خُداوند کا زبردست منظورِ نظر
مصیبت اور مایوسی کے اوقات خُداوند کی مستعد نظر میں تبدیلی نہیں لاتے، وہ ہمیں برکات دیتا اور ہمیں منظورِ نظر رکھتا ہے۔
کئی سال پہلے ایک دن، جاپان کے ایک چھوٹے سے جزیرے امامی اوشیما پر بطور نوجوان مشنری خدمت کرتے ہوئے، میں اور میرا رفیق اُس وقت بہت خوش ہوئے جب ہمیں یہ پتہ چلا کہ صدر سپنسر ڈبلیو کِمبل ایشیا آنے والے تھے اور جاپان کے تمام ارکان اور مشنریوں کو دعوت تھی کہ وہ ٹوکیو جا کر ذاتی طور پر علاقائی کانفرنس کے دوران نبی کو سن سکیں۔ شاخ کے ارکان کے ساتھ، میرے ساتھی اور میں نے بڑی گرم جوشی سے کانفرنس کے لیے تیاری کرنا شروع کی، جو مشرقی چینی سمندر کے پار جاپان کے مرکزی جزیرے تک ۱۲ گھنٹے کی کشتی کی سواری، اور اُس کے بعد ۱۵ گھنٹے کی ٹوکیو تک ٹرین کی مسافت پر تھی۔ لیکن، بد قسمتی سے، ایسا ہو نہ سکا۔ ہمیں ہمارے مشن کے صدر کا پیغام موصول ہوا کہ فاصلے اور وقت کی وجہ سے، میں اور میرا ساتھی ٹوکیو میں کانفرنس پر نہیں جا سکیں گے۔
جب ہماری شاخ کے ارکان نے ٹوکیو کے لیے رختِ سفر باندھا، ہم نہ جا سکے۔ اگلا دن کچھ ساکت اور خالی سا تھا۔ جب جاپان میں ایامِ آخِر کے مُقدّسین اور مشنری کانفرنس میں شامل تھے، ہم نے ایک چھوٹے سے چیپل میں عشائے ربانی کی عبادت کی۔
میری ذاتی مایوسی اور بھی زیادہ ہوئی جب میں نے کانفرنس سے واپس لوٹے ارکان کو بڑی خوشی سے سنا جو یہ بتا رہے تھے کہ صدر کِمبل نے ٹوکیو میں ہیکل کی تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنے خواب کی تکمیل کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ انتہائی پُر جوش تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ کیسے ہیکل کے بارے میں اعلان سنتے ہی ارکان اور مبلغین اپنی خوشی قابو میں نہ رکھ سکے اور بے ساختہ تالیاں بجانا شروع کر دیں۔
کئی سال گزر چکے ہیں اور مجھے اُس تاریخی میٹنگ میں شامل نہ ہونے کی مایوسی اب تک یاد ہے۔
حالیہ مہینوں میں مَیں نے اِس تجربے کے بارے میں سوچا جب میں نے دوسرے لوگوں کو گہری مایوسی کا سامنا کرتے دیکھا جو عالمی کووڈ ۱۹ وبا کی وجہ سے پیدا ہوئی اور میری بطور نوجوان مشنری مایوسی سے کہیں زیادہ ہے۔
اِس سال کے اوائل میں جب وبا تیزی سے پھیل رہی تھی تو صدارتِ اوّل نے اعلان کیا تھا کہ ”کلسیا اور اُس کے ارکان بڑی وفاداری سے ہمارے اچھے شہری اور اچھے پڑوسی ہونے کے تہیہ کا مظاہرہ کریں“۱ اور ”کثرتِ احتیاط برتیں گے۔“۲ اِس وجہ سے ہم نے عالمی طور پر کلیسیائی عبادات میں روک، کلیسیا کی مشنری تعداد میں آدھے سے زیادہ کا اپنے مُلک واپس لوٹنا، اور پوری کلیسیا میں ہیکلوں کی بندش کا سامنا کیا ہے۔ آپ میں سے ہزاروں زندہ رسومات—بشمول ہیکل میں سربمہری کی رسم ادا کرنے کے لیے تیاری کر رہے تھے۔ آپ میں سے کچھ اور کو مشنری خدمت سے جلدی واپس بھیج دیا گیا یا آپ کو وقتی طور پر برخاست کر کے کہیں اور بھیج دیا گیا ہے۔
