لت
مرحلہ 6: مُکمل طور پر تیار ہوں تاکہ خُدا ہمارے کردار کی تمام کمزوریوں کو دُور کرے


”مرحلہ 6: مُکمل طور پر تیار ہوں تاکہ خُدا ہمارے کردار کی تمام کمزوریوں کو دُور کرے،“ نجات دہندہ کے وسیلہ سے شفا: نشے/لت سے بحالی کا پروگرام بحالی کے 12-مراحل کا ہدایت نامہ (2023)

”مرحلہ 6،“نشے/لت سے بحالی کا پروگرام بحالی کے 12-مراحل کا ہدایت نامہ

آدمی گروپ میں مُسکراتے ہُوئے

مرحلہ 6: مُکمل طور پر تیار ہوں تاکہ خُدا ہمارے کردار کی تمام کمزوریوں کو دُور کرے۔

4:4

کلیدی اُصُول: دِل کی تبدیلی

ہم میں سے بُہت نے مرحلہ 5 میں کامیابی اور شفا پائی۔ ہم اپنے اندر تبدیلی کے لیے حیران اور شُکر گُزار ہُوئے۔ ہم میں سے اکثر جان گئے کہ ہمارے نشوں/لتوں کی شِدت اور آزمایش میں کمی آ گئی ہے۔ ہم میں سے بعض اب تک بحالی کی برکات دیکھنے لگے ہیں۔ ہم سب آسمانی باپ کے قریب اور اپنی زندگیوں میں زیادہ اِطمینان محسُوس کرتے ہیں۔ ایسی زبردست تبدیلیوں کے ساتھ، ہم میں سے بعض سوچتے ہیں کہ کیا ہمیں یہی سب کرنے کی ضرُورت تھی۔ اَلبتہ ہمیں اپنی بحالی کو جاری اور برقرار رکھنے کے لیے ہمیں ابھی زیادہ شفا کی ضرُورت تھی۔

ہم نے دیکھا کہ پرہیزگاری نے ہمارے کردار کی کمزوریوں کو مزید ظاہر کر دِیا ہے۔ ہم اپنے مسائل کو زیادہ واضح طور پر دیکھتے ہیں، کیوں کہ اب ہم نشے/لت کو فرار کے طور پر اِستعمال نہیں کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے منفی خیالات اور احساسات کو قابو کرنے کی کوشش کی، مگر وہ نمودار ہوتے، اور ہمیں ڈراتے اور بحالی میں ہماری نئی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے رہے۔ ماضی کی طرح ہم اپنے کردار کی کمزوریوں پر قابو پانے اور ذہنی دباؤ سے نمٹنے کی کوشش میں ہم اپنے نشے/لت کے رویے اور خُود سری کو اِستعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جنھوں نے بحالی کے رُوحانی اثرات کو سمجھ لِیا تھا اُنھوں نے زور دِیا کہ ہم تسلیم کر لیں کہ اگرچہ ہماری زندگیوں میں تمام ظاہری تبدیلیاں زبردست ہیں، لیکن یِسُوع مسِیح کے پاس ہمارے لیے بُہت زیادہ برکتیں ہیں۔ دُوسروں نے ہمیں یہ دیکھنے میں مدد کی کہ اگر ہم نہ صرف اپنے نشوں/لتوں سے بچنا چاہتے ہیں بلکہ اُن کی طرف لوٹنے کی خواہش سے بھی دُور رہنا چاہتے ہیں، تو ہمیں دِل کی تبدیلی کا تجربہ کرنا ہو گا۔ مرحلہ 6 کا مقصد ہی دِل کی تبدیلی کی خواہش ہے۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ آپ ایسی تبدیلی کیسے لا سکتے ہیں۔ مرحلہ 6، اِس سے پہلے کے مراحل کی طرح، زبردست چنوتی کی طرح لگتا ہے۔ اِن احساسات کی وجہ سے حوصلہ شکن نہ ہوں۔ یہ جتنا بھی تکلیف دہ ہو، آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا، جیسا کہ ہم نے کِیا ہے، مراحل 4 اور 5 میں ہم نے اپنے کردار کی کمزوریوں کو تسلیم اور اقرار کِیا اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اِن کو ترک کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جب ہم دباؤ سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم اب بھی اپنے پُرانے اطوار کو اپنا سکتے ہیں۔

