پاکیزگی اور خوشی کا منصوبہ
ذیادہ پاکیزگی سے ذیادہ ذاتی خوشی ملتی ہے۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو، میں التجا کہ ہے کہ آپ کی خوشی کی ذاتی کھوج میں آپ کی مدد کرنے کی قوت پا سکوں۔ ممکن ہے کہ آپ میں سے کچھ پہلے سے ہی بہت خوش ہوں، تاہم اور ذیادہ خوشی کی پیش کش کو کوئی رد نہیں کرتا۔ ضمانتی طور پر تادیر رہنے والی خوشی کو کوئی بھی بخوشی قبول کرے گا۔
زمین پر اِس وقت رہنے والے یا جو پہلے یہاں رہے ہیں اُن سب کو آسمانی باپ، اُس کا بیٹا یسوع مسیح اور روح القدس خوشی دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اِس پیش کش کو بعض اوقات خوشی کا منصوبہ کہا جاتا ہے۔ ایلما نبی نے اِس کو یہی نام دیا جب وہ اپنے بیٹے کو تعلیم دی رہا تھا جو گناہ کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ ایلما جانتا تھاکہ اُس کے اپنے بیٹے—یا آسمانی باپ کے کسی بھی بچے کے لیے بدکاری خوشی نہیں لا سکتی ۔1
اُس نے اپنے بیٹے کو سکھایا کہ پاکیزگی میں بڑھنا ہی خوشی کی جانب لے جاتا ہے۔ اُس نے واضع کیا کہ یسوع مسیح کے کفارہ کے ذریعے ہی پاکیزگی کو بڑھایا جا سکتا ہے جو ہمیں صاف اور کامل بناتا ہے۔2 ختم نہ ہونے والی خوشی جسے ہم پانا اور اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اس پر دعویٰ صرف یسوع مسیح پر ایمان، مسلسل توبہ اور عہود پر عمل کرنے سے کیا جا سکتا ہے۔
آج میری دعا ہے کہ میں آپ کی یہ سمجھنے میں مدد کروں کہ بڑھتی خوشی، بڑھتی ذاتی پاکیزگی سے آتی ہے تاکہ آپ اس عقیدے پر عمل بھی کر سکیں۔ پھر میں آپ کو بتاوں گا کہ میں ذاتی طور پر کیا جانتا ہوں کہ ہم زیادہ پاک ہونے کی نعمت کے اہل کیونکر ہو سکتےہیں۔
صحائف ہمیں سیکھاتے ہیں کہ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ ہم تب پاک کیے جاتے ہیں یا ذیادہ پاک تب ہوتے ہیں جب ہم مسیح پر ایمان کی مشق کرتے ہیں، ۳ اپنی فرمانبرداری ظاہر کرتے ہیں،۴ تو بہ کرتے ہیں،۵ اُس کے لیے قربانی دیتے ہیں،۶ مقدس رسوم پاتے ہیں اور اُس کے ساتھ باندھے عہود پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔۷ پاکیزگی کی نعمت کا حقدار ہونے کے لیے، فروتنی،۸ حلیمی،۹ اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔۱۰
مجھے مزید پاکیزگی چاہنے کا ایک تجربہ سالٹ لیک ہیکل میں ہوا۔ میں ہیکل میں پہلی بار گیا تھا اور مجھے بہت کم بتایا گیا تھا کہ مجھے کس چیز کی امید رکھنی چاہیے۔ میں نے عمارت پر ”خُداوند کے لیے پاکیزگی“ اور ”خُداوند کا مسکن“کے الفاظ دیکھے تھے۔ میری توقعات بہت سی تھیں۔ پھر بھی میں سوچتا تھا کہ آیا میں ہیکل میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوں۔
جب ہم ہیکل میں داخل ہوئے تو میری ماں اور باپ مجھے سے آگے چل رہے تھے۔ اپنے اہل ہونے کی تصدیق کے لیے ہم سے کہا گیا کہ ہم اپنے اجازت نامے دکھائیں۔