اِس وقت کے دوران، حکومت اور تعلیمی رہنماوں نے سکول بند کیے—جنہوں نے نتیجتاً پاسنگ آوٹ میں تبدیلیاں کیں اور کھیلوں اور سماجی اور ثقافتی دیگر واقعات اور سرگرمیوں کو معتل کیا۔ آپ میں سے بہت سوں نے ایسی سرگرمیوں کی تیاری کیں جنہیں دیکھنے کوئی نہیں آیا، ایسی موسیقی کی تیاری کی جسے سنا نہیں گیا یا کھیل جو کھیلے نہیں گئے۔
اِس سے بھی تلخ اُن خاندانوں کی سوچ ہے جن کے عزیزوں کی اِس وقت کے دوران موت ہوئی، زیادہ تر جنازے یا ایسے دوسرے گداز مجمعوں میں اکٹھے نہیں ہو سکے جن کا انعقاد وہ کرنا چاہتے تھے۔
مختصراً آپ میں سے بہت، بہت سوں نے دل شکن ناامیدی، افسوس اور مایوسی کا سامنا کیا ہے۔ سو ہم کیسے شفا پا سکتے، برداشت کر سکتے اور ایمان میں آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں جب سب کچھ اتنا ٹوٹا ہوا لگے؟
نیفی نبی نے چھوٹے اوراق پر اپنی بلوغیت کے دور میں لکھنا شروع کیا۔ اُس نے مُڑ کر اپنی زندگی اور خدمت گزاری کو دیکھا، اور مورمن کی کتاب کی پہلی آیت میں یہ اہم عکس پیش کیا۔ یہ آیت ہمارے دنوں میں ہمارے غور کرنے کے لیے ایک اہم اصول کا احاطہ کرتی ہے۔ اُس کے جانے پہچانے الفاظ ”میں نیفی چونکہ نیک والدین سے پیدا ہوا … ،“ وہ لکھتا ہے، ”اور زندگی میں اکثر مصیبتوں کا مقابلہ کیا ہے تو بھی میں اپنی زندگی میں خُداوند کا زبردست منظورِ نظر رہا ہوں۔“۳
مورمن کی کتاب کے طالب علم ہونے کی وجہ سے ہم سب اُن مصیبتوں سے واقف ہیں جن کا حوالہ نیفی دیتا ہے۔ لیکن اپنی زندگی میں مصیبتوں کا اقرار کرنے کے بعد نیفی اپنے انجیلی نقطہِ نظر کو بیان کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں خُداوند کا زبردست منظورِ نظر رہا ہے۔ مصیبت اور مایوسی کے اوقات خُداوند کی مستعد نظر میں تبدیلی نہیں لاتے جب وہ ہمیں منظورِ نظر رکھتا، اور ہمیں برکت دیتا ہے۔
حال ہی میں لیسا اور میں نے آسٹریلیا کے تقریباً چھ سو مشنریوں کے ساتھ ورچوئل ملاقات کی، اُن میں سے زیادہ تر کووڈ ۱۹ کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح کی پابندی یا بندش میں تھے اور بہت سے اپنے اپارٹمنٹ سے ہی خدمت انجام دے رہے تھے۔ اکٹھے ہم نے نئے عہد نامے، مورمن کی کتاب اور عقائد اور عہود کی کتاب میں اُن لوگوں کے بارے میں غور کیا جنہیں خُداوند نے مصیبت میں بھی بڑے کام کرنے کی برکت بخشی تھی۔ سب کے بارے میں نمایاں یہ بات تھی کہ وہ خُداوند کی مدد سے کیا کر سکے بجائے اِس کے کہ وہ قید اور بندش میں کیا نہیں کر سکے۔
ہم پولُس اور سِیلاس کے بارے میں پڑھتے ہیں، جو، بینت کے چوبی شکنجے میں قید، دُعا کرتے، گیت گاتے، تعلیم اور گواہی دیتے تھے—حتیٰ کہ داروغہ کو بپتسمہ بھی دیا۔۴
