لت
مرحلہ1: تسلیم کریں کہ ہم، خُود سے، اپنے نشوں پر غالب آنے کے لیے لاچار ہیں اور یہ کہ ہماری زندگیاں بے قابو ہو چُکی ہیں


”مرحلہ 1: تسلیم کریں کہ ہم، خُود سے، اپنے نشوں پر غالب آنے کے لیے لاچار ہیں اور یہ کہ ہماری زندگیاں بے قابو ہو چُکی ہیں،“ نجات دہندہ کے وسیلہ سے شفا: نشے/لت سے بحالی کا پروگرام بحالی کے 12-مراحل کا ہدایت نامہ (2023)

”مرحلہ 1،“ نشے/لت سے بحالی کا پروگرام بحالی کے 12-مراحل کا ہدایت نامہ

لوگ اکٹھے ملتے ہوئے

مرحلہ 1: تسلیم کریں کہ ہم، خُود سے، اپنے نشوں پر غالب آنے کے لیے لاچار ہیں اور یہ کہ ہماری زندگیاں بے قابو ہو چُکی ہیں۔

5:32

کلیدی اصول: دیانت داری

ہم میں سے بُہت سے لوگوں نے تجسس کی وجہ سے نشے کی عادت شُروع کی۔ ہم میں سے کُچھ لوگ کسی جائز ضرورت (جیسے نسخے کی دوا) یا جان بُوجھ کر بغاوت کے عمل میں ملوث ہو گئے۔ ہم میں سے کُچھ نے درد سے بچنے کی کوشش کے طور پر شُروع کِیا۔ ہم میں سے بُہت سے لوگوں نے اِس راستے پر اُس وقت شُروعات کی جب ہم بچّوں سے تھوڑے ہی بڑے تھے۔ ہمارے مقاصد جو بھی ہوں اور ہمارے حالات کُچھ بھی ہوں، ہمیں جلد ہی پتہ چل گیا کہ نشہ جسمانی درد سے زیادہ راحت دیتا ہے۔ اِس نے تناؤ کو کم کیا یا ہمارے جذبات کو بے حس کر دیا۔ اِس نے ہمیں اپنے مسائل سے بچنے میں مدد کی—یا ہم نے یہ سوچا۔ کُچھ عرصہ کے لیے ہم نے خُود کو خوف، پریشانی، تنہائی، حوصلہ شکنی، پچھتاوے، یا بوریت سے آزاد محسُوس کِیا۔ لیکن چونکہ زندگی ایسے حالات سے بھری ہُوئی ہے جو اِس قِسم کے احساسات کو جنم دیتے ہیں، لہذا ہم نے اکثر اپنے نشے کا سہارا لِیا۔ نشہ اُن اہم طریقوں میں سے ایک بن گیا جِس سے ہم نے اپنی ضرُوریات اور جذبات سے نمٹنے کی کوشش کی۔ نجات دہندہ یِسُوع مسِیح اِس کشمکش کو سمجھتا ہے۔ صدر سپنسر ڈبلیو قمبل نے فرمایا، ”یِسُوع نے گُناہ کو غلط کے طور پر دیکھا لیکن گُناہ کو گُنہگار کی طرف سے گہری اور نامُکمل ضروریات سے پیدا ہونے کے طور پر بھی دیکھا“ (”یِسُوع: کامل راہنُما،“ انزائن، اگست1979، 5)۔

پھر بھی، ہم میں سے اکثر یہ پہچاننے یا تسلیم کرنے میں ناکام رہے کہ ہم نے خُود سے مزاحمت کرنے اور اجتناب کرنے کی صلاحیت کھو دیا تھا۔ ہمارے کمزور لمحات میں، ہم میں سے بُہت سوں نے محسُوس کِیا کہ ہمارے پاس چند انتخابات ہیں۔ جیسے صدر رسل ایم نیلسن نے وضاحت کی ہے: ”نشے کی بدولت اِنسان بعد میں اپنی آزادیِ انتخاب کھو دیتا ہے۔ کیمیائی مادوں کے ذریعے، ایک شخص حقیقتاً اپنی مرضی سے مُنقطع ہو سکتا ہے“(”نشہ یا آزادی،“ انزائن، نومبر 1988، 7)۔

ہم ترک کر دینا چاہتے تھے مگر ساری اُمید کھو دی تھی۔ خوف اور مایوسی سے بھرے ہُوئے، حتیٰ کہ ہم میں سے بعض نے اپنی زندگی کو ختم کرنے کے واحد مُتبادل عمل پر غور کیا۔ مگر ہمیں احساس ہُوا کہ یہ وہ راستا نہیں تھا جس پر آسمانی باپ چاہتا ہے کہ ہم جائیں۔