میرے والدین اجازت نامے دیکھنے والی میز پر بیٹھے آدمی کو جانتے تھے۔ تو وہ تھوڑی دیر رک کر اُس سے بات کرنے لگے۔ میں آگے بڑھ کر ایک کھُلی سی جگہ پر پہنچا جہاں سب کچھ دمکتا ہوا سفید تھا۔ میں نے اُوپر دیکھا چھت اتنی اونچی تھی کہ جیسے کُھلا آسمان ہو۔ اُس لمحے مجھے ایک واضع تاثر ملا کہ میں یہاں پہلے بھی آیا ہوں۔
لیکن پھر، میں نے ایک دھیمی آواز سنی — جو میری اپنی نہیں تھی۔ دھیمے بولے ہوئے الفاظ یہ تھے: تم یہاں پہلے کبھی نہیں آئے۔ تم اپنی پیدائش سے پہلے کا ایک لمحہ یاد کر رہے ہو۔ تم اسی کی طرح کی ایک مقدس جگہ میں تھے۔ تم نے محسوس کیا تھا کہ جس جگہ تم کھڑے ہو، نجات دہندہ وہاں آنے والا تھا۔ اور تم نے خوشی محسوس کی تھی کیونکہ تم اُس سے ملنے کے مشتاق تھے۔“
سالٹ لیک ہیکل میں یہ تجربہ صرف ایک لمحے کا ہی تھا۔ لیکن اُس کی یاد اب بھی اطمینان، شادمانی اور خوشی کا موجب ہے۔
اُس دن میں نے بہت کچھ سیکھا۔ روح القدس ساکن اور دھیمی آواز میں بات کرتا ہے۔ میں اُسے تب سن سکتا ہوں جب میرے دل میں روحانی سکون ہو۔ وہ میرے لیے خوشی کا احساس اور تصدیق لاتا ہے کہ میں مزید پاکیزہ ہو رہا ہوں۔ اور یہ میری لیے ہمیشہ اُس خوشی کا موجب بنتا ہے جو میں نے خُدا کی ہیکل میں اپنے اولین لمحوں میں محسوس کی تھی۔
آپ نے بڑھتی ہوئی پاکیزگی کے سبب اپنی زندگی یا دوسروں کی زندگیوں میں خوشی کا معجزہ دیکھا ہو گا۔ حالیہ ہفتوں میں میں ایسے لوگوں کے ساتھ رہا ہوں جو موت کا سامنہ، نجات دہندہ میں مکمل ایمان اور شادمان چہروں کے ساتھ کر سکتے ہیں۔
ایسا ہی ایک شخص تھا جس کے ارد گرد اُس کا خاندان تھا۔ جب میں اور میرا بیٹا داخل ہوئے تو وہ اور اُس کی بیوی آہستگی سے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ میں اُنہیں کئی سال سے جانتا تھا۔ میں نے اُن کی اور اُن کے خاندان کے ارکان کی زندگی میں یسوع مسیح کے کفارہ کو کام کرتے دیکھا تھا۔
اُنہوں نے اکٹھے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ زندگی کو طوالت دینے والی طبی کوششیں ختم کریں گے۔ جب وہ ہم سے باتیں کر رہا تھا تو ایک خاموش احساس موجود تھا۔ جب اُس نے انجیل اور اُس کی اپنی ذات اور اُس کے خاندان پر انجیل کے پاکیزہ بنانے کے اثرات کی بات کی تو وہ مسکرایا۔ اُس نے اُن شادمان سالوں کا ذکر کیا جب وہ ہیکل میں خدمت کرتا تھا۔ اُس آدمی کی درخواست پر میرے بیٹے نے اُس کے سر پر تقدیس شدہ تیل کا مسح کیا۔ اور میں نے مسح پر مہر کی۔ ایسا کرتے ہوئے مجھے واضع تاثُر ملا کہ اُسے بتاوں کہ وہ جلد ہی نجات دہندہ کو رو برو دیکھے گا۔
میں نے اُسے سے وعدہ کیا کہ وہ خوشی محبت اور نجات دہندہ کی قبولیت محسوس کرے گا۔ ہمارے وہاں سے جاتے ہوئے وہ گرم جوشی سے مسکرایا۔ میرے لیے اُس کے آخری الفاظ یہ تھے ”کیتھی سے کہنا کہ میں اُسے عزیز رکھتا ہوں“ میری بیوی کیتھلین نے پچھلے کئی سالوں میں اُس کے خاندان کی نسلوں کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ نجات دہندہ کے پاس آنے کی دعوت کو قبول کریں، مقدس عہود باندھیں اور اُن پر قئم رہیں، اور یوں اُس خوشی کے حقدار بنیں جو ذیادہ پاکیزگی کے نتیجے میں آتی ہے۔
