۲۰۱۰–۲۰۱۹
کلیسیا کا درست نام
اکتوبر ۲۰۱۸


2:3

کلیسیا کا درست نام

یِسُوع مِسیح نے ہمیں ہدایت فرمائی کہ کلیسیا اُس کے نام سے کہلائی جائے کیوں کہ یہ اُس کی قدرت سے معمور، اُس کی کلیسیا ہے۔

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، اس خوب صورت سبت کے دن ہم خُداوند کی عطاکردہ بہت سی برکات کے لیے مل کر شادمان ہیں۔ ہم یِسُوع مِسیح کی بحال شدہ اِنجیل کے متعلق آپ کی گواہیوں، اُس کے عہد کے راستے پر گام زن ہونے یا واپس جانے کے لیے دی گئی قربانیوں، اور اِس کلیسیا میں آپ کی مقدس خدمات کے لیے نہایت شکر گزار ہیں۔

آج آپ کے ساتھ اِنتہائی اہم معاملے پر گُفت و شُنید کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ چند ہفتوں پہلے، میں نے کلیسیا کے نام کے درست اندراج کے بارے میں بیان جاری کیا تھا۔۱ میں نے ایسا کیا کیوں کہ خُداوند نے اُس نام کی اہمیت کو جس کا حکم اُس نے اپنی کلیسیا کے لیے صادر کیا تھا میرے دماغ پر بھرپور طریقے سے نقش کر دیا، یعنی کلیسیائے یِسُوع مِسیح برائے مقدسین آخری ایّام۔۲

توقع کے مطابق، اِس بیان اور ہدایت نامه برائے ترمیم شدہ طریقہ کار پر ردِعمل۳ ملا جلا تھا۔ بہت سے اَرکان نے فوری طور پر اپنے بلاگس اور سماجی رابطے کے صفحات پر کلیسیا کا نام درست کیا۔ بعض حیران ہوئے کہ آخر کیوں، دُنیا بھر میں بہت کچھ رُو نما ہو رہا ہے، اِس ”معمولی“ سی بات پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اور بعض نے کہا یہ نہیں ہو سکتا، لہذا کوشش ہی کیوں کریں؟ مجھے اس بات کی وضاحت کرنے دیں کہ ہم اس مسئلے کے بارے میں کیوں اتنی زیادہ پروا کرتے ہیں۔ مگر پہلے مجھے بتانے دیں کہ اِس جدوجہد سے کیا مُراد نہیں ہے:

  • یہ نام کی تبدیلی نہیں ہے۔

  • یہ تشخص کی تبدیلی نہیں ہے۔

  • یہ بناوٹی نہیں ہے۔

  • یہ خام خیالی نہیں ہے۔

  • یہ تاثیر سے خالی نہیں ہے۔

بلکہ، یہ اِصلاح ہے۔ یہ خُداوند کا حکم ہے۔ جوزف سمتھ نے کلیسیا کا نام نہیں رکھا جس کے وسیلے سے یہ بحال ہُوئی؛ نہ مورمن نے رکھا۔ یہ نجات دہندہ تھے جنھوں نے خود فرمایا، ”پس آخری ایّام میں میری کلیسیا اِس نام سے کہلائی جائے گی، یعنی کلیسیائے یِسُوع مِسیح برائے مقُدسینِ آخری ایّام۔“۴

پہلے بھی، ۳۴عیسوی میں، ہمارے جی اُٹھے خُداوند نے اپنی کلیسیا کے اَرکان کو یہی ہدایت دی جب وہ امریکہ میں اُن کے پاس گیا۔ اُس وقت اُس نے فرمایا:

”تم کلیسیا کو میرے نام سے پُکارنا۔ …

”اور یہ میری کلیسیا کیسے ہو سکتی ہے جب تک کہ وہ میرے نام سے نہیں کہلاتی؟ کیوں کہ اگر کلیسیا موسیٰ کے نام سے کہلاتی ہے تو پھر یہ موسیٰ کی کلیسیا ہوئی؛ یا اگر یہ کسی آدمی کے نام سے کہلاتی ہے تو یہ اُسی آدمی کی کلیسیا ہوئی؛ لیکن اگر یہ میرے نام سے کہلائے تو پھر یہ میری کلیسیا ہے۔“۵

