متحد احساس کی بدولت ہم خُدا کے ساتھ قوت پاتے ہیں
جب ہم متحد احساس کی متلاشی ہوں گی تو، اپنی کوششوں کو کامل بنانے کے واسطے ہم خُدا کی قوت طلب کریں گی۔
گورڈن کی والدہ نے اُسے بتایا کہ اگر وہ اپنا کام ختم کردے گا تو وہ اُسے پائی بنا کر دیں گی۔ اُس کا پسندیدہ۔ صرف اُس کے لیے۔ گورڈن مطلوبہ کاموں کو سر انجام دینے کے لیے محنت کرنے لگا، اور اُس کی والدہ نے پائی بنانے کے لیے پرت بیلنے شروع کر دیے۔ اُس کی بڑی بہن کیتھی ایک دوست کے ساتھ گھر آئی۔ اُس نے پائی کو دیکھا اور پوچھا کہ کیا وہ اور اُس کی دوست پائی کا ایک ایک ٹکڑا کھا سکتی ہیں۔
”نہیں،“ گورڈن بولا، ”یہ میرا پائی ہے۔ ماں نے یہ میرے لیے پکایا ہے، اور یہ میری محنت کا معاوضہ ہے۔“
کیتھی کو اپنے چھوٹے بھائی پر غصہ آیا۔ وہ انتہائی خود غرض اور کم ظرف انسان ہے۔ وہ یہ سب اپنے لیے کیسے رکھ سکتا ہے؟
گھنٹوں بعد جب کیتھی نے اپنی دوست کو گھر لے جانے کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا تو اُس نے نشست پر اچھی طرح سے تہ شدہ دو ٹشو پیپر دیکھے، جن کے اوپر دو چھری کانٹوں کے سیٹ رکھے ہوئے تھے، اور پلیٹوں میں پائی کے دو بڑے ٹکڑے پڑے تھے۔ لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کہ کیسے وہ تبدیلی کے لیے تیار رہتا تھا اور اُن کے ساتھ بھی شفقت کا اظہار کرتا تھا جو کہ ہمیشہ اِس کے مستحق نہیں ہوتے تھے کیتھی نے یہ کہانی گورڈن کے جنازے کے موقع پر سُنائی۔
۱۸۴۲ میں، مُقدّسین ناؤو ہَیکل کی تعمیر کے لیے سخت محنت کر رہے تھے۔ مارچ میں انجمنِ خواتین کے قیام کے بعد، مُقدّس، یکجا عہود کی تیاری کی غرض سے جنہیں وہ جلد ہی ہَیکل میں باندھنے کو تھیں نبی جوزف اکثر اُن کے اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔
۹ جون کو، نبی نے ”فرمایا کہ وہ رحم دِلی کے بارے میں تعلیم دینے لگے ہیں[۔] فرض کریں کہ اگر یِسُوع مسِیح اور [اُس کے] فرشتے ادنیٰ چیزوں پر ہم سے اعتراض کریں، تو ہمارا کیا بنے گا؟ ہمیں رحم دِل ہونا ہے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظرانداز کرنا ہے۔“ صدر سمتھ نے مزید کہا، ”میں اِس بات سے غمگین ہوتا ہوں کہ ہمارے درمیان پوری رفاقت نہیں پائی جاتی—اگر ایک رکن تکلیف میں ہو تو سب اُس تکلیف کو محسوس کریں—متحد احساس کی بدولت ہم خُدا کے ساتھ قوت پاتے ہیں۔“۱
اِس چھوٹے سے جملے نے میرے قلب کو لرزا دیا۔ متحد احساس کی بدولت ہم خُدا کے ساتھ قوت پاتے ہیں۔ یہ دُنیا ویسی نہیں جیسی میں چاہتی ہوں۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن پر میں اثر انداز ہونا اور اُنھیں بہتر بنانا چاہتی ہوں۔ اور صاف بات یہ ہے کہ، جس چیز کی میں اُمید کرتی ہوں اُس کی بہت مخالفت کی جاتی ہے، اور بعض اوقات میں خود کو بے بس محسوس کرتی ہوں۔ حال ہی میں، مَیں نے خود سے تحقیقی سوالات پوچھنا شروع کیے ہیں: میں اپنے آس پاس کے لوگوں کو کیسے بہتر طور پر سمجھ سکتی ہوں؟ جبکہ سب لوگ اتنے مختلف ہیں تو میں کیسے اِس ”متحد احساس“ کو وجود میں لا سکتی ہوں؟ دُوسروں کے ساتھ تھوڑا زیادہ متحد ہونے کے باعث خُدا کی طرف سے مَیں کونسی قوت تک رسائی حاصل کرسکتی ہوں؟ اپنی رُوح کو ٹٹولنے کے باعث، میرے پاس تین تجاویز ہیں۔ شاید یہ آپ کے لیے بھی مددگار ثابت ہوں۔
