لت
مرحلہ 7: آسمانی باپ سے فروتنی کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کو دُور کرنے کی دُعا کریں


”مرحلہ 7: آسمانی باپ سے فروتنی کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کو دُور کرنے کی دُعا کریں،“ نجات دہندہ کے وسیلہ سے شفا: نشے/لت سے بحالی کا پروگرام بحالی کے 12-مراحل کا ہدایت نامہ (2023)

”مرحلہ 7،“نشے/لت سے بحالی کا پروگرام بحالی کے 12-مراحل کا ہدایت نامہ

ہاتھ مِلائیں

مرحلہ 7: آسمانی باپ سے فروتنی کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کو دُور کرنے کی دُعا کریں۔

4:19

کلیدی اُصُول: فروتنی

سابقہ تمام مراحل نے ہمیں اِس مرحلے کے لیے تیار کِیا ہے۔ مرحلہ 1 نے ہمیں فروتن ہونے اور یہ تسلیم کرنے میں مدد کی کہ ہم اپنے نشوں/لتوں پر بے اِختیار تھے۔ مرحلے 2 اور 3 نے خُداوند سے دُعا مانگنے کے لیے اِتنا اِیمان اور اعتقاد پانے میں ہماری مدد کی۔ مرحلہ 4 سے ہمارے جائزوں نے ہمیں اپنے کرداروں اور رویوں کو زیادہ واضح طور پر دیکھنے میں ہماری معاونت کی۔ مرحلہ 5 پر کام کرنے سے ہم نے خُدا، اپنے، اور کسی شخص کے ساتھ دیانت دار ہونے کی اپنی ہمت کا اِظہار کِیا۔ مرحلہ 6 تیار رہنے اور ہماری کردار کی کمزوریوں کو جانے دینے میں ہماری مدد کی۔ اب ہم مرحلہ 7 پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہر مرحلہ پر کام کرنے کے لیے ہم ”کیسے“: فروتن، کُھلے ذہن، اور آمادہ رویہ پر توجہ مرکوز کریں۔

تمام مراحل میں فروتنی ضرُوری ہے، لیکن مرحلہ 7 کے لیے اِس کی اِنتہائی زیادہ ضرُورت ہوتی ہے: ”آسمانی باپ سے فروتنی کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کو دُور کرنے کے لیے دُعا کریں۔“ جب ہم بحالی کے پہلے چند مراحل سے گُزرے، تو ہم نے سیکھا کہ خواہ ہم اپنی جتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لیں، ہم خُداوند کی مدد کے بغیر تبدیل یا بحال نہیں ہو سکتے ہیں۔ یہ مرحلہ کوئی مختلف نہیں ہے۔ اِیمان کے صادق فروتنی کو یُوں بیان کرتا ہے: ”فروتن ہونے سے مُراد ہے خُداوند کے لیے اپنی تابع داری کو شُکر گُزاری سے پہچاننا—اُس کو سمجھنے کے لیے آپ کو اُس کی مدد کی مستقل ضرُورت ہوتی ہے“ (اِیمان کے صادق: اِنجِیلی حوالہ [2004]، 86

ہم میں سے بعض واپس اپنے پُرانے طور طریقوں کی طرف چلنے اور خُود سے تبدیل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن جب ہم نے اپنی بُہت سی خطاؤں اور خامیوں کو پہچانا، تو ہم نے جانا کہ ہمیں تبدیلی کے لیے خُداوند کی مدد پر بھروسا کرنا ضرُوری ہے۔ مرحلہ 7 میں، ہمیں اُس کام سے برخاست نہیں کِیا گیا جو ہمیں کرنا تھا۔ ہمیں صابر ہونا اور ”مسِیح میں ثابت قدمی سے آگے بڑھنا تھا“ (2 نِیفی 31:‏20)۔ ہمیں خُدا کی جانب رجُوع کرنے اور اُس کی مدد مانگنے کے لیے مستقل یاد دہانیوں کی ضرُورت تھی۔