لہٰذا، کلیسیا کے نام پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ جب نجات دہندہ صاف صاف بتاتے ہیں کہ اُن کی کلیسیا کا نام کیا ہونا چاہیے اور حتیٰ کہ اپنے اعلان کا آغاز اس سے کرتے ہیں، ”پس میری کلیسیا اِس نام سے کہلائی جائے گی،“ تو وہ سنجیدہ ہیں۔ اور اگر ہم عُرفی ناموں کو استعمال کرنے یا اُن ناموں کو خود اپنانے یا حتیٰ کہ اُن کے ضامن بنتے ہیں، تو وہ رنجیدہ ہوتے ہیں۔

نام میں کیا رکھا ہے یا، اِس معاملے میں، عُرفی نام میں؟ جب کلیسیا کے عُرفی ناموں کی بات آتی ہے، جیسا کہ ”ایل ڈی ایس کلیسیا،“ ”مورمن کلیسیا،“ یا ”آخری ایام کی کلیسیا،“اِن ناموں میں سب سے زیادہ دُکھ کی بات نجات دہندہ کے نام کی تخفیف ہے۔ خُداوند کی کلیسیا سے خُداوند کے نام کو ہٹانا شیطان کی بہت بڑی فتح ہے۔ جب ہم نجات دہندہ کے نام کو رّد کرتے ہیں، تو ہم باریک بینی سے یِسُوع مِسیح کے اُن تمام کاموں کی پروا نہیں کرتے جو اُس نے ہمارے لیے سر انجام دیے ہیں—یعنی اُس کا کفارہ۔

خُداوند کے نقطۂ نظر سے اِس پر غور کریں: قبل از فنا پذیری میں وہ یہوواہ تھا، پُرانے عہد نامے کا خُدا۔ اپنے باپ کی ہدایت سے، وہ اِس اور دیگر دُنیاؤں کا خالق ہُوا۔۶ اُس نے اپنے باپ کی مرضی کو ماننے اور خُدا کے تمام بچوں کے لیے وہ فریضہ نبھانے کا فیصلہ کیا جو کوئی اور نہیں کر سکتا تھا! باپ کا اِکلوتا ترس کھا کر دُنیا میں مُجسم ہو کر آیا، بےرحمی سے اُس کی ملامت کی گئی، ٹھٹھّوں میں اُڑایا گیا اور اُس پر تھُوکا گیا اور اُس پر کوڑے برسائے گئے۔ گتسمنی باغ میں، ہمارے نجات دہندہ نے آپ کے لیے، میرے لیے اور ہر اُس اِنسان کے لیے جو کبھی زمین پر آیا تھا یا ہمارے بعد آئے گا سب کے ہر درد، ہر گناہ، اور سارے دکھ اور مُصیبیتں خود اپنے اُوپر لے لیں۔ اِس اِنتہائی کرب ناک بوجھ کے تلے، اُس کے ہر مسام سے خون بہہ نکلا۔۷ یہ سب تکلیفیں اُس وقت شدت اختیار کر گئیں جب اُس جگہ پر جِسے کھوپڑی کہتے ہیں اُس کو بے رحمی سے مصلُوب کیا گیا۔

اِن اِنتہائی کرب ناک تجربات اور بعد میں جی اُٹھنے سے—مِسیح کے لامحدود کفارہ کے وسیلے سے خُداوند نے سب کو بقا بخشی، اور ہماری توبہ کی شرط پر ہم میں سے ہر ایک کو گُناہ کے اثرات سے بچایا۔

نجات دہندہ کے جی اُٹھنے اور اُس کے رسولوں کی موت کے بعد، دُنیا کئی صدیوں تک تاریکی میں غرق ہُوئی۔ پھر ۱۸۲۰ میں، خُدا باپ اور اُس کا بیٹا، یِسُوع مِسیح، خُداوند کی کلیسیا کی بحالی کا آغاز کرنے کے لیے جوزف سمتھ پر ظاہر ہوئے۔

سب کچھ برداشت کرنے کے بعد—اور بنی نوع اِنسان کے لیے سب کچھ کرنے کے بعد—مجھے اِنتہائی افسوس کے ساتھ احساس ہوا کہ ہم نے نادانستہ طور پر خُداوند کی بحال شدہ کلیسیا کے لیے دوسرے ناموں کی منظوری دے دی ہے، جن میں سے ہر ایک یِسُوع مِسیح کے مقدس نام کو حذف کرتا ہے!