تسلیم کرنے کے لیے سب سے عاجزانہ بات یہ ہے کہ ہم خُدا کی مدد کے بغیر اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرحلہ 6 کا تقاضا ہے کہ ہم غرور اور خُود سری کی تمام بقا کے لیے خُدا کے حُضُور آ جائیں۔ مرحلہ 1اور 2 کی طرح، مرحلہ 6 ہمیں مسلسل اپنے آپ کو فروتن کرنے اور مسِیح کی مُخلصی دینے اور تبدیل کرنے والی قُدرت کی ضرُورت کو تسلیم کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ آخرکار، اُس کی کفّارہ بخش قربانی نے ہمیں ہر مرحلہ پر عمل کرنے سے اِس مقام کے لائق بنایا ہے۔ مرحلہ 6 مُستثنیٰ ہونا نہیں ہے۔

جب ہم یِسُوع مسِیح کے پاس آتے ہیں اور اِس مرحلہ میں مدد مانگتے ہیں، تو ہم مایُوس نہ ہوں گے۔ اگر ہم اُس پر بھروسا کرتے ہیں تو اِس طرزِ عمل پر صبر کریں، ہم دیکھیں گے کہ ہمارا گُھمنڈ آہستہ آہستہ فروتنی میں بدل گیا۔ وہ ہمارا صبر سےاِنتظار کرے گا کہ ہم مدد کے بغیر تبدیل ہونے کی اپنی کوششوں سے تھک جائیں جیسے ہی ہم اُس کی طرف رجُوع کریں گے، ہم پھر سے اُس کی محبّت اور قُدرت کے شاہد ہوں گے۔ پُرانے رویے کی روِشوں پر چلنے کی بجائے، ہم کُھلے ذہن کے مالک ہو سکتے ہیں کیوں کہ ہمیں رُوح شفقت سے زندگی گُزارنے کا بہتر طریقہ تجویز کرتا ہے۔ جب ہم جان جاتے ہیں کہ یِسُوع مسِیح دُکھ اور سخت محنت کے تقاضوں کو سمجھتا ہے تو تبدیلی کے بارے میں ہمارا خوف کم ہو جائے گا۔ ایک بار پھر، یہ وقت کے ساتھ ساتھ اور ہم میں سے ہر ایک کے لئے مختلف ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کو مستقل طور پر خُداوند کو سونپنے کے لیے یہ مشق ہے۔ یہ عمل ہے، ایک بار کا واقعہ نہیں.ہے۔

جب مسِیح کی جانب رجُوع کرنے کا عمل ہمارے دلِوں میں گھر کر لیتا ہے، تو ہمارے منفی خیالات اور احساسات کو ہَوا دینے والے ہمارے جُھوٹے عقائد سچّائی سے بدل جائیں گے۔ اگر ہم خُدا کے کلام کا مُطالعہ اور اطلاق جاری رکھیں گے تو ہم مضبُوطی میں بڑھیں گے۔ دُوسروں کی گواہیوں کے ذریعے سے، خُداوند ہمیں یہ سیکھنے میں مدد دے گا کہ ہم اُس کی شفا دینے والی قُدرت سے پرے نہیں ہیں۔ دُوسروں کو قصُور وار ٹھہرانے یا اِس مُشکل عمل سے باہر نکالنے کی اپنی عقلی خواہش کی بجائے اُس کے جواب دہ ہونے اور اُس کی مرضی کے تابع ہونے کی خواہش ہو جائے گی۔ حزقی ایل نبی کے وسیلے سے، خُداوند نے فرمایا، ”مَیں تُمھیں نیا دِل بخشُوں گا … اور نئی رُوح تُمھارے باطِن میں ڈالُوں گا اور تُمھارے جِسم میں سے سنگِین دِل کو نِکال ڈالُوں گا اور گوشتِین دِل تُم کو عِنایت کرُوں گا“ (حزقی ایل 36:‏26

