اپنے تئیں یِسُوع مِسیح کانام اپنانا
میری دُعا ہے کہ ہم اپنے تئیں یِسُوع مِسیح کا نام اپنائیں گے—نظر کرتے ہُوئے جیسے وہ نظر کرتا ہے، خدمت کرتے ہُوئے جیسے اُس نے خدمت کی، اور توکل کرتے ہُوئے کہ اُس کافضل کافی ہے۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو حال ہی میں، صدر رسل ایم نیلسن کی طرف سے کلیسیا کو اُس کے اِلہامی نام سے پُکارنے کے اِقدام پر جب میں غور کر رہا تھا، میں نے وہ حوالہ پڑھا جہاں نجات دہندہ نے نیفیوں کو کلیسیا کے نام کے بارے میں ہدایت دی تھی۔۱ جوں ہی میں نے نجات دہندہ کا کلام پڑھا، میں اِس بات پر حیران ہوگیا کیسے اُس نے لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ ”تم مِسیح کانام اپناؤ۔“۲ اِس بات نے مجھے مجبور کیا کہ اپنے آپ پر نظر کروں اور پوچھوں، ”کیا میں نجات دہندہ کا نام اپنا رہا ہوں جیسے وہ مجھ سے چاہتا ہے؟“۳ آج میں اُن چند تاثرات کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو اپنے سوال کے جواب میں پائے۔
اَوّل، مِسیح کے نام کو اپنانے کا مطلب ہے کہ ہم اِیمان داری سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے خُدا دیکھتا ہے۔۴ خُدا کیسے دیکھتا ہے؟ جوزف سمتھ نے فرمایا، ”اگرچہ نسلِ اِنسانی کا ایک گروہ دوسرے گروہ کی بڑی بے رحمی سے عدالت کرتے ہُوئے مُجرم ٹھہرا رہا ہے، کائنات کا بُزرگ باپ کُل اِنسانی خاندان پر پدرانہ اندیشے اور مادرانہ شفقت کے ساتھ نظر کرتا ہے“ کیوں کہ ”اُس کی محبت اِدراک سے باہر ہے۔“۵
چند برس قبل میری بڑی بہن رحلت فرما گئی۔ اُس کی زندگی مشکلات سے دوچار تھی۔ وہ اِنجیل پر نہ عمل پیرا ہُوئی اور نہ کبھی حقیقت میں فعال تھی۔ اُس کے خاوند نے اپنے ازدواجی رشتے کو ترک کر دیا تھا اور اُس کو چار چھوٹے بچّوں کی پرورش کرنا پڑی۔ جس شام کو اُس نے وفات پائی، کمرے میں اُس کے بچّوں کی موجودگی میں، میں نے اُسے اِطمینان سے گھر لوٹ جانے کے لیے برکت دی۔ اُس موقع پر میں نے محسوس کیا میں اکثر اپنی بہن کی زندگی کو آزمایشوں اور ناکامیوں کے تناظر میں واضح کرتا رہا تھا۔ اُس شام کو جب میں نے اپنے ہاتھ اُس کے سر پر رکھے، میں نے روح سے شدید سرزنش پائی۔ میں نے واضح طور پر اُس کی نیکی کی آگاہی پائی اور اُس کو ایسے دیکھنے کی توفیق نصیب ہُوئی جیسے خُدا نے اُسے دیکھا تھا—نہ کہ جیسے کوئی اِنجیل اور زندگی سے لڑتا رہا ہو، بلکہ جس طرح کسی نے اذیت ناک حالات کا مقابلہ کیا ہو جس کا مجھے کوئی اندازہ ہی نہیں۔ میں نے اُس کو باوقار ماں کے رُوپ میں دیکھا جس نے، بہت سی پریشانیوں کے باوجود، چار خوب صورت،باکمال بچوں کی پرورش کی۔ میں نے اُسے ہماری والدہ کی سہیلی کے رُوپ میں دیکھا جس نے ہمارے والد کی وفات کے بعد سہارا دینے اور اُس کی رفیقِ کار بننے کےواسطے وقت صرف کیا۔
اپنی بہن کے ساتھ اُس آخری شام کے وقت، مجھے یقین ہے کہ خُدا مجھ سے سوال کر رہا تھا، ”کیا تم پہچان نہیں سکتے کہ تمھارے اِرد گرد ہر کوئی مقدس ہستی ہے؟“
برگھم ینگ نے سکھایا:
”میں تم مقدسین کو بڑی تاکید کرتا ہوں … مرد و خواتین کو ایسے سمجھنا جیسے وہ ہیں، نہ کہ جیسے کہ تم ہو۔“۶
کتنی بار اِس پر زور دیا گیا ہے—’ایسا شخص خطا کار ہے اور وہ مُقّدس نہیں ہو سکتا۔‘ … ہم سنتے ہیں کہ بعض قسم کھاتے اور جھوٹ بولتے ہیں … [یا] سبت کو توڑتے ہیں۔ … ایسے لوگوں کی عیب جوئی نہ کرو، کیوں کہ تم اُن کی بابت خُداوند کی مرضی نہیں جانتے۔ … [بلکہ] اُن کی برداشت کرو۔“۷
کیا تم میں سے کوئی تصور کر سکتا ہے کہ ہمارا نجات دہندہ تمھیں یا تمھاری پریشانیوں کو نظر انداز کرے گا؟ نجات دہندہ سامریوں، زناکاروں، محصول لینے والوں، کوڑھیوں، ذہنی مریضوں، اورگُناہ گاروں کو اپنی نظروں سے دیکھتا تھا۔ سب اُس کے باپ کے بچے تھے۔ سب بچائے جانے کے قابل تھے۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہو کہ اُس نے کسی ایسے سے مُنہ موڑا ہو، جس نے خُدا کی بادشاہی پر شک کیا ہو یا کسی کسی ایسے سے جو کسی بھی دُکھ میں مُبتلا ہو؟۸ میں تصور نہیں کر سکتا۔ ہر جان کی قدر مِسیح کی نظروں میں لامحدود ہے۔ ناکام ہونا کسی کے مُقدر میں نہیں ہے۔ ابدی زندگی سب کے لیے ممکن ہے۔۹
اپنی بہن کے بستر کے پاس روح کی تادیب سے، میں نے بہت بڑا سبق سیکھا؛ کہ ہم ویسے دیکھیں جیسے وہ دیکھتا ہے، ہماری فتح دوگنی ہو جائے گی—ہماری مُخلصی اور اُن کی مُخلصی جن سے ہماری باہمی رفاقت ہوتی ہے۔
دوم، مِسیح کا نام اپنے تئیں اپنانے سے مُراد، نہ صرف ہمیں چاہیے کہ ویسے دیکھیں جیسے خُدا دیکھتا ہے، بلکہ ہمیں کارِ خُدا سراَنجام دینا اور خدمت کرناہے جیسے خُداوند نے خدمت کی تھی۔ ہم دو بڑے حکموں پر عمل کرتے ہُوئے، خُدا کی مرضی کے تابع ہوں،اِسرائیل کو جمع کریں، اور اپنا نور لوگوں کے سامنے چمکنے دیں۔۱۰ ہم خُداوند کی بحال شُدہ کلیسیا کے عہود اور رُسوم پاتے اور عمل کرتے ہیں۔۱۱ جب ہم ایسا کرتے ہیں، تو خُدا ہمیں اپنے اپنے خاندان اور اپنی اپنی زندگی کو برکت عطا کرنے کی قدرت ودیعت کرتا ہے۔۱۲ اپنے آپ سے پوچھیں، ”کیا میں کسی کو جانتا ہوں جس کو اپنی زندگی میں آسمانی قدرت کی ضرورت نہ ہو؟“
جیسے جیسے ہم اپنی تخصیص کرتے ہیں خُدا ہمارے درمیان میں حیرت انگیز کام کرے گا۔۱۳ ہم اپنی تخصیص اپنے اپنے دِل کی طہارت سے کرتے ہیں۔۱۴ جب ہم اُس کی سُنتے ہیں تو اپنے دِلوں کی صفائی کرتے ہیں،۱۵ اپنے گُناہوں سے توبہ کرتے،۱۶ رُجوع لاتے،۱۷ اور محبت کرتے ہیں جیسے وہ محبت کرتا ہے۔۱۸ نجات دہندہ نے فرمایا، ”پس اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمھارے لیے کیا اَجر ہے؟“۱۹