ہمارے نشہ آور رویوں کو تسلیم کرنا مُشکل تھا۔ ہم نے اپنی حالت کی سنگینی سے انکار کیا اور اپنے طرزِ عمل کو کم سے کم یا چھُپا کر شناخت کروائی اور اپنے انتخاب کے نتائج سے بچنے کی کوشش کی۔ ہمیں احساس نہیں تھا کہ دُوسروں اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے سے، ہم اپنے نشوں میں زیادہ ملوث ہو گئے ہیں۔ جیسے جیسے نشے پر ہماری بے اختیاری بڑھتی گئی، ہم میں سے بُہت سے لوگوں کو خاندان، دوستوں، کلِیسیا کے راہنماؤں اور یہاں تک کہ خُدا میں بھی غلطیاں نظر آئیں۔ ہم بڑی تنہائی میں غرق ہُوئے، خُود کو دُوسروں سے الگ کرتے ہُوئے—خاص کر خُدا سے۔

جب ہم نے خُود کو بہانے یا دُوسروں کو الزام دینے کی اُمید میں جھوٹ کا واضح طور پر سہارا لیا، تو ہم رُوحانی طور پر کمزور ہو گئے۔ جھوٹ بولنے اور اپنے نشے کو چھپانے کے ہر عمل کے ساتھ، ہم نے اپنے آپ کو”نرم ڈوری سے باندھ لیا“ جو جلد ہی زنجیروں کی مانند مضبُوط ہو گئیں (2نیفی 26:‏22)۔ پِھر ایک وقت آیا جب ہمیں حقیقت کے سامنے لایا گیا۔ ہم اب جھُوٹ بول کر یا یہ کہہ کر اپنے نشے کی عادت کو چھُپا نہیں سکتے تھے کہ، ”یہ اُتنا بُرا نہیں ہے!“

کسی عزیز، ڈاکٹر، جج، یا کلِیسیائی راہنما نے ہمیں وہ سچّائی بتائی جس سے ہم اب اِنکار نہیں کر سکتے: نشے کی عادت ہماری زندگیوں کو تباہ کر رہی تھی۔ جب ہم نے دیانت داری سے اپنے ماضی پر نظر کی، تو ہم نے اعتراف کیا کہ ہم نے اپنے طور پر ایسی کوئی کوشش نہیں کی جو کامیاب ہوئی۔ ہم نے مان لیا کہ نشے کی عادت مزید بدتر ہو گئی ہے۔ ہمیں احساس ہُوا کہ ہماری نشے کی عادات نے ہمارے تعلقات کو کتنا نُقصان پہنچایا تھا اور ہمیں قدرِ احساس سے محرُوم کر دیا تھا۔ اِس موقع پر، ہم نے آزادی اور بحالی کی طرف پہلا قدم اُٹھاتے ہُوئے یہ تسلیم کرنے کی ہمت کی کہ یہ ایک مسئلہ یا بُری عادت سے کہیں زیادہ تھا۔

آخر کار ہم نے سچّائی کا اعتراف کیا کہ ہماری زندگیاں بے قابو ہو گئی ہیں اور ہمیں اپنی نشے کی عادتوں پر قابو پانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ ہم نے مان لیا کہ کہ ہم خُود بحال نہیں ہو سکتے اور تسلیم کیا کہ ہم نشے کی کسی بھی حالت میں ہوش میں نہیں رہ سکتے ہیں۔ ہم نے محسُوس کیا کہ ہمیں اپنے ساتھ دیانت دار ہونے کے لیے خُدا اور دُوسروں کی مدد کی ضرورت ہے۔ شکست اور اِس کے بعد ہتھیار ڈالنے کے اِس دیانت دارانہ احساس کے بارے میں حیران کُن بات یہ تھی کہ بحالی کا آغاز ہو گیا۔

ایمانداری دُوسرے تمام اِقدامات کی بُنیاد ہے اور ہمیں نجات دہندہ کی ضرورت کا احساس کرنے میں مدد کرتی ہے۔ صدر ڈئیٹر ایف اُکڈورف، جب وہ صدارتِ اَوّل کے رُکن تھے، اُنھوں نے سِکھایا: ”اپنے آپ کو واضح طور پر دیکھنے کے قابل ہونا ہماری رُوحانی ترقی اور فلاح و بہبُود کے لئے ضروری ہے۔ اگر ہماری کمزوریاں اور کوتاہیاں سائے میں پوشیدہ رہتی ہیں، تو نجات دہندہ کی مُخلصی دینے والی قُدرت اُنھیں شفا نہیں بخش سکتی اور اُنھیں مضبُوطی نہیں دے سکتی [دیکھیے عیتر 12:‏27] (”خُداوند، کیا یہ مَیں ہُوں؟،“ لیحونا، نومبر2014، 58)۔

