ایّامِ آخِر کے واسطے زِندہ نبی
آسمانی باپ نے نبی کے وسِیلے سے اپنی اُمّت پر سچّائی آشکار کرنے کا نظام چنا ہے۔
جب مَیں ایک نوجوان لڑکا تھا، تو مُجھے ہفتے کا دِن بہت پسند تھا کیوں کہ اُس روز مَیں جو بھی کرتا وہ ایک مُہم جوئی جیسا لگتا تھا۔ مگر اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مَیں نے جو بھی کِیا، سب سے پہلے ہمیشہ سب سے اہم بات تھی—یعنی ٹیلی ویژن پر کارٹون دیکھنا۔ اِسی طرح کی ہفتہ کی صُبح، جب مَیں ٹیلی ویژن کے سامنے کھڑا تھا اور چینل بدل رہا تھا، تو مَیں نے دریافت کِیا کہ جس کارٹون شو کو ڈھونڈنے کی مُجھے توقع تھی اُس کی جگہ کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام کی مجلسِ عامہ کی نشریات نے لے لی۔ ٹیلی ویژن کو گُھورتے اور آہ و نالا کرتے ہُوئے کہ کوئی کارٹون نہیں مِلا، مَیں نے دیکھا کہ ایک سفید بالوں والا شخص سُوٹ اور ٹائی میں ملبُوس ایک دِل کش کُرسی پر بیٹھا ہے۔
اُس میں کُچھ مُختلف تھا، لہٰذا مَیں نے اپنے سب سے بڑے بھائی سے پُوچھا، ”یہ کون ہے؟“
اُس نے کہا، ”یہ صدر ڈیوڈ او مکّے ہیں؛ جو کہ ایک نبی ہے۔“
مُجھے یاد ہے کہ مَیں نے کُچھ محسُوس کِیا اور کسی نہ کسی طرح جان گیا کہ وہ واقعی نبی تھا۔ اُس وقت، چُوں کہ مَیں کارٹون کا شوقین نوجوان لڑکا تھا، اِس لیے مَیں نے چینل بدل دِیا۔ مگر مَیں نے اِس مُختصر، غیر متوقع مُکاشفاتی لمحے کے دوران میں جو محسُوس کِیا اُسے مَیں کبھی بُھلا نہ پایا۔ نبی کے معاملے میں، بعض اوقات اُسے جاننے میں صرف ایک لمحہ لگتا ہے۔۱
مُکاشفہ کے وسیلے سے یہ جاننا کہ زمین پر زِندہ نبی موجُود ہے سب کُچھ بدل دیتا ہے۔۲ اِس سے کسی کو اِس بحث میں کوئی غرض نہیں ہوتی کہ نبی کب بحیثیتِ نبی کلام کرتا ہے یا نبُوتی مشورت کو چُن کر رَد کرنے میں کسی کو راست ٹھہرایا جاتا ہے۔۳ ایسا آشکار کردہ عِلم زِندہ نبی کی مشورت پر بھروسا کرنے کی دعوت دیتا ہے، چاہے ہم اِسے مُکمل طور پر نہ بھی سمجھیں۔۴ بہرحال، کامِل اور شفیق آسمانی باپ نے اپنی اُمّت پر نبی کے وسیلہ سے سچائی ظاہر کرنے کا نظام وضع کِیا ہے، ایسا شخص جس نے کبھی ایسی مُقدّس بُلاہٹ نہ چاہی ہو اور جسے اپنی خامیوں سے باخبر ہونے کے لیے ہماری مدد کی ضرُورت نہیں ہے۔۵ نبی وہ ہے جس کو خُدا نے شخصی طور پر تیار کِیا ہے، بُلاہٹ دی ہے، تصحیح کی، اِلہام بخشا، سرزنش کی، پاک کِیا اور تائید کی۔۶ اِسی لیے ہمیں کبھی بھی رُوحانی طور پر نبُوتی مشورت کی تقلید کرنے میں خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
چاہے ہم پسند کریں یا نہ کریں، اِن آخِری ایّام میں پیدا ہونے کے لیے قبل اَز فانی زِندگی میں ہم سب کو کسی نہ کسی انداز میں چُنا گیا تھا۔ دو حقائق ہیں جو ایّامِ آخِر سے وابستا ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ کلِیسیائے مسِیح کو زمین پر دوبارہ بحال کِیا جائے گا۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ چیزیں واقعی بہت مُشکل ہو جائیں گی۔ صحائف آشکار کرتے ہیں کہ ایّامِ آخِر میں ”زمِین کی فصلوں کو تباہ کرنے کے لیے اولوں کا ایک بڑا طُوفان بھیجا جائے گا،“۷ آفتیں،۸ ”جنگوں اور جنگوں کی افواہیں، اور ساری زمِین پر اَفراتفری ہو گی، … اور بدی بڑھ جائے گی۔“۹