نجات دہندہ ہمیں برکت عطا کرنا اور ہماری فطرت کو بدلنا چاہتا ہے۔ اگر ہم اُسے ایسا کرنے دیں، تو ہم اُس کے ساتھ زیادہ مُنسلک جائیں گے، بالکل اُسی طرح جیسے وہ آسمانی باپ کے ساتھ مُنسلک ہے۔ نجات دہندہ ہمیں اُس تنہائی اور خوف سے آرام دینا چاہتا ہے جو ہمارے نشوں/لتوں کا سبب بنے تھے۔ وہ ہمیں اپنی کفّارہ بخش قربانی کے وسیلے سے اپنے فضل اور قُدرت سے نوازنا چاہتا ہے۔

جب ہم رُوح کی سرگوشیوں پر توجہ دیتے ہیں تو نہ صرف نشہ/لت سے بلکہ کردار کی کمزوریوں کے لیے خُدا سے نجات کے مُنتظر ہوتے ہیں، اگر ہم تیار ہیں تو وہ ہمارے مِزاج اور کردار کو بدل دے گا۔ خُدا کی طرف سے پاک ہونے کی بڑھتی ہُوئی خواہش ہمیں اپنی فطرت میں تبدیلی کے لیے تیار کرے گی۔ صدر عزرا ٹافٹ بینسن نے اِس تبدیلی کو کُچھ یوں بیان کِیا ہے:

”خُداوند باطن سے باہر کام کرتا ہے۔ دُنیا باہر سے باطن کی طرف کام کرتی ہے۔ دُنیا لوگوں کو پسماندگی سے نکالتی ہے۔ مسِیح لوگوں میں سے پسماندگی کو نکالتا ہے، اور پھر وہ اپنے آپ کو پسماندگی سے نکالتے ہیں۔ دُنیا [آدمیوں] کو اپنے ماحول کے مطابق ڈھالتی ہے۔ مسِیح [آدمیوں] کو تبدیل کرتا ہے، جو اپنے ماحول کو پھر تبدیل کرتے ہیں۔ دُنیا اِنسانی رویے تشکیل دیتی ہے، مگر مسِیح اِنسانی فطرت کو بدل دیتا ہے۔

”کاش ہم اِس بات پر یقین رکھیں کہ یِسُوع المسِیح ہے، اُس کی پیروی کرنے کا اِنتخاب کریں، اُس کے لیے تبدیل ہو جائیں، اُس کی قیادت میں رہیں، اُس میں وقف ہوں، اور دوبارہ پیدا ہوں“ (”خُدا سے پیدا ہوں،“ انزائن، نومبر 1985، 6–7)۔

عملی اقدام

یہ عملی پروگرام ہے۔ ہماری ترقی کا انحصار ہماری روزمرہ زندگیوں میں اِن مراحل کو مستقل طور پر لاگو کرنے پر ہے۔ یہ ”اقدام پر عمل کرنا“ سے جانا جاتا ہے۔ درج ذیل عمل ہمیں مسِیح کے پاس آنے اور ہماری بحالی میں اگلا قدم اُٹھانے کے لئے ضروری ہدایت اور طاقت پانے میں مدد کرتے ہیں۔