ہر اتوار جب ہم عشائے ربانی میں شریک ہوتے ہیں، تو ہم اپنے آسمانی باپ کے ساتھ باندھے گئے اپنے مقدس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم یِسُوع مِسیح، اُس کے بیٹے کا نام اپنے تئیں اپنانے کے لیے آمادہ ہیں۔۸ ہم اُس کی پیروی کرنے، توبہ کرنے، اُس کے حکموں کو ماننے اور ہمیشہ اُسے یاد رکھنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

جب ہم اُس کا نام اُس کی کلیسیا سے مِٹاتے ہیں، نادانستہ طور پر ہم اُس کو ہٹا رہے ہوتے ہیں جو ہماری زندگیوں کا مرکزی محور ہے۔

نجات دہندہ کا نام اپنے تئیں اپنانا—اپنے اعمال اور اپنے کلام کے ذریعے سے—دوسروں کے سامنے اِقرار کرنا اور اُس کی گواہی دینا بھی شامل ہے—کہ یِسُوع المِسیح ہے۔ کیا”مورمن“ کہنے والے شخص کو ناراض کرنے سے ہم اتنا ڈرتے ہیں کہ ہم نجات دہندہ کا دفاع کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں، اِس نام پرڈٹے رہنے میں جس نام سے اِس کی کلیسیا کہلائی جاتی ہے؟

اگر ہم مجموعی اور اِنفرادی طور پر یِسُوع مِسیح کے کفارہ کی قدرت تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں—ہماری طہارت اور شفا کرنے، ہماری مضبوطی اور بڑھوتی کرنے، اور بالآخر ہمیں سرفراز کرنے—ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم برملا اُس کو اِس قدرت کا وسیلہ تسلیم کریں۔ ایسا ہم اُس کی کلیسیا کو اُس نام سے بلا کر شروع کر سکتے ہیں جس کا اُس نے حکم دیا ہے۔

زیادہ تر دُنیا میں، خُداوند کی کلیسیا اِس وقت ”مورمن کلیسیا“ کے رُوپ میں پوشیدہ ہے۔ ہم خُداوند کی کلیسیا کے اَرکان جانتے ہیں اِس کا سر کون ہے: خود یِسُوع مِسیح۔ بدقسمتی سے، بہت سے لوگ جو مورمن کی اِصطلاح کو سنتے ہیں وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مورمن کی عبادت کرتے ہیں۔ ایسا نہیں! ہم اُس عظیم قدیم امریکی نبی کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔۹ مگر ہم مورمن کے شاگرد نہیں۔ ہم خُداوند کے شاگرد ہیں۔

بحال شدہ کلیسیا کے ابتدائی ایام میں، مورمن کلیسیا اور مورمنز جیسی اِصطلاحیں۱۰ اکثر تحقیر آمیز لقب تھے—یہ سنگین اور توہین آمیز اِصطلاحیں—اِن آخری ایّام میں یِسُوع مِسیح کی کلیسیا کو بحال کرنے سے خُدا کے ہاتھ کو روکنے کے لیے خاص منصوبے کے تحت تیار کی گئی تھیں۔۱۱

بھائیو اور بہنو، کلیسیا کے درست نام کو بحال کرنے کے خلاف بہت سے دُنیاوی دلائل موجود ہیں۔ ڈیجیٹل دُنیا کی وجہ سے جس میں ہم رہتے ہیں اور سرچ انجن کی پیش کارکردگی کی بدولت جو تقریباً ہر فوری معلومات کو تلاش کرنے میں ہم سب کی مدد کرتا ہے—بمشول خُداوند کی کلیسیا کے بارے میں معلومات کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس مقام پر اصلاح کرنا غیر دانشمندانہ ہے۔ دوسرے محسوس کرتے ہیں چوں کہ ہم بڑے وسیع پیمانے پر ”مورمنز“ اور ”مورمن کلیسیا“ کے لحاظ سے پہچانے جاتے ہیں،تو ہمیں زیادہ سے زیادہ اِستفادہ کرنا چاہیے۔

