ناکامل فصل
نجات دہندہ ہماری عاجزانہ نذریں قبول کرنے اور اُن کو اپنے فضل کے ذریعے کامل کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ مسیح کے ساتھ، کوئی ناقص فصل نہیں ہے۔
ایک نوجوان لڑکے کے طور پرجنوب مغربی مونٹانا میں، جہاں مَیں بپلا بڑھا ہوں، مَیں نے سال کے موسموں میں ڈراماٰئی تبدیلیوں سے محبت کرنا سِیکھا۔ میرا پسندیدہ موسم خزاں تھا-فصل کی کٹائی کا وقت۔ ہمارے خاندان نے اُمید اور دُعا کی کہ ہماری مہینوں کی سخت محنت کا صِلہ بھرپور فصل کے طور پر ملے۔ میرے والدین موسم، جانوروں اور فصلوں کی صحت، اور بہت سی دوسری چیزوں کے بارے میں فکرمند تھے جن پر اُن کا بہت کم اختیار تھا۔
جُوں جُوں مَیں بڑا ہوتا گیا، مَیں اِس میں شامل ضروری صورتِ حال سے اور بھی آگاہ ہوتا گیا۔ ہمارا ذریعہ معاش فصل پر منحصر تھا۔ میرے والد نے اناج کاٹنے کے آلات کے بارے میں مجھے سِکھایا۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ مشینری کو کھیت میں لے جاتے، اناج کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کاٹتے، اور پھر کمبائن کے پیچھے چیک کرتے تا کہ یقینی بنایا جا ئے کہ زیادہ سے زیادہ اناج ڈبے میں گرا ہے اور بھُوسے کے ساتھ باہر نہیں پھینکا گیا۔ اُنھوں نے اِس مشق کو کئی بار دہرایا، ہر بار مشین کو درست کیا۔ مَیں اِس کے ساتھ بھاگا اور لاپرواہی کے ساتھ بھوسے میں گھس گیا اور ایسا دِکھاوا کیا جیسے مَیں جانتا ہوں کہ مَیں کیا کر رہا ہوں۔
جب وہ مشین کی ترتیب سے مطمئن ہوا تو مَیں نے زمین پر بھوسے میں سے اناج کے کچھ دانے پائے اور ایک تنقیدی نظر کے ساتھ اُسے پیش کیا۔ مَیں نہیں بھولوں گا جو میرے والد نے مجھ سے کہا : ”یہ کافی اچھی اور بہترین ہے جو یہ مشین کر سکتی ہے۔“ اُن کی وضاحت سے زیادہ مطمئن نہ ہوتے ہوئے، مَیں نے اِس فصل کی خامیوں پرغور کیا۔
تھوڑی دیر بعد، شام کو جب موسم سرد ہوگیا، تو مَیں نے ہزاروں ہنسوں، کونجوں اور بطخوں کو نیچے اُترے اورخُود کو سیر کرتے دیکھا جنھوں نے جنوب سے لمبا سفرطے کِیا تھا۔ اُنھوں نے ہماری ناقص فصل کا بچا ہوا اناج کھا لِیا۔ خُدا نے اِس کو کامِل کردیا تھا۔ اور ایک بھی دانہ ضائع نہ ہوا۔
ہماری دُنیا میں یہاں تک کہ ہماری کلیسِیا کی ثقافت میں بھی کاملیت کا خبط ہونا ایک بڑی آزمایش ہے۔ سوشل میڈیا، غیر حقیتی توقعات، اور اکثرخُود پر تنقید کرنا احساسِ کمتری پیدا کرتا ہے، کہ ہم بُہت اچھے نہیں ہیں اور کبھی بھی نہیں ہوں گے۔ کچھ نجات دہندہ کی دعوت کو بھی غلط سمجھ سکتے ہیں ” پس چاہئے کہ تم کامل بنو۔“۱
یاد رکھیں کہ کمال پسندی مسیح میں کامل ہونے کی طرح نہیں ہے۔۲ کمال پسندی ناممکن، اور خُود ساختہ معیار کا تقاضا کرتی ہے جو کہ ہمارا موازنہ دوسروں کے ساتھ کرتی ہے۔ یہ احساسِ جرم اور بے چینی کا موجب بنتی ہے، اور ہمیں پیچھے ہٹنے اور الگ ہونے پر مجبور کر سکتی ہے۔