کچھ گھنٹوں بعد اُس کی موت ہو گئی۔ اُس کی موت کے کچھ ہفتوں بعد اُس کی بیوہ، میری بیوی اور میں لیے ایک تحفہ لائی۔ جب ہم باتیں کر رہے تھے تو وہ مسکرائی۔ اور خشگوار انداز میں بولی ”مجھے لگتا تھا کہ میں بہت اُداس اور تنہا محسوس کروں گی۔ میں بہت خوش ہوں۔ آپ کو لگتا ہے کہ ٹھیک ہے؟“
یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنے خاوند سے کتنی محبت رکھتی تھی اور کیسے اُن دونوں نے خُداوند کو جانا، اُس سے محبت رکھی اور اُس کی خدمت کی تھی، میں نے اُسے بتایا کہ خوشی کا یہ احساس اُس کے لیے موعودہ تحفہ تھا کیونکہ اُسے اُس کی وفا دار خدمت کے ذریعے زیادہ پاکیزہ بنا دیا گیا تھا۔ اُس کی پاکیزگی نے اُسے اِس خوشی کے لائق بنایا تھا۔
آج سنتے ہوئے کچھ لوگ شائد سوچیں”مجھے اطمینان اور اُس خوشی کا احساس کیوں نہیں ملتا جس کا وفا داروں سے وعدہ کیا گیا ہے؟ میں تو بہت بڑی مشکلات میں وفادار رہا ہوں لیکن میں خوشی کیوں نہیں محسوس کرتا؟
نبی جوزف سمتھ نے بھی اس امتحان کا سامنہ کیا تھا۔ جب اُسے لبرٹی، میزوری کی جیل میں مقید رکھا گیا تھا تو اُس نے راحت کے لیے دعا کی۔ وہ خُداوند کے ساتھ وفا دار رہا تھا۔ وہ پاکیزگی میں بڑھا تھا۔ اُسے پھر بھی لکتا تھا کہ اُسے خوشی پانے سے روک دیا گیا ہے۔
خُداوند نے اُسے صبر کا سبق سکھایا، جس کی کسی نہ کسی وقت ہم سب کو ضرورت ہو گی، اور شائد اپنے فانی امتحان میں کافی دیر تک ہمیں اُسکی ضرورت ہو کی خُداوند کے لیے اپنے وفا دار اور تکلیف میں مبتلا نبی کے لیے یہ پیغام تھا:
”اگر تجھے کھائی میں پھینک دیا جائے یا قاتلوں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے اور تجھ پر موت کا حکم صادر ہو جائے، اگر تجھے گہراو میں پھینک دیا جائے، اور ٹھاٹھیں مارتی لہریں تیرے خلاف سازش کریں، اگر تُند ہوائیں تیری دشمن بن جائیں، اگر آسمان تاریکی اکٹھی کریں، اور تمام عناصر مل کر راستے میں رکاوٹ ڈالیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوزخ اپنا منہ پھاڑے تیرا پیچھا کرے، تو میرے بیٹے تو یہ جان لے کہ یہ سب چیزیں تجھے تجربہ دیں گی اور تیرے نفع کے لیے ہوں گی۔
” ابنِ آدم اِن سب سے نیچے اُترا ہے۔ کیا تُو اُس سے بڑھ کر ہے؟
اس لیے اپنی راہ پر قائم رہ، اور کہانت ہمیشہ تیرے ساتھ رہے گی، کیونکہ اُن کی حدیں مقرر ہیں جو وہ پار نہیں کر سکتے۔ تیرے دن معلوم ہیں اور تیرے سالوں کی گنتی میں کمی نہ ہو گی، اس لیے خوف نہ کھا کہ انسان کیا کر سکتا ہے، کیونکہ خُدا ہمشہ سے ہمشہ تک تیرے ساتھ ہے“۱۱
خُداوند نے ایوب کو بھی یہی ہدایتی سبق سکھایا جسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی کہ کفارہ اُسے مزید پاکیزہ بنائے۔ ہمیں اُس کا جو تعارف دیا گیا ہے اُس سے ہم جانتے ہیں کہ ایوب پاک تھا، ”عوض کی سرزمین میں ایوب نام ایک شخص تھا۔ وہ شخص کامل اور راستباز تھا اور خُدا سے ڈرتا اور بدی سے دور رہتا تھا۔“۱۲