ہم سوچتے تھے کہ ہمارے لیے یہ مُعجزے کیسے رُونما ہوں گے۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے مختلف رہا ہے، اَلبتہ کچھ مُشترک بھی ہے۔ شاذ و نادر ہی لوگوں کو اپنے کردار میں ڈرامائی اور اچانک تبدیلیوں کا تجربہ ہُوا ہے؛ مراحل 6 اور 7 کے بتدریج عمل عموما بزرگ ڈیوڈ اے بیڈنار کے بیان کردہ طریقہ کار کی طرح ہوتا ہے:

”ہم بحثیت کلِیسیائی ارکان شان دار اور ڈرامائی رُوحانی ظہُور پر اِتنا زیادہ زور دیتے ہیں کہ ہم رُوح القُدس کی قدر کرنے میں ناکام ہو جاتے اور حتیٰ کہ اِس کے روایتی نمونوں کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں جس سے وہ اپنے کام انجام دیتا ہے، … [جوکہ ] چھوٹے چھوٹے اور بتدریج رُوحانی تاثرات کی بدولت ہوتا ہے“ (”مُکاشفے کی رُوح،“ لیحونا مئی 2011، 88)۔

جب ہم خُدا کے حُضُور اطاعت اور اپنی مرضی کو اُس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو ہمارے ایّام چھوٹی چھوٹی خُوشیوں سے بھر جاتے ہیں جن میں وہ ہمیں اپنی پُرانی عادات کو رَد کرنے، اور اِس کے بجائے اُس کی مدد، ہمت بڑھانے اور محبّت بھری قُدرت پر بھروسا کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ بہن ربیقہ ایل کریون نے سِکھایا: ”ہمت نہ ہاریں۔ تبدیلی زِندگی بھر جاری رہنے کا عمل ہے. … ہماری تبدیل ہونے کی کوششوں میں، خُداوند ہمارے ساتھ صابر ہے“ (”تبدیلی کو قائم رکھیں،“ لیحونا، نومبر 2020، 59)۔

خواہ ہمارے نشے/لتیں شراب، منشیات، جُوا، جِنسی ہَوس، خُود شکستہ کھانے کے نمونے، اِضطراری اخراجات، یا دیگر نشہ/لت کے رویے یا ایسے مادے جن کے اِستعمال ہم اپنی زندگی کے تناؤ سے نمٹنے کے لیے کرتے ہیں، نجات دہندہ ”[ہماری] کمزوریوں کے موافق [ہماری] مدد کرے گا“ (ایلما 7:‏12)۔ جب ہم یِسُوع مسِیح کے پاس آنے سے تبدیل ہونے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، تو ہم اُس کی شفا بخش قُدرت کا تجربہ پاتے ہیں۔

اِس مرحلے پر کام کرنے سے، ہم میں سے بُہتوں نے جانا کہ ہمیں شرمندگی کے احساس سے لڑنا پڑا۔ اپنی کوتاہیوں کو دیکھنے سے ہمیں وہ احساس ہُوا کہ ہم اِتنے اچھے نہیں یا یہ کہ ہم ایک بار پھر ناکام ہو گئے تھے۔ لیکن اِن مراحل پر کام کرنے اور مسِیح کے پاس آنے سے ہمیں اپنے آپ کو دیکھنے کا نیا نُقطہ نِگاہ عطا ہُوا۔ ہم نے بحیثیت خُدا کے پیارے بیٹے اور بیٹیاں اپنے لیے خُدا کی محبّت کو محسُوس کِیا۔ اِس محبّت نے ہمیں شرمندگی اور خُود ترسی کے احساسات سے لڑنے میں مدد کی۔

ہم اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو فروتنی سے اپنے بحالی کے سفر میں آگے بڑھنے کے لیے خُدا سے مدد مانگنے کے مواقع دیکھنے لگے۔

عملی اقدام

یہ عملی پروگرام ہے۔ ہماری ترقی کا اِنحصار اِن مراحل کو اپنی روزمرہ زندگیوں میں مستقل طور پر لاگو کرنے پر ہے۔ یہ ”اقدام پر عمل کرنا“ سے جانا جاتا ہے۔ درج ذیل عوامل ہمیں مسِیح کے پاس آنے اور اپنی بحالی میں اگلا قدم اُٹھانے کے لئے ضروری ہدایت اور قُوت پانے میں مدد کرتے ہیں۔