مسیح میں کامل ہونا ایک دوسرا معاملہ ہے۔ یہ—رُوحُ القُدس سے محبت بھری ہدایت پا کر——مزید مُجنّی کی مانند بننے کا عمل ہے۔ یہ معیارات ایک مہربان اور معرفتِ کُل آسمانی باپ نے بنائے ہیں اور عہُود میں واضح ہیں جن کو قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ ہمیں جُرم اور نااہل ہونے کے بوجھ سے راحت دیتا ہے، ہمیشہ اِس پر زور دیتے ہوئے کہ ہم خُدا کی نظر میں کون ہیں۔ اگرچہ یہ عمل ہمیں مُستحکم کرتا اور بہتر بناتا ہے، ہماری جانچ خُدا کے ساتھ ہماری انفرادی عقیدت سے ہوتی ہے جو کہ ہم اُس کی فرماں برداری سے ظاہر کرتے ہیں۔ جب ہم مسیح کی اُس کے پاس آنے کی دعوت کو قبول کرتے ہیں، ہم جلد ہی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا بہترین کافی ہے اور یہ کہ مُحب مُنجی کا فضل باقی کمی کو ایسے طریقوں سے پورا کرے گا جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
ہم اِس اُصول کو اُس وقت کار فرما دیکھتے ہیں جب نجات دہندہ نے پانچ ہزار کو کھانا کھِلایا۔
”پس جب یِسُوعؔ نے اپنی آنکھیں اُٹھا کر دیکھا کہ میرے پاس بڑی بِھیڑ آ رہی ہے تو فِلپُّس سے کہا کہ ہم اِن کے کھانے کے لِئے کہاں سے روٹِیاں مُول لیں؟ …
”فِلپُّس نے اُسے جواب دِیا کہ دو سَو دِینار کی روٹِیاں اِن کے لِئے کافی نہ ہوں گی کہ ہر ایک کو تھوڑی سی مِل جائے۔
”اُس کے شاگِردوں میں سے ایک نے یعنی شمعُوؔن پطرس کے بھائی اندرؔیاس نے اُس سے کہا،
”یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس جَو کی پانچ روٹِیاں اور دو مچھلِیاں ہیں مگر یہ اِتنے لوگوں میں کیا ہیں؟“۳
کبھی آپ نے سوچا کہ نجات دہندہ نے اُس نوجوان لڑکے کے بارے میں کیا سوچا ہو گا، جس نے بچّے جیسے ایمان سے وہ نذر کِیا جِس کو وہ سمجھتا تھا کہ اُس ضرورت کے لیے ناکافی ہے؟
”یِسُوعؔ نے وہ روٹِیاں لِیں اور شُکر کر کے شاگردوں میں اور شاگردوں نے اُنھیں جو بَیٹھے تھے بانٹ دِیں اور اِسی طرح مچھلِیوں میں سے جِس قدر چاہتے تھے بانٹ دِیا۔“
”جب وہ سیر ہو چُکے تو اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا کہ بچے ہُوئے ٹُکڑوں کو جمع کرو تاکہ کُچھ ضائع نہ ہو۔“۴
نجات دہندہ نے اُس عاجزانہ نذر کو کامل کردیا۔
اِس تجربے کے تھوڑی دیر بعد، یسوع نے اپنے شاگردوں کو کشتی پر بھیج دیا۔ آدھی رات کو اُنھوں نے اپنے آپ کو طوفانی سمندر میں پایا۔ جب اُنھوں نے پانی پر اپنی طرف چلتے ہوئے بُھوت کی سی شکل دیکھی تو وہ بُہت خوف زدہ ہو گئے۔
”یِسُوعؔ نے فوراً اُن سے کہا خاطِر جمع رکھّو؛ مَیں ہُوں؛ ڈرو مت۔
”پطرسؔ نے اُس سے جواب میں کہا، اَے خُداوند اگر تُو ہے تو مُجھے حُکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آؤں۔
”اوراُس نے کہا آ۔ اور جب پطرسؔ کشتی سے اُتر کر یِسُوعؔ کے پاس جانے کے لِیے پانی پر چلنے لگا۔
”مگر جب اُس نے تیز وتُند ہَوا دیکھی، تو ڈر گیا؛ اور جب ڈُوبنے لگا؛ تو چِلایا، … اَے خُداوند، مُجھے بچا۔
”یِسُوعؔ نے فوراً ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑ لِیا، اور اُس سے کہا، اَے کم اِعتقاد تُو نے کیوں شک کِیا؟“۵
