مُنّجی کے سَچّے شاگِرد
جب ہمارا مُنّجی اور اُس کی اِنجیل ایک ایسی بنیادی ساخت بن جاتی ہے جس کے اِرد گِرد ہم اپنی زِندگیوں کی تعمیر کرتے ہیں تو ہم دائمی خُوشی کو محسوس کرسکتے ہیں۔
حجَّی کی کتاب جو کچھ حد تک پرانے عہد نامے میں پوشیدہ ہے اُس میں لوگوں کے ایک ایسے گروہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جو بزرگ ہالینڈ کی مشورت کو استعمال کرسکتے تھے۔ وہ مسِیح کو اپنی زِندگیوں اور اپنی خدمت کا مرکز نہ بناتے ہوئے، ایک بڑی غلطی سرزد کر رہے تھے۔ حجَّی نے ایسی فکر انگیز لفظی مصوری کا نمونہ تیار کیا جس میں خُداوند نے اِن لوگوں کو ہَیکل کی تعمیر کرنے کے بجائے اپنے آرام دہ مکانوں میں رہنے کی سرزنش کی ہے۔
”کیا تمہارے لِئے مُسقف گھروں میں رہنے کا وقت ہے جب کہ یہ گھر ویران پڑا ہے؟
”اور اب ربُ الافواج یُوں فرماتا ہے کہ تُم اپنی روش پر غَور کرو۔
”تُم نے بہت سا بویا، پر تھوڑا کاٹا؛ تُم کھاتے ہو، پر آسودہ نہیں ہوتے؛ تُم پیتے ہو، پر پیاس نہیں بُجھتی؛ تُم کپڑے پہنتے ہو، پر گرم نہیں ہوتے اور مزدُور اپنی مزدُوری سُوراخ دار تھیلی میں جمع کرتا ہے۔
”ربُ الافواج یُوں فرماتا ہے کہ اپنی روش پر غَور کرو۔“۱
ہمیں خُدا کی چِیزوں سے زیادہ اُن چِیزوں کو ترجیح دینے کی بے کار وضاحتیں کتنی دِلپسند لگتی ہیں جن کی کوئی ابدی حیثیت نہیں ہوتی؟
ایک حالیہ عشائے ربانی کی عبادت جس میں مَیں نے شرکت کی، اُس میں واپس لوٹے ہوئے مبلغ نے ایک ایسے والد کا حوالہ دیا جس نے کامل طور پر اپنی تجویز کا خلاصہ اپنے بچوں سے یہ کہتے ہوئے پیش کیا، ”ہمیں یہاں جس چِیز کی ضرورت ہے وہ ہے کم وائی فائی اور زیادہ نیفی!“
مغربی افریقہ میں پانچ سال رہنے کے بعد، میں نے بہت سی مثالوں میں لوگوں کو قدرتی طور پر اور شرمندگی کے بغیر اِنجیل کو ترجیح دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ اِس کی ایک مثال گانا میں ٹائر کی مرمت اور پہیے کے توازن کے کاروبار کا نام ہے۔ مالک نے اِس کا نام ”دائی وِل الائنمینٹ“ رکھا ہے۔
جب ہمارا مُنّجی اور اُس کی اِنجیل ایک ایسی بنیادی ساخت بن جاتی ہے جس کے اِرد گِرد ہم اپنی زندگیوں کی تعمیر کرتے ہیں تو ہم دائمی خُوشی کو محسوس کرسکتے ہیں۔۲ اگرچہ، یہ بنیادی ساخت آسانی سے تخلیق کی جاسکتی ہے،اِس کے برعکس، دُنیاوی چِیزوں کے مطابق، اِنجیل کو محض ایک اختیاری اضافے یا اِتوار کے دن صرف دو گھنٹے کلیسیا میں شرکت کرنے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ایسے معاملے میں، ہماری مزدُوری ”سُوراخ دار تھیلی“ میں ڈالنے کے مترادف ہوتی ہے۔
حجَّی ہمیں پُرعزم ہونے—جیسا کہ ہم آسٹریلیا میں کہتے ہیں، اِنجیل کے موافق زِندگی گزارنے کے بارے میں ”فئیر ڈنکم“ ہوں۔ لوگ فئیر ڈنکم تب ہوتے ہیں جب اُن کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا۔
مَیں نے فئیر ڈنکم اور پُر عزم ہونے کے بارے میں تھوڑا سا رگبی کے کھیل سے سیکھا ہے۔ مَیں نے سیکھا کہ جب مَیں نے سخت محنت کی، جب مَیں نے اپنا سب کچھ دیا، تب مَیں کھیل سے سب سے زیادہ لطف اندوز ہوا۔
