مجلسِ عامہ
ہم اُن کو پرکھیں گے
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۰


15:19

ہم اُن کو پرکھیں گے

ابرہام ۳: ۲۵۔

یہی وہ وقت ہے کہ ہم تیاری کریں اور ثابت کریں کہ ہم وہ تمام چیزیں کرنے پر رضامند اور قابل ہیں جن کا حکم خُداوند ہمارا خُدا ہمیں دیتا ہے۔

اِس مجلسِ عامہ کی تیاری کرتے ہوئے میرے دل و دماغ میں آنےوالے احساسات و خیالات آپ کو بتاتے ہوئے میں دعا کرتا ہوں کہ روح اُلقدس ہم سب کی مدد فرمائے۔

امتحانوں کی اہمیت

کلیسیا میں کُل وقتی خدمت کی بلاہٹ پانے سے پہلے میں یونی ورسٹی میں دو دہائیوں سے ذیادہ تک بطور معلم اور منتظم کام کرتا رہا تھا۔ بطور معلم میری بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ میں طالبِ عملوں کو سکھاوٗں کہ وہ از خود کیسے سیکھ سکتے ہیں۔ اور میرے کام کا اہم جزو یہ تھا کہ میں امتحان مرتب کر کے اُن کی درجہ بندی کروں اور طالبِ عملوں کو اُن کی کارکردگی کی وضاحت کروں۔ شائد آپ ذاتی تجربے سے جانتے ہوں کہ سلسلہِ تدریس میں عام طور پر امتحان طالبِ علموں کا پسندیدہ ترین حصہ نہیں ہوتے!

لیکن سیکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً امتحان بہت ضروری ہیں۔ موثر امتحان یہ موازنہ کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ہمیں کسی بھی محصوص مضمون کے بارے میں کیا جاننے کی ضرورت ہے اور ہم کیا کچھ جانتے ہیں؛ یہ ہمارے لیے ایک معیار بھی مہیا کرتا ہے جس سے ہم اپنی تعلیم و ترقی کی قدر پیمائی کر سکتے ہیں۔

اِسی طرح مدرسہِ فانیت میں امتحان ہماری ابدی ترقی کا انتہائی اہم جزو ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امتحان کے لیے انگریزی میں مستعمل لفظ ٹیسٹ انگریزی کے صحافِ مستند کے متن میں ایک بار بھی نہیں ملتا۔ بلکہ آسمانی باپ کے خوشی کے ابدی منصوبے کے بارے میں اپنی سمجھ، اور لگاوٗ ظاہر کرنے اور نجات دہندہ کے کفارہ سے برکات پانے کی استعداد کا مناسب اظہار کرنے کے لیے پرکھ, جانچ اور آزمانا جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

منصوبِہِ نجات کے خالق نے قدیم و جدید صحائف میں ہمارے زمانہِ فانیت کا مقصد بیان کرنے کے لیے پرکھ, جانچ اور آزمانا جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ”اور اِسی سے ہم اُن کی جانچ کریں گے، یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ وہ سب کریں گے جن کا خُداوند اُن کا خُدا انہیں حکم دے گا۔“۱

زبور نویس داوؔد کی التجا سنیں:

اے خُداوند مجھےجانچ اور آزما میرے دل و دماغ کو پرکھ ۔

”کیونکہ تیری شفقت میری آنکھوں نے سامنے ہے : اور میں تیری سچّائی کی راہ پر چلتا رہا ہُوں۔“۲

۱۸۳۳ میں خُداوند نے اعلانیہ کہا ”اس لیے اپنے دشمنوں سے خوف ذدہ نہ ہو کیونکہ میں اپنے دل میں حکم صادر کر چکا کہ میں تمام باتوں میں تیری جانچ کروں گا، کہ کیا تُو حتیٰ کہ موت تک میرے عہد میں قائم ریتا ہے، تا کہ تُو اہل پایا جائے۔“۳

