اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھّو
یہ علم کہ ہم سب خُدا کے بچّے ہیں ہمیں دُوسروں کی قدر و قیمت کی بصیرت اور تعصب سے بالاتر ہونے کی قابلیت بخشتا ہے۔
خُداوند کی تعلیمات دائمی ہیں اور خُدا کے سب بچّوں کے لیے ہیں۔ اِس پیغام میں مَیں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی چند مثالیں پیش کروں گا، لیکن میں جو اُصول سِکھاؤں گا وہ ہر جگہ پر لاگو ہوتے ہیں۔
ہم سیاسی تعلقات اور پالیسیوں سے ناراضگی اور نفرت کے اوقات میں رہتے ہیں۔ اِن کا مشاہدہ ہم نے اِس موسم گرما میں کیا جب کچھ لوگ پُر امن احتجاج سے بالاتر ہوکر تباہ کن رویوں میں مشغول ہوگئے۔ ہم سرکاری عہدوں کے لیے چلائی جانے والی کچھ موجودہ مہموں کے باعث ایسا محسوس کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے، اِن میں سے کچھ سیاسی بیانات اور ناجائز حوالے حتیٰ کہ ہمارے کلِیسیائی اجلاسوں میں بھی پھیل چکے ہیں۔
ایک جمہوری حکومت میں ہم ہمیشہ مجوزہ اُمیدواروں اور پالیسیوں سے اختلافات رکھ سکتے ہیں۔ تاہم، مسِیح کے پیروکار ہونے کے ناطے ہمیں متعدد موقعوں پر اِس طرح کے غیظ اور نفرت امیز لہجے میں کسی سیاسی انتخاب پر بحث یا اُن کی مذمت سے باز رہنا چاہیے۔
اب میں ہمارے نجات دہندہ کی تعلیمات میں سے ایک کا بیان کروں گا، جو غالباً سب سے مشہور ہے مگر جس پر شاد و نادر ہی عمل کیا جاتا ہے:
”تُم سُن چُکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسِی سے محبّت رکھ اور اپنے دُشمن سے عَداوَت۔
”لیکِن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھّو، تُم پر لعنت بھیجنے والوں کو برکت دو، جو تُم سے نفرت کرتے ہیں اُن سے بھلائی کرو، اور اپنے ستانے والوں کے لِئے دُعا کرو“ (متّی ۵: ۴۳–۴۴)۔۱
کئی نسلوں سے، یہودیوں کو اپنے دُشمنوں سے نفرت کرنا سِکھایا گیا تھا، اور پھر وہ رومی قبضے کے تسلط اور ظلم وستم کو سہہ رہے تھے۔ پھر بھی، یِسُوع نے اُنھیں، ”اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھّنے“ اور ”اپنے ستانے والوں … کے ساتھ بھلائی کرنے“ کی تعلیم دی۔
ذاتی اور سیاسی تعلقات کے لیے یہ تعلیمات کس قدر انقلابی ہیں! لیکن ابھی بھی ہمارا نجات دہندہ یہی حُکم دیتا ہے۔ مورمن کی کتاب میں ہم پڑھتے ہیں، ”کیونکہ میں تُم سے سچّ سچّ کہتا ہوں، جس میں جھگڑے کی رُوح ہے وہ مجھ سے نہیں ہے، بلکہ ابلیس کا ہے جو جھگڑے کا باپ ہے، اور وہ اِنسانوں کے دِلوں کو ایک دُوسرے کے خلاف غصّے میں جھگڑے کے لیے اُبھارتا ہے“ (۳ نیفی ۱۱: ۲۹)۔
اپنے دُشمنوں اور مخالفین سے پیار کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ”ہم میں سے بیشتر … محبّت اور مُعافی کے اُس مقام تک نہیں پہنچ پائے“ صدر گورڈن بی ہنکلی نے مشاہدہ کیا، اُنھوں نے مزید کہا، ”اِس کے لیے اپنی قابلیت سے زیادہ ضبطِ نفس درکار ہوتا ہے۔“۲ لیکن یہ لازماً ضروری ہے، کیونکہ یہ نجات دہندہ کے دو عظیم احکام کا حصّہ ہے کہ ”خُداوند اپنے خُدا سے محبّت رکھ“ اور ”اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ“ (متّی ۲۲: ۳۷، ۳۹)۔ اور ایسا ممکن ہوگا، کیوں کہ اُس نے یہ بھی سِکھایا تھا، ”مانگو تو تُم کو دِیا جائے گا؛ ڈھُونڈو تو پاؤ گے“ (متّی ۷:۷)۔۳