میں نے حال ہی میں بُزرگ جیمز ای ٹالمیج کی زندگی کے تجربہ کی بابت جانا جس نے مجھے رُکنے اور سوچنے پر مجبور کردیا کہ میں اپنے ارد گرد والوں سے کیسے محبت رکھتا اور خدمت کرتا ہوں۔ بحیثیتِ نوجوان پروفیسر، رُسول مقرر ہونے سے پہلے ۱۸۹۲ میں خناق کی مہلک وباکے وسیع پھیلاؤ کے دوران میں بزرگ ٹالمیج کسی اجنبی خاندان سے ملے جو اُن کے گھر کے قریب رہتے تھے اور اِس مرض میں مُبتلا تھے اور وہ کلیسیا کے رُکن نہیں تھے۔ کوئی بھی اُس متاثرہ گھر کے اندر جانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ بُزرگ ٹالمیج، البتہ، فوراً اُس گھر کی طرف چل دیے۔ اُنھوں نےچار بچّوں کو دیکھا؛ اَڑھائی برس کے بچّے کو بستر پر مُردہ حالت میں پایا، پانچ اور دس برس کی عمر کے بچّوں کو شدید درد میں مُبتلا پایا اور تیرہ برس کی عمر کے بچّے کو اِنتہائی کمزور حالت میں دیکھا۔ والدین کو غم اور تکان سے نڈھال پایا ۔
بزرگ ٹالمیج نے میت اور سوگ واروں کو مدد فراہم کی، کمرے کو صاف کیا، گندے کپڑے اُٹھائے، اور بیماری سے متاثرہ غلاظت زدہ چیتھڑوں کو جلایا۔ اُنھوں نے پورا دِن کام کیا اور اَگلے دِن پھر واپس آئے۔ رات کو دس برس کی عمر کا بچّہ وفات پا گیا تھا۔ اُنھوں نے پانچ برس کی بچّی کو پکڑا کر اُٹھایا ہُوا تھا۔ بچّی کو زور سے کھانسی آئی اور خونی بلغم اُن کے چہرے اور کپڑوں پر ہر طرف پھیل گئی۔ وہ لکھتے تھے، ”اُس کو میں اپنے سے جُدا کرنا نہیں چاہتا تھا،“اور اُنھوں نے بچّی کو اُٹھائے رکھا اور بالآخر اُس نے اُن کے بازوؤں میں دم توڑ دیاتھا۔ اُنھوں نے تینوں بچوں کی تدفین میں مدد کی اور سوگ وار خاندان کے لیے خوراک اور صاف کپڑوں کا انتظام کیا۔ گھر لوٹنے پر،بھائی ٹالمیج نے اپنے کپڑے ضائع کیے، زنک کے محلول سے غسل کیا، اپنے آپ کو خاندان سے الگ رکھا اور بیماری کا ہلکا سا حملہ برداشت کیا ۔۲۰
ہمارے اِرد گِرد بہت سی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ مقدسین اپنے تئیں پاک بننے اور ہر کسی کی خدمت گُزاری کرنے سے نجات دہندہ کا نام اپناتے ہیں، اِس بات کی پروا کیے بغیر کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہوتے ہیں—جب ہم ایسا کرتے ہیں تو زندگیاں بچاتے ہیں۔۲۱
آخر میں، میرا اِیمان ہے کہ اپنے تئیں خُداوند کا نام اپنانے کے لیے اُس پر توکل کرنا لازم ہے۔ ایک دفعہ اِتوار کی عبادت کے دوران میں، کسی نوجوان لڑکی نے مجھ سے سوال کیا: ”میرے اور میرے دوست کے درمیان میں تعلقات ختم ہو گئے تھے، اور اُس نے کلیسیا کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ مجھے بتاتا ہے کہ وہ کبھی بھی اِس قدر خوش نہیں ہُوا تھا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟“
نجات دہندہ نے اِس سوال کا جواب اُس وقت دے دیا تھا جب اُس نے نیفیوں سے فرمایا، ”لیکن اگر [تمھاری زندگی] کی تعمیر میری اِنجیل پر نہیں ہوئی، بلکہ آدمیوں کے کاموں پر یا اِبلیس کے کاموں پر تعمیر ہُوئی ہے، تو میں تم سے سچ کہتا ہُوں، [تم اپنے] کاموں میں ایک عرصے تک شادمانی پاؤ [گے]، اور رفتہ رفتہ اَنجام قریب آئے گا۔“۲۲ یِسُوع مِسیح کی اِنجیل سے ہٹ کر دائمی شادمانی نہیں۔
میں نے اِس عبادت کے دوران میں، تاہم، کئی بھلے مانس لوگوں کے بارے میں سوچا جو بڑی بڑی مُشکلات میں ہوتے ہیں اور اَحکام پر عمل کرنا اُن کے لیے بہت دُشوار ہوتا ہے۔ میں نے خودسے پوچھا، ”نجات دہندہ اُن کو مزید کیا کہے گا؟۲۳ میرا اِیمان ہے وہ پوچھے گا، ”کیا تم مجھ پر بھروسہ کرتے ہو“۲۴ اُس عورت سے جس کو خون کی بیماری تھی،خُداوند نے کہا، ”تیرے اِیمان نے تجھے اچھا کیا،سلامتی سےچلی جا۔“۲۵