میرا رگبی کا پسندیدہ سال ہائی سکول کے بعد والا سال تھا۔ جس ٹیم کا مَیں رکن تھا وہ باصلاحیت اور پُرعزم دونوں تھی۔ ہم اُس سال کی چیمپئن ٹیم تھے۔ تاہم، ایک دن ہم نے ایک نچلے درجہ والی ٹیم کے ساتھ کھیل کھیلنا تھا، اور اُس کھیل کے بعد ہم سب نے عظیم، سالانہ کالج رقص پر اپنے اپنے ساتھی کے ساتھ جانا تھا۔ مَیں نے سوچا کیوں کہ یہ ایک آسان کھیل ہو گا، اِس لیے مجھے خود کو چوٹ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ مَیں رقص سے پوری طرح لطف اٹھا سکوں۔ اُس کھیل میں، ہم سخت ٹکراؤ کے دوران اُتنے پُرعزم نہیں تھے جتنا ہمیں ہونا چاہیے تھا، اور ہم ہار گئے۔ معاملات تب بدتر ہوئے، جب میچ کے اختتام پر میرا ہونٹ سُوج کر، زخمی ہو گیا جس نے میری بڑی ملاقات کے موقع پر میری ظاہری صورت کو بگاڑ دیا۔ شاید مجھے کچھ سیکھنے کی ضرورت تھی۔
بعد کے کھیل میں مجھے ایک بالکل مختلف تجربہ حاصل ہوا جس کے دوران مَیں مکمل طور پر پُرعزم تھا۔ ایک موقع پر ٹکراؤ کے دوران مَیں نیک نیتی کے ساتھ بھاگ گیا؛ تو فوراً ہی مَیں نے اپنے چہرے پر کچھ تکلیف محسوس کی۔ میرے والد نے یہ سکھایا تھا کہ مجھے کبھی بھی مخالف پر اپنی تکلیف ظاہر نہیں کرنی چاہیے تاہم، میں نے کھیلنا جاری رکھا۔ اُس رات، کھانے کی کوشش کرتے ہوئے، میں نے محسوس کیا کہ میں کچھ چبا نہیں پا رہا تھا۔ اگلی صبح، میں ہسپتال گیا، جہاں ایکسرے نے تصدیق کی کہ میرا جبڑا ٹوٹ گیا تھا۔ اگلے چھ ہفتوں تک میرا منہ تاروں کی مدد سے بند کیا گیا تھا۔
زخمی ہونٹ اور ٹوٹے ہوئے جبڑے کی اِس تمثیل سے اسباق حاصل کیے گئے تھے۔ چھ ہفتوں کے دوران ٹھوس کھانے کی اپنی غیرمطمئن طلب کی یادوں کے باوجود جب مَیں صرف مائع غذا لے سکتا تھا، مجھے اپنے ٹوٹے جبڑے کے بارے میں کوئی افسوس نہیں کیوں کہ یہ میری بہترین کارکردگی دِکھانے کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ لیکن مجھے زخمی ہونٹ پر پچھتاوا ہے کیوں کہ یہ میرے متذبذب رویے کی علامت تھا۔
اپنا سب کچھ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مستقل طور پر برکات میں لپٹے رہیں گے یا ہمیشہ کامیابی حاصل کریں گے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خُوشی پائیں گے۔ خُوشی مختصر اِطمینان یا عارضی مسرت نہیں ہے۔ خُوشی دائمی ہے اور یہ تب حاصل ہوتی ہے جب خُداوند ہماری کوششوں کو قبول کرتا ہے۔۳
اِس طرح کی قبولیت کی ایک مثال اولیور گرینجر کی کہانی ہے۔ جیسا کہ صدر بائڈ کے پیکر نے بیان کیا ہے: ”جب مُقدّسین کو کرٹ لینڈ سے زبردستی نکالا گیا تھا تو، … اولیور اُن کی جائیدادوں کو جتنے بھی کم مول میں وہ بکتیں اُن کو بیچنے کے لیے پِیچھے رہ گیا تھا۔ اُس کی کامیابی کا امکان بہت کم تھا۔ اور، واقعتاً، وہ کامیاب نہ ہو پایا تھا!“۴ صدارتِ اَوّل نے اُسے یہ کام کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی جو اگر ناممکن نہیں، مگر نہایت مشکل تھا۔ لیکن خُداوند نے اِن الفاظ میں اُس کی بظاہر ناکام کوششوں کی تعریف کی:
”میرا خادم اولیور گرینجر مجھے یاد ہے؛ دیکھو، میں تُم سے سَچّ کہتا ہوں، خُداوند یوں فرماتا ہے، کہ اُس کا نام مُقدّس یادگاری کے طور پر نسل در نسل، ابدالآباد قائم رہے گا۔
”چنانچہ، اُسے میری کلیسیا کی صدارتِ اَوّل کی مخلصی کے لیے دِلجمعی سے کوشش کرنے دو، … خُداوند یوں فرماتا ہے، اور جب وہ گِرے گا تو وہ پھر اُٹھ کھڑا ہو گا، کیونکہ اُس کی قربانی میرے حضور اُس کی کامیابی سے زیادہ مُقدّس ٹھہرے گی۔“۵
یہ بات ہم سب کے لیے سَچّ ہوسکتی ہے—ہماری کامیابیوں کی بجائے ہماری قُربانی اور کوششیں خُداوند کے نزدیک اہم ہیں۔
یِسُوع مسِیح کے سَچّے شاگِرد کی ایک اور مثال مغربی افریقہ کے کوٹ ڈی آئیوری میں ہماری ایک عزیز دوست ہے۔ یہ حیرت انگیز، وفادار بہن بھیانک جذباتی، اور حتیٰ کہ عرصہ دراز تک اپنے شوہر کے ہاتھوں جسمانی زیادتی کا بھی نشانہ بنی، اور بالآخر اُن کی طلاق ہوگئی۔ وہ ہمیشہ اپنے اِیمان اور اچھّائی میں ثابت قدم رہی، لیکن اپنے ساتھ ہونے والے اُس کے شوہر کے ظلم کی وجہ سے، وہ ایک لمبے عرصے تک شدید دُکھی رہی۔ اپنے خود کے اِلفاظ میں، وہ اپنا حال بیان کرتی ہے:
”اگرچہ میں نے کہا کہ میں نے اُسے معاف کردیا ہے، مگر میں ہمیشہ ایک زخم کے ساتھ سوتی تھی؛ میں نے کئی دنوں تک اُس زخم کو محسوس کیا۔ یہ زخم میرے دِل کو جلاتا تھا۔ میں نے کئی بار خُداوند سے دُعا کی کہ وہ اِس زخم کو مجھ سے دور کردے، لیکن اُس کی تکلیف اِس قدر شدید ہوتی تھی کہ مجھے پختہ یقین ہو گیا تھا کہ میں اپنی باقی ماندہ زِندگی اِس تکلیف کے ساتھ گزاروں گی۔ یہ اُس سے زیادہ تکلیف دہ تھا جب میں نے کم عمری میں اپنی ماں کو کھو دیا تھا؛ یہ اُس سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا جب میں نے اپنے والد اور حتیٰ کہ اپنے بَیٹے کو کھو دیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ تکلیف میرے دِل میں پھیل گئی تھی اور اِس نے میرے دل کو ڈھانپ دیا تھا، مجھے یہ تاثر دیتے ہوئے کہ میں کسی بھی وقت مرنے والی تھی۔
”دیگر اوقات میں مَیں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ مُنّجی میری صورتِ حال میں کیا کرتا، اور مَیں اِس کے بجائے یہ کہتی، ’خُداوند، میرے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔‘
”پھر ایک صبح، اُسے اپنی رُوح تک ڈھونڈتے ہوئے، میں نے اُس درد کو تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے میرا دِل اِس سب کی وجہ سے معمور ہو گیا تھا اور گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ وہ کہیں بھی موجود نہیں تھا۔ میرا ذہن تیزی سے اُن تمام وجوہات کا جائزہ لینا شروع ہوگیا جن کی وجہ سے مجھے تکلیف ہوتی [تھی]، لیکن مجھے تکلیف محسوس نہ ہوئی۔ میں نے سارا دن انتظار کیا کہ آیا میں دوبارہ اپنے دل کے درد کو محسوس کروں گی؛ مگر مجھے یہ درد محسوس نہ ہوا۔ تب میں نے گھٹنے ٹیکے اور خُدا کی شکر گزاری کی کہ خُداوند کی کفارہ دینے والی قُربانی نے مجھے شِفا بخشی تھی۔“۶
یہ بہن اب خُوشی سے ایک حیرت انگیز، وفادار آدمی کے ساتھ سربمہر ہوئی ہے جو اِسے گہری محبت کرتا ہے۔