ہم اِن اِلہٰی احکام کی تعمیل ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہوئے کیسے کر سکتے جہاں ہم اِنسانوں کے قوانین کے بھی تابع ہیں؟ خوش قسمتی سے، ہمارے پاس نجات دہندہ کی اپنی امتیازی مثال ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کی امکانیت کے ساتھ اُس کے دائمی قوانین میں توازن کیسے قائم کیا جائے۔ جب مخالفین نے اُسے ایک سوال سے آزمانے کی کوشش کی کہ آیا یہودیوں کو رومیوں کا ٹیکس ادا کرنا چاہیے تو، اُس نے اُن کے سکے پر قَیصر کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ، ”پَس جو قَیصر کا ہے قَیصر کو اور جو خُدا کا ہے وہ خُدا کو ادا کرو“ (لُوقا ۲۰: ۲۵)۔۴
چنانچہ، ہمیں قانونی اِختیار کے تحت پُرامن طور پر زِندگی گزارنے کے لیے اِنسانوں کے قوانین (قَیصر کو ادائیگی) پر عمل پیرا ہونا ہے، اور ہم اپنی دائمی منزل کی طرف بڑھنے کے لیے خُدا کے قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ایسا کیسے کریں—خاص طور پر ہم اپنے مخالفوں اور اپنے دُشمنوں سے کیسے محبّت رکھنا سیکھیں؟
نجات دہندہ کی تعلیم کہ ”غصّے میں جھگڑے“ سے گریز کریں ایک معقول پہلا قدم ہے۔ ابلیس جھگڑے کا باپ ہے، اور وہی اِنسانوں کو ایک دُوسرے کے خلاف غصّے میں جھگڑے کے لیے آزماتا ہے۔ وہ افراد اور گروہوں کے مابین عداوت اور نفرت انگیز تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ صدر تھامس ایس مانسن نے سِکھایا کہ غصّہ ”شیطان کا ہتھیار“ ہے کیونکہ ”ناراض ہونے والا شخص خود کو شیطان کے حوالہ کر دیتا ہے۔ کوئی بھی ہمیں ناراض نہیں کر سکتا۔ یہ ہمارا انتخاب ہوتا ہے۔“۵ ناراضگی لوگوں کو تفرقے اور دُشمنی کی راہ دکھاتی ہے۔ ہم اپنے مخالفین سے پیار کرنے کی طرف تب مائل ہوتے ہیں جب ہم ایسے لوگوں کے ساتھ ناراضگی اور دُشمنی سے پرہیز کریں گے جن سے ہم اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اُن سے سیکھنے کی رضا مندی کے باعث بھی مدد ملتی ہے۔
دُوسروں سے پیار کرنے کی طاقت کو تقویت بخشنے کے دُوسرے کئی طریقوں میں سے ایک سادہ طریقہ طویل عرصہ قبل ایک نغماتی فلم میں بیان ہوا ہے۔ جب ہم کسی مختلف ثقافت کے لوگوں کو سمجھنے اور اُن سے وابستگی کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں اُن کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اَن گنت حالات میں، اجنبیوں کا شبہ یا یہاں تک کہ عداوت اُن سے دوستی یا حتیٰ کہ الفت میں تبدیل ہو جاتی ہے جب ذاتی رابطے فہم و فراست اور باہمی احترام پیدا کرتے ہیں۔۶
محبّت کی قوت کا فہم پانے کی کوشش کرنے سے بھی اپنے مخالفوں اور دُشمنوں سے محبّت رکھنے کے لیے زیادہ مدد حاصل ہوتی ہے۔ یہاں مَیں اِس کے بارے میں تین پیغمبرانہ تعلیمات پیش کروں گا۔