رحم دِلی کا مظاہرہ کریں
یعقُوب ۲: ۱۷ میں ہم پڑھتے ہیں، ”اپنے [بھائیوں اور بہنوں] کے لیے وہی سوچو جو اپنے لیے سوچتے ہو، اور تمام سے واقف رہو اور اپنے مال میں فراخ دِل ہو تاکہ وہ تمھاری طرح امیر ہوں۔“ آئیں لفظ مال کو رحم دِلی کے ساتھ بدلتے ہیں—اپنی رحم دِلی میں فراخ دِل ہو تاکہ وہ تمھاری طرح امیر ہوں۔
ہم اکثر مادی معاملات کی مد میں کھانے پینے کی اشیا کے بارے میں سوچتے ہیں، لیکن ہوسکتا ہے کہ ہم سب کو اپنی خدمت گزاری میں زیادہ رحم دِلی کی ضرورت ہو۔
میری اپنی انجمنِ خواتین کی صدر نے حال ہی میں کہا: “جس چیز کا میں … وعدہ کرتی ہوں وہ یہ ہے کہ … میں آپ کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گی۔ … مَیں آپ میں اچھائی تلاش کروں گی۔ … میں آپ کے بارے میں کبھی کوئی ناگوار بات نہیں کہوں گی، جو آپ کی پستی کا باعث بنے۔ میں اپنے لیے بھی آپ سے ایسے ہی رویے کی خواہاں ہوں کیوں کہ میں خوفزدہ ہوں، صاف بات یہ ہے کہ، میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتی۔“
جوزف سمتھ نے ۱۸۴۲ میں جون کے اُس دن بہنوں سے کہا:
”جب لوگ مجھ سے نہایت کم درجے کی شفقت اور محبّت کا اظہار کرتے ہیں تو، میرے ذہن پر اِس چیز کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ …
”… جتنا زیادہ ہم اپنے آسمانی باپ کے قریب تر ہو جاتے ہیں، اتنا زیادہ ہمارا رحجان رُوحانی جدوجہد کرنے والی جانوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے—ہم اُن کو اپنے کندھوں پر اُٹھانے اور اُن کے گُناہوں کو پس پشت رکھنے [کی خواہش محسوس کرتے ہیں]۔ [میرا وعظ] اِس پوری انجمن کے لیے ہے—اگر آپ چاہتی ہیں کہ خُدا آپ پر رحم کرے تو آپ ایک دُوسرے پر رحم کریں۔“۲
یہ مشورت خصوصی طور پر انجمنِ خواتین کو دی گئی تھی۔ آئیں ہم ایک دُوسرے کو نہ جانچیں اور نہ ہی ایک دُوسرے کے لیے تکلیف دہ اِلفاظ کا استعمال کریں۔ آئیں ایک دُوسرے کے نام کو ضرر نہ پہنچائیں اور رحم دِلی کے تحفے کی پیشکش کریں۔۳
اپنی کشتی کو جنبش دو
۱۹۳۶ میں، واشنگٹن یونیورسٹی کی مبہم ملاحوں کی ایک ٹیم اولمپک مقابلوں میں حصّہ لینے کے لیے جرمنی گئی۔ یہ عظیم معاشی پستی کے دوران کا زمانہ تھا۔ یہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے لڑکے تھے جن کو معمولی کان کنی اور لکڑی کے کباڑ خانوں والے شہروں نے تھوڑی سی رقم عطیہ کی تاکہ وہ برلن کا سفر کرسکیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مقابلے کا ہر پہلو اُن کے لیے مشکلات کا انبار لیے کھڑا ہے، لیکن کشتیوں کی دوڑ کے اِس مقابلے میں کچھ انوکھا ہوا۔ کشتی رانی کی دُنیا میں، اِسے ”جنبش دینا“ کہتے ہیں۔ The Boys in the Boat (کشتی میں سوار لڑکے) کتاب پر مبنی اِس بیان کو سُنیں:
ایک چیز ایسی ہے جو کبھی کبھار رُونما ہوتی ہے جس کا حصول اور جس کی وضاحت مشکل ہے۔ اِسے ”جنبش دینا“ کہتے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب سب کھلاڑی کامل اتحاد سے کشتی کے چپوؤں کو چلائیں کہ ایک بھی عمل غیر متوافق نہ ہو۔