خُدا کی قُدرت کے وسیلے سے تبدیل ہونے کے لیے آمادہ رہیں

جب ہم نے پہلے مرحلہ 6 کے بارے میں سیکھا، تو ہم میں سے بعض نے کہا، ”بے شک مَیں اپنی کمزوریاں دُور کرنے کے لیے خُدا کے لیے تیار ہُوں!“ اپنی کمزوریوں پر غالب آنے کی بُہت سی ناکام کوششوں سے ہم نے شکست محسُوس کی۔ تاہم، جب ہم نے غور کِیا تو اپنے سپانسرز سے رائے حاصل کی، تو ہمیں محسُوس ہُوا کہ ہم اپنی سوچ سے زیادہ کمزوریوں کو چھوڑنے سے ہچکچاتے تھے۔

رُوحُ القُدس اور دُوسروں نے ہمیں یہ دیکھنے میں مدد کی کہ ہم اکثر اپنی کمزوریوں کو دفاعی طریقہ کار یا اپنی اَنا کو بڑھانے کے طریقے کے اِستعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم میں سے بعض نے جب خطرہ محسُوس کیا تو ہم نے خفگی اور احساسِ برتری کا سہارا لِیا۔ اگرچہ ہم اکثر غلط ہوتے ہمیں صحیح لگنا اچھا لگتا تھا۔

ہم میں سے بعض دُوسروں کو نقصان پُہنچانے سے باز رکھنے کے لیے اپنے آپ کو پست کرتے اور اپنی الہٰی فطرت کو کم کرتے ہیں۔ ہم نے فرض کر لِیا کہ اگر ہم پہلے اپنی توہین کرتے ہیں، تو پھر کوئی اور جس نے ہمیں نیچا دِکھایا وہ خُودبخُود اِس نتیجے پر پُہنچ جاتا ہے جس پر ہم پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔

لیکن مُشکلوں کے یہ غیر صحت بخش ردِعمل ہماری قوتوں سے نہیں بلکہ ہمارے کردار کی کمزوریوں سے آئے۔ ہمیں خوف تھا کہ اگر ہم اپنی کمزوریوں کو چھوڑ دیں گے، تو ہم اور زیادہ کمزور ہو جائیں گے۔ لیکن جب ہم نے خُدا کو اپنی کمزوریاں دُور کرنے اور اپنے سپانسرز کے ساتھ محنت کرنے کی، تو ہم نے دریافت کِیا کہ خُدا ہماری کتنی فکر کرتا ہے۔

ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ اپنی اپنی حقیقی قدر کے لیے بیدار ہوں اور اپنے دفاع کی بجائے خُدا کی نگہبانی پر بھروسا رکھیں۔

بحالی اور کلِیسیا میں دُوسروں کے ساتھ تعلق قائم کریں

جب ہم بحالی میں دُوسرے لوگوں کے ساتھ زیادہ آسُودہ ہو گئے، تو ہم دیکھنے لگے کہ جتنا ہم نے فرض کِیا تھا اُس سے کہیں زیادہ وہ ہمارے جیسے تھے۔ جب ہم نے اپنی کہانیاں سُنائیں اور دُوسرے لوگوں سے اُن کی کہانیاں سُنیں، تو ہماری شفقت بڑھ گئی۔ ہم خُدا کے تمام بچّوں کی مشترکہ حالت کو پہچاننے لگے اور اِن کے اِرد گرد گھر جیسا زیادہ محسُوس کِیا۔ خاندان، دوست، اور کلِیسیائی راہ نُما ہمیں واپس چرچ آنے یعنی ہمارے موجودہ عہد و پیماں کو تقویت دینے کی دعوت دیتے۔ مزاحمت کرنے یا بہانے بنانے کی بجائے، ہم نے چرچ جانے کا فیصلہ کر لِیا۔ ہم نے بتدریج جانا بُہت سی چیزیں جو ہمیں بحالی کی میٹنگوں کے بارے میں پسند تھیں اُس میں چرچ میں عِبادت کرنا بھی تھا۔