نبی جوزف سمتھ نے سِکھایا کہ ”یہ ایک طویل عرصہ سے بولے جانے والا پُرمغز مقولہ ہے کہ دِل کو دِل سے راہ ہوتی ہے۔ آئیں اپنے دِل کو اُنڈیلیں—تمام اِنسانیت کے ساتھ اپنی مہربانی کا اِظہار کریں۔“۷
صدر ہاورڈ ڈبلیو ہنٹر نے سِکھایا: ”ہم جس دُنیا میں رہتے ہیں وہ نہایت مستفید ہوسکتی ہے اگر مرد و زن ہر جگہ مسِیح کی خالص محبّت کا اِستعمال کریں گے، جو مہربان، حلیم اور فروتن ہے۔ یہ حسد یا تکبر سے پاک ہے۔ … بدلے میں کچھ نہیں چاہتی۔ … یہ کٹّر پن، نفرت یا تشدّد سے پاک ہے۔ … یہ متنوع لوگوں کو مذہبی عقیدے، نسل، قومیت، مالی حیثیت، تعلیم، یا ثقافت سے قطع نظر مسِیحی محبّت میں ایک ساتھ رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔“۸
اور صدر رسل ایم نیلسن نے ہمیں تاکید کی ہے کہ ”پورے بَشری خاندان کو گلے لگانے کے لیے اپنا دائرہ محبّت بڑھائیں۔“۹
اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھنے کا ایک لازمی حصّہ یہ ہے کہ اپنے مختلف ممالک کے قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے قَیصر کو ادائیگی پیش کی جائے۔ اگرچہ یِسُوع کی تعلیمات انقلابی تھیں، لیکن اُس نے انقلاب یا قانون شکنی کی تعلیم نہیں دی تھی۔ اُس نے ایک بہتر طریقہ سِکھایا تھا۔ جدید مُکاشفہ بھی یہی درس دیتا ہے:
”کوئی آدمی ملک کے قوانین نہ توڑے، کیوں کہ جو خُدا کے قوانین مانتا ہے اُسے ملک کے قوانین توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
”اِس لیے، اُن حکومتوں کے تابع فرمان رہو جو ہیں“ (عقائد اور عہود ۵۸: ۲۱–۲۲)۔
اور ہمارے اِیمان کا رکن، جو جوزف سمتھ نے تب تحریر کیا جب ابتدائی مُقدّسین نے مسوری کے عہدیداروں کی جانب سے سخت ظلم و ستم کا سامنا کیا، اور یہ اعلان کرتا ہے، ”ہم بادشاہوں، صدروں، حکمرانوں، اور حاکموں کے اطاعت گزار ہونے، قانون کو ماننے، قانون کا اَحترام کرنے، اور قانون کے ساتھ تعاون کرنے پر اِیمان لاتے ہیں۔“ (اِیمان کے اَرکان ۱: ۱۲)۔
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم قانون نافذ کرنے والوں کے تمام اقدامات سے متفق ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم موجودہ قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور اِس میں تبدیلی کے لیے پرُ امن ذرائع اِستعمال کرتے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہم انتخابات کے نتائج کو پُر امن طور پر قبول کرتے ہیں۔ ہم اِن نتائج سے مایوس افراد کی جانب سے کیے جانے والے تشدّد میں حصّہ نہیں لیں گے۔۱۰ جمہوری معاشرے میں ہمارے پاس ہمیشہ یہ موقع ہوتا ہے کہ ہم اگلے انتخابات تک پُر امن طور پر ثابت قدم رہیں اور یہ ہمارا فرض بھی ہے۔
نجات دہندہ کی اپنے دُشمنوں سے پیار کرنے کی تعلیم اِس حقیقت پر مبنی ہے کہ تمام بَشر خُدا کے پیارے بچّے ہیں۔ اِس ابدی اُصول اور قانون کے کچھ بنیادی اُصولوں کا تجربہ کئی امریکی شہروں میں حالیہ مظاہروں میں کیا گیا۔
