مجلسِ عامہ
بحفاظت گھر لائے جائیں
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۳


14:48

بحفاظت گھر لائے جائیں

ہم پردے کے دونوں اطراف اجتماعِ اسرائیل کی ایک منفرد حالت میں ہیں جیسا کہ باپ کے منصوبے کے تحت پہلے کبھی نہیں تھے۔

صدر رسل ایم نیلسن، ہمارے محبوب نبی نے، مُنتشر اسرائیل کو اکٹھا کرنے اور دُنیا کو یِسُوع مسِیح کی آمدِ ثانی کے لیے تیار کرنے کی ہماری مُنفرد ذمہ داری پر گہرا زور دیا ہے۔۱ ہماری رُوحوں کا باپ چاہتا ہے اُسکے بچّے بحفاظت گھر لائے جائیں۔

ہمارے آسمانی باپ کا اپنی اُمت کو بحفاظت گھر لانے کا منصوبہ دُنیاوی کامیابی، معاشی حیثیت، تعلیم، نسل، یا جنس پر مبنی نہیں ہے۔ باپ کا منصوبہ راست بازی، اُس کے احکام کی بجاآوری، اور مُقدس رسُوم کے حصول اور ہمارے باندھے گئے عہُود کے احترام پر مبنی ہے۔۲

اِس عظیم کارِ اجتماع کی بنیاد الہٰی الہام یافتہ نظریہ ہے کہ ہم سب بھائی اور بہنیں ہیں اور ”خُدا کی نظر میں سب برابر ہیں۔“ یہ نظریہ اُن کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جو مختلف معاشی اور نسلی حیثیت کے لوگوں کے لیے بہتر زندگیوں کا تجّربہ پانے کی گہری خواہش رکھتے ہیں۔ ہم ایسی کاوشوں کو سراہتے اور اِن میں شامل ہوتے ہیں۔ مزید برآں، ہم ساری اُمتِ خُدا کے اُس کے پاس آنے اور ابدی برکات پانے کے خواہش مند ہیں جو وہ اپنی انجیل کے ذریعے پیش کرتا ہے۔۳ عقائد اور عہُود کے لیے خُداوند کے دیباچہ میں وہ اعلان فرماتا ہے کہ، ”سُنو تُم دُور دراز کے لوگو اور تُم سَمُندر کے جزیروں پر رہنے والو، مِل کر سُنو۔۴

مجھے پسند ہے کہ عقائد اور عہُود کی پہلی آیت اُن لوگوں کو شامل کرتی ہے جو ”سمُندر کے جزیروں“ پر ہیں۔ مُجھے سمُندر کے جزیروں پر خدمت کرنے اور رہنے کے لیے تین خاص بُلاہٹیں مل چُکی ہیں۔ اَوّل مَیں نے بطور نوجوان مُبلغ جزائرِ برطانیہ میں، دوم بطور نئے اعلیٰ حاکم جزائرِ فلپائن میں، اور پھر جزائرِ اوقیانوس میں، جس میں کئی پولی نِیشیائی جرائز بھی شامل ہیں، بطور علاقائی صدر خدمت کی۔

اِن تینوں علاقوں نے کامیابی سے ایمانداروں کو یِسُوع مسِیح کی بحال شدہ انجیل میں مجتمع کیا ہے۔ جزائرِ برطانیہ میں مُبلغین پہلی بار ۱۸۳۷ میں پہنچے تھے۔ یہ جوزف سمتھ کے کرٹ لینڈ ہَیکَل کی تقدیس کرنے سے ایک برس بعد تھا، جہاں موسیٰ نے ”زمِین کے چاروں کونوں سے اِسرائیل کوجمع کرنے، اور شمالی سرزمین سے دس قبِیلوں کی راہ نمائی کی کُنجیاں سپُرد کیں تھیں ۔“۵ جزائرِ برطانیہ میں ابتدائی کامیابی افسانوی ہے۔ ۱۸۵۱ تک، کلِیسیا کے نصف اَرکان جرائرِ برطانیہ میں مُقیم بپتسما یافتہ تبدیل شدگان تھے۔۶