میرے پسندیدہ صحائف میں سے ایک یوحنا ۴:۴، ہے، جس میں یوں لکھا ہے، ”اور اُس کو سامریہ سے ہو کر جانا ضرور تھا“۔
مجھے وہ صحیفہ کیوں پسند ہے ؟ اگرچہ یِسُوع کو سامریہ جانے کی ضرورت نہ تھی۔ اُس کے دوَر کے یہودی سامریوں کو حقیر سمجھتے تھے اور وہ سامریہ کے اُوپر سے ہو کر گزرتے تھے۔ لیکن یِسُوع نے وہاں جا کر پہلی بار ساری دُنیا کے سامنے یہ اعلان کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہی آنے والا مِسیح ہے۔ اِس پیغام کے لیے، یِسُوع نے نہ صرف خارج شُدہ گروہ کو چُنا بلکہ ایسی عورت کو بھی—اور عام عورت کو نہیں بلکہ گُناہ گار عورت کو چُنا—جو اُس زمانے میں اپنے آپ کو کمترینوں سے بھی کمترین خیال کرتی تھی۔ میرا اِیمان ہے کہ یِسُوع نے یہ اِس لیے کیا کہ ہم میں سے ہر کوئی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ سمجھ لے کہ خُداوند کی محبت ہمارے خوف، ہماری علتوں، ہمارے شکوک و شبہات، ہماری آزمایشوں، ہمارے بکھرتے ہُوئے خاندانوں ،ہماری افسردگی اور پریشانیوں، ہماری لاعلاج بیماری، ہماری غربت، ہماری توہین، ہماری مایوسی، اور ہماری تنہائی سے بھی بڑھ کر ہے۔۲۶ وہ چاہتا ہے کہ سب جان لیں کہ نہ کوئی ایسی شے ہے اور نہ کوئی ایسا شخص جس کو وہ شفا دینے کے قابل نہ ہو اور دائمی خوشی نہ دے۔۲۷
اُس کا فضل کافی ہے۔۲۸ وہ تنہا اِن سب چیزوں سے نیچے اُترا ہے۔ اُس کے کفارے کی قدرت ہماری زندگی کی ہر پریشانی پر غالب آنے کی قدرت ہے۔۲۹ کنوئیں پرعورت کو پیغام یہ ہے کہ وہ ہماری زندگی کے حالات جانتا ہے۳۰ اور کہ ہم ہمیشہ تک اُس کے ساتھ چل سکتے ہیں اِس امر سے قطع نظر کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اِس کو اور ہم سب کو، وہ کہتا ہے، ”مگر جو کوئی اس پانی میں سے پیئے گا جو میں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ جو پانی میں اسے دوں گا وہ اس میں ایک چشمہ بن جائے گا، جو ہمیشہ کی زندگی کے لیے جاری رہے گا۔“۳۱
زندگی کے کسی بھی سفر میں تم کبھی بھی نجات دہندہ سےدُور کیوں جاؤ گے جو تم کو شفا دینے اور بچانے کی پوری قدرت رکھتا ہے؟ اُس پر بھروسہ کرنے کے لیے تمھیں جیسی بھی قیمت ادا کرنا پڑے وہ قابلِ قدر ہے۔ میرے بھائیو اور بہنو، آئیں آسمانی باپ اور اپنے نجات دہندہ یِسُوع مِسیح پر اپنے اپنے اِیمان کو تقویت دینے کا فیصلہ کریں۔
میں اپنے دِل کی اِنتہائی گہرائیوں سے گواہی دیتا ہُوں کہ کلیسیائے یِسُوع مِسیح برائے مقدسینِ آخری ایّام نجات دہندہ کی کلیسیا ہے–سچّے نبی کے وسیلے سے زندہ مِسیح راہ نمائی کرتا ہے۔ میری دُعا ہے کہ ہم اپنے تئیں یِسُوع مِسیح کا نام اپنائیں گے—نظر کرتے ہُوئے جیسے وہ نظر کرتا ہے، خدمت کرتے ہُوئے جیسے اُس نے خدمت کی، اور توکل کرتے ہُوئے کہ اُس کافضل کافی ہے۔ یِسُوع مِسیح کے نام پر، آمین۔