ملاحوں کو اپنے پُر جوش استقلال پر قابو پانا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی انفرادی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ نامیاتی گروہوں سے مقابلے نہیں جیتے جاتے۔ اچھا عملہ اچھے امتزاج کا حامل ہوتا ہے—کوئی قیادت کا ذمہ لیتا ہے، کوئی کسی چیز کو محفوظ رکھتا ہے، کوئی لڑائی لڑتا ہے، کوئی صلح کرواتا ہے۔ کوئی ملاح دُوسرے سے زیادہ گراں قدر نہیں ہوتا، سب کشتی کے لیے منفرد اثاثہ جات کی مانند ہوتے ہیں، لیکن اکٹھے کشتی کو صحیح طور پر چلانے کے واسطے، ہر ایک کو دُوسروں کی ضروریات اور صلاحیتوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا—چھوٹے بازو والا شخص تھوڑی دُور تک کھینچے، لمبے بازو والا شخص تھوڑا سا اندر کو کھینچے۔
اختلافات کو نقصان کی بجائے فائدے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ تب ہی یہ احساس حاصل ہوگا جیسے کشتی خود چل رہی ہو۔ تب ہی درد پوری طرح سے شادمانی کو راہ دیتا ہے۔ اچھی ”جنبش“ شاعری کی مانند محسوس ہوتی ہے۔۴
زبردست رکاوٹوں کے خلاف، اِس ٹیم نے کامل جنبش پائی اور فاتح ہوئی۔ اولمپک کا طلائی تمغا حوصلہ افزا تھا، لیکن جس اتحاد کا تجربہ ہر ملاح نے حاصل کیا وہ ایک ایسا مُقدس لمحہ تھا جو ساری زِندگی اُن کے ساتھ رہا۔
جتنی جلدی اچھائی بڑھے برائی کو دور کر دو
یعقُوب ۵ میں بیان شاندار تمثیل میں، تاکستان کے مالک نے اچھی زمین میں ایک اچھا درخت لگایا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ خراب ہوگیا اور جنگلی پھل لایا۔ تاکستان کے مالک نے آٹھ بار کہا: ”مجھے یہ بات رنجیدہ کرتی ہے [کہ] میں اِس درخت کو کھو دوں۔“
نوکر نے تاکستان کے مالک سے کہا: ”اِس [درخت] کو تھوڑی دیر اور چھوڑ دے۔ اور مالک نے جواب دیا: ٹھیک ہے، میں اِسے تھوڑی دیر اور چھوڑ دوں گا۔“۵
اور پھر ایسی ہدایت حاصل ہوئی جس کا اطلاق ہم سب پر ہوتا ہے جو اپنے چھوٹے باغوں میں کھدائی کرتے اور اچھے پھل کے متلاشی ہوتے ہیں: ”تم بُری شاخیں اِس نسبت سے کاٹنا کہ اچھی شاخیں بڑھیں۔“۶
اتحاد جادوئی طور پر رونما نہیں ہوتا؛ اِس کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ پریشان کُن، کبھی کبھار تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے، اور تب رونما ہوتا ہے جب ہم برائی کو بتدریج دور کرتے ہوئے اچھائی کو جلد بڑھنے دیتے ہیں۔
ہم اتحاد پیدا کرنے کی کوششوں میں کبھی تنہا نہیں ہوتے ہیں۔ یعقُوب ۵ میں مزید درج ہے کہ، ”نوکر گئے اور اُنھوں نے اپنی توانائی سے کام کیا اور تاکستان کے مالک نے بھی اُن کے ساتھ مخنت کی۔“۷
ہم سب گہرے گھاؤ دینے والے تجربات کا سامنا کریں گے، ایسی چیزیں جو کبھی وقوع نہیں ہونی چاہئیں۔ ہم میں سے ہر ایک، مختلف اوقات میں، تکبر اور بلند بینی کو اپنے پھلوں کو خراب کرنے کی اجازت دے گا۔ لیکن یِسُوع مسِیح تمام چیزوں میں ہمارا نجات دہندہ ہے۔ اُس کی قُدرت نہایت مشکل ترین لمحوں میں بھی دستیاب ہوتی ہے اور جب ہم اُسے پکارتے ہیں تو وہ قابلِ اعتبار طور پر ہمارے لیے موجود ہوتا ہے۔ ہم سب اپنے گُناہوں اور ناکامیوں کے لیے رحم کی درخواست کرتے ہیں۔ وہ دریخ نہیں کرتا۔ اور وہ ہم سے پوچھتا ہے کہ کیا ہم ایک دُوسرے کو اِسی طرح کی رحمت اور تفہیم سے نواز سکتے ہیں۔