جب ہم اپنی نشے کی عادت میں مبُتلا ہُوئے، ہم نے خُود اور دُوسروں کے ساتھ جھوٹ بولا، لیکن ہم اپنے آپ کو بے وقوف نہیں بنا سکے۔ ہم نے اپنے آپ کو صحیح دِکھایا، بہادری اور بہانوں سے بھرے ہُوئے۔ لیکن اندر کہیں گہرائی میں، ہم جانتے تھے کہ اپنے نشوں میں مُبتلا ہونے سے زیادہ غم کی طرف بڑھیں گے۔ مسِیح کے نُور نے ہمیں یاد دلانا جاری رکھا۔ اِس حقیقت سے انکار تھکا دینے والا تھا آخر کار یہ تسلیم کرنا راحت کی بات تھی کہ ہمیں مسئلہ درپیش تھا۔ آخر کار، ہم نے اُمید قائم کرنے کے لئے ایک چھوٹا سا دروازہ کھول دیا۔ جب ہم نے تسلیم کرنے کا انتخاب کِیا کہ ہمیں مسئلہ در پیش تھا اور ہم مدد حاصل کرنے کے لیے تیار تھے، تو ہم نے اُمید کو بڑھنے کے لیے جگہ دی۔

عملی اقدام

یہ عملی اقدام کا پروگرام ہے۔ ہماری ترقی کا انحصار ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں یہ مراحل مُستقل طور پر لاگو کرنے پر ہے۔ یہ ”مراحل پر عمل“کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل اعمال ہمیں مسِیح کے پاس آنے اور ہماری بحالی میں اگلے مراحل کے لئے ضروری ہدایت اور طاقت حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

غرور کو ترک کریں اور فروتنی کے طالب ہوں

تکبر اور دیانت داری ہم آہنگ نہیں ہو سکتی۔ تکبر ایک دھوکہ اور تمام نشووں کا لازمی عنصر ہے۔ تکبر چیزوں کی بابت سچّائی جیسے وہ ہیں، جیسے رہی ہیں، اور جیسے وہ ہوں گی کو مسخ کرتا ہے۔ یہ ہماری بحالی میں بُہت بڑی رکاوٹ ہے۔ صدر عزرا ٹافٹ بینسن نے فرمایا:

”غرور فطرت میں بُنیادی طور پر مسابقتی ہے۔ ہم اپنی مرضی کو خُدا کے خلاف کھڑا کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے غرور کو خُدا کی طرف موڑتے ہیں، تو یہ ایسا ہی کہنا ہے کہ ’میری نا کہ تیری مرضی پُوری ہو۔‘ …

”خدا کی مرضی کے مقابلے میں ہماری مرضی خواہشات، بھوک اور جذبات کو بے لگام ہونے دیتی ہے۔

”غرور کرنے والے خُدا کے اختیار کو قبُول نہیں کر سکتے جو اُن کی زندگیوں کو ہدایت دیتا ہے۔ وہ سچّائی کے بارے میں اپنے تصورات کو خُدا کے عظیم علم، اپنی صلاحیتوں کا مقابلہ خُدا کی کہانتی قوت،اپنی کامیابیوں کو اُس کے عظیم کاموں کے خلاف استعمال کرتے ہیں“ (کلِیسیائی صدُور کی تعلیمات:عزرا ٹافٹ بینسن [2014]، 232)۔

ایک موقع پر، ہمیں اپنے غرُور کو چھوڑنے اور اپنی نشے کے بارے میں ایماندار رہنے کا انتخاب کرنا پڑا۔ عاجز ہونا، سالوں کی خود فریبی پر غالب آنا، اور بالآخر ایمانداری کا انتخاب کرنا آسان نہیں ہے، لیکن وقت کے ساتھ، یہ ایک بڑی نعمت بن جاتا ہے۔