اور پھر پولُس، جو روم میں، دو سال کے لیے نظر بند تھا، اُس دوران وہ مسلسل ”خُدا کی بادشاہی کی گواہی دے دے کر صحیفوں کی بابت سمجھاتا رہا،“۵ اور ”خُداوند یِسُوع مسِیح کی باتیں سکھاتا رہا۔“۶
نیفی اور لحی، ہیلیمن کے سپوتوں کے بارے میں، جنہیں بے جا سلوک اور قید کے بعد تحفظ کے لیے آگ سے گھیر لیا گیا اور خُداوند ”کی ہلکی نرم آواز نے [اُنہیں قید کرنے والوں کو ] جان تک چھید دیا۔“۷
امونیہا میں ایلما اور ایمولک، جنہیں پتہ چلا کہ ”بہت سے ایمان لائے … اور توبہ کرنے اور نوشتے پڑھنے لگے،“۸ گو کہ اُس کے بعد اُن کا تمسخر اڑایا گیا، کھانے، پانی اور کپڑوں کے بغیر رکھا گیا اور باندھ کر قید خانے میں ڈالا گیا۔۹
اور آخر میں جوزف سمتھ کا لبرٹی جیل میں شدید اذیت میں پکارنا، خود کو لاوارث محسوس کرنا پھر خُداوند کے الفاظ سننا کہ ”یہ چیزیں … تیرے بھلے کے لیے ہوں گی“۱۰ اور ”خُدا ہمیشہ تیرے ساتھ رہے گا۔“۱۱
اِن میں سے ہر ایک نیفی کی طرح جانتا تھا کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اکثر مصیبتوں کا مقابلہ کیا ہے لیکن وہ خُداوند کے زبردست منظورِ نظر رہے ہیں۔
ہم بھی کلیسیا کے انفرادی رکن کے طور پر اِس سے مماثلت دیکھ سکتے ہیں کہ پچھلے کئی مہینوں میں جو مشکلات ہم نے دیکھی ہیں اُن میں ہم خُداوند کے منظورِ نظر رہے ہیں۔ اب جب میں آپ کو یہ مثالیں دیتا ہوں اِنہیں اجازت دیں کہ یہ زندہ نبی کی پیش بینی کے بارے میں ہماری گواہی کو مضبوطی بخشیں، جس نے متفرق تبدیلیوں کے ذریعے ہمیں تب سے تیار کرنا شروع کیا جب وبا کا نام و نشان تک بھی نہیں تھا، اور ہمیں اِس قابل بنایا کہ آئی ہوئی مشکلات پر غالب آئیں۔
اوّل، مرتکز بہ از خاندان اور معاونت بہ از کلیسیا بننا۔
دو سال پہلے، صدر رسل ایم نیلسن نے کہا: ”مُقدّسینِ آخِری ایّام ہوتے ہُوئے، ہم اِس سوچ کے عادی ہو گئے ہیں کہ ’کلیسیا‘ کوئی ایسی شے ہے جو ہمارے عبادت خانوں میں تشکیل پاتی ہے، جسے گھروں میں وقوع پذیر ہونے والی چِیزوں کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں اِس ترتیب کو دُرست کرنے کی ضرورت ہے۔ … اب خاندان مرکوز کلیسیا کا وقت ہے، جسے ہماری … عمارتوں میں جو وقوع پذیر ہوتا ہے اُس سے تقویت ملتی ہے۔“۱۲ کیسا انبیانہ بیان ہے! ہماری عبادت گاہوں کی وقتی بندش کی وجہ سے مرتکز بہ از خاندان انجیلی تعلیم پر عمل ہو رہا ہے۔ گو کہ دنیا معمول پر آنا شروع ہو رہی ہے اور ہم اپنی عبادت گاہوں میں لوٹ رہے ہیں ہم چاہیں گے کہ ہم انجیلی مطالعہ اور تعلیم کے خاندان مرتکز نمونے کو جاری رکھیں جس نے وبا کے دوران فروغ پایا ہے۔
خُداوند کے منظورِ نظر ہونے کی دوسری مثال اعلیٰ اور مقدس تر طریقے سے خدمت گزاری کرنا ہے۔