جو کُچھ ہم خُود سے اپنے لیے نہیں کر سکتے خُدا کو کرنے کے لیے اِلتجا کریں

ہم مرحلہ 7 پر روزانہ کیسے عمل کریں؟ جب ہم اپنی کمزوریوں کو دیکھتے ہیں یا جب ہماری خُود سری واپس آتی ہے تو دِن میں ایسے لمحات کے دَوران میں توقف کرتے ہیں۔ اِن لمحات میں، ہم دست بردار ہوں اور سُنیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم مدد کے بغیر خُود کو بدلنے کے لیے بے اِختیار ہیں، اور ہمیں بھروسا ہے کہ خُداوند ہمیں تبدیل کر سکتا ہے۔ پھر ہم اُس پر بھروسا کر کے آگے بڑھیں۔ جو کُچھ ہم نہیں کر سکتے وہ سب چھوڑ دیں، اور خُدا سے اپنے لیے مدد مانگیں۔

اِس کے لیے دُعا میں خُدا کی جانب رجُوع کرنا لازم ہے۔ ”ہم میں سے ہر کسی کو ایسے مسائل درپیش ہیں جن کو ہم حل نہیں کر سکتے اور کمزوریاں جن کو ہم دُعا سے قُوت کے اعلیٰ منبع تک پُہنچائے بغیر قابو نہیں پا سکتے“ (جیمز ای فاؤسٹ، ”دُعا کی عُمر،“ انزائن، مئی 2002، 59)۔

جب ہم بامعنی اور بامقصد دُعا کرتے ہیں، تو ہم خُدا کی محبّت تک رسائی پاتے ہیں۔ جب ہم اپنے آپ کو الہٰی سے مربوط ہونے کے لیے پُرسکُون وقت اور مقام دیتے ہیں، تو ہم خُدا کے ساتھ اپنے رشتے کی تعمیر اور تقویت کرتے ہیں۔ اپنے دِلوں میں سادہ دُعا سے، جیسا کہ، ”خُداوند، تُو مُجھ سے کیا چاہتا ہے؟“ (اعمال 9‏:6) یا ”تیری مرضی پُوری ہو“ (عقائد اور عہُود 109:‏44)، ہم خُداوند پر اپنی مکمل تابع داری کو مسلسل یاد رکھیں گے۔ خُدا کے لیے ہماری محبّت اور ہمارے لیے اُس کی محبّت ہمیں ایسا رشتہ قائم کرنے میں مدد دے گی جس سے ہم اپنی ساری جان اُس کو نذر کر سکتے ہیں۔

عِشائے ربّانی کی دُعاؤں کا مُطالعہ کریں

مرحلہ 7 عِشائے ربّانی کی دُعاؤں فروتنی اور عزم کا شان دار مظہر ہے۔ ہمیں ہر ہفتے عِشائے ربّانی میں شرکت کرنے اور عِشائے ربانی کی دُعاؤں کے الفاظ پر غور و فکر کرنے کا موقع مِلتا ہے۔

ہم تجویز کرتے ہیں مرونی 3:4؛ 2:5 اور فروتنی سے اِن مُقدس اَلفاظ کو اپنی ہی آواز میں کچھ یُوں لاگو کریں: ”اَے خُدا، اَبدی باپ، [مَیں] تجھ سے تیرے بیٹے، یِسُوع مسِیح کے نام پر مانگتا ہُوں، کہ اِس روٹی کو [میری جان کے لیے ] برکت دے اور پاک کر کیوں کہ میں اِس میں سے کھانے کو ہُوں؛ تاکہ [مَیں] تیرے بیٹے کے بدن کی یاد میں کھاؤں، اور تیری گواہی دُوں، اَے خُدا، اَبدی باپ، تاکہ [مَیں] تیرے بیٹے کا نام [اپنے تئیں] لینے پر آماد ہُوں، اور اُسے ہمیشہ یاد رکھوُں، اور اُس کے حُکموں پر عمل کرُوں جو اُس نے [مُجھے] دِیے ہیں، تاکہ [مَیں] اُس کا رُوح ہمیشہ [میرے] ساتھ رہے“ (مرونی 4:‏3