۱۹۶۱ میں، بزرگ گورڈن بی ہینکلی نے جرائرِ فلپائن کا دورہ کِیا اور کُل وقتی تبلیغی کاوشوں کی داغ بیل ڈالی۔ اُس وقت وہاں صرف ایک ہی فلپائنی ملکِ صدق کہانت کا حامل تھا۔ حیران کن طور پر، آج جرائرِ فلپائن میں ۸۵۰،۰۰۰ سے زائد اراکین ہیں۔ مَیں فلپائنی لوگوں کا مداح ہوں، وہ مُنجّی کے لیے گہری اور دائمی محبّت رکھتے ہیں۔

پولی نیشیائی جزائر کے لیے جاری تبلیغی کاوشوں کی شاید بہت کم آگاہی ہے۔ اِن کی شُروعات ۱۸۴۴ میں ہوئی، جب ایڈی سن پراٹ کو وہاں بھیجا گیا جو آج کا فرانسیسی پولی نیشیا ہے۔۷ بہت سے پولی نیشیائی پہلے ہی ابدی خاندانوں پر ایمان رکھتے اور یِسُوع مسِیح کو اپنا نجات دہندہ قبول کرتے تھے۔ آج جزائرِ پولی نیشیا میں قریباً ۲۵ فی صد پولی نیشیائی، کلیسِیا کے رکن ہیں۔۸

ایک دفعہ مَیں نے دُور دراز جزیرہِ ٹاہیٹی کی ۱۷ سالہ لڑکی کو سُنا جو کلِیسیا کی ۷ویں نسل کی رُکن تھی۔ اس نے اپنے آباؤ اجداد کو خراج تحسین پیش کیا جو ۱۸۴۵میں ٹُوبوُائی میں تبدیل ہوئے تھے، ابتدائی اَرکانِ کلِیسیا کے سالٹ لیک وادی میں پہنچنے سے دو سال قبل۔۹

ہمارا عقیدہ واضح ہے کہ تمام لوگوں کے لیے انجیل کے پیغام کو قبول کرنے اور اِس کا جواب دینے کا ایک وقت اور ایک موسم ہوگا۔ یہ مثالیں ایک بڑی تصویر کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ صدر نیلسن نے مسلسل تاکید کی ہے کہ ”اسرائیل کا اکٹھا کیا جانا زمین پر رونما ہونے والی ”عظیم ترین چنوتی، …مقصد، اور …کام ہے۔“۱۰

یِسُوع مسِیح کی کلِیسیا کی بحالی، بشمول مورمن کی کتاب کے ظہور اور نبی جوزف سمتھ کو مُکاشفہ اور کہانت کی کنجیوں کے سونپے جانے تک اسرائیل کے اجتماع کا فہم ٹکڑے ٹکڑے اور محدود تھا۔۱۱

مخصوص نام ”اسرائیل“ یعقوب کو دیا گیا لقب تھا۔۱۲ یہ اضحاق اور یعقوب کے ذریعے ابرہام کی نسل کی نمائندگی کرنے کے لیے آیا تھا۔ باپ ابرہام سے کیے گئے اصل وعدے اور عہُود ابرہام ۹:۲–۱۰میں بیان کیے گئے ہیں، جو جزوی طور پر پڑھتے ہیں:

”اور مَیں تُجھے بڑی قَوم بناؤں گا، …

”اور مَیں اُنھیں تیرے نام کے باعث برکت دوں گا؛ کیوں کہ جتنے بھی اِس اِنجیل کو قبول کریں گے تیرے نام سے کہلائیں گے، اور تیری اولاد شمار ہوں گے، اور وہ اُٹھیں گے اور اپنا باپ مان کر، تجھے مبارک کہیں گے۔“

