کو میسر ہے اور یہ وہی سفر ہے جس کو ہمارے پیارے نبی نے ”عہد کے راستے“ کا نام دیا ہے۔۲

بدقسمتی سے، ہم خود غرض دُنیا میں رہتے ہیں جہاں لوگ مسلسل یہ تقاضا کرتے ہیں، ”مجھے کیا فائدہ ہوگا؟“ یہ تقاضا کرنے کی بجائے کہ، ”آج میں کس کی مدد کر سکتا ہوں؟“ یا ”میں اپنی بلاہٹ کے تحت خُداوند کی کیسے بہتر خدمت کرسکتا ہوں؟“ یا ”کیا میں اپنا سب کچھ خُداوندکو سونپ رہا ہوں؟“

بہن اور بھائی انٹونیٹی
وکٹوریا انٹونیٹی

میری زندگی میں بےلوث خدمت کی ایک عظیم مثال بہن وکٹوریا انٹونیٹی ہے۔ ارجنٹائن کی جس شاخ میں میری پرورش ہوئی وہاں وکٹوریا میری پرائمری کی معلمہ تھی۔ ہر منگل کی دوپہر کو، جب ہم پرائمری کے لیے جمع ہوتے، تو وہ ہمارے لیے چاکلیٹ کیک لاتیں۔ میرے سوا، ہر کسی کو کیک بہت پسند تھا۔ مجھے چاکلیٹ کیک ناپسند تھا! وہ بہت اصرار کرتیں کہ میں کیک کھاؤں، اِس کے باوجود میں اُس کی دعوت کو ٹھکرا دیتی۔

ایک دن جب اُس نے باقی سب بچوں میں چاکلیٹ کیک بانٹ دیا، تو بعد ازاں میں نے اس سے پوچھا، ”آپ مختلف ذائقے کا کیک کیوں نہیں لاتی ہیں—جیسے کہ سنترہ یا وینیلا؟“

ہلکا سا مُسکرانے کے بعد، اُس نے مجھےکہا،”تم تھوڑا سا چکھو تو سہی؟ اِس کیک میں بڑا خاص مسالا ڈالا گیا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ جب تم اِسے چکھو گی تمھیں پسند آئے گا!“

میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، اور مجھے تعجب ہوا، کہ سب مزے مزے سے کیک کھا رہے تھے۔ میں اسے چکھنے پر راضی ہو گئی۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ہوا؟ مجھے وہ مزے دار لگا! مجھے پہلی بار چاکلیٹ کیک مزے دار لگا تھا۔

کئی برسوں بعد مجھے بہن انٹونیٹی کے چاکلیٹ کیک کے مسالے کا راز معلوم ہُوا۔ میرے بچے اور میں ہر ہفتے اپنی والدہ کے پاس جاتے تھے۔ ایک بار جب میں اُن کے پاس تھی، میری ماں اور میں چاکلیٹ کیک کھا رہی تھیں، اور میں نے بتایا کہ مجھے کس طرح پہلی بار یہ کیک پسند آیا۔ پھر اُنھوں نے مجھے باقی کی کہانی سُنائی۔

”دیکھو، کرس،“ میری ماں نے کہا، ”وکٹوریا اور اُس کا خاندان مالی طور پر تنگ دست تھے، اور ہر ہفتے وہ اپنے چار بچوں کو پرائمری لے جانے کے لیے بس کے کرایے یا پرائمری کلاس کے لیے چاکلیٹ کیک بنانے کے مسالوں کو خریدنے کا سوچتی تھی۔ اس نے ہمیشہ بس کی بجائے چاکلیٹ کیک کو ترجیح دی، وہ اور اُس کے بچے، موسم کی پروا کیے بغیر، یکطرفہ، دو میل[۳ کلومیٹر] سے زائد کا سفر طے کرتے تھے۔“

اُس دن مجھے چاکلیٹ کیک کی اَصل لذت کا اَندازہ ہُوا۔ زیادہ اہم بات، مجھے وکٹوریا کے کیک میں اُس خاص مسالے کا راز معلوم ہو گیا وہ پیار تھا اُن کے لیے جن کی وہ خدمت کرتی تھی اور ہمارے واسطے اُس کی بے لوث قربانیاں تھیں۔