بھائیو اور بہنو، وہ گفت گو کا اختتام نہیں ہو گا۔ مجھے لگتا ہے کہ جب پطرسؔ اور نجات دہندہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے کشتی پر واپس چلے، پطرسؔ پانی سے پورا بھیگا خُود کو بُہت بیوقوف سمجھتے ہوئے، نجات دہندہ نے کچھ ایسا کہا ہوگا: ”اوہ، پطرسؔ، خوف نہ کھاؤ اور پریشان مت ہو۔ اگر تم اپنے آپ کو اُس طرح دیکھتے جس طرح سے مَیں دیکھتا ہوں تو تمھارا شک چلا جاتا اور تمھارا ایمان بڑھ جاتا۔ پیارے پطرسؔ، مَیں تم سے پیار کرتا ہوں؛ آپ کشتی سے باہر آ گئے۔ آپ کی پیش کش قابلِ قبول ہے، اور اگرچہ تم سے غلطی ہوئی، مَیں ہمیشہ تمھیں گہرائی سے اُٹھانے کے لیے موجود ہُوں گا، اور تمھاری نذر کامل ہو گی۔“
بزرگ ڈئیٹر ایف اُکڈورف نے سِکھایا:
”میرا اِیمان ہے کہ نجات دہندہ چاہتا ہے کہ آپ دیکھیں، محسُوس کریں، اور جانیں کہ وہ آپ کی قُوّت ہے۔ کہ اُس کی اعانت سے آپ کوئی بھی اَمر انجام دے سکتے ہیں جِس کی کوئی حد مُقرر نہیں ہے۔ کیوں کہ آپ کی صلاحیت لامحدود ہے۔ وہ چاہے گا کہ آپ اپنے آپ کو ایسے دیکھیں جیسے وہ آپ کو دیکھتا ہے۔ اور جیسے دُنیا آپ کو دیکھتی ہے اُس سے بہت مُختلف …
”وہ تھکے ہُوؤں کو زور بخشتا ہے؛ اور جو ناتواں محسُوس کرتے ہیں، اُن کی توانائی کو دو چند کرتا ہے۔“۶
ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری جو بھی بہترین مگر ناکامل نذریں ہوں، نجات دہندہ اُنھیں کامل بنا سکتا ہے۔ ہماری کوششیں کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہوں، ہمیں نجات دہندہ کی طاقت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک سادہ پُرشفقت لفظ، خدمت گزاری کی مُختصر مگر مُخلص ملاقات، پرائمری کا پیارسے پڑھایا گیا سبق، نجات دہندہ کی مدد سے، سُکون پہنچاتا ہے، دِلوں کو نرم کرتا ہے اور اَبدی زندگیوں کو تبدیل کرتا ہے۔ ہماری نا تجربہ کار کوششیں معجزے برپا کرتی ہیں، اور اِس عمل میں ہم کامل فصل میں شرکت کرسکتے ہیں۔
اکثر ہم ایسے حالات میں پڑجاتے ہیں جن کی بدولت ہمیں زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ شاید ہم خُود کو کام کے اہل نہ پائیں۔ ہم اُن لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جِن کے ساتھ ہم خِدمت کرتے ہیں اور محسُوس کرتے ہیں کہ ہم پورا کام نہیں کر پائیں گے۔ بھائیو اور بہنو، اگر آپ اِس طرح محسُوس کرتے ہیں تومیرے پیچھے بیٹھے ہوئے غیر معمولی خواتین و حضرات کو دیکھیں جن کے ساتھ مَیں خدمت کرتا ہوں۔
مَیں آپ کے درد کومحسوس کرتا ہوں۔
مَیں نے بہرحال سِیکھا ہے، کہ جس طرح کامل پسندی مسیح میں کامل ہونے کی مانند نہیں ہے۔ اِسی طرح خُود کا موازنہ بھی تقلید جیسا نہیں ہے۔ جب ہم اپنے آپ کا موازنہ دُوسروں کے ساتھ کرتے ہیں، اُس کے صرف دو نتائج ہو سکتے ہیں۔ یا تو ہم اپنے آپ کو دُوسروں سے بہتر جانیں گے اور دُوسروں کے لیے فیصلہ کُن اور ناقد ہوجائیں گے، یا اپنے آپ کو دُوسروں سے کم تر جانیں گے اور بے چین ہو جائیں گے، اور خُود کے ناقد بن جائیں گے اور مایوس ہوجائیں گے۔ اپنے آپ کا دُوسروں سے موازنہ کرنا شاید ہی فائدہ مند ہو، حوصلہ افزا نہیں ہوتا، اور کبھی بہت مایوس کُن ہوتا ہے۔ در حقیقت ایسے موازنے رُوحانی طور پر تباہ کُن ہو سکتے ہیں، اور جس رُوحانی مدد کی ضرورت ہمیں چاہیے اُس میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ دُوسری طرف، جِن کا ہم احترام کرتے ہیں اُن کی تقلید کرنے سے ہم مسیح جیسی صِفات کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ سبق آموز اور حوصلہ افزا ہو سکتی ہیں، اور یِسُوعؔ مسیح کے بہتر شاگرد بننے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔
نجات دہندہ نے تقلید کرنے کے لیے ہمیں نمونہ دیا ہے جیسے اُس نے باپ کی تفلید کی۔ اُس نے اپنے شاگرد فِلِپُّس کو ہدایت کی:”یِسُوعؔ نے اُس سے کہا اَے فِلِپُّس! مَیں اِتنی مُدّت سے تُمہارے ساتھ ہُوں کیا تُو مُجھے نہیں جانتا؟ جِس نے مُجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تُو کیوں کر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دِکھا؟“۷
اور پھِر اُس نے سِکھایا، ” مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو مُجھ پر اِیمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہُوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا۔“۸
اِس سے قطع نظر کہ ہماری کوششیں کتنی ہی کم اہم کیوں نہ دِکھائی دیں، اگر ہم مُخلص ہیں، تو نجات دہندہ اپنے کام کی تکمیل کے لیے ہمیں استعمال کر ے گا۔ اگر ہم صرف اپنی بہترین کوشش جو ہم کر سکتے ہیں کریں اور بھروسا کریں کہ وہ کمی کو پورا کرے گا تو ہم اپنے ارد گرد ہونے والے معجزوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔
بزرگ ڈیل جی رینلڈ نے فرمایا، ”آپ کو کامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے، مگر ہمیں آپ کی ضرورت ہے، کیونکہ ہر کوئی جو رضامند ہے کچھ نہ کچھ کر سکتا ہے۔“۹
جِس طرح صدر رسل ایم نیلسن ہمیں سِکھاتے ہیں، کہ ”خُداوند کاوِش پسند کرتا ہے۔“۱۰
نجات دہندہ ہماری عاجزانہ نذریں قبول کرنے اور اُن کو اپنے فضل کے ذریعے کامل کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ مسیح کے ساتھ، کوئی ناقص فصل نہیں ہے۔ ہم میں یہ ماننے کا حوصلہ ہونا چاہیے کہ اُس کا فضل ہمارے لیے ہے—کہ وہ ہماری مدد کرے گا، جب ہم لڑکھڑاتے ہیں، ہمھیں پستیوں سے چھٹکارا دِلائے گا اور ہماری نامکمل کوششوں کو کامل بنائے گا۔
بیج بونے والی تمثیل میں، نجات دہندہ اُن بیجوں کے بارے میں بیان کرتا ہے جو اچھی زمین میں بوئے گئے۔ کچھ سو گُنا، کچھ ساٹھ گُنا اور دوسرے تیس گُنا پھل لائے۔ سب اُس کی کامل فصل کا حصہ ہیں۔۱۱
نبی مرونیؔ نے سب کو دعوت دی، ”ہاں، مسِیح کی طرف رُجوع لاؤ ، اور اُس میں کامل بنو، … اور اگر تُم ہر طرح کی بے دینی سے خُود کا انکار کرو گے، اور خُدا کو اپنی ساری قُوت، عقل اور طاقت سے پیار کرو، تب اُس کا فضل تمہارے لیے کافی ہوگا، تاکہ اُس کے فضل کے وسیلے تُم مسِیح میں کامل بنو“۱۲
بھائیو اور بہنو، مَیں مسیح کی گواہی دیتا ہوں جو ہماری سب سے عاجزانہ نذروں کو بھی کامل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ آئیں اپنی بہترین کوشش کریں، جو کچھ کر سکتے ہیں کریں، اپنی نامکمل کوششیں اُس کے چرنوں میں اَرپن کریں۔ اُس کے نام میں جوکامل فصل کا مالک ہے یِسُوعؔ مسِیح کے نام پر، آمین۔