جب مَیں چھوٹا تھا، تو ایّامِ آخِر کی یہ نبُوتیں مُجھے خوف زدہ کرتی تھیں اور مُجھے یہ دُعا کرنے پر مجبُور کرتی تھیں کہ میری زِندگی میں آمدِ ثانی واقع نہ ہو—قدرے کامیابی کے ساتھ مَیں شاید بیان کر سکُوں۔ مگر اب مَیں اِس کے برعکس دُعا کرتا ہُوں، اگرچہ نبُوت کی گئی مُشکلات کا آنا طے ہے،۱۰ کیوں کہ جب مسِیح بادشاہی کرنے کے وسطے واپس لوٹے گا، تو اُس کی تمام مخلُوقات ”بَحفاظت سُکونت کریں گی۔“۱۱
دورِ حاضِر کے حالات نے بعض لوگوں کو خوف میں مُبتلا کر دِیا ہے۔ خُدا کے موعُودہ بچّوں کی حیثیت سے، ہمیں اِس کا تعاقب کرنے کی ضرورت نہیں ہے یا یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ اُن مُشکلات اوقات میں سے کیسے گُزرا جائے۔ ہمیں خَوف زدہ ہونے کی ضرُورت نہیں ہے۔۱۲ رُوحانی طور پر زِندہ رہنے اور جسمانی طور پر برداشت کرنے کے لیے ہمیں جو تعلیم اور اصُولوں کی پیروی کرنا ضرُوری ہے وہ زِندہ نبی کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔۱۳ اِسی لیے صدر ایم رسل بیلرڈ نے اعلان کِیا کہ ”یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے … کہ ہمارے درمیان خُدا کا ایک نبی موجود ہو۔۱۴
صدر رسل ایم نیلسن نے گواہی دی ہے کہ ”خُدا کا اپنی اُمّت کو نبیوں کے ذریعے سے سِکھانے کا طویل عرصے سے قائم کردہ نمونہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ وہ ہر نبی کو برکت بخشے گا اور وہ اُن کو برکت بخشے گا جو نبُوتی مشورت پر کان لگاتے ہیں۔“۱۵ پَس کلید زِندہ نبی کی تقلید کرنا ہے۔۱۶ بھائیو اور بہنو، بہترین مزاحیہ کُتب اور قدِیم کاروں کے بَرعکس، پیغمبرانہ تعلیمات پُرانی ہونے کے ساتھ زیادہ قابلِ قدر نہیں بنتی ہیں۔ اِسی لیے ہمیں زِندہ نبیوں کی تعلیمات کو مُسترد کرنے کی غرض سے ماضی کے اَنبیا کے کلام کو اِستعمال کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔۱۷
اِنجِیلی اصُول سِکھانے کے واسطے یِسُوع مسِیح کی اِستعمال کردہ تمثیلیں مُجھے بہت پسند ہیں۔ مَیں آج صُبح آپ کے ساتھ حقیقی زِندگی کی ایک تمثیل کا ذِکر کرنا چاہُوں گا۔
ایک دِن مَیں کلِیسیائی ہیڈ کوارٹرز کے کیفے ٹیریا میں دوپہر کا کھانا کھانے کو گیا۔ کھانے کی ٹرے لینے کے بعد، مَیں ڈائننگ ایریا میں داخل ہُوا اور ایک میز دیکھی جہاں صدارتِ اوّل کے تینوں اَرکان بیٹھے ہُوئے تھے، ساتھ میں ایک خالی کُرسی تھی۔ میرے عدّم تحفظ کے باعث مُجھے اُس میز سے فوری مُتبادل راہ اِختیار کرنی پڑی، اور پھر مَیں نے ہمارے نبی، صدر رسل ایم نیلسن کی آواز سُنی، ”ایلن، یہاں ایک خالی کُرسی ہے۔ آؤ اور ہمارے ساتھ بیٹھو۔ اور پَس مَیں نے ایسا ہی کِیا۔
کھانے کے اِختتام کے قریب، مَیں ایک زوردار کرنچنگ کی آواز سن کر دَنگ رہ گیا، اور جب مَیں نے اُوپر دیکھا، تو مَیں نے دیکھا کہ صدر نیلسن نے اپنی پلاسٹک کی پانی کی بوتل سیدھی کھڑی کی اور پھر اِسے چپٹا کر کے ڈھکن بدل دِیا۔