دورِ حاضر کی جانچ اور آزمائش

سال ۲۰۲۰ کی شہ سرخیوں میں سے ایک عالمی وبا ہے جس نے بہت سے طریقوں سے ہماری پرکھ، جانچ اور آزمائش کی ہے۔ میری دعا یہ ہے کہ افراد و خاندان وہ گراں قدر اسباق سیکھ رہے ہیں جو ہمیں صرف مشکل تجربات ہی سکھا سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم سے مزید مکمل طور سے ”خُدا کی عظمت“ اور یہ سچائی جانیں کے کہ ”وہ [ہماری] تکالیف کی تقدیس کرے گا کہ وہ [ہمارے] فائدے ہی کے لیے ہوں۔“۴

کسی بھی طرح کے پرکھنے اور آزمانے والے حالات کا سامنہ کرتے ہوئے دو بنیادی اُصول ہمیں راہ نمائی اور پختگی مہیا کر سکتے ہیں: (۱) تیاری کا اُصول، اور (۲) مسیح میں ثابت قدمی سے آگے بڑھنے کا اُصول۔

پرکھنا اور تیاری

نجات دہندہ نے شاگردوں کے طور پر ہمیں حکم ہے کہ ہم ”ضرورت کی ہر بات میں تیاری کریں اور ایسا گھر قائم کریں جو دعا کا گھر، روزے کا گھر، ایمان کا گھر، تعلیم کا گھر، جلال کا گھر، ترتیب کا گھر، خُدا کا گھر ہو۔“۵

ہم سے وعدہ کیا گیا ہے، ”اگر تُم تیار ہو،تُم خوف نہ کھاؤ گے۔

”اور کہ تم دشمن کے چَنگُل سے نکل سکو، اور راست باز لوگ بن کر میرے پاس اکٹھے ہو، بے داغ اور بے عیب۔“۶

یہ صحائف ہماری زندگیوں اور گھروں کی تنظیم اور تیاری کے لیے کامل بنیادی ڈھانچہ مہیا کرتے ہیں۔ فانیت کے تجربات میں پرکھے جانے کی تیاری میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم جات دہندہ کی مثال کی پیروی کریں جو ایزادی طور پر ”حکمت اور قد و قامت میں اور خُدا اور اِنسان کی مقبوُلِیّت میں ترقّی کرتا گیا۔“۷—یہ عقلی، جسمانی، روحانی اور سماجی تیاری کا متوازن امتزاج ہے۔

چند ماہ پہلے ایک دوپہر سوزن اور میں نے اپنے خوراک کے ذخیرے اور ہنگامی رسد کی گنتی کی۔ اُس وقت کووڈ-۱۹ تیزی سے پھیل رہا تھا اور یوٹاہ میں ہمارے گھر کو زلزوں نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہم نے اپنی شادی کے ابتدائی دنوں سے اَن دیکھی مشکلات کے لیے تیاری کرنے کی انبیانہ مشورت پر عمل کیا ہے، اس لیے وائرس اور زلزلوں کے وسط میں اپنی تیاری کی حالت کا جائزہ لینا بھلی اور بر محل بات لگی۔ ہم چاہتے تھے کہ اِس غیر متوقع امتحان میں اپنے نمبر دیکھیں۔

ہم نے بہت کچھ سیکھا۔ بہت سی چیزوں میں ہماری تیاری باکل ٹھیک تھی۔ لیکن دوسری چیزوں میں بہتری کی ضرورت تھی کیونکہ ہم نے کچھ مخصوص ضرورتوں کو بروقت پہچانا اور پورا نہیں کیا تھا۔

سو ہم بہت ہنسے۔ مثلاً ہم نے ایک کونے میں پڑی الماری میں ایسی چیزیں دیکھیں جو کئی دہائیوں سے ہماری خوراک کے ذخیرہ میں پڑی تھیں۔ اگر بے تکلفّی سے کہوں تو ہم وہاں پڑے ڈبّے کھولنے سے ڈر رہے تھے کہ کہیں کھولنے پر کوئی اور عالمی وبا شروع نہ ہو جائے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر خوشی ہونی چاہے کہ ہم نے تمام مہلک مواد مناسب طور پر موقوف کیا ہے اور دنیا کی صحت کو درپیش خدشات حذف ہو چکے ہیں۔