قبل از فانی وجود میں آسمانی مجلس کے دوران میں، نجات کا منصوبہ زیرغور لایا گیا اور اِس کی تائید کی گئی۔ اِس میں کہانت کی خاص رسومات اور قوانین شامل تھے جو دُنیا کی تخلیق سے قبل وضع کیے گئے تھے اور اجتماع کی پیش گوئی کرتے تھے۔۱۳ اِس میں مُختاری کا غالب اصُول بھی شامل تھا۔

ساؤل، داؤد اور سلیمان کی حکومتوں سمیت کئی صدیوں کے بعد اسرائیل طاقتور قوم کی حیثیت سے تقسیم ہو گئی تھی۔ یہوداہ کا قبیلہ اور بنیامین کے قبیلے کا کچھ حصہ یہوداہ کی سلطنت بن گیا تھا۔ باقی ماندہ، جن کی شناخت دس قبیلوں کے طور پر کی گئی، اسرائیل کی سلطنت بن گئی۔۱۴ ۲۰۰ سالہ علیحدہ قیام کے بعد، اسرائیل کا پہلا انتشار ۷۲۱ ق م میں رُونما ہوا، جب اسرائیل کے دس قبیلوں کو اسوری بادشاہ اسیر کر کے لے گیا۔۱۵ وہ بعد میں شمالی ممالک کو چلے گئے۔۱۶

۶۰۰ ق م میں، مورمن کی کِتاب کے آغاز پر، باپ، لِحی نے اسرائیلوں کے ایک گروہ کو براعظم امریکہ پہنچایا۔ لیحی کو اسرائیل کے مُنتشر ہونے کا ادراک تھا جس کا وہ حصہ تھا۔ نیفی نے یہ کہتے ہوئے اُس کا حوالہ دیا ہے کہ بنی اسرائیل ”زیتون کے درخت کی مانند ہوں گے، جس کی شاخیں توڑی اور تمام روئے زمین پر بکھِیر دی جائیں گی۔“۱۷

نام نہاد نئی دُنیا میں، نیفیوں اور لامنوں کی تاریخ جیسے مورمن کی کِتاب میں بیان کی گئی ہے اُس کا تقریباً ۴۰۰ ب م میں اختتام ہوا۔ باپ لِحی کی اُولاد پورے امریکہ میں پھیلی ہوئی ہے۔۱۸

مورمن نے اِسے ۳ نیفی ۵‏:۲۰، میں واضح طور پر بیان کیا ہے، جس میں لکھا ہے: ”مَیں مورمن، لِحی کی اصل نسل سے ہوں۔ مَیں اپنے خُدا اور مُنجی کی اِس لیے بھی تمجید کرتا ہوں کیونکہ وہ ہمارے باپ دادا کو یروشلیم کی سر زمین سے نکال لایا۔“۱۹

واضح طور پر اسرائیل کے سلسلہِ تاریخ میں اعلیٰ ترین مقام نجات دہندہ یِسُوع مسِیح کی پیدایش، زندگی اور مقصد ہے۔۲۰

ابدیت کی صُورت گری کرنے والی مُنجّی کی موت اور قیامت کے بعد، یہُوداہ کا دُوسرا معروف انتشار ۷۰ بعد اَز مسِیح اور ۱۳۵ بعد اَز مسِیح میں ہُوا جب، رومی ظلم اور بربریت کی بدولت، یہودی اُس وقت کی مشہور دُنیا میں رُوپوش ہو گئے۔

صدر نیلسن نے سِکھایا ہے ”مورمن کی کتاب کا ظہور اِس نشان کے طور پر ہوا کہ خُداوند نے عہد کے فرزندوں کو اکٹھا کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔“۲۱ لہذا، خُدا کی قدرت اور نعمت سے نبی جوزف سمتھ کی ترجمہ شدہ، مورمن کی کتاب، لِحی کی نسل، مُنتشر اسرائیل، اورغیر اقوام ، جنھیں اسرائیل کے گھرانے میں اپنایا گیا ہے، کی طرف بھیجی گئی ہے۔ ۱ نیفی ۲۲ باب کی شہ سُرخی میں جزوی طور پر یُوں لِکھا ہے، ”اِسرائیل تمام رُویِ زمِین پر پراگندہ ہو گا—آخری ایّام میں غیر قومیں اِسرائیل کی اِنجیل کی تعلیم سے پرورش کریں گی۔“ مورمن کی کِتاب کے تعارفی صحفہ میں یُوں لِکھا ہے کہ اِس کِتاب کے مقاصد میں سے ایک ”یہودیوں اور غیر قوموں کو قائل کرنا ہے کہ یِسُوع ہی اَلمسِیح ہے۔“ بحالی اور مورمن کی کتاب کے ساتھ، اجتماعِ اسرائیل کے نظریہ نے بہت وسعت پائی ہے۔۲۲