۲۰۱۸ میں صدر نیلسن نے خدمت گزاری کا تعارف ”ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنے کے طریقے میں تبدیلی کے طور پر کروایا۔“۱۳ وبا نے بہت سے ایسے مواقوں سے متعارف کروایا ہے جن سے ہم اپنی خدمت گزاری کی مہارت میں بہتری لا سکتے ہیں۔ خدمت گزار بھائیوں اور بہنوں، نوجوان لڑکے اور لڑکیوں اور دیگر لوگوں نے رابطے، گفتگو، باغ کی صفائی، کھانا مہیا کرنے، ٹیکنالوجی کے ذریعے پیغامات پہنچانے اور ضرورت مندوں کو عشائے ربانی کی رسم کی برکت پہنچانے کی خدمت کی ہے۔ کلیسیا از خود وبا کے دوران غریبوں میں کھانا بانٹنے والے مراکز، بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہوں اور مہاجرین کے امدادی مراکز، اور اُن پراجیکٹ کو رسد فراہم کرتی رہی ہے جو دنیا میں شدید بھوک کا سامنا کرنے والوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ انجمنِ خواتین کی بہنوں اور اُن کے خاندان والوں نے حفظانِ صحت کا کام کرنے والوں کے لیے کئی لاکھ ماسک بنائے ہیں۔
مصیبت میں خُدا کے منظورِ نظر ہونے کی آخری مثال ہیکل کی رسومات کی دوبارہ ادائیگی میں مزید خوشی پانا ہے۔
یہ کہانی اِس کی بہترین مثال ہے۔ جب بہن کیٹلِن پالمر کو پچھلے اپریل میں مشن کی بلاہٹ ملی تو وہ بطور مشنری بلائے جانے کے لیے بہت خوش تھی لیکن محسوس کرتی تھی کہ اپنی ودیعت پانے کے لیے ہیکل جانا اور مقدس عہود باندھنا بھی اُتنا ہی ضروری اور خاص تھا۔ جب اُس کی ودیعت کا وقت مقرر ہو گیا تو اُس کے تھوڑی دیر بعد ہی اعلان کیا گیا عالمی وبا کی وجہ سے ہیکلیں وقتی طور پر بند ہو رہی ہیں۔ یہ دل شکن خبر سننے کے بعد، اُسے پتہ چلا کہ وہ تبلیغی تربیتی مرکز (ایم ٹی سی) میں اپنے گھر ہی سے کمپیوٹر کے ذریعے شرکت کر پائے گی۔ اِن مایوسیوں کے باوجود کیٹلِن نے اپنی توجہ اپنا جوش بڑھائے رکھنے پر رکھی۔
آنے والے مہینوں میں بہن پالمر نے ہیکل جانے کی امید کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اُس کے خاندان نے مسلسل دعا کی کہ اُس کے مشن پر جانے سے پہلے ہیکلیں کھُل جائیں۔ کیٹلِن اکثر گھر میں ایم ٹی سی کا آغاز کرتے ہوئے کہتی تھی ”کیا آج وہ دن ہے جب ہمیں یہ معجزانہ خبر ملے گی کہ ہیکلیں دوبارہ کھُل گئی ہیں؟“
۱۰ اگست کو، صدارتِ اوّل نے اعلان کیا کہ زندہ رسومات ادا کرنے کے لیے کیٹلِن کی ہیکل دوبارہ کھُل جائے گی، اُسی روز جب الصبح اُس کی فلائٹ نے اُسے مشن پر لے جانا تھا۔ ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ہیکل بھی جائے اور اپنی فلائٹ کے لیے بھی وقت پر پہنچ سکے۔ کامیابی کی بہت کم امید میں خاندان نے ہیکل کے صدر مائیکل ویلنگا کو کال کی یہ دیکھنے کے لیے کہ اگر کوئی ایسا طریقہ ہو کہ جس معجزے کے لیے وہ دعا کرتے رہے ہیں وہ کسی طرح پورا ہو جائے۔ اُن کے روزوں اور دعاوں کا جواب ملا!