کلیسیا کے کچھ ارکان کی رائے میں ناگہانی کے لیے منصوبہ بندی اور رسد؛ خوراک کا ذخیرہ اور ۷۲ گھنٹے کے لیے بیگ شائد اب ضروری نہیں رہے کیونکہ بھائیوں نے مجلسِ عامہ میں اِن پر اور اِن سے منسلکہ دیگر موضوعات پر حالیہ اور پُر زور گفتگو نہیں کی ہے۔ لیکن کلیسیا کے رہنما کئی دہائیوں سے تیار رہنے کی نصیحت دہرا رہے ہیں۔ کافی وقت سے دی جا رہی انبیانہ مشورت کا تواتر اور صراحت، تنبیہ کی ایسی قوی آواز بن چکے ہیں جو کسی بھی واحد خبرداری سے ذیادہ اونچی ہے۔

جیسے مشکل وقت ہماری جسمانی تیاری کی کمزوریاں افشا کرتے ہیں ویسے ہیں روحانی غیر سنجیدگی اور عدم توجہی کے عارضے مشکل امتحانوں میں اپنے مضر ترین اثرات مسلط کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم دس کنواریوں کی تمثیل میں سیکھتے ہیں کہ تیاری میں تاخیر، پرکھنے جانے میں ناکامی کا موجب ہے۔ یاد کریں کہ کیسے پانچ بے وقوف کنواریاں دُلہے کے آنے والے دن پر اُنہیں دیے جانے والے امتحان کے لیے مناسب طور پر تیاری کرنے میں ناکام ہوئیں۔

”جو بے وقوف تھیں اُنہوں نے اپنی مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا:

”مگر عقل مندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ ساتھ کُپیّوں میں تیل بھی لے لیا۔

”اور آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دُلہا آ گیا! اُس کے استقبال کو نکلو۔

”اُس وقت وہ ساری کنواریاں اُٹھ کر اپنی مشعل درست کرنے لگیں۔

”اور بیوقوفوں نے عقل مندوں سے کہا کہ اپنے تیل میں سے کچھ ہم کو بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں بُجھی جاتی ہیں۔

”عقلمندوں نے جواب دیا کہ شاید ہمارے تُمہارے دونوں کے لیے کافی نہ ہو۔ بہتر یہ کہ بیچے والوں کے پاس جا کر اپنے واسطے مول لے لو۔

”جب وہ مول لینے جا رہی تھیں تودُلہا آ پہنچا اور جو تیّار تھیں وہ اُس کے ساتھ شادی کے جشن میں اندر چلی گئیں اور دروازہ بند ہو گیا۔

”پھر وہ باقی کنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں خُداوند! اے خُداوند ہمارے لیے دروازہ کھول دے۔“۸

”اُس نے جواب میں کہا میں تُم سے سچ کہتا ہُوں تم مجھے نہیں جانتیں۔“۹

کم از کم اِس امتحان میں تو بے وقوف کنواریوں نے ثابت کیا کہ وہ کلام کو محض سننے والی ہیں اور عمل کرنے والی نہیں۔ ۱۰

میرا ایک دوست ہے جو قانون کا با ضمیر طالب علم ہے۔ سمیسٹر کے دوران، سام جو بھی مضامین پڑھ رہا ہوتا تھا سام ہر روز اُن کے نوٹس دہراتا، اُن کا خلاصہ کرتا اور اُن سے سیکھتا۔ وہ ہر ہفتے اور مہینے کے آخر میں اِسی نمونے پر عمل کرتا تھا۔ اِس نمونے نے اُسے اِس قابل بنا دیا کہ وہ قانون سیکھ لے نہ کہ صرف تفصیلات ذہن نشین کرے۔ جب فائنل امتحان کا وقت آیا تو سام کی تیاری مکمل تھی۔ بلکہ اُس نے جانا کہ فائنل امتحان کا وقت اُس کی قانونی تربیت میں کم ترین دباوٗ کا دور تھا۔ امتحان میں کامیابی سے پہلے بروقت اور موٗثر تیاری ضروری ہے۔