صدر ڈیلن ایچ اوکس نے پھر وہ سوال پُوچھا جو مَیں پُوچھنا چاہتا تھا، ”صدر نیلسن، آپ نے اپنی پلاسٹک کی پانی کی بوتل کیوں چپٹی کی؟“
اُنھوں نے جواب دِیا، ”اِس سے قابلِ اِستعمال مواد کو سنبھالنے والوں کے لیے آسانی ہو جاتی ہے کیوں کہ یہ رِی سائیکلنگ کنٹینر میں زیادہ جگہ نہیں لیتی۔“
اِس جواب پر غور کرتے ہُوئے، مَیں نے وہی کرنچنگ آواز پھر سے سُنی۔ مَیں نے اپنے دائیں طرف دیکھا، اور صدر اوکس نے اپنی پلاسٹک کی پانی کی بوتل بالکل صدر نیلسن کی مانند چپٹی کر لی تھی۔ اِس کے بعد مَیں نے اپنے بائیں طرف کچھ شور سُنا، اور صدر ہنری بی آئرنگ اپنی پلاسٹک کی پانی کی بوتل کو چپٹا کر رہے تھے، اگرچہ وہ ایسا کرتے ہُوئے ایک مُختلف حکمتِ عملی اپنا رہے تھے جب کہ بوتل اُفقی تھی، جس سے بوتل سیدھی کھڑی رکھنے کی پوزیشن کی نِسبت زیادہ محنت کرنا پڑی۔ اِس پر غور کرتے ہُوئے، صدر نیلسن نے شفقت سے اُنھیں بوتل کو سیدھا کرنے کی تکنیک دِکھا کر بوتل کو آسانی سے چپٹا کر دِیا۔
اِس موقع پر، مَیں صدر اوکس کی طرف جُھکا اور آہستا سے پُوچھا، ”کیا اپنی پلاسٹک کی پانی کی بوتل کو چپٹا کرنا کیفے ٹیریا کی نئی رِی سائیکلنگ پالیسی ہے؟“
چہرے پر مُسکراہٹ کے ساتھ، صدر اوکس نے جواب دِیا، ”ایلن، بَس، آپ کو نبی کی تقلید کرنے کی ضرورت ہے۔“
مُجھے یقین ہے کہ صدر نیلسن اُس دِن کیفے ٹیریا میں رِی سائیکلنگ پر مبنی کسی نئی تعلیم کا اعلان نہیں کر رہے تھے۔ مگر ہم صدر اوکس اور صدر آئرنگ کے فوری جواب سے صدر نیلسن کی مثال۸۱ اور صدر نیلسن کی طرف سے بہتر طریقے سے سِکھانے میں مدد دینے کے لیے اُن کی حاضِر دماغی سے سیکھ سکتے ہیں۔۱۹
کئی برس پہلے، بُزرگ نیل اے میکس ویل نے چند مشاہدوں اور مشوروں کو بیان کیا جو ہمارے زمانے کے حوالے سے پیشن گوئی کے مطابق ہیں:
”آنے والے مہینوں اور سالوں میں، واقعات کا تقاضا ہے کہ ہر رُکن یہ فیصلہ کرے گا [ یا کرے گی ] کہ آیا صدارتِ اوّل کی تقلید کرنی ہے یا نہیں۔ اَرکان کو دو آرا کے درمیان زیادہ دیر تک ٹھہرنا بہت مُشکل لگے گا۔ …
”… آئیں ہم ایک سرگُزشت چھوڑ جائیں تاکہ اِنتخابات واضح ہوں، دُوسروں کو ویسا کرنے دیں جیسے وہ پیغمبرانہ مشورت کے موافق کریں گے۔ …
”یِسُوع نے کہا جُونہی انجِیر کے درخت کے پتّے نِکلتے ہیں، ’تُم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدِیک ہے۔‘ … یُوں خبردار کِیا کہ گرمیاں ہمارے سَر پر ہیں، آئیں ہم پھر تپِش کی شکایت نہ کریں!“۲۰
اُبھرتی ہُوئی نسل ایسے دور میں پروان چڑھ رہی ہے جب انجِیر کے پتّے زیادہ ہیں اور تپِش بھی زیادہ ہے۔ یہ حقیقت پہلے سے اُبھری ہُوئی نسل پر بھاری ذمّہ داری عائد کرتی ہے، خاص طور پر جب بات پیغمبرانہ مشورت پر عمل پیرا ہونے کی ہو۔ جب والدین زِندہ نبی کی مشورت کو نظر انداز کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف اپنی موعُودہ برکات سے محرُوم ہو جاتے ہیں بلکہ اِس سے بھی زیادہ اَلم ناک طور پر وہ اپنی اولاد کو یہ سِکھاتے ہیں کہ نبی جو کُچھ کہتا ہے وہ غیر اہم ہے یا یہ کہ نبُوتی مشورت کو بغیر کسی تشویش کے چُننا اِس کے نُقصانات کی پروا کِیے بغیر جو نتیجتاً رُوحانی غذائی قِلت کا باعث ہوتا ہے۔