مسِیح کے سَچّے شاگِرد ہونے کے ناطے ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ اور جب ہم ”[اپنی] روش پر غَور“ کرتے ہیں، جیسا کہ حجَّی نے تجویز کیا تو ہمارے نزدیک اِنجیل کی کیا قدر و قیمت ہوتی ہے؟
مجھے لمونی بادشاہ کے باپ کی طرف سے پیش کیے جانے والے درست رویے کی مثال بہت پسند ہے۔ آپ کو اُس کی ابتدائی ناراضگی یاد ہوگی جب اُس نے اپنے بیٹے کو عمون، ایک نیفی کے ساتھ دیکھا—ایک ایسی قوم والے کے ساتھ جس سے لامنوں کو نفرت تھی۔ اُس نے عمون کو قتل کرنے کے لیے اپنی تلوار اُٹھائی اور جلد ہی اُسے اپنے گلے پر عمون کی تلوار ملی۔ ”اب بادشاہ نے، اِس ڈر سے کہ کہیں وہ اپنی جان ہی نہ کھو دے، کہا: اگر تُو مجھے بخش دے تو جو تُو مانگے گا مَیں تمہیں دوں گا، یہاں تک کہ اپنی آدھی سلطنت بھی۔“۷
اُس کی پیش کش پر غور کریں—اپنی زِندگی کے عوث اپنی آدھی سلطنت۔
لیکن بعد ازاں، اِنجیل کو سمجھنے کے بعد، اُس نے ایک اور پیش کش کی۔ ”بادشاہ نے کہا: مَیں کیا کروں کہ ابدی زِندگی پاؤں جس کی بابت تُم نے کہا ہے؟ ہاں، مَیں کیا کروں کہ اپنے دِل سے اُس بُری رُوح کو اُکھاڑ پھینک کر، خُدا سے پیدا ہو سکوں، اور اُس کا رُوح پاؤں، تاکہ میں خُوشی سے معمور ہو جاؤں، تاکہ یومِ آخر میں باہر نہ نکال دیا جاؤں؟ اُس نے کہا، دیکھو، مَیں وہ سب کچھ جو میرے پاس ہے ترک کر دوں گا، ہاں مَیں یہ خُوشی پانے کے لیے اپنی سلطنت بھی چھوڑ دوں گا۔“۸
اِس بار، وہ اپنی ساری سلطنت ترک کرنے کے لیے تیار تھا، کیونکہ اُس کے نزدیک اِنجیل کی قدر و قیمت جو کچھ بھی اُس کے پاس تھا اُن سب سے زیادہ تھی! وہ اِنجیل کے بارے میں فئیر ڈنکم تھا۔
تاہم، ہم میں سے ہر ایک کے لیے بھی یہی سوال ہے کہ، کیا ہم اِنجیل کے بارے میں فئیر ڈنکم ہیں؟ کیوں کہ بے دلانہ ہونا ہم فئیر ڈنکم کے مترادف نہیں ہوتا! اور خُدا نِیم گرم کی تعریف کرنے کے لیے نہیں جانا جاتا۔۹
نہ ہی کوئی خزانہ، نہ ہی کوئی مشغلہ، نہ ہی کوئی حیثیت، نہ ہی کوئی سوشل میڈیا، نہ ہی کوئی ویڈیو گیمز، نہ کوئی کھیل، نہ ہی کسی مشہور و معروف شَخص کے ساتھ کوئی رفاقت، نہ ہی زمین پر کوئی ایسی چِیز موجود ہے، جو ابدی زِندگی سے زیادہ قیمتی ہو۔ لہذا ہر شَخص کے لیے خُداوند کی مشورت یہ ہے ”کہ اپنی روش پر غَور کرو۔“
میرے جذبات کا اِظہار نیفی کے اِن اِلفاظ کے ساتھ کیا جاسکتا ہے: ”مَیں بے باکی میں شادمان ہوں؛ مَیں سَچّائی میں شادمان ہوں؛ مَیں اپنے یِسُوع میں شادمان ہوں، کیوں کہ اُس نے میری جان کو جہنم سے مخلصی دی ہے۔“۱۰
کیا ہم اُس کے سَچّے پیروکار ہیں جس نے ہمارے لیے اپنا سب کچھ دے دیا؟ وہ جو ہمارا مُنّجی اور باپ کے سامنے ہمارا حمایتی ہے؟ وہ جو خود اپنی کفارہ دینے والی قُربانی میں پوری طرح مصروفِ عمل تھا اور اب اپنی محبّت، اپنی رحمت، اور اپنی خواہش کے موافق چاہتا ہے کہ ہم ابدی خُوشی حاصل کریں؟ میں اِن الفاظ کو سننے اور پڑھنے والوں سے التجا کرتا ہوں کہ: براہ کرم، اپنے پورے عزم کو اُس وقت تک ترک نہ کریں جب تک کہ آپ لاموجود، مستقبل میں اُس پر غالب نہ آئیں۔ ابھی فئیر ڈنکم ہوں اور خُوشی محسوس کریں! یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