وہ جو حسبِ نسب سے قطع نظر، یِسُوع مسِیح کی انجیل کو قبول کرتے ہیں، اِجتماعِ اسرائیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔۲۳ اس اجتماع اور متعدد ہَیکَلوں کی تعمیر اور اعلان کے ساتھ، ہم پردے کے دونوں اطراف اجتماعِ اسرائیل کی ایک منفرد حالت میں ہیں جیسا کہ باپ کے منصوبے کے تحت پہلے کبھی نہیں تھے۔

صدر سپنسر ڈبلیو قِمبل نے، حقیقی اجتماعِ اسرائیل کے بارے بات کرتے ہُوئے، کہا: ”اب، اجتماعِ اسرائیل سچی کلِیسیا میں شمولیت اِختیار کرنے اور … حقیقی خُدا کی معرفت تک پہنچنے پر مشتمل ہے۔… پس، کوئی بھی شخص، جس نے بحال شُدّہ اِنجیل کو قبول کیا ہے، اور جو اب اپنی زبان میں اور اِن قوموں میں جہاں وہ رہتا ہے مُقدسوں کے ساتھ خُداوند کی پرستش کرنا چاہتا ہے، اُس نے اسرائیل کے اجتماع کے قانون کی تعمیل کی ہے اور اِن تمام برکات کا وارث ہے جن کا ایامِ آخر میں مُقدسین سے وعدہ کیا گیا تھا۔“۲۴

”اب اجتماعِ اسرائِیل میں تبدیلی شامل ہے۔“۲۵

جب واضح نظر کی جائے، تو کلِیسیائے یِسُو ع مسیِح برائے مُقدسینِ آخِری ایّام کے اَرکان کو خُداوند کی موعودہ برکات کی معموری حاصل کرنے کے لیے، محبّت کرنے، اِشتراک کرنے، مدعو کرنے، اور اجتماعِ اسرائیل میں مدد کرنے کا عظیم اعزاز حاصل ہے۔ اِس میں افریقی اور یورپی، جنوبی اور شمالی امریکی، ایشیائی، آسٹریلوی اور جزائرِ سمندر پر رہنے والے شامل ہیں۔ ”درحقیقت خُداوند کی آواز تمام آدمیوں کے لیے ہے،“۲۶ ”یہ اجتماع جاری رہے گا جب تک راست باز اقوامِ جہان میں مُقدسین کی جماعتوں میں جمع نہیں ہو جاتی ہیں۔“۲۷

صدر رسل ایم نیلسن سے زیادہ کسی نے اجتماع پر براہ راست بات نہیں کی ہے: ”کسی بھی کام میں کسی بھی وقت کسی کی بھی—پردے کی کسی بھی جانب—خُدا کے ساتھ عہُود باندھنے اور قائم رکھنے اور بپتِسما اور ہَیکل کی ضرُوری رُسُوم کو قبُول کرنے میں جب آپ مدد کرتے ہیں، تو آپ اجتماعِ اِسرائیل میں مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اِنتہائی آسان ہے۔“۲۸

