ساکِت ہو، تھم جا
نجات دہندہ ہمیں سِکھاتا ہے کہ امن و سکون کیسے محسوس کرنا ہے یہاں تک کہ جب ہمارے گرد آندھیاں شدت سے چلتی ہیں اور لہراتی لہریں ہماری اُمیدوں کو ڈبونے کے لیے ڈراتی ہیں۔
جب ہمارے بچے چھوٹے تھے، تو ہمارے خاندان نے کچھ دن ایک خوبصورت جھیل پر گزارے۔ ایک دوپہر کچھ بچوں نے کنارے سے چھلانگ لگانے اور پانی میں جانے سے پہلے لائف جیکٹس پہنیں۔ ہماری سب سے چھوٹی بیٹی نے ہچکچاہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے، اپنے بھائی بہنوں کا بغور مشاہدہ کیا۔ وہ جتنی بہادری سے ہمکنار ہوسکتی تھی، اس نے ایک ہاتھ سے اپنی ناک پکڑی اور چھلانگ لگا دی۔ وہ فورا اوپر آگئی اور گھبراہٹ کی آواز میں چیخی، ”میری مدد کرو! میری مدد کرو!“
اب، وہ کسی جان لیوا خطرہ میں نہیں تھی؛ اس کی لائف جیکٹ اپنا کام کر رہی تھی، اور وہ بحفاظت تیر رہی تھی۔ ہم تھوڑی کوشش سے اُس تک پہنچ کر اُس کو ڈیک پر لا سکتے تھے۔ پھر بھی اس کے نقطہ نظر سے، اسے مدد کی ضرورت تھی۔ شاید یہ پانی کی ٹھنڈ تھی یا کہ نیا تجربہ تھا۔ بہرحال، وہ واپس ڈیک کے اوپر چڑھ گئی، جہاں ہم نے اسے ایک خشک تولیے میں لپیٹا اور اس کی بہادری کی تعریف کی۔
چاہے ہم بوڑھے ہوں یا جوان، ہم میں سے بہت سے لوگوں نے، پریشانی کے لمحوں میں، ”میری مدد کریں!“ جیسے ہنگامی الفاظ بولے ہیں۔ ”مجھے بچائیں!“ یا ”براہِ مہربانی میری دُعاؤں کا جواب دیں!“
یِسُوع کے شاگردوں کے ساتھ اُس کی بشری خدمت کے دوران ایسا واقعہ پیش آیا۔ مرقس میں ہم پڑھتے ہیں کہ یِسُوع ”پھر جھیل کے کنارے تعلیم دینے لگا اور اُس کے پاس ایسی بڑی بھیڑ جمع ہوگئی۔“۱ بھیڑ اتنی بڑھ گئی کہ یِسُوع ”ایک کشتی میں جا بیٹھا“ اور اِس کے کنارے سے کلام کیا۔۲ تمام دِن اُس نے لوگوں کو تمثیلوں میں سکھایا جب وہ ساحل پر جا بیٹھے۔
”اور … جب [شام] ہوئی تو،“ اس نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”آؤ، ہم پار چلیں۔ اور جب اُس نے بھیڑ کو بھیج دیا،“۳ وہ ساحل سے روانہ ہوئے اور دریائے گلیل کے پار جا رہے تھے۔ کشتی کے پیچھے اُس نے ایک خالی جگہ دیکھی، یِسُوع لیٹا اور جلد ہی سوگیا۔ جلد ہی ”بڑی آندھی چلی، اور لہریں کشتی پر یہاں تک آئیں، کہ کشتی [تقریباً]“۴ پانی سے بھری جاتی تھی۔
یِسُوع کے بہت سے شاگرد تجربہ کار ماہی گیر تھے اور جانتے تھے کہ طوفان میں کشتی کو کیسے سنبھالنا ہے۔ وہ اُس کے قابلِ بھروسہ—واقعی، اُس کے محبوب—شاگرد تھے۔ اُنھوں نے اپنے کام، ذاتی مفادات اور خاندان یِسُوع کی پیروی کرنے کے لیے چھوڑ دیے تھے۔ کشتی میں اُن کی موجودگی اُس پر اُن کے ایمان کا ثبوت تھی۔ اور اب ان کی کشتی طوفان میں گھِری تھی اور بالکل ڈوبنے والی تھی۔
ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے طوفان میں کشتی کو تیرتے رہنے کے لیے کتنی دیر تک لڑائی کی، لیکن انہوں نے یِسُوع کو اپنی آواز میں گھبراتے ہوئے کہا:
”اے استاد کیا تجھے فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں؟“۵
”خُداوند، ہمیں بچا: ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں۔“۶
انہوں نے اسے ”استاد“ کہا اور وہ واقعی ہی ہمارا استاد ہے۔ وہ ”یِسُوع مسِیح، خُدا کا بیٹا، آسمان اور زمین کا باپ، ابتدا سے تمام چیزوں کا خالق بھی ہے۔“۷
کشتی میں اپنی جگہ سے، یِسُوع اُٹھا اور ہوا کو ڈانٹا اور مشتعل ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو کہا، ”ساکت ہو، تھم جا۔ پس ہوا بند ہوگئی اور بڑا امن ہو گیا۔“۸ دائمی کامل اُستاد، یِسُوع نے اپنے شاگردوں کو دو سادہ مگر پیارے سوالوں کے ذریعے سکھایا۔ اُس نے پوچھا:
”تم کیوں ڈرتے ہو؟“۹
”تمھارا ایمان کہاں گیا؟“۱۰
ایک فانی رجحان، حتیٰ کہ آزمائش ہے، کہ جب ہم خود کو آزمائشوں، تکالیف، یا مشکلات میں گھِرا پاتے ہیں تو ہم پکار اُٹھتے ہیں، ”اے استاد کیا تجھے فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں؟ مجھے بچا۔“ جوزف سمتھ نے بھی اندوہ ناک قید خانہ میں التجا کی،”اے خُدا، کہاں ہے تُو؟ اور وہ سائبان کہاں ہے جو تیری پناہ گاہ کو ڈھانپتا ہے؟“۱۱
یقیناً، دُنیا کا نجات دہندہ ہماری اِنسانی حدود کو سمجھتا ہے، کیونکہ وہ ہمیں سِکھاتا ہے کہ امن و سکون کیسے محسوس کرنا ہے یہاں تک کہ جب ہمارے گرد آندھیاں شدت سے چلتی ہیں اور لہراتی لہریں ہماری اُمیدوں کو ڈبونے کے لیے ڈراتی ہیں۔
پکے ایمان والوں، بچے جیسے ایمان، یا ذرے کے جیسا ایمان رکھنے والوں کو۱۲ یِسُوع دعوت دیتے ہوئے، کہتا ہے: ”میرے پاس آؤ۔“۱۳ ”میرے نام پر اِیمان لاؤ۔“۱۴ ”مجھ سے سیکھو، اور میرے کلام کو سُنو۔“۱۵ وہ پُر شفقت طریقے سے حُکم دیتا ہے، ”توبہ کرو اور میرے نام سے بپتسمہ [لو]،“۱۶ ”ایک دوسرے سے محبت رکھو کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی“۱۷ اور ”ہمیشہ مجھے یاد رکھو۔“۱۸ یِسُوع وضاحت کرتے ہوئے، یقین دلاتا ہے: ”میں نے یہ باتیں اس لیے کہیں کہ تُم مجھ میں اطمینان پاؤ۔ تُم دُنیا میں مُصیبت اُٹھاتے ہو: لیکن خاطر جمع رکھو؛ مَیں دُنیا پر غالِب آیا ہُوں۔“۱۹
میں تصور کرسکتی ہوں کہ یِسُوع کے شاگرد طوفان میں ڈگمگاتی کشتی سے، حسبِ ضرورت، لہروں کے زور کو کشتی کے کناروں سے ٹکرانا دیکھنے اور کشتی سے پانی نکالنے میں مصروف ہیں۔ میں ان کو کشتی کو سنبھالنے اور اپنی ادنیٰ مہارت کے ذریعے کشتی پر قابو رکھنے کی کوشش کرنے کا نقشہ کھینچ سکتی ہوں۔ ان کی توجہ اس لمحے زندہ رہنے پر تھی، اور ان کی فوری مدد کی درخواست مخلص تھی۔
اِس دور میں ہم میں سے بہت اُن سے مختلف نہیں ہیں۔ دنیا بھر اور ہماری اقوام، معاشروں اور خاندانوں میں حالیہ رونما ہونے والے واقعات نے ہمیں ان دیکھی آزمائشوں کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ ہلچل کے اوقات میں ہم اپنے فہم اور برداشت میں ایمان کے ذریعے وسعت محسوس کر سکتے ہیں۔ خوف کی لہریں ہمیں بھٹکا سکتی ہیں، جس کی وجہ سے ہم خُدا کی بھلائی کو بھول سکتے ہیں، پس ہمارے نقطہ نظرکو تنگ نظر اورتوجہ سے ہٹا سکتی ہیں۔ پھر بھی ہمارے اِس سفر کے مشکل حصوں میں ہمارے ایمان کو نہ صرف آزمایا بلکہ مضبوط کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے حالات سے قطع نظر، ہم جان بوجھ کر یِسُوع مسِیح پر اپنے ایمان کو تعمیر کرنے اور بڑھانے کی کوششیں کر سکتے ہیں۔ اسے تقویت ملتی ہے جب ہم یہ یاد کریں کہ ہم خُدا کے بچے ہیں اور وہ ہم سے پیار کرتا ہے۔ ہمارا ایمان بڑھتا ہے جب ہم مسِیح کی تعلیمات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے، امید اور جانفشانی کے ساتھ خُدا کے کلام پر تجربہ کرتے ہیں۔ ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جب ہم شک کی بجائے یقین، پرکھنے کی بجائے معاف، بغاوت کی بجائے توبہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہمارا ایمان بہتر ہوتا ہے، جب ہم صبر و تحمل سے پاک ممسوح کی خوبیوں اور رحمت اور فضل پر بھروسہ کرتے ہیں۔۲۰