پھر ایوب کی دولت، اُس کا خاندان، اور حتیٰ کہ اُس کی صحت بھی لے لی گئی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایوب کو شک تھا کہ اُس کی بڑھتی پاکیزگی نے، جو اُس نے بڑھی مشکلات کے سبب پائی تھی،اُسے بڑی خوشی کا اہل بنایا تھا۔ ایوب کو یوں لگتا تھا کہ پاکیزگی اُس کے لیے پریشانی لائی۔
تاہم خُداوند نے ایوب کو بھی وہی تصحیحی سبق سکھایا جو اُس نے جوزف سمتھ کو سکھایا۔ اُس نے ایوب کو اُس کے دل شکن حالات روحانی آنکھوں سے دکھائے۔ اُس نے کہا:
”مرد کی مانند اب اپنی کمر کس لےکیونکہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تو مجھے بتا۔
”تو کہاں تھا جب میں نے زمین کی بنیاد ڈالی؟ تو دانش مند ہے تو بتا۔
”کیا تجھے معلوم ہے کہ کس نے اُس کی ناپ ٹھہرائی؟ یا کس نے اُس پر سوت کھینچا؟
”کس چیز پر اُس کی بنیاد ڈالی گئی؟ یا کس نے اُس کے کونے کا پتھر بٹھایا؛
”جب صبح کے ستارے مل کر گاتے تھے اور خُدا کے سب بیٹے خوشی سے للکارتے تھے؟۱۳
پھر جب ایوب نے خُدا کو بے انصاف کہنے سے توبہ کی تو پھر ایوب کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنی آزمائشوں کو اعلیٰ تر اور یاک تر طریقے سے دیکھے۔ وہ توبہ کر چکا تھا۔
”تب ایوب نے خُداوند کو یوں جواب دیا،
”میں جانتا ہوں کہ تو سب کچھ کر سکتا ہے، اور کوئی تیرا ارادہ نہیں روک سکتا۔
”یہ کون ہے جو نادانی سے مصلحت پر پردہ ڈالتا ہے؟ لیکن میں نے جو نہ سمجھا وہی کہا، ایسی باتیں جو میرے لیے نہایت عجیب تھیں جن کو میں نہ جانتا تھا۔
”میں تیری منت کرتا ہوں سن، میں کچھ کہوں گا۔ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔
”میں نے تیری خبر کان سے سُنی تھی پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔
”اس لیے مجھے اپنے اپنے آپ سے نفرت ہے اور میں خاک اور راکھ میں توبہ کرتاہوں۔“۱۴
توبہ کرنے اور یوں اور پاک ہونے کے بعد جو کچھ اُس نے کھویا تھا خُداوند نے اُس سے بڑھ کر اُسے برکت دی۔ لیکن شائد ایوب کے لیے سب سے بڑی برکت یہ تھی کہ وہ مشکلات اور توبہ کی وجہ سے وہ ذیادہ پاکیزہ ہو گیا تھا۔ وہ اپنی زندگی کے باقی دنوں میں اور بڑی خوشی پانے کا اہل ہو گیا تھا۔
ذیادہ پاکیزگی صرف مانگنے سے نہیں آتی۔ یہ وہ سب کرنے سے آتی جو خُدا ہمیں تبدیل کرنے کے لیےکرنا چاہتا ہے۔
صدر رسل ایم نیلسن نے میرے خیال میں بہترین مشورت دی ہے کہ موعودہ راہ میں ذیادہ پاکیزگی کی طرف کیسے جایا جا سکتا ہے۔ جب اُنہوں نے یہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی تو اُنہوں نے راہ کی طرف اشارہ کیا:
”روزانہ تَوبہ کی مضبوطی بخشنے والی قوت کا تجربہ—روزانہ کچھ بہتر کرنے اور بننے کا تجربہ حاصل کریں۔