وکٹوریا کے کیک کا خیال آتے ہی مجھے بے لوث دائمی قربانی کی باتیں یاد آتی ہیں جو خُداوندنے اپنے شاگردوں کو ہیکل کے خزانے کی طرف جاتے ہوئے سکھائی تھیں۔ اِس کہانی سے آپ واقف ہیں۔ بزرگ جیمز ای تالمیج نے سکھایا کہ وہاں ۱۳ صندوق ہوتے تھے، ”اور لوگوں نے اُن میں [مختلف] مقاصد کے لیے ہدیہ جات ڈالے جو کہ [اُن]ڈبوں پر تحریر تھے۔“ یِسُوع نے ہدیہ دینے والوں کی قطاروں کو دیکھا، جو مختلف اقسام کے لوگوں پہ مشتمل تھیں۔ بعض نے اپنے ہدیے ”خلوصِ نیت“ سے ادا کیے جب کہ دوسروں نے ”چاندی اور سونے کی بڑی مقدار“ میں اپنے عطیہ جات کی ادائیگی دِکھاوے، شہرت، اور ستایش کی غرض سے کی تھی۔

”بہت سے لوگوں کے درمیان ایک کنگال بیوہ تھی، جس نے … آ کر دو چھوٹے کانسی کے سِکے ڈالے جو دمڑیاں کہلاتے تھے؛ اُس کا ہدیہ امریکی سینٹ(پیسے) کے نصف سے کم تھا۔ خُداوندنے اپنے شاگِردوں کو پاس بُلایا، اُن کی توجہ اُس کنگال بیوہ اور اُس کی سخاوّت کی طرف دلائی،اور کہا: ’مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں، جو ہَیکل کے خزانہ میں ڈال رہے ہیں اِس کنگال بیوہ نے اُن سب سے زیادہ ڈالا: کیوں کہ سبھوں نے اپنے مال کی بہُتات سے ڈالا؛ مگر اِس نے اپنی ناداری کی حالت میں جو کچھ اِس کا تھا، یعنی اپنی ساری روزی ڈال دی‘ [مرقس ۱۲:‏۴۳–۴۴]۔“۳

بیوہ کی دمڑیاں

بیوہ کو اُس زمانے میں کوئی قابلِ قدر مقام معاشرے میں حاصل نہ تھا۔ وہ حقیقت میں اِس سے زیادہ قابلِ قدر شے کی مالک تھی: اُس کے اِرادے نیک تھے، اور اُس نے اپنا سب کچھ دے دیا۔ شاید اُس نے دوسروں کے مقابلے میں کم، دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خاموشی سے، دوسروں کے مقابلے میں مختلف انداز سے دیا۔ بعض کی نظروں میں، اُس نے بہت کم دیا، مگر نجات دہندہ، ”دل کے خیالات اور اِرادوں کو پرکھنے والے،“ کی نگاہوں میں،۴ اُس نے اپنا سب کچھ دے دیا۔

بہنو، کیا ہم اپنا سب کچھ خُداوندکو بغیر کسی غرض کے دے رہی ہیں؟ کیا ہم اپنے وقت اور صلاحیتوں کی قربانی دے رہی ہیں تاکہ نوجوان نسل خُداوند سے پیار اور اُس کے حکموں کی پیروی کرنا سیکھ سکے؟ کیا ہم اپنے ارد گرد والوں اور جن لوگوں کے لیے ہمیں مقرر کیا گیا ہے دونوں کی خدمت بڑی احتیاط اور جاں فشانی سے کر رہی ہیں—وقت اور ہمت کی قربانی دیتے ہوئے جو دوسری جگہوں پر صرف ہو سکتی تھیں؟ کیا ہم دو عظیم حکموں پر عمل کرتی ہیں—خُدا اور اُس کے بچوں سے محبت رکھیں؟۵ اکثر یہ محبت خدمت سے ظاہر ہوتی ہے۔

صدر ڈیلن ایچ اوکس نے سکھایا: ”ہمارے نجات دہندہ نے خود کو بےلوث خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ اُنھوں نے سکھایا کہ ہم میں سے ہر ایک دوسروں کی خدمت کرنے کے لیے اپنے خودغرض مفادات کا اِنکار کر کے اُس کی پیروی کرے۔“

اُنھوں نے مزید کہا:

”دوسروں کی خدمت میں اپنے آپ کو کھونے کی ایک عام مثال … والدین کی اپنے بچوں کے لیے قربانی دینا ہے۔ ماؤں کو ہر بچے کو پیدا کرنے اور پالنے کے لیے درد سہنا اور اپنے ذاتی آرام و سکون اور دل چسپیوں کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ والدوں کو اپنے اپنے خاندان کی ذُمہ داری اُٹھانے کے لیے اپنی زندگیوں اور ترجیحات کی اِصلاح کرنا ہے۔ …