ایک رائے کے مطابق، کچھ لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم ”لوگوں کے پرُ امن طریقے سے جمع ہونے، اور شکایات کے ازالے کے لیے حکومت سے درخواست کرنے کے حق“ کی ضمانت دیتی ہے۔ قوانین کے مشمولات یا نظم و نسق سے متعلق عوام میں شعور اُجاگر کرنے اور ناانصافیوں پر توجہ مرکوز کرنے کا یہ مجاز طریقہ ہے۔ اور ناانصافیاں ہوئی ہیں۔ عوامی کارروائیوں اور ہمارے ذاتی رویوں میں ہمیں نسل پرستی اور اِس سے متعلق شکایات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک مؤثر ذاتی مضمون میں، قومی انجمن برائے رنگین عوام الناس کی ترقی (این اے اے سی پی) کی ریورنڈ تھیریزا اے ڈیئر نے ہمیں یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ ”نسل پرستی نفرت، جبر، سازش، زیادتی، غیر جانبداری اور رازداری کو پروان چڑھاتی ہے۔“۱۱ شہریوں کے طور پر اور کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسین آخِری ایّام کے اَرکان کی حیثیت سے، ہمیں نسل پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد کرنے کے لیے بہتر کام کرنا چاہیے۔
دُوسری رائے کے مطابق، اِن مظاہروں اور بعد از واقع ہونے والی غیرقانونی کارروائیوں کے شرکاء اور حامیوں کی ایک چھوٹی جماعت شاید یہ بھول گئی ہے کہ آئین کے تحت محفوظ احتجاج پُر امن احتجاج ہے۔ مظاہرین کو املاک کو تباہ کرنے، ناکارہ بنانے، یا چوری کرنے یا قانون نافذ کرنے والے حکومتی اِختیارات کو نقصان پہنچانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ آئین اور قوانین میں انقلاب یا انتشار کی کوئی دعوت نہیں دی گئی۔ ہم سب—پولیس، مظاہرین، حمایتیوں، اور تماشائیوں—کو اپنے حقوق کی حدود کو اور موجودہ قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ ابرؔہام لنکن نے درست فرمایا تھا: ”ایسی کوئی شکایت نہیں جس کے ازالے کے لیے ایک ہجوم کی ضرورت پڑے۔“۱۲ ہجوم کے ذریعہ شکایات کا ازالہ غیر قانونی طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ یہ انتشار ہے، ایسی حالت جس میں نہ کوئی مؤثر حکومت اور نہ ہی کوئی باضابطہ پولیس موجود ہو، جو انفرادی حقوق کے تحفظ کے بجائے اُنھیں مجروح کرتی ہے۔
امریکہ میں حالیہ مظاہروں سے بہت سوں کو چونکا دینے والی ایک وجہ یہ تھی کہ دُوسری قوموں میں مختلف نسلوں میں پائی جانے والی دُشمنی اور بے ضابطگیوں کو ریاستہائے متحدہ امریکہ میں محسوس نہیں کیا جانا چاہیے۔ اِس ملک کو نسل پرستی کے خاتمے کے معاملے میں زیادہ بہتر ہونا چاہیے نہ صرف سیاہ امریکیوں کے خلاف نسل پرستی کے معاملے میں، جو حالیہ مظاہروں میں سب سے زیادہ دکھائی دیے تھے، بلکہ لاطینی، ایشیائی اور دُوسرے گروہوں کے خلاف بھی۔ اِس قوم کی نسل پرستی کی تاریخ خُوش آئند نہیں ہے، اور ہمیں بہتر سے بہتر کام کرنا چاہیے۔