آج کلِیسیا کہاں کھڑی ہے؟ مَیرے ۱۹۶۰ میں تبلیغی خدمت شروع کرنے کے بعد سے ۶۲ سالوں میں، نبی کی بُلاہٹ پر خدمت کرنے والے کل وقتی مُبلغین کی تعداد ۷۶۸۳ سے بڑھ کر ‏۵۴۴‏،۶۲‏ ہو گئی ہے۔ تبلیغی مراکز ۵۸ سے بڑھ کر ۴۱۱ ہو چُکے ہیں۔ اَرکانِ کلِیسیا کی تعداد قریباً ۱۷ لاکھ سے بڑھ کر تقریباً ۱۷۰ لاکھ ہو چُکی ہے۔

کووِڈ ۱۹ کی وبا اشتراکِ اِنجِیل کی ہماری چند ایک کاوشوں پر عارضی طور پر اثر انداز ہوئی۔ اُس نے نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کا تجربہ بھی فراہم کیا، جس سے اجتماع میں بہت اضافہ ہوگا۔ ہم شکر گزار ہیں کہ اراکین اور مُبلغین اب مُنتشر اسرائیل کے اجتماع کی کاوشوں کو وسعت دے رہے ہیں۔ ترقی ہر جگہ جاری ہے، خاص طور پر جنوبی امریکہ اور افریقہ۔ ہم اِس بات کے بھی معترف ہیں کہ دنیا بھر میں بہت سے لوگوں نے تبلیغی خدمت میں اضافہ کرنے کی صدر نیلسن کی دعوت کا زبردست جواب دیا ہے۔ بہر حال، محبّت، اِشتراک، اور دعوت کے لیے ہماری وابستگی کو بہت وسیع کیا جا سکتا ہے۔

انفرادی اَرکان کی اِس تبلیغِی کاوش کا ایک لازمی حصہ یہ ہے کہ انفرادی اَرکان کے لیے روشنی کی مثالیں۲۹ بنیں، جہاں کہیں بھی ہماری سکونت ہے۔۳۰ ہم ڈھکے ہوئے نہیں رہ سکتے۔ شفقت، راست بازی، خُوشی، اور تمام لوگوں کے لیے مُخلص محبّت جیسے مثلِ مسِیح خصائل نہ صرف اُن کے لیے راہ نُمائی کرنے والی روشنی بن جاتی ہے بلکہ یہ یِسُوع کی بحال شُدّہ اِنجیل کی نجات و سرفرازی کی رسوم میں محفوظ بندگاہ بھی ہے۔

براہ کرم یہ فہم پائیں کہ یِسُوع مسیِح کی اِنجیل کا اِشتراک کرنے میں شان دار برکات ہیں۔ صحائف خُوشی اور اطمینان، گناہوں کی معافی، آزمایشوں سے تحفظ، اور خُدا کی طرف سے تائیدی قوت پانے کی بات کرتے ہیں۔۳۱ اِس فانی زندگی سے آگے دیکھتے ہوئے، ہم اُن کے ساتھ اِشتراکِ انجیل کے لیے تیار ہوں گے ”جو اندھیرے میں اور گُناہ کی قید میں ہیں مُردوں کی رُوحوں کی عظیم دُنیا میں ہیں۔“۳۲

آج مَیری مخصوص دُعا ہر بچّے، نوجوان، جوان لڑکی، خاندان، جماعت، انجمنِ خواتین اور کلاس کے لیے ہے کہ وہ اِس بات کا جائزہ لیں کہ ہم کس طرح اِنفرادی اور اجتماعی طور پر ڈرامائی مشورے کو قبول کرتے ہیں تاکہ اسرائیل کو جمع کرنے میں مدد ملے جس کا اجرا خُداوند اور ہمارے پیارے نبی نے کیا ہے۔

ہم مُختاری کا احترام کرتے ہیں۔ اِس بے دین دُنیا میں، بہت سے لوگ اجتماعِ اسرائیل کا جواب نہیں دیں گے اور نہ اِس میں شرکت کریں گے۔ لیکن بہت سے لوگ چاہیں گے، اور خُداوند اُن لوگوں سے توقع کرتا ہے کہ فوری طور پر روشنی کی مثال بننے کی کوشش کریں جنھوں نے اُس کی اِنجیل حاصل کی ہے جو دُوسروں کو خُدا کے پاس آنے میں مدد دے گی۔ یہ زمین پر ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو یِسُوع مسِیح کی بحال شُدّہ اِنجیل کی مافوق الفطرت برکات اور رسوم سے لطف اندوز ہونے اور بحفاظت گھر لائے جانے کی اجازت دیتی ہے۔