قانون کی تعلیم پانے میں سام کا طریقہ، ترقی اور نشونما کے لیے خُداوند کے بنیادی نمونے کو نمایاں کرتا ہے۔ ”خُداوند خُدا یوں فرماتا ہے میں بنی آدم کو فرمان پر فرمان، حکم پر حکم بخشوں گا تھوڑا یہاں اور تھوڑا وہاں؛اور مبارک ہیں وہ جو میرے فرمانوں کو سنتے ہیں، … کیوں کہ وہ حکمت سیکھیں گے؛ کیوں کہ جس کے پاس ہے اُسے اور دیا جائےگا۔“۱۱

میں، ہم سب کو دعوت دیتا ہوں کہ ”[ہم] اپنی روش پر غور“ کریں۱۲ اور ”[اپنےآپ] کو آزمائیں کہ [ہم] ایمان پر ہیں یا نہیں [اور] اپنے آپ کو جانچیں۔“۱۳ ہم نے طرزِ زندگی بدلنے اور پاندیوں والے اِن حالیہ مہینوں سے کیا سیکھا ہے؟ ہمیں اپنی زندگیوں میں روحانی، جسمانی، سماجی، جذباتی اور شعوری طور پر کیا بہتری لانی ہے؟ یہی وہ وقت ہے کہ ہم تیاری کریں اور ثابت کریں کہ ہم وہ تمام چیزیں کرنے پر رضامند اور قابل ہیں جن کا حکم خُداوند ہمارا خُدا ہمیں دیتا ہے۔

پرکھ اور پیش قدمی

ایک بار میں ایک نوجوان مشنری کے جنازے پر گیا جو ایک حادثے میں مارا گیا تھا۔ مشنری کے والد نے عبادت میں بات کی اور اپنے عزیز بچے سے ناگہاں فانی علیحدگی کی تکلیف کا ذکر کیا۔ اُس نے صاف صاف کہا کہ ذاتی طور پر اِس واقعہ کے اوقات و وجوہات اُس کی سمجھ سے باہر تھے۔ لیکن مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کہ اِس بھلے آدمی نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ جانتا تھا کہ خُدا اُس کے بچے کی موت کے وقت و وجہ جانتا ہے—اور اُس کے لیے یہی کافی تھا۔ اُس نے وہاں موجود لوگوں کو بتایا کہ اُس کا خاندان اُداس تو ہے لیکن ٹھیک ہے، اُن کی گواہیاں مضبوط اور مستحکم ہی رہیں۔ اُس نے اپنی بات کا اختتام اِن الفاظ سے کیا ”میں چاہتا ہوں کہ آپ جان لیں کہ جہاں تک یسوع مسیح کی انجیل کا تعلق ہے ہمارا خاندان مکمل طور پر اِس سے جُڑا ہوا ہے۔ ہم سب اِس سے وابسطہ ہیں۔“

گو کہ ایک عزیز کو کھونا تکلیف دہ اور مشکل تھا، اِس دلیر خاندان کے افراد یہ ثابت کرنے کے لیے تیار تھے کہ وہ اپنے پر گزرنے والی مصیبتوں کے ذریعے ابدی اہمیت کے اسباق سیکھ سکتے ہیں۔۱۴

پُر ایمان ہونا بے وقوفی یا خبطی وہم نہیں ہے۔ بلکہ، یسوع مِسیح پربطور نجات دہندہ، اور اُس نے نام اور وعدوں پر بھروسہ کرنا ہے جب ہم ثابت قدمی کے ساتھ، کامل درخشاں اُمید پا کر،اور خُدا اور کُل بنی نوع اِنسان کی محبت میں آگے بڑھتے“ ہیں۱۵ تو ہمیں ابدی تناظر اور نظارے کی برکت ملتی ہے جو ہماری محدود فانی سمجھ سے بہت ذیادہ وسیع ہے۔ ہم اس قابل بنا دیے جاتے ہیں کہ ”اکٹھے ہوں اور مقدس جگہوں میں قائم رہیں“۱۶ اور ”خُداوند کی آمد کے دن تک جنبش نہ کھائیں۔“۱۷