اگر یہ کسی اِنسان کی بنائی ہوئی تنظیم کی پہچان کے بارے میں بحث ہوتی، وہ دلائل غالب آ سکتے تھے۔ لیکن اِس اہم معاملے میں، ہم اُس کی طرف نگاہ کرتے ہیں کہ جس کی یہ کلیسیا ہے اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خُداوند کی راہیں، اِنسان کی راہیں نہ ہیں، اور نہ کبھی ہوں گی۔ اگر ہم صابر ہوں اور اگر ہم اپنے فرض کو اچھی طرح سے نبھائیں گے تو اِس اہم فریضہ کے دوران میں خُداوند ہماری راہ نمائی فرمائے گا۔ بہر حال، ہم جانتے ہیں کہ خُداوند اُن لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اُس کی مرضی کو پورا کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں، جیسے اُس نے سمندر کو پار کرنے کے لیے نیفی کی کشتی بنانے میں مدد فرمائی۔۱۲

ہم اِن غلطیوں کو درست کرنے کی جدوجہد میں شائستگی اور صبر کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ ذمہ دار میڈیا ہماری درخواست کے جواب میں ہمدردی کا مظاہرہ کرے گا۔

گزشتہ مجالسِ عامہ میں، بزرگ بنجمن ڈی ہویوس نے ایسے واقع کا ذکر کیا تھا۔ اُنھوں نے کہا:

”چند برس قبل میکسیکو میں کلیسیا کے اَمورِ عامہ کے عہدے پر خدمت کرتے ہوئے،[میرے ساتھی اور مجھے] ریڈیو ٹاک شو میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ … [پروگرام ڈائریکٹروں میں سے ایک] نے [ہم] سے پوچھا، ’کلیسیا کا نام اتنا طویل کیوں ہے؟ …‘

”میرا ساتھی اور میں اُس عمدہ سوال پر مسکرائے اور پھر اِس بات کی وضاحت پیش کی کہ کلیسیا کا نام کسی اِنسان نے منتخب نہیں کیا تھا۔ یہ نجات دہندہ کی طرف سے عطا کیا گیا تھا۔ … پروگرام ڈائریکٹر نے فوراً اور احتراماً جواب دیا، ’ہم بڑی مُسرت کے ساتھ اِس کو اِسی طرح دہرائیں گے۔‘“۱۳

وہ واقعہ ایک مثال فراہم کرتا ہے۔ فرداً فرداً، ہماری بھرپور شخصی کوششیں اِن غلطیوں کو دُرست کرنے کے لیے درکار ہوں گی جو بڑے عرصہ سے آہستہ آہستہ گُھس آئی ہیں۔۱۴ چاہے باقی دُنیا ہمارے اقدام کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں درست نام سے پُکارے یا نہ پُکارے۔ جب زیادہ تر دُنیا کلیسیا اور اِس کے اَرکان کو غلط ناموں سے بلائے تو ہم برہمی کا مُظاہرہ کریں البتہ ہم خود یہی کرتے ہیں تو یہ بڑی بدنیتی ہے۔

ہمارا ہدایت نامه برائے ترمیم شدہ طریقۂ کار مددگار ثابت ہوگا۔ لکھا ہے: ”پہلے حوالہ میں، کلیسیا کے مکمل نام کو ترجیح دی جائے: ’کلیسیائے یِسُوع مِسیح برائے مقدسین آخری ایام۔‘ جب مختصر [دوسرے] حوالے کی ضرورت پڑے تو، ’کلیسیا‘ یا ’یِسُوع مِسیح کی کلیسیا‘ جیسی اِصطلاحیں استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ’یِسُوع مِسیح کی بحال شدہ کلیسیا‘ بھی درست اصطلاح ہے اور اِس کے استعمال کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہیں۔“۱۵