مَیں یِسُوع مسِیح کی الہویت اور ہمارے لیے اپنے آسمانی باپ کے منصوبہ کی اپنی یقینی اور موثر رسولی گواہی دیتا ہوں، آمین۔

حوالہ جات

  1. دیکھیں رسل ایم نیلسن، ”کلماتِ خیر مقدم،“ لیحونا، مئی ۲۰۲۱، ۷۔

  2. دیکھیں عقائد اور عہُود ۲۰:‏۳۷۔

  3. دیکھیے ۲ نیفی ۲۶:‏۳۳۔

  4. عقائد اور عہُود ۱: ۱۔ عقائد اور عہُود ۱: ۴، میں خُداوند جاری رکھتا ہے، ”اور تنبیہ کی آواز، میرے شاگِردوں کے مُنہ سے، جِنھیں مَیں نے اِن آخِری ایّام میں چُنا ہے، تمام اُمتوں کے لیے ہوگی۔“

  5. عقائداور عہُود ۱۱۰:‏۱۱۔

  6. ۱۸۵۱ میں، کلِیسیا کے کُل رکن ۵۲،۱۶۵ تھے۔ انگلینڈ اور ویلز میں کلِیسیائی ریکارڈز اور ”۱۸۵۱ کی مذہبی مردم شماری“ کے مُطابق، اُن مقامات میں اٹھائیس ہزار سے زائد اَرکان تھے (دیکھیں رابرٹ ایل لائیولی جونئیر، ”اُنیسویں صدی کے برطانوی مشن پر کچھ معاشرتی مظاہر“ وکٹورین برطانیہ کے اوائل میں مورمن، ایڈیشن۔ رچرڈ ایل جینسن اور میلکم آر تھورپ [۱۹۸۹]، ۱۹–۲۰)۔

  7. دیکھیں مُقدّسین: کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِر ایّام کی کہانی، جلد ۱، سچائی کا معیار، ۱۸۱۵–۱۸۴۶ (۲۰۱۸)، ۴۹۴-‏۹۵، ۵۱۴–۱۵، ۵۷۳۔

  8. ٹانگا: ۴۵ فی صد؛ سموا: ۳۱ فی صد؛ امریکی سموا: ۵۔۲۲ فی صد؛ اور فرانسیی پولی نیشیا: ۷ فی صد۔

  9. دیکھیں مُقدسین، ۵۷۳–۷۴۔

  10. رِسل ایم نیلسن، ”اِسرائیل کی آس“ (عالمی رُوحانی عِبادت برائے نوجوانان، ۳ جون، ۲۰۱۸)، HopeofIsrael.ChurchofJesusChrist.org۔

  11. یہ منفرد اور طاقتور نظریہ مورمن کی کتاب میں مزید اختصار کے ساتھ ایمان کے دسویں رُکن، میں موجود ہے، جس کا آغاز، ”ہمارا ایمان ہے کہ اسرائیل حقیقی طور پر متحد ہو گا اور دس قبیلے بحال ہوں گے“ سے ہوتا ہے، اِیمان کے اَرکان، ۱۲واں ایڈیشن [۱۹۲۴]، ۳۱۴–۴۴)۔

  12. جیسا کہ پیدایش ۳۲:‏۲۸ کے صحیفائی حوالہ میں یُوں درج ہے، ”تیرا نام آگے کو یعقُوبؔ نہیں بلکہ اِسرائیلؔ ہو گا کیوں کہ تُو نے خُدا اور آدمِیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالِب ہُؤا۔“