”جب ہم تَوبہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو، ہم تبدیل ہونے کا انتخاب کرتے ہیں! تب ہم نجات دہندہ کو اپنی بہترین تبدیل شدہ صورت میں ڈھالنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہم رُوحانی طور پر بڑھنے اور خوشی حاصل کرنے کا —اُس میں مخلصی کی خوشی پانے کا انتخاب کرتے ہیں۔ جب ہم تَوبہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو ہم مزید یِسُوع مِسیح کی مانند بننے کا انتخاب کرتے ہیں!“
صدر نیلسن نے مزید پاکیزہ بننے کی ہماری کوششوں میں ہماری حوصلہ افزائی کے لیے یہ کہا ”خُدا اِس وقت ہم سے کاملیت نہیں چاہتا … لیکن وہ ہم سے کثیر پاکیزگی کی توقع رکھتا ہے۔ روزانہ توبہ کی راہ پاکیزگی کی طرف جاتی ہے۔“۱۵
صدر ڈیلین ایچ اوکس نے پچھلی ایک کانفرنس کے خطاب میں میری مدد کہ میں دیکھ لوں کہ ہم پاکیزگی میں کسے بڑھ سکتے ہیں اور ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ہم اُس کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا ”ہم روحانیت کیسے پاتے ہیں؟ ہم پاکیزگی کے اُس درجے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں جہاں ہمیں رُوح القدس کر مستقل شراکت حاصل ہو؟ ہم اس دنیا میں چیزوں کو ابدی تناظر میں کیسے دیکھ سکتے اور کیسے اُن کی قدر پیمائی کر سکتے ہیں؟“۱۶
صدر اوکس کا جواب، یسوع مسیح پر اپنے پیارے نجات دہند کے طور پر گہرا ایمان رکھنے سے شروع ہوا۔ یہ ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ ہر روز توبہ کریں اور اُس کے احکام پر عمل کر کے اُسے یاد رکھیں۔ یسوع مسیح پر ایسا گہرا ایمان تب آتا ہے جب ہم روزانہ اُس کے کلام سے سیر ہوتے ہیں۔
گیت ”اور پاکیزگی مجھے دے“ میں ہمیں اور پاکیزہ ہونے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ شاعر دانشمدانہ طور پر بتاتا ہے کہ وہ پاکیزگی جس کے ہم خواہاں ہیں پیار کرنے والے خُدا کا تحفہ ہے، جو ہماری پوری کوشش کے بعد کچھ دورانیے میں ہمیں دیا جاتا ہے۔ آپ کو آخری بند یاد ہو گا:
مجھے اور خالص بنا،
غالب آنے کی قوت کر عطا،
زمین کے داغوں سے مجھ کو بچا،
گھر لوٹنے کی خواہش مجھ میں بڑھا۔
اپنی بادشاہی کے لائق بنا،
مجھے اپنے استعمال میں لا،
با برکت اور پاکیزہ—
نجات دہندہ مجھے اپنے جیسا بنا۔۱۷
ہمارے ذاتی حالات جیسے بھی ہوں، موعودہ راہ پر ہم جہاں بھی ہوں، میری دعا ہے کہ ہماری ذیادہ پاکیزہ بننے کی دعاوں کا ہمیں جواب ملے۔ میں جانتا ہوں کہ جب ہماری دعا قبول کی جائے گی تو ہماری خوشی بڑھے گی۔ شائد ایسا آہستہ آہستہ ہو، لیکن ایسا ہو گا۔ پیار کرنے والے آسمانی باپ اور اُس کے پیارے بیٹے کی طرف سے مجھے یہ یقین دہانی ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ جوزف سمتھ خُدا کا نبی تھا کہ صدر رسل ایم۔ نیلسن آج ہمارے زنددہ نبی ہیں۔ خُدا باپ زندہ ہے اور ہم سے پیار کرتا ہے۔ وہ چاتا ہے کہ ہم گھر لوٹیں اور اُس کے ساتھ خاندانوں کی صورت میں رہیں۔ ہمارا پیارا نجات دہندہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ واپسی کے سفر میں اُس کی پیروی کریں۔ اُنہوں نے ہمارے لیے راہ تیار کی ہے۔ یِسوع مِسیح کے مُقدس نام میں، آمین۔