”… اُن لوگوں کی طرف سے بھی ہمیں تسلی ہے جو معذور خاندانی اراکین اور عمر رسیدہ والدین کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اِن خدمات کے عوض یہ نہیں پوچھا جاتا کہ، مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ ضروری ہے کہ بے لوث خدمت کے لیے ذاتی آرام کو ایک طرف رکھا جائے۔ …

”[اور] یہ سب ابدی اُصول کی وضاحت کرتا ہے کہ جب ہم، مدد لینے کے بجائے، خدمت اور مدد کے لیے عمل پیرا ہوتے ہیں تو ہم زیادہ پُر مسرت اور معمور ہوتے ہیں۔

”ہمارا نجات دہندہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ضروری قربانیاں دیتے ہوئے دوسروں کی بے لوث خدمت میں کھو جانے کے لیے ہمیں اُس کی پیروی کرنا چاہیے۔“۶

صدر تھامس ایس مانسن نے بھی سکھایا ”شاید جب ہم اپنے خالقِ حقیقی کے روبرو ہوں گے تو، ہم سے پوچھا نہیں جائے گا کہ، ’آپ کو کتنی بلاہٹیں ملیں؟‘ بلکہ، ’کتنے لوگوں کی آپ نے مدد کی؟‘ درحقیقت، آپ اُس وقت تک خُداوند سے محبت نہیں کر سکتے جب تک آپ اُس کے لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے اُس کی خدمت نہ کریں۔“۷

دوسرے لفظوں میں، بہنو، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم آرام دہ نشستوں پہ بیٹھیں یا ہم آخری صف کی زنگ آلود کُرسی پہ بیٹھ کر اِس اجلاس کے ختم ہونے کا اِنتظار کریں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگر ہم، حسبِ ضرورت، روتے ہوئے بچے کو چُپ کرانے کے لیے بغلی کمرہ میں چلے جائیں۔ جس بات سے فرق پڑے گا وہ یہ کہ ہم خدمت کرنے کی نیت سےآئیں ہیں، کہ ہم نے اُن پر توجہ دی جن کی ہم خدمت گُزاری کرتے ہیں اور اُن سے خُوش اَخلاقی سے ملتے ہیں، اور اپنی ساتھ والی صفوں پر بیٹھنے والوں سے مُلاقات کرتے ہیں—دوستانہ سلوک سے پیش آتے ہیں اگرچہ ہم اُن کی خدمت گُزاری پر مامور نہیں ہیں۔ اور اِس بات سے ضرور فرق پڑے گا کہ ہماری خدمت کا ہر عمل قربانی اور محبت کے خاص مسالے میں گُندھا ہُوا ہو۔

میں یہ بات جان گئی ہُوں کہ کامیاب اور مؤثر مُعلمہ بننے کے لیے ہمیں چاکلیٹ کیک بنانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ یہ کیک کی بات نہیں تھی۔ اِس عمل کے پیچھے محبت تھی۔

میں گواہی دیتی ہوں کہ محبت کو قربانی کے وسیلے سے مقدس بنا دیا گیا ہے—معلمہ کی قربانی اور حتیٰ کہ ابنِ خُدا کی حتمی اور ابدی قربانی کے وسیلے سے۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ وہ زندہ ہے! میں اُس سے پیار کرتی ہوں اور خودغرض خواہشات کو دور کرنے کی آرزو مند ہوں تاکہ اُس کی مانند محبت اور خدمت کرسکوں۔ یِسُوع مِسیح کے نام پر، آمین۔

حوالہ جات

  1. اَنجمنِ فرزندان کی صدارت، ”یہ حیرت خیز کارنامہ،“ لیحونا، جنوری ۲۰۱۵، ۴۹۔

  2. رسل ایم نیلسن، ”جب ہم یک دل ہو کر آگے بڑھتے ہیں،“ لیحونا، اپریل ۲۰۱۸، ۷۔

  3. جیمز ای ٹالمیج،Jesus the Christ (۱۹۱۶), ۵۶۱۔

  4. عقائداور عہد ۳۳:‏۱۔

  5. دیکھیے متی ۲۲:‏۳۷، ۳۹۔

  6. ڈیلن ایچ اوکس، ”بے لوث خدمت،“ لیحونا،مئی ۲۰۰۹، ۹۳، ۹۶۔

  7. تھامس ایس مانسن، ”Great Expectations“ (برگھم ینگ یونیورسٹی وعظ، ۱۱ جنوری ۲۰۰۹)، ۶، speeches.byu.edu۔