”اگرچہ ایمان کامل علم نہیں ہے،“ ایلڈر نیل اے میکسویل نے کہا، ”اِس سے خُدا پر گہرا اعتماد آتا ہے، جس کا علم کامل ہے!“۲۱ ہنگامہ خیز اوقات میں بھی، خُداوند یِسُوع مسِیح پر اِیمان حوصلہ افزا اور لچکدار ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں غیر اہم خلفشار دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ہمیں عہد کے راستے پر چلتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایمان حوصلہ شکنی سے گزارتا ہے اور ہمیں عزم اور شانے اُٹھا کے مستقبل کا سامنا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جب ہم باپ سے اس کے بیٹے کے نام پر دعا کرتے ہیں تو یہ ہمیں بچاؤ اور راحت کی دعا کرنے کی تحریک بخشتا ہے۔ اور جب عاجزانہ درخواست کا جواب نہیں ملتا، تو ہمارا یِسُوع مسِیح پر مستقل ایمان صبر اور عاجزی اور عقیدت کے ساتھ یہ الفاظ بیان کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے ”تیری مرضی پوری ہو۔“۲۲
صدر رسل ایم نیلسن نے سکھایا:
”مگر ہمیں اپنے اِیمان کو اپنے ڈر سے موقوف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے اِیمان کو تقویت دیتے ہوئے اپنے خُوف سے لڑ سکتے ہیں۔
”اپنے بچوں سے اِس کا آغاز کریں۔ … حتیٰ کہ اگر آپ کو مشکل آزمائشوں کا سامنا بھی ہو، اُنہیں اپنا ایمان محسوس کرنے دیں۔ اپنے ایمان کو ہمارے آسمانی باپ اور اُس کے پیارے بیٹے، خُداوند یِسُوع مسِیح پر مرکوز ہونے دیں۔ … ہر بیش قدر لڑکے یا لڑکی کو یہ سکھائیں کہ وہ خُدا کے بچے ہیں، جو اس کی شکل پر، ایک مقدس مقصد اور صلاحیت کے ساتھ تخلیق کیے گئے ہیں۔ ہر کوئی چنوتیوں پر غالب آنے کے لیے اور ایمان کو ترقی دینے کے لیے پیدا ہوا ہے۔“۲۳
میں نے حال ہی میں سنا ہے کہ دو چار سالہ بچوں نے یِسُوع مسِیح پر اپنے ایمان کا اظہار کیا جب انہوں نے اس سوال کا جواب دیا کہ ”یِسُوع مسِیح آپ کی مدد کیسے کرتا ہے؟“ پہلے بچے نے کہا، ”میں جانتا ہوں کہ یِسُوع مجھے پیار کرتا ہے کیونکہ اُس نے میرے لیے جان دی۔ وہ بڑوں سے بھی پیار کرتا ہے۔“ دوسرے بچے نے جواب دیا، ”وہ میری مدد کرتا ہے جب میں اداس یا بد مزاج ہوتا ہوں۔ وہ میری مدد کرتا ہے جب میں ڈوب رہا ہوتا ہوں۔“
یِسُوع نے فرمایا، ”پس جو توبہ کرتا اور چھوٹے بچے کی مانند میرے پاس آتا ہے، میں اُسے قبول کروں گا، کیوں کہ آسمان کی بادشاہی ایسوں ہی کی ہے۔“۲۴
”کِیُوں کہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بَیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔“۲۵
حال ہی میں، صدر نیلسن نے وعدہ کیا ”کہ خوف کی کمی اور اِیمان کی کثرت رُونما ہوگی“ جب ہم ”نجات دہندہ کے کلام کو سُننے، غور سے سُننے، اور دھیان دینے کے لیے واقعی نئے سرے سے آغاز کریں گے۔“۲۶
بہنوں اور بھائیو، ہمارے موجودہ مشکل حالات ہماری آخری، ابدی منزل نہیں ہیں۔ کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام کے اَرکان کی حیثیت سے، ہم نے عہد کے ذریعے یِسُوع مسِیح کا نام اپنے پر لیا ہے۔ ہمیں اس کی بچانے والی طاقت پر یقین ہے اور اس کے عظیم اور قیمتی وعدوں پر امید ہے۔ ہمارے پاس خوشی کی ہر وجہ ہے، کیوں کہ ہمارا خُداوند اور نجات دہندہ ہماری پریشانیوں، فکروں اور غموں سے بخوبی واقف ہے۔ جیسا کہ یِسُوع اپنے قدیم شاگردوں کے ساتھ تھا، وہ ہماری کشتی میں بھی موجود ہے! میں گواہی دیتی ہوں کہ اُس نے اپنی جان دی ہے تاکہ آپ اور میں ہلاک نہ ہوں۔ کاش ہم اُس پر بھروسہ کریں، اُس کے حکموں پر عمل کریں اور ایمان سے اُس کی سُنیں، ”ساکت ہو، تھم جا۔“۲۷ یِسُوع مسِیح کے مُقدس اور پوِتر نام پر، آمین۔