  13. دیکھیں جوزف سمِتھ، ”تاریخ، ۱۸۳۸–۱۸۵۶، جلد ڈی-۱“ میں، ۱۵۷۲، josephsmithpapers.org؛ مزید دیکھیں جوزف سمِتھ، ”خطاب، ۱۱ جون ۱۸۴۳–اے، جیسا کہ وِلفرڈ وُڈرف نے رپورٹ کِیا تھا،“ [۴۲–۴۳]، josephsmithpapers.org؛ جوزف سمِتھ، ”خطاب، ۱۱ جون ۱۸۴۳–اے، جیسا کہ وِلارڈ رِچرڈز نے بتایا تھا،“ [۲۴۱]، josephsmithpapers.org۔

  14. دیکھیں بائبل لغت، ”سلطنتِ اِسرائیل“؛ جمیس ای ٹالمیج، ایمان کے اَرکان، ۳۱۵۔ رحبعام اور اُس کی رعایا کو یہُوداہ کی بادشاہی کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ جدید اسرائیل کے جنوبی حصے میں واقع تھے۔

  15. دیکھیں ۲ سلاطین ۱۷: ۲۳۔

  16. دیکھیے عقائد اور عہُود ۱۳۳: ۲۶؛ مزید دیکھیں عقائد اور عہُود ۱۱۰ :۱۱۔

  17. ۱ نیفی ۱۰:‏۱۲۔ عمون نے بعد میں کہا، ”میرے خُدا کا نام مبارک ہو، جو اپنے اُن لوگوں کی خبر گیری کرتا ہے، جو اسرائیل کے گھرانے کی شاخ ہیں، اور ایک اجنبی مُلک میں اپنے جسم سے جُدا ہوئے ہیں“ (ایلما ۲۶: ۳۶

  18. صدر سپینسر ڈبلیو کمبل نے، لامنی اسرائیلوں کی بات کرتے ہوئے سِکھایا کہ سارا امریکہ صیون ہے۔ اُس نے فرمایا، ”ہم اسرائیل میں ہیں اور مجتمع کیے جا رہے ہیں۔“(سپینسر ڈبلیو کِمبل کی تعلیمات، ایڈیشن۔ ایڈورڈ ایل کِمبل [۱۹۸۲]، ۴۳۹)۔

  19. جب باپ لِحی کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے خاندان کو لے کر بیابان میں چلے جائیں، تو کم از کم اُس کی وجہ یہ تھی کہ یروشلم تباہ ہو جائے گا (دیکھیں ۱ نیفی ۲)۔ سلیمانی ہَیکَل کی بربادی، یروشلیم کے زوال، اور یہوداہ کے قبیلہ کی اسیری تقریباً ۵۸۶ق م میں واقع ہوئی۔

    ”اِسرائیل تقریباً ۷۲۰ ق م میں فتح کِیا گیا، اور اِس کے ۱۰ قبائل کو جِلاوطن کر دِیا گیا۔ … [یروشلم میں،] ہیکلِ سلیمانی پر بیرونی طاقتوں کے کئی حملے ہوئے، آخر کار، ۵۸۶ ق م میں، شاہِ بابل نبوکدنضر، کی افواج کے ہاتھوں مکمل طور پر تباہ ہو گیا“ (ڈیوڈ بی گرین،” The History of the Jewish Temple in Jerusalem“ Haaretz، ۱۱ اگست ۲۰۱۴، haaretz.com/jewish/.premium-history-of-the-temple-in-jerusalem-1.5256337)۔ مزید دیکھیں ۲ سلاطین ۲۵ :‏۸ -۹۔

  20. دیکھیں ٹاڈ آر کالیسٹر، لامحدود کَفّارہ (۲۰۰۰)۔

  21. رِسل ایم نیلسن، ”اُمّتِ عہد،“ انزائن، مئی ۱۹۹۵، ۳۳؛ مزید دیکھیں ”عہُود،“ لیحونا، نومبر ۲۰۱۱، ۸۸۔