جب ہم عِشائے ربّانی کی دُعاؤں کے بارے میں اِس طریقے سے غور کرتے ہیں، تو ہم مزید ذاتی طور پر شکستہ دِل اور پشیمان رُوح کے ساتھ نجات دہندہ کے پاس آ جاتے ہیں۔ جب ہم اپنی کمزوریوں یا اپنی کسی بھی خامیوں پر غور کرتے ہیں، تو ہم پھر اپنے دِلوں کو اُس کی جانب مائل کر لیتے ہیں۔ ہم اُس سے توبہ کرنے، بہتر بننے، اور اُن کوتاہیوں کو دُور کرنے میں مدد کے لیے اِلتجا کر سکتے ہیں۔

مُطالعہ اور فہم

ذیل کے صحائف اور کلِیسیائی راہ نُماؤں کے بیانات ہماری بحالی میں مدد کرتے ہیں۔ ہم اِنھیں غور و خوض، مُطالعہ، اور روزنامچہ کے لیے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ اِس سے زیادہ سے زیادہ اِستفادہ پانے کے لیے اپنی تحریروں میں دیانت دار اور مخصُوص ہوں۔

اُس کا فضل کافی ہے۔

”اور اگر اِنسان میرے پاس آتے ہیں تو میں اُن کی کمزوری اُن پر ظاہر کروں گا۔ مَیں اِنسان کو اِس لیے کمزوریاں دیتا ہُوں تاکہ وہ فروتن ہوں؛ اور میرا فضل تمام اِنسانوں کے لیے کافی ہے جو اپنے آپ کو میرے حُضور فروتن کرتے ہیں؛ پَس اگر وہ اپنے آپ کو میرے حُضُور فروتن کرتے، اور مُجھ پر اِیمان لاتے ہیں، تو مَیں اُن کی کمزوریوں کو مضبُوطی میں بدل دُوں گا“ (عیتر 12:‏27

فانی اور غیر کامل ہوتے ہُوئے، ہم سب بُہت سی کمزوریوں کے ماتحت ہو جاتے ہیں۔ اِس آیت میں، خُداوند وضاحت کرتا ہے کہ فانی زندگی کا تجربہ پانے اور ایسی کمزوریوں کا سامنا کرنے دینے کا مقصد ہمیں فروتن ہونے میں مدد کرنا ہے۔ غور کریں کہ ہم خُود فروتن بننے کا اِنتخاب کرتے ہیں۔

  • میرے نزدیک اِس فقرے سے کیا مُراد ہے کہ ”میرا فضل تمام اِنسانوں کے لیے کافی ہے“؟

  • کیا میرا اِیمان ہے کہ میرے لیے خُداوند کا فضل کافی ہے؟

  • خُداوند کے حُضُور اپنے آپ کو فروتن کرنے سے کیا مُراد ہے؟

  • اپنے کردار کی چند کمزوریوں کی فہرست بنائیں۔ اُن کے ساتھ ساتھ، اُن مضبُوطیوں کی فہرست بنائیں جو مسِیح کی جانب رجُوع لانے سے بن سکتی ہیں۔

فروتن ہونے کا انتخاب کریں

”جیسا کہ مَیں نے تُم سے کہا، چُوں کہ تُمھیں فروتن ہونے کے لِیے بے بس کِیا گیا تھا تُم مُبارک ہو، کیا تُم نہیں سمجھتے کہ جو کلام کی تاثِیر سے حقِیقت میں فروتن بنتے ہیں وہ بُہت زیادہ مُبارک ہیں؟“ (ایلما 32‏:14