یہ ہمارے لئے ایک اہم موڑ تھا جب ہم نے آخر کار اپنے فخر کو چھوڑ دیا اور عاجز ہو گئے۔ ہم میں سے زیادہ تر خُود کو فروتن نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن”فروتن ہونے پر مجبُور تھے“ (ایلما 32:‏13)۔ کسی بھی طرح، ہماری نشوں کے نتائج نے ہمیں جکڑ لیا، اور ہم نے وہ چیزیں کھو دیں جو ہمیں عزیز تھیں—ہمارے گھر، ہماری نوکریاں، ہمارے خاندان، اور حتیٰ کہ اپنی آزادی۔ ہم نے خاندان اور دوستوں کا بھروسا کھو دیا۔ ہم نے زندگی کی مُشکلات کا سامنا کرنے کے لئے اپنی عزتِ نفس اور اپنا اعتماد کھو دیا۔ ہم اپنے آخری مقام پر پُہنچ گئے، اور اگرچہ اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عاجزی تکلیف دہ تھی، لیکن یہ ہماری بحالی کا آغاز تھا۔

نشے سے آزادی آسان نہیں ہے؛ اِس کے لیے سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ لیکن آخر کار ہمیں احساس ہُوا کہ ہم نے اپنے نشے میں رہنے کے لئے جو قیمت ادا کی وہ بحالی کی قیمت سے کہیں زیادہ تھی۔ جیسے ہی ہم نے غرور کو چھوڑا، ہم نشے سے آزادی کی راہ شُروع کرنے کے لئے تیار تھے۔

ایماندار بنیں اور کسی سے بات کریں

ہمارے نشے کے بارے میں ایماندار ہونے میں ہماری مدد کرنے کے لئے ایک اہم عمل یہ ہے کہ اِس کے بارے میں کسی سے بات کریں۔ چونکہ ہمارے نشوں نے ہمیں خُود سمیت دُوسروں کو جواز دینے، معقول بنانے اور جھوٹ بولنے پر مجبُور کِیا ہے، ہم میں سے بُہت سے دھوکہ دہی کے ماہر ہیں۔ یہ دھوکہ ہمیں اپنے نشوں کو جاری رکھنے کے قابل بناتا ہے، اور ہمارے لئے چیزوں کو ایمانداری سے دیکھنا مُشکل ہے۔ جیسے ہم اپنے اِس رویے اور جواز کو کم پیش کرتے ہیں، ہم غلطی سے سوچتے ہیں کہ ہم اب بھی کنٹرول میں ہیں۔ تاہم، جب ہم کسی دُوسرے شخص کے ساتھ بے تکلف ہوتے ہیں، وہ شخص ہمیں سچّائی کو دیکھنے اور فریب سے نکلنے میں مدد دے سکتا ہے۔

جس شخص سے ہم سب سے پہلے بات کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارا آسمانی باپ ہے۔ ہم دُعا کر سکتے ہیں اور اُس سے التجا کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ایماندار بننے، چیزوں کو زیادہ واضح طور پر دیکھنے اور سچّائی کو قبُول کرنے کی ہمت رکھنے میں مدد کرے۔ پھر ہم دُعا کے ساتھ کسی اور کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جس سے بات کی جائے، کوئی ایسا شخص جو یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل اور بحالی کے راستے کو سمجھتا ہو۔ کسی ایسے شخص کا انتخاب کریں جس پر آپ بھروسا کرتے ہیں۔ یہ شریکِ حیات، والدین، خاندانی رُکن، کلِیسیائی راہنما، دوست، ساتھی کارکُن، معالج، سپانسر، مُبلغین، یا بحالی کی میٹنگ میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ کسی کو مُنتخب کرنے کے بعد، اگلا مرحلہ اُن کے ساتھ اُن مسلوں کا اشتراک کرنا ہے جِن سے ہم دوچار رہے ہیں۔ ہمیں اپنے نشے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ایماندار ہونے میں ہمت کے لئے دُعا کرنے کی ضرورت ہے۔ (دستاویز ”بحالی میں معاونت“ دیکھیں۔)

میٹنگوں میں شرکت کریں

بحالی کے اجلاس اُمید اور حمایت کے قوی ذرائع ہیں۔ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، ہم ذاتی طور پر یا آن لائن میٹنگوں میں شریک ہو سکتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں بحالی کے خواہاں دُوسروں کے ساتھ اور اُن لوگوں کے ساتھ جمع ہونے کی جگہ ہیں جو پہلے ہی یہ راستا اختیار کر چُکے ہیں اور اُس کے موثر ہونے کا ثبوت ہیں۔ بحالی کے اجلاسوں میں، ہمیں وہ ملتے ہیں جو اِن مراحل کو لاگو کرنے اور بحالی کو پانے کا تجربہ رکھتے ہیں اور جو ہمیں ہمارے سفر میں مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بحالی کے اجلاس مفاہمت، اُمید اور حمایت کی جگہ ہیں۔