  22. دیکھیں رسل ایم نیلسن، آر سکاٹ لائیڈ میں، ”نئے تبلیغی صدُور کے لیے سیمینار: مُنتشر اِسرائیل کے لیے ’تیز رفتار پیامبرز،‘“ چرچ نیوز، ۱۳ جولائی، ۲۰۱۳، thechurchnews.com۔ صدر نیلسن نے بیان کِیا ہے کہ اجتماع ”انتخاب محلِ وقوع کا معاملہ نہیں؛ یہ اِنفرادی عزم کا معاملہ ہے۔ اپنے آبائی وطنوں کو چھوڑے بغیر لوگ ’خُداوند کے علم سے آگاہ کیے‘ [۳ نیفی ۲۰:‏۱۳] جا سکتے ہیں“ (”مُنتشر اسرائیل کا اکٹھا ہونا،“ لیحونا، نومبر ۲۰۰۶، ۸۱)۔ مزید دیکھیں ۳ نیفی ۲۱:‏۱-‏۷۔

  23. ہمارا عقیدہ واضح ہے؛ خُداوند نے اسرائیل کے قبائل کو اُن کی بغاوت اور اُن کی ناراستی کے سبب مُنتشر کیا۔ بہر کیف، ”خُداوند نے اپنے برگُزِیدہ لوگوں کے پراگندہ ہونے کو دُنیا کی قوموں میں اِن قوموں کو برکت دینے کے لیے بھی اِستعمال کیا۔ دیکھیں راہ نُماے صحائف، ”اسرائیل—پراگندگیِ اِسرائِیل،“ scriptures.ChurchofJesusChrist.org)

  24. سپنسر ڈبلیو کمبل،سپنسر ڈبلیو کمبل کی تعلیمات، ۴۳۹۔

  25. سپنسر ڈبلیو کمبل کی شہ سُرخی کے خُلاصہ میں، سپنسر ڈبلیو کمبل کی تعلیمات، ۴۳۸۔ مزید دیکھیں ”خُدا کے لیے سب برابر ہیں،“ ed۔ ای ڈیل لیبرون (۱۹۹۰)، میں شائع ہوئی، سیاہ فام افریقی مُقدسینِ ایامِ آخر کی تبدیلی کی ۲۳ کہانیوں کا مجموعہ۔ بہن جولیا این ماویمبلا نے کلِیسیا میں شامل ہونے اور لفظ اسرائیل پر آنے سے پہلے کہا، وہ ”کتاب کو ایک طرف پھینک دیں گی اور کہیں گی، ’یہ گوروں کے لیے ہے۔ یہ ہمارے لیے نہیں ہے۔ ہم چُنیدہ نہیں ہیں۔‘ آج مَیں جانتی ہُوں مَیں شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں، اگر راستی سے زندگی گزاروں۔ مَیں اسرائیلی ہوں، اور جب مَیں اپنی رسُومِ ہَیکَل ادا کر رہی تھی، مَیں نے یہ احساس پایا کہ ہم سب زمین پر ایک خاندان ہیں ( ”خُدا کے لیے سب برابر ہیں،“ میں ۱۵۱)۔

  26. عقائد اور عہُود ۲:۱۔

  27. سپنسر ڈبلیو کمبل، سپنسر ڈبلیو کمبل کی تعلیمات، ۴۳۸۔

  28. رسل ایم نیلسن، ”اِسرائیل کی آس۔“

  29. پولُس رسُول نے اپنے نوجوان دوست تیمُتھِیُس کو بتایا کہ ” تُو … ایمان داروں کے لیے نمونہ بن۔“ (۱ تیمتھیس ۴ :۱۲

  30. دیکھیں ۳ نیفی ۱۸:‏۲۴۔

  31. دیکھیں مُضایاہ ۸:۱۸-‏۱۳؛ ۳ نیفی ۱۸‏:۲۵؛ عقائد اور عہُود ۱۸:‏۱۰-‏۱۶؛ ۳۱‏:۵؛ ۶۲‏:۳۔

  32. عقائد اور عہُود ۱۳۸:‏۵۷۔