ہم میں سے زیادہ تر مایُوسی کے عالم میں بحالی کی میٹنگوں میں آئے؛ ہم اپنے نشوں/لتوں کے نتائج سے متاثر ہُوئے۔ ہم فروتن ہونے پر مجبُور ہو گئے۔ تاہم، اِس مرحلہ میں بیان کردہ فروتنی رضاکارانہ ہے۔ اپنے آپ کو فروتن کرنا ہمارے اپنے اِنتخابات کا نتیجہ ہے۔

  • جب سے مَیں نے بحالی شُروع کی ہے تو فروتنی کے میرے احساسات کیسے تبدیل ہُوئےہیں؟

خُوشی سے معمُور

”اُنھوں نے خُود کو اپنی بشری حالت میں زمِین کی خاک سے بھی کم تر جانا۔ اور وہ سب ایک آواز ہو کر یہ کہہ کر زور سے چِلائے:آہ ہم پر رحم کر اور مسِیح کے کفّارہ بخش خُون کو وسِیلہ بنا تاکہ ہم اپنے گُناہوں کی مُعافی پائیں اور ہمارے دِل پاک کِیے جا سکیں؛ کہ ہم خُدا کے بیٹے یِسُوع مسِیح پر اِیمان لاتے ہیں جِس نے زمِین اور آسمان خلق کِیے، اور ہر شَے؛ وہی بنی آدم کے درمیان میں آئے گا۔

”اور اَیسا ہُوا کہ اُن کے یہ باتیں کہنے کے بعد خُداوند کا رُوح اُن پر نازِل ہُوا اور وہ اپنے گُناہوں کی مُعافی پا کر اور ضمیر کا اِطمینان پا کر خُوشی سے بھر گئے، اُس نہایت اِیمان کی بدولت جو یِسُوع مسِیح پر تھا جو آنے والا تھا۔“ (مضایاہ 4:‏2–3

بِنیامِین بادشاہ کے لوگوں نے تقریباً وہی دُعا کی جو کہ ہم نے مرحلہ 7 پر کام کرنے سے ادا کی تھی۔ اُنھوں نے اِطمینان اور خُوشی پائی جب خُداوند کا رُوح اُن پر ظاہر ہُوا اور اُنھیں اُن کے گُناہوں کی معافی بخشی۔

  • جب جب مَیں نے اِطمینان اور خُوشی محسُوس کی تو مُجھے کون سے تجربات ہُوئے ہیں؟

  • ہر روز اپنی زندگی میں اِطمینان اور خُوشی پانے سے کیسا محسُوس ہو گا؟

حُکموں کی فرماں برداری کریں

”تُم مُجھ میں قائِم رہو اور مَیں تُم میں۔ جِس طرح ڈالی اگر انگُور کے درخت میں قائِم نہ رہے، تو اپنے آپ سے پَھل نہیں لا سکتی؛ اُسی طرح تُم بھی، اگر مُجھ میں قائِم نہ رہو۔

”مَیں انگُور کا درخت ہُوں تُم ڈالِیاں ہو: جو مُجھ میں قائِم رہتا ہے، اور مَیں اُس میں، وُہی بُہت پَھل لاتا ہے: کیوں کہ مُجھ سے جُدا ہو کر تُم کُچھ نہیں کر سکتے. …

”اگر تُم میرے حُکموں پر عمل کرو گے، تو میری محبّت میں قائِم رہو گے، جَیسے مَیں نے اپنے باپ کے حُکموں پر عمل کِیا ہے، اور اُس کی مُحبّت میں قائِم ہُوں۔

”مَیں نے یہ باتیں اِس لِئے تُم سے کہی ہیں کہ میری خُوشی تُم میں ہو اور تُمہاری خُوشی پُوری ہو جائے“ (یُوحنا 15:‏4–5، 10–11

  • میرے نزدیک اِس کا کیا مطلب ہے کہ اگر مَیں نجات دہندہ کے حُکموں پر عمل کروں، تو ”[مَیں] [اُس کی] محبّت میں قائم رہُوں گا؟“ (آیت 10)۔