اگر کوئی پوچھے کہ، ”کیا آپ مورمن ہیں؟“ تو آپ یہ جواب دے سکتے ہیں، ”اگر آپ پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں کلیسیائے یِسُوع مِسیح برائے مقدسین آخری ایام کا رکن ہوں، تو ہاں، میں ہوں!“

اگر کوئی پوچھے کہ، ”کیا آپ آخری ایام کے مقدس ہیں؟“۱۸ تو آپ جواب دے سکتے ہیں، ”ہاں، میں ہوں۔ میں یِسُوع مِسیح پر اِیمان لاتا ہوں اور اُس کی بحال شدہ کلیسیا کا رکن ہوں۔“

میرے عزیز بھائیو اور بہنو، میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ہم خُداوند کی کلیسیا کے درست نام کو بحال کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں گے، تو جس کی یہ کلیسیا ہے وہ اپنی قدرت اور رحمتوں کو آخری ایام کے مقدسین کے سروں پر اُنڈیلے گا،۱۷ ایسی جو ہم نے پہلے کبھی نہ دیکھیں ہوں گی۔ ہمیں خُدا کا علم اور قدرت حاصل ہوگی جس کی مدد سے ہم خُداوند کی دوسری آمد کے لیے دُنیا کو تیار کرنے کے مقصد سے یِسُوع مِسیح کی بحال شدہ اِنجیل کی برکتوں کو ہر قوم، نسل، زبان اور لوگوں تک پہنچائیں گے۔

تو، نام میں کیا رکھا ہے؟ لیکن جب خُداوند کی کلیسیا کے نام کی بات ہو، تو جواب ہے ”سب کچھ!“ یِسُوع مِسیح نے ہمیں ہدایت فرمائی کہ کلیسیا اُس کے نام سے کہلائی جائے کیوں کہ یہ اُس کی قدرت سے معمور، اُس کی کلیسیا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ خُدا زندہ ہے۔ یِسُوع المِسیح ہے۔ وہ آج اپنی کلیسیا کی قیادت کرتا ہے۔ میں یہ گواہی یِسُوع مِسیح کے مقدس نام پر دیتا ہوں، آمین۔

حوالہ جات

  1. ”خُداوند نے اُس نام کی اہمیت کو جس کا حکم اُس نے اپنی کلیسیا کے لیے صادر کیا تھا میرے دماغ پر بھرپور طریقے سے نقش کیا، حتیٰ کہ کلیسائے یِسُوع مِسیح مقدسین برائے آخری ایام۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آپ کو اُس کی مرضی کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ حالیہ ہفتوں میں، مختلف کلیسیائی راہ نماؤں اور محکموں نے ایسا کرنے کے لیے ضروری اقدامات اُٹھانے شروع کیے ہیں۔ اِس اہم معاملے کے بارے میں اضافی معلومات آنے والے مہینوں میں دستیاب ہوں گی“ (رسل ایم نیلسن،”The Name of the Church “ [سرکاری بیان، ۱۶ اگست، ۲۰۱۸] میں، mormonnewsroom.org)۔

  2. کلیسیا کے سابق صدور نے بھی اسی طرح کی درخواستیں پیش کی تھیں۔ مثال کے طور پر، صدر جارج البرٹ سمتھ نے کہا: ”اِسے مورمن کی کلیسیا بلا کر خُداوند کی بے حرمتی مت کریں۔ اُس نے اِسے مورمن کی کلیسیا نہیں کہا“ (مجلس کی کارروائی میں، اپریل ۱۹۴۸، ۱۶۰)۔

  3. دیکھیں “Style Guide—The Name of the Church,” mormonnewsroom.org۔

  4. عقائد اور عہود ۱۱۵:‏۴۔

  5. ۳ نیفی ۲۷:‏۷-۸۔

  6. دیکھیں موسیٰ ۱:‏۳۳۔

  7. دیکھیں عقائد اور عہود ۱۹:‏۱۸۔

  8. دیکھیں مرونی ۴:‏۳؛ عقائد اور عہود ۲۰:‏۳۷، ۷۷۔

  9. مورمن کی کتاب کے چار اہم مصنفوں میں سے ایک مورمن تھا، دوسروں میں نیفی، یعقوب اور مرونی شامل ہیں۔ سب خُداوند کے چشم دید گواہ تھے،اُس کے الہامی مترجم، نبی جوزف سمتھ کی مانند۔