صبح ۲:۰۰ بجے، اُس کی فلائٹ سے چند گھنٹے پہلے، بہن پالمر اور اُس کا خاندان، جن کے آنسو بہہ رہے تھے، اُنہیں ہیکل کے صدر نے مسکراتے ہوئے تسلیمات کہیں اور یہ الفاظ کہے، ”صبج بخیر پالمر خاندان۔ آپ کو ہیکل میں خوش آمدید!“ جب اُنہوں نے اُس کی ودیعت مکمل کر لی تو اُنہیں جلدی کرنے کو کہا گیا کیونکہ اگلا خاندان دروازے پر منتظر تھا۔ وہ اُس کے بعد سیدھا ائرپورٹ گئے تاکہ وہ مشن پر جانے کے لیے فلائٹ پر سوار ہو سکے۔
ہیکلی رسومات جنہیں ہم پچھلے کچھ ماہ میں ادا نہیں کر سکے، اب جب پوری دنیا میں ہیکلیں مرحلہ وار کھُل رہی ہیں تو، اب پہلے سے زیادہ شیریں لگتی ہیں۔
اپنے خطاب کے اختتام پہ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ نبی جوزف سمتھ کے حوصلہ بخش، پُر جوش اور تقویت بخشنے والے الفاظ سنیں۔ کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا کہ یہ الفاظ اُس نے مصیبت اور تنہائی میں لکھے جب وہ ناووہ میں مقید تھا اور اُن لوگوں سے چھُپ رہا تھا جو اُسے غیر قانونی طور پر گرفتار کرنا چاہتے تھے۔
”اب جو انجیل ہمیں دی گئی ہے، اُس میں ہم کیا سنتے ہیں؟ شادمانی کی آواز! آسمان سے رحم کی آواز اور زمین سے سچائی کی آواز؛ مُردوں کے لیے خوش خبری، زندوں اور مُردوں کے لیے خوش خبری کی آواز۔ …
کیا ہم اِس عظیم مقصد میں آگے نہ بڑھیں؟ آگے بڑھو اور پیچھے نہیں۔ ہمت باندھو، بھائیو [اور بہنو]؛ اور فتح کے لیے، آگے ہی آگے بڑھو! تمہارے دل خوش اور انتہائی شادمان ہوں۔ زمین گائے۔“۱۴
بھائیو اور بہنو، میرا یقین ہے کہ آپ میں سے ہر ایک، ایک دن مُڑ کر وبا کی وجہ سے منسوخ ہوئے پروگرام، افسردگی، مایوسی اور مشکل اوقات سے منسلک تنہائی کو دیکھیں گے جن سے ہم گزر رہے ہیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ یہ چنیدہ برکات، اور بڑھتے ایمان اور گواہیوں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں گی۔ میرا یقین ہے کہ اِس زندگی میں اور آنے والی زندگی میں آپ کی مصیبتیں آپ کا ایمونیہا، آپ کی لبرٹی جیل، آپ کے فائدے کے لیے مخصوص ہوں گی۔۱۵ میں دعا کرتا ہوں کہ، ہم بھی نیفی کی طرح، اپنی زندگی کی تکالیف کا اقرار کریں اور اُسی لمحے یہ بھی پہچانیں کہ ہم خُداوند کے زبردست منظورِ نظر رہے ہیں۔
میں یِسُوع مسِیح کے بارے میں اپنی گواہی سے اختتام کرتا ہوں کہ وہ تکلیف سے انجان نہیں تھا اور اپنے لا محدود کفارے کے حصے کے طور پر وہ تمام چیزوں سے نیچے تک گیا۔۱۶ وہ ہمارے غم، تکلیف اور مایوسی کو سمجھتا ہے۔ وہ ہمارا منجی اور مخلصی دینے والا، ہماری امید، ہماری تسلی اور ہمیں رہائی دینے والا ہے۔ میں اِس کی گواہی دیتا ہوں یِسُوع مسِیح کے مقدس نام سے، آمین۔