  • اِن آیات کے مطابق، اُس میں قائم رہنے میں وعدہ کی چند کون سی برکات ہیں؟

  • نجات دہندہ کے حُکموں پر عمل کرنے کے بارے میں آج میں کیسا محسُوس کرتا ہُوں؟

  • حُکموں پر عمل کرنا کیسے خُدا سے میری محبّت کا اظہار ہے؟

خُدا کی محبّت

”جب ہم خُدا کو اوّلین ترجیح دیتے ہیں، تو دیگر تمام چیزیں اپنی صحیح جگہ پر آ جاتی ہیں یا ہماری زندگیوں سے باہر چلی جاتی ہیں۔ خُداوند سے ہماری محبّت ہمارے پیار کے دعوؤں، ہمارے وقت کے تقاضوں، مفادات جن کی ہم پیروی کرتے ہیں، اور ہماری ترجیحات کی ترتیب کی نگرانی کرے گی“ (عزرا ٹافٹ بینسن، ”عظیم حُکم—خُداوند سے محبّت رکھ،“ انزائن، مئی 1988، 4)۔

اب تک خُدا کی رحمت اور بھلائی کو جاننے سے، شاید ہم نے اُس کی طرف سے اُس کے لیے—خُدا کی محبّت کو محسُوس کرنے لگے ہیں۔

  • اِن مراحل پر عمل کرنے سے کیا مَیں نے محبّت میں بڑھوتی محسُوس کی ہے؟ اگر ایسا ہے تو، کیوں؟

  • مرحلہ 7 پر عمل کرنے سے اپنی ترجیحات کو ترتیب اور خُدا کو اپنی زندگی میں اوّلین ترجیح دینے سے میری مدد کیسے ہُوئی؟

اپنے تئیں مسِیح کا نام لیں

”اور اب، اُس عہد کے سبب جو تُم نے باندھا ہے تُم مسِیح کے فرزند، اُس کے بیٹے اور اُس کی بیٹیاں کہلاؤ گے؛ …

”… پَس مَیں چاہتا ہُوں کہ تُم سب جو خُدا کے عہد میں داخل ہُوئے ہو اپنے تئیں مسِیح کا نام اپنا لو تاکہ اپنی زندگیوں کے آخر تک تُم فرماں بردار رہو گے۔ …

”جو کوئی اَیسا کرے گا خُدا کی داہنی طرف پایا جائے گا، پَس وہ جانے گا کہ وہ کس نام سے پُکارا گیا ہے؛ کیوں کہ وہ مسِیح کے نام سے کہلائے گا“ (مضایاہ 5:‏7–9)۔

  • مسِیح کے نام سے کہلائے جانے اور اُس کی نمایندگی کرنے سے کیا مُراد ہے؟

  • خُدا کا دائیاں ہاتھ پانے کے لیے مجُھے کیا کرنے کی ضرُورت ہے؟

  • جب مَیں بپتِسما لیتا ہُوں اور جب مَیں عشائے ربانی میں شریک ہوتا ہُوں تو مَیں کیا کرنے کا عہد کرتا ہُوں؟ (دیکھیے مضایاہ 5:‏7–9؛ مرونی 18:‏8–10، 13؛ عقائد اور عہُود 20:‏77، 79

  • مُجھے کیسا لگتا ہے جب مَیں نجات دہندہ کی مرضی کے بارے میں غور کروں کہ وہ مُجھے اپنی فرماں برداری کرنے اور اُس کی خدمت کرنے کے عہد باندھنے کے بدلے میں نام اپنانے دیتا ہے، جس میں میری کوتاہیوں کو ترک کرنا بھی شامل ہے؟

اپنی کمزوریوں سے دست بردار ہو جائیں

”کوئی ایسا مذہب جس میں سب چیزوں کی قربانی کی ضرُورت نہیں ہوتی اِس میں زندگی اور نجات کے لیے ضروری اِیمان پیدا کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے“ (اِیمان پر خُطبات [1985]، 69)۔

  • بعض لوگ یہ الفاظ پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ”سب چیزوں“ سے مُراد تمام ملکیت ہے۔ اپنی تمام کمزوریوں کو خُداوند کے حُضُور سونپنے سے میرے فہم میں کیسے اضافہ ہُوا ہے کہ ہر چیز کو قربان کرنے کا کیا مطلب ہے؟