ریاستہائے متحدہ کی بنیاد مختلف قوموں اور مختلف نسلوں کے تارکینِ وطن نے رکھی تھی۔ اِس کا متحد مقصد کسی خاص مذہب کے قیام یا پرانے ممالک کی متنوع ثقافتوں یا قبائلی اخلاص مندی کو برقرار رکھنا نہیں تھا۔ ہماری بانی نسل نے نئے آئین اور قوانین کے ذریعہ متحد ہونے کی کوشش کی تھی۔ اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہماری یکسانیت کی دستاویزات یا اِس کے مفہوم کے بارے میں اُس وقت اُن کا فہم کامل تھا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی پہلی دو صدیوں کی تاریخ نے بہت ساری اصلاحات کی ضرورت ظاہر کی، جیسے خواتین کے رائے دہی کے حقوق اور، خاص طور پر، غلامی کے خاتمے، بشمول ایسے قوانین کے جو یقینی بنائیں کہ جن لوگوں کو غلام بنایا گیا تھا وہ آزادی کی تمام جزو لازمی سے لطف اندوز ہوں۔
ییل یونیورسٹی کے دو دانشوروں نے حال ہی میں ہمیں یاد دلایا:
”اگرچہ اِس میں بہت ساری خامیاں ہیں، ریاستہائے متحدہ متنوع اور منقسم معاشرے کو متحد کرنے کے لیے انفرادیت سے لیس ہے۔ …
”… اِس کے شہریوں کو قومی اور کثیر الثقافتی شناخت کے درمیان انتخاب کرنے کی ضرورت نہیں۔ امریکی باشندے اِن دونوں کے حامل ہوسکتے ہیں۔ لیکن آئینی حب الوطنی نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اپنے نظریاتی اختلاف سے قطع نظر، آئین کے سبب اور اِس کے ذریعہ متحد رہنا ہوگا۔“۱۳
بہت سال قبل، ایک برطانوی سکریٹری خارجہ نے برط دارالعوام میں منعقد ہونے والی بحث میں یہ عظیم مشورت پیش کی: ”ہم ابدی اتحادیوں کے حامل نہیں اور ہمارے کوئی دائمی مخالفین نہیں ہیں۔ ہمارے مفادات ابدی اور دائمی ہیں، اور اِن مفادات پر عمل پیرا ہونا ہمارا فرض ہے۔“۱۴
سیاسی امور میں ”ابدی اور دائمی“ مفادات پر عمل پیرا ہونے کی یہ ایک معقول لادینی وجہ ہے۔ مزید برآں، خُداوند کی کلِیسیا کا عقیدہ ہماری رہنمائی کے لیے ایک اور ابدی فائدے کا درس دیتا ہے: ہمارے نجات دہندہ کی تعلیمات، جنہوں نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئین اور ہمارے بہت سارے ممالک کے بنیادی قوانین کو متأثر کیا ہے۔ عارضی ”اتحادیوں“ سے وفاداری کی بجائے حکومت کی جانب سے نافذ کردہ قانون سے وفاداری تنوع میں اتحاد کے خواہاں ہوتے ہوئے اپنے مخالفوں اور دُشمنوں سے محبّت رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔
یہ علم کہ ہم سب خُدا کے بچّے ہیں ہمیں دُوسروں کی قدر و قیمت کی اِلہٰی بصیرت اور تعصب اور نسل پرستی سے بالاتر ہونے کی نیت اور قابلیت بخشتا ہے۔ چونکہ میں نے کئی سالوں سے اِس ملک کے مختلف مقامات میں زِندگی گزاری ہے، تاہم خُداوند نے مجھے سِکھایا ہے کہ نہ صرف اِس ملک کے قوانین کی تعمیل اور اِن کی اصلاح کے خواہاں ہونا بلکہ اپنے مخالفوں اور دُشمنوں سے پیار کرنا بھی ممکن ہے۔ اگرچہ یہ آسان نہیں، لیکن ہمارے خُداوند، یِسُوع مسِیح کی معاونت سے ایسا ممکن ہے۔ اُس نے محبّت رکھنے کا حُکم دیا ہے، اور جب ہم اِس کی تعمیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ اپنی مدد کا وعدہ کرتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارا آسمانی باپ اور اُس کا بیٹا، یِسُوع مسِیح ہمیں پیار کرتے اور ہماری مدد کریں گے۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر آمین۔