یِسُوع نے واضح اِلفاظ میں کہا: ” ایک ہو، اور اگر تُم ایک نہیں ہو تُم میرے نہیں ہو۔“۸ لیکن اگر ہم ایک ہیں—اگر ہم اپنے پائی کا ایک ٹکڑا بانٹ سکتے ہیں یا اپنی انفرادی صلاحیتوں کو حسبِ ضرورت ڈھال سکتے ہیں تاکہ کشتی کامل ہم آہنگی سے جنبش کھا سکے—تو ہم اُس کے ہیں۔ اور جتنی جلدی اچھائی بڑھے برائی کو دور کرنے میں وہ ہماری مدد کرے گا۔
نُبُّوتی وعدے
ہوسکتا ہے کہ ہم ابھی اُس جگہ نہ ہوں جہاں ہم ہونا چاہتے ہیں، اور ہم نے ابھی وہ مقام نہیں حاصل کیا جہاں ہم کبھی ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے آپ میں اور جن گروہوں سے ہم تعلق رکھتے ہیں اُن میں جو تبدیلی ہم لانا چاہتے ہیں وہ سیاسی سرگرمی سے کم اور ہر روز ایک دُوسرے کو فعال طور پر سمجھنے کی کوشش سے زیادہ رُونما ہوگی۔ کیوں؟ کیونکہ ہم صِیّون کی تعمیر کر رہے ہیں—جو ”یک دل اور یک ذہن“ لوگ تھے۔۹
اُن خواتین کی حیثیت سے جنہوں نے خُدا کے ساتھ عہد باندھا ہے، ہمارا اثر وسیع ہے۔ یہ اثر روزمرہ کے لمحات پر لاگو ہوتا ہے جب ہم کسی دوست کے ساتھ پڑھائی کرتے، بچوں کو بستر پر لیٹاتے، بس میں ہم نشست شخص سے بات کرتے، کسی ساتھی کے ساتھ پیشکش تیار کرتے ہیں۔ ہم تعصب کو دور کرنے اور اتحاد پیدا کرنے کی طاقت کے حامل ہیں۔
انجمنِ خواتین اور انجمنِ دختران صرف جماعتیں نہیں ہیں۔ یہ ایسے ناقابلِ فراموش تجربات بھی ہوسکتی ہیں جہاں بہت سی مختلف خواتین سب ایک ہی کشتی اور قطار میں سوار ہوجاتی ہیں جب تک کہ ہم اپنی کامل جنبش نہ حاصل کریں۔ میں یہ دعوت پیش کرتی ہوں: ایک ایسی اجتماعی قوت کا حصّہ بنیں جو دُنیا کو مستقلاً بدلتی ہے۔ ہمارا تفویض کردہ عہد خدمت گزاری کرنا ہے، ڈھیلے ہاتھوں کو درست کرنا، جدوجہد کرنے والے لوگوں کو اپنی پیٹھ پر یا بازوؤں میں اُٹھانا اور اُنھیں سہارا دینا ہے۔ یہ جاننا پیچیدہ نہیں ہے کہ کیا کِیا جائے، لیکن یہ اکثر ہمارے مفادات کے منافی ہوتا ہے، اور ہمیں کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اِس کلِیسیا کی خواتین معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے لامحدود صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ مجھے مکمل رُوحانی اعتماد ہے کہ، جب ہم متحد احساس کی متلاشی ہوں گی تو، اپنی کوششوں کو کامل بنانے کے واسطے ہم خُدا کی قوت طلب کریں گی۔
جب کلیسیا نے ۱۹۷۸ کو حاصل ہونے والے کہانت سے متعلق مُکاشفہ کی یاد منائی تو، صدر رسل ایم نیلسن نے ایک قوی نُبُّوتی برکت بخشی: ”میں دُعا کرتا اور اپنی برکت اُن سب سننے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ کاش ہم کسی قسم کے بھی تعصب کے بوجھ پر قابو پا سکیں اور خُدا—اور ایک دُوسرے کے ساتھ—کامل امن اور ہم آہنگی میں راستی سے چلیں۔“۱۰
کاش ہم اِس نُبُّوتی برکت کو حاصل کریں اور دُنیا میں اتحاد بڑھانے کے لیے اپنی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کا اِستعمال کریں۔ میں اپنی گواہی خُداوند یِسُوع مسِیح کے اِن فروتن، دائمی دُعائیہ اِلفاظ میں چھوڑتی ہوں: ”تاکہ سب ایک ہوں، یعنی جِس طرح، اَے باپ، تُو مُجھ میں ہے، اور مَیں تُجھ میں ہُوں، وہ بھی ہم میں ہوں۔“۱۱ یِسُوع مسِیح کے نام پر آمین۔