  10. یہاں تک کہ لفظ مورمن آئٹ بھی اُن حقارت آمیز اِصطلاحوں میں شامل تھا جو کلیسیا کے ساتھ منسوب کی گئی تھیں (دیکھیں کلیسیا کی تاریخ، ۲: ۶۲–۶۳, ۱۲۶)۔

  11. دوسری حقارت آمیز اِصطلاحیں نئے عہد نامہ کے وقتوں میں بھی استعمال کی گئی تھیں۔ فیلِکس کے سامنے پولوس رسول کے مقدمے کے دوران میں، پولوس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ”ناصریوں کے بِدعتی فرقے کاسردار پایا“ گیا ہے (اعمال ۲۴:‏۵)۔ ”ناصریوں کے“ استعمال کے حوالے سے ایک مبصر نے لکھا: ”یہ حقارت آمیز نام عام طور پر مِسیحیوں کے ساتھ منسوب کیا جاتا تھا۔ اُنھیں اِس نام سے پُکارا جاتا تھا کیوں کہ یِسُوع ناصرت سے تھا“(Albert Barnes, Notes, Explanatory and Practical, on the Acts of the Apostles [1937], ۳۱۳)۔

    اِسی طرح، ایک اور تفسیر بیان کرتی ہے: ”جیسا کہ ہمارے خُداوند کو حقارت کے طور پر ’ناصری‘ کہا جاتا تھا (متی ۲۶:‏۷۱)، لہذا یہودی اُس کے شاگردوں کو بھی ’ناصری‘ کہتے تھے۔ وہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ یہ مسیحی ہیں، یعنی ممسوح کے شاگرد“ (The Pulpit Commentary: The Acts of the Apostles, ed. H. D. M. Spence and Joseph S. Exell [۱۸۸۴], ۲: ۲۳۱)۔

    اِسی ضمن میں، بزرگ نیل اے میکس ویل نے مشاہدہ کیا: ”صحائف کی تاریخ میں، ہم اَنبیا کی تذلیل کی بارہاں کوششوں کو دیکھتے ہیں تاکہ اُن کی بتذلیل کی جائے—مختلف حقارتی القاب سے اُن کی تحقیر کرنے کے واسطے۔ زیادہ تر، تاہم، اپنے ہم عصروں اور لا دینی تاریخ کی جانب سے نظر انداز کیے جاتے تھے۔ ویسے بھی، ابتدائی مسیحیوں کو مخص ’ناصریوں کا فِرقہ کہا جاتا تھا۔‘ (اعمال ۲۴ :۵۔)“ (” Out of Obscurity،“ انزائن، نومبر ۱۹۸۴، ۱۰)۔

  12. دیکھیے ‏۱ نیفی ۱۸:‏۱–۲۔

  13. بنجمن ڈی ہویوس، ” Called to Be Saints،“ لیحونا، مئی ۲۰۱۱، ۱۰۶۔

  14. چوں کہ یہ ہمارے اختیار میں نہیں کہ کوئی شخص ہمیں کیا پُکارے، ہم خود کو کس حوالہ سے پُکارتے ہیں اُس پر ہمیں مکمل اختیار حاصل ہے۔ اگر ہم اَرکان ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں تو ہم کیسے دوسروں سے کلیسیا کے درست نام کی تعظیم کی توقع کرسکتے ہیں؟

  15. Style Guide—The Name of the Church,” mormonnewsroom.org۔

  16. مقدس کی اصطلاح اکثر بائِبل مقدس میں استعمال کی گئی ہے۔ اِفسِیوں کے نام پولوس کے خط میں، مثال کے طور پر، اُس نے ہر باب میں کم از کم ایک بار مقدس کا لفظ اِستعمال کیاہے۔ مقدس وہ شخص ہے جو یِسُوع مِسیح پر ایمان لاتا اور اُس کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

  17. دیکھیں عقائد اور عہود ۱۲۱:‏۳۳۔