جب میں بریگھم ینگ یونی ورسٹی–آئڈاہو کے صدر کے طور پر خدمت کر رہا تھا تو ہمارے ہفتہ وار ڈیوشنل پر دسمبر ۱۹۹۸ میں ایلڈر جیفری آر ہالینڈ ہم سے خطاب کرنے آئے۔ سوزن اور میں نے کچھ طالبِ عملوں کو ایلڈر ہالینڈ سے اُن کے خطاب سے پہلے ملنے کے لیے بلایا۔ جب ہمارا وقت ختم ہو رہا تھا تو میں ایلڈر ہالینڈ سے پوچھا ”اگر آپ اِن طالبِ عملوں کو صرف ایک چیز سکھا سکیں تو وہ کیا ہو گی؟“

اُنہوں نے جواب دیا:

”ہم متضاد دھڑے بندیوں کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بطور مقدسینِ آخری ہم سے تعدیلی انتخاب لے لیا جائے گا۔ درمیانی راستہ سمیٹ دیا جائے گا۔

”اگر آپ دریا کے بہاؤ میں تیر رہے ہیں تو وہ آپ منزل نہیں پا سکیں گے۔ جہاں بہاؤ جائے گا آپ بھی وہاں جائیں گے۔ ندی کے ساتھ چلنا، مدوجزن کی پیروی کرنا، بہاؤ میں بہنا کافی نہیں ہے۔

”چناؤ کرنا ضروری ہے۔ چناؤ نہ کرنا بھی ایک چناؤ ہے۔ چناؤ کرنا سکیھیں۔“

بڑھتی قطبی دھڑے بندیوں کی طرف جانے والا ایلڈر ہالینڈ کا بیان جو اُنہوں نے ۲۲ سال پہلے میرے سوال کے جواب میں دیا تھا سماجی رجحانات اور واقعات کی روشنی میں انبیانہ ثابت ہوا ہے۔ خُداوند اور دنیاوی راہوں میں بڑھتے ہوئے انفراج کی پینشن گوئی کرتے ہوئے، ایلڈر ہالینڈ نے ہمیں خبردار کیا کہ ایک پاؤں بحال شدہ انجیل اور دوسرا پاؤں دنیا میں رکھنے والے دن تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ خُداوند کا یہ خادم نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا کہ وہ چُناؤ کریں، تیاری کریں اور منجی کے وقف شاگرد بنیں۔ وہ اُن کی مدد کر رہے تھے کہ وہ اپنی زندگیوں کے پرکھنے، جانچنے اور آزمانے والے واقعات کی جانب چلنے اور اُن میں سے گزرنے کی تیاری کریں۔

وعدہ اور گواہی

ہمارے پرکھے جانے کا عمل آسمانی باپ کے خوشی کے عظیم منصوبے کا بنیادی حصہ ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب ہم تیاری کرنے اور منجی پر ایمان میں پیش قدمی کرنے کے دونوں کام کرتے ہیں تو ہم سب فانیت کے آخری امتحان میں ایک جیسے نمبر حاصل کر سکتے ہیں: ”اے اچھے اور دیانت دار نوکر شاباش! تو تھوڑے میں وفادار رہا میں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناؤں گا: اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو۔“۱۸

میں گواہی دیتا ہوں کہ خُدا ابدی باپ ہمارا باپ ہے۔ یِسُوع مِسیح اُس کا اِکلوتا اور زندہ بیٹا، اور ہمارا نجات دہندہ اور منجی ہے۔ مَیں شادمانی سے اِن سچّائیوں کی خُداوند یِسُوع مسِیح کے مُقدّس نام پر گواہی دیتا ہُوں، آمین۔