اُن اجلاسوں میں، ہم اِنجِیل کے مخُصوص اُصُولوں کا مُطالعہ کرتے ہیں جو رویہ تبدیل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ صدر بوائڈ کے پیکر نے سِکھایا: ”اِنجِیل کی تعلیمات کا مُطالعہ رویے کو رویے کے مُطالعہ سے جلدی بہتر کرے گا۔ نااہل رویے کےساتھ مشغول ہونا نااہل رویے کی طرف راہنمائی کر سکتا ہے۔ اِسی لیے ہم اِنجِیل کے عقائد کے مُطالعہ پر زور دیتے ہیں“ (”چھوٹےبچّے،“ انزائن، نومبر1986، 17)۔ مجالس مفُت اور راز دارانہ ہیں۔ اپنی قریبی AddictionRecovery.ChurchofJesusChrist.org میٹنگ تلاش کرنے کے لیے جائیں۔

مُطالعہ اور فہم

صحائف اور کلِیسیائی راہ نُماؤں کے بیانات کا مُطالعہ ہماری بحالی میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہ مُطالعہ ہمارے فہم کو بڑھاتا ہے اور سیکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ ہم مندرجہ ذیل صحیفوں، بیانات اور سوالات کو دُعائیہ ذاتی مُطالعہ، تحریر اور گروہی گُفتگُو کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

تحریرکا خیال تھکا دینے والا لگ سکتا ہے، لیکن لکھنا بحالی کے لئے ایک طاقتور آلہ ہے۔ تحریر کرنا ہمیں غور و فکر کرنے کا وقت دیتا ہے، ہماری سوچ پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد کرتا ہے، اور ہمارے نشوں کی عادت کے ارد گرد کے مسائل، خیالات اور رویے کو دیکھنے اور سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ جب ہم لکھتے ہیں، تو ہمارے پاس اپنے خیالات کا ریکارڈ بھی ہوتا ہے۔ جیسے جیسے ہم اِن مراحل میں آگے بڑھتے ہیں، ہم اپنی ترقی دیکھ سکتے ہیں۔ ابھی کے لئے، صرف ایماندار اور مُخلص رہیں جب آپ اپنے خیالات، احساسات اور تاثرات لکھتے ہیں۔

کیا آپ قائل ہیں کہ آپ اپنے نشے کی عادت میں بےقوت ہیں؟

”نشہ انسانی مرضی کو مُنقطع کرنے اور اخلاقی مُختاری کو مسترد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کی قوت میں سے ایک کو چھین سکتا ہے“ (بوائڈ کے پیکر، ”بدلتی ہُوئی دُنیا میں مُکاشفہ،“ انزائن، نومبر1989، 14)۔

  • وہ کیا علامات ہیں کہ مَیں اپنے نشے کے رویے پر بے اختیار ہُوں؟

  • میری نشے کی عادت مُجھے کیسے مُتاثر کر رہی ہے؟

  • مَیں دُوسروں سے کون سے راز چھُپاتا ہُوں؟

  • اپنے نشے کی عادت میں مُبتلا ہونے کے لیے مَیں کس حد تک جا چُکا ہُوں؟

  • مَیں نے کون سے اخلاق یا معیارات کی خلاف ورزی کی ہے؟

  • مَیں نے اُن اختیارات کو کس طرح معقول بنایا ہے؟

بھُوک اور پیاس

”مُبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھُوکے اور پیاسے ہیں کِیُونکہ وہ آسُودہ ہوں گے“ (متّی 5:‏6)

”اور میری جان بھُوکی ہے؛ اور مَیں نے اپنے خالق کے حُضُور گُھٹنے ٹیکے، اور اپنی جان کی خاطِر فریاد اور دِل سوز دُعا میں اُس کے سامنے گِڑگڑایا؛ اور سارا دِن اُس کے حُضُور مِنّتیں کرتا رہا؛ ہاں، جب رات اُتری تو پھر بھی مَیں بُلند آواز سے چِیختا چِلاتا رہا کہ یہ اَفلاک تک جا پُہنچی“ (انوس1:‏4