بُزرگ رچرڈ ایل ایونز نے ایک دفعہ مُشاہدہ کِیا کہ: ”بعض والدین غلطی سے یہ محسُوس کرتے ہیں کہ وہ طرزِ عمل اور مُطابقت میں ذرا سی نرمی بَرت سکتے ہیں … کہ وہ اپنے خاندان یا اپنے گھرانے کے مُستقبل کو مُتاثر کِیے بغیر بُنیادی اصُولوں پر تھوڑا سا سمجھُوتا کر سکتے ہیں۔ لیکن، اگر والدین راہ سے ذرا سا ہٹ جائیں، تو اِمکان ہے کہ اولاد والدین کی مثال سے بھی زیادہ تجاوز کرے گی۔۲۱
ایک ایسی نسل کے طور پر جس کے پاس اُبھرتی ہُوئی نسل کو ایّامِ آخِر میں اُن کے نبُوتی کِردار کے واسطے تیار کرنے کا مُقدّس فریضہ ہے،۲۲ ایسا کِردار جسے اُس دَور میں نِبھانا لازم ہے جب دُشمن اپنے اَثر و رسُوخ کے عُروج پر ہو،۲۳ ہم نبُوتی نصِیحت کی تقلید کرنے کی اہمیت کی بابت اُلجھن کا باعث نہیں بن سکتے ہیں۔ یہ وہ نصِیحت ہے جو اُبھرتی ہُوئی نسل کو یہ دیکھنے کے قابل کرے گی کہ ”دُشمن جب وہ دُور ہی [ہے]؛ اور پِھر [وہ] دُشمن کے حملے کا مُقابلہ کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں۔“۲۴ ہماری بَظاہر معمُولی کَج رَوی، ذرا سی غفلت، یا نبُوتی مشورت کے جواب میں سرگوشی کی گئی تنقید کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم عہد کی راہ کے کنارے کے قریب ہی چلیں؛ مگر جب دُشمن اُبھرتی ہُوئی نسل کی زِندگیوں میں پَلتا ہے، تو ایسے اَعمال ان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ وہ اِس راستے کو مُکمل طور پر چھوڑ دیں۔ ایسا نتیجہ ایک نسل کا ضیاع ہو سکتا ہے جو کہ بہت زیادہ ہے۔۲۵
آپ میں سے بعض محسُوس کر سکتے ہیں کہ صدر رسل ایم نیلسن کی مشورت کی تقلید کرنے کی آپ کی کاوشوں میں کمی آئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو، پِھر توبہ کریں، اور دوبارہ سے خُدا کے برگُزیدہ نبی کی مشورت کی پیروی شُروع کریں۔ بچگانہ کارٹونوں کے خلفشار کو ایک طرف رکھیں اور خُداوند کے ممسُوع پر بھروسا کریں۔ خُوشی منائیں کیوں کہ ایک بار پِھر ”اِسرائیل میں ایک نبی موجود ہے۔“۲۶
حتیٰ کہ اگر آپ غیر یقینی بھی ہوں، مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ ہم ایّامِ آخِر کی تپِش کا مُقابلہ کر سکتے ہیں اور یہاں تک کہ اِن میں بھی پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ ہم مُقدّسینِ ایّامِ آخِر ہیں، اور یہ عظیم ایّام ہیں۔ ہم اُس وقت زمین پر آنے کے لیے بے چین تھے، اِس اعتماد سے کہ دُشمن کی بڑھتی ہُوئی تاریکی اور اُلجھن زدہ کُہر۲۷ کا سامنا کرتے ہُوئے ہمیں ٹھوکریں کھانے کے لیے نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ اُس سے مشورت اور ہدایت پانے کے لیے جو ہمیں اور جہانِ کُل کو یہ کہنے کا واحد مجاز ہے، ”یُوں خُداوند خُدا فرماتا ہے۔“۲۸ اُس نبی کے مُقدّس نام پر جس کو خُدا نے بَرپا کِیا، اِسرائیل کا قُدُّوس،۲۹ یعنی یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