  • اِن دو صحیفوں میں، ہم سیکھتے ہیں کہ ہماری جانوں کو بھی بھوک لگ سکتی ہیں۔ کیا مَیں نے کبھی اندر خالی پن محسُوس کِیا ہے، جب کہ جب میں جسمانی طور پر بھوکا نہیں ہُوں؟ اِس خالی پن کی وجہ کیا ہے؟

  • رُوح کی چیزوں کی بھوک مُجھے مزید دیانت دار ہونے میں کیسے مدد کر سکتی ہے؟

ایمانداری

”کُچھ ایمانداری کو جو کردار کی خصُوصیت ہے عام تصور کرتے ہیں۔ لیکن میرا ایمان ہے کہ یہ اِنجِیل کا جوہر ہے۔ ایمانداری کے بغیر، ہماری زندگیاں … بدصورتی اور بد نظمی میں بھٹک جائیں گی“ (گورڈن بی ہنکلی، ”ہم دیانت دار ہونے پر یقین رکھتے ہیں،“ انزائن، اکتوبر 1970، 2)۔

  • وہ کون سے طریقے ہیں جن سے مَیں نے جھوٹ بولا اور اپنے نشے کی عادت کو خُود سے اور دُوسروں سے چھُپانے کی کوشش کی؟ یہ رویہ کس طرح ”بدصورتی اور افراتفری“ کا سبب بنا ہے؟

فروتنی

”اور اب، چُوں کہ فروتن بننے کے واسطے تُمھیں بےبس کِیا گیا ہے تُم مبارک ہو؛ پَس بعض اوقات اِنسان، اگر فروتن بننے کے لِیے بےبس کِیا جاتا ہے، تَوبہ کا خواہاں ہوتا ہے؛ اور اب یقِیناً، جو کوئی تَوبہ کرے گا رحم پائے گا؛ اور وہ جو رحم پائے گا اور آخِر تک برداشت کرے گا وہی بچایا جائے گا۔“(ایلما 32:‏13

  • کِن حالات نے مُجھے فروتن ہونے اور توبہ کرنے پر مجبُور کِیا ہے؟

  • ایلما مُجھے کیا اُمید دیتا ہے؟ مَیں یہ اُمید کیسے پا سکتا یا حاصل کر سکتا ہُوں؟

آزمایشوں کا احاطہ کِیا گیا۔

”مَیں محصُور ہُوں، آزمایشوں اور گُناہوں کے سبب جو بڑی آسانی سے مُجھے گھیر لیتے ہیں۔

”اور جب مَیں شادمان ہونے کی تمنا کرتا ہُوں، میرا دِل میرے گُناہوں کے سبب سے کراہتا ہے؛ تو بھی، مُجھے عِلم ہے کہ کس پر مَیں نے توکّل کِیا ہے۔

”میرا خُدا میرا سہارا رہا ہے؛ اور اُس نے بیابان میں میری مُصیبتوں کے دوران میں میری راہ نمائی فرمائی ہے؛ اور اِنتہائی گہرے پانیوں پر مُجھے محفُوظ رکھا ہے۔

”اُس نے، میرے جِسم کے گھلنے کی حد تک مُجھے اپنی محبّت سے مَعمُور کِیا ہے۔“(2 نیفی 4:‏18–21

  • جب نیفی نے خُود کو مغلوب محسُوس کیا تو اُس نے کس پر بھروسا کِیا؟

  • خُداوند پر زیادہ بھروسا کرنے کے لیے مَیں کیا کر سکتا ہُوں؟

”مَیں جانتا ہُوں کہ انسان کُچھ بھی نہیں ہے“

”ایسا ہُوا کہ کئی گھڑیاں بیت جانے کے بعد مُوسیٰ نے عام آدمی کی طرح ہمت پائی؛ اور اُس نے اپنے آپ سے کہا: اب، اِس سبب سے مَیں جانتا ہُوں کہ اِنسان کُچھ بھی نہیں، میں نے پہلے ایسا کبھی گُمان نہ کیا تھا“ (مُوسیٰ 1‏:10

  • مَیں کِس طرح سے کُچھ بھی نہیں ہُوں جب میرے پاس خُدا کی مدد نہ ہو؟

  • مَیں کس طرح سے لامحدود قدروقیمت کا حامل ہُوں؟

  • خُدا پر بھروسا کرنے کی اپنی ضرورت پہچاننے سے مُجھے اپنی ”کم مایگی“ کا اعتراف کرنے اور ایک چھوٹے بچّے کی طرح بننے کا موقع کیسے مِل سکتا ہے؟ (مضایاہ 4:‏5؛ مزید دیکھیے مضایاہ 3:‏19