جب ہم نے بپتسما لِیا، تو ہم میں سے چند ایک ہی نے زندگی بھر حقیقی تبدیلی کے طریقہ کار کا فہم پایا۔ تاہم، صدر میرین جی رومنی نے بڑی واضح وضاحت فرمائی: ”جو واقعی کُلی طور پر تبدیل ہُوا ہے، تو درحقیقت اُن میں یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل کے برعکس چیزوں کی خواہش مر جاتی ہے۔ اور اُس کے مُتبادل اُس کے حُکموں کو ماننے کے لیے مصمم اِرادہ اور ضبط کے ساتھ ساتھ، خُدا کی محبّت آ جاتی ہے“ (مجلس کی رپورٹ میں، گواتمالا علاقائی مجلس 1977، 8)۔

جب ہم بحالی کے جاری و ساری مُعجزے کا تجربہ کرتے ہیں—پہلے نشہ/لت کے رویوں سے اور پھر کردار کی کمزوریوں سے—ہم حقیقی تبدیلی کا تجربہ کریں گے۔ ہم بیدار ہو جائیں گے اور اپنے آپ میں واپس آئیں گے جس طرح مُسرف بیٹا ”اپنے آپ میں واپس آیا“ (لُوقا 15:‏17)۔

مُطالعہ اور فہم

درج ذیل صحائف اور کلِیسیائی راہ نُماؤں کے بیانات بحالی میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ ہم اِنھیں غور و خوض، مُطالعہ، اور روزنامچہ کے لیے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا کہ اِس سے زیادہ سے زیادہ اِستفادہ حاصل کریں اور اپنی تحریروں میں دیانت دار اور مخصُوص رہیں۔

اپنے سب گُناہوں کو ترک کر دو

”بادشاہ نے کہا: … مَیں کیا کرُوں کہ اپنے دِل سے اِس بُری رُوح کو اُکھاڑ پھینک کر، خُدا سے پیدا ہو سکُوں، اور اُس کا رُوح پا سکُوں، تاکہ مَیں خُوشی سے مَعمُور ہو سکُوں؟ … مَیں سب کُچھ جو میرے پاس ہے دے دُوں گا … تاکہ مَیں یہ افضل خُوشی پاؤں۔ …

”بادشاہ اپنے گھُٹنوں کے بل خُداوند کے حُضُور سجدہ ریز ہُوا؛ ہاں، یعنی اُس نے خُود کو زمِین پر چِت گِرا دِیا، اور بُلند آواز سے یہ کہہ کر فریاد مانگی:

”اے خُدا، … تیری قُربت پانے کے لیے مَیں اپنے سارے گناہ چھوڑ دُوں گا، تاکہ مَیں مُردوں میں سے اُٹھایا، اور یُومِ آخِر کو بچایا جاؤں“ (ایلما 22:15، 17–18

  • اِن آیات کو احتیاط سے دوبارہ پڑھیں۔ کون سی رکاوٹیں، بشمول رویے اور احساسات، مُجھے ”اپنے سارے گناہ“ چھوڑنے اور مزید مکمل طور پر رُوح کو پانے سے روکتی ہیں؟

کلِیسیائی رفاقت میں حِصّہ لیں

”اور اب اِس عہد کے سبب سے جو تُم نے باندھا ہے تُم مسِیح کے بچّے، اُس کے بیٹے اور اُس کی بیٹیاں کہلاؤ گے؛ پَس دیکھو، آج کے دِن تُم رُوحانی طور پر اُس سے پَیدا ہُوئے ہو چُوں کہ تُم کہتے ہو کہ اِس کے نام پر اِیمان کے سبب سے تُمھارے دِل تبدیل ہُوئے ہیں؛ پَس، تُم اُس سے پَیدا ہُوئے ہو اور اُس کے بیٹے اور اُس کی بیٹیاں بن گئے ہو“ (مضایاہ 5:‏7

جب ہم اپنے تئیں مسِیح کا نام اپناتے ہیں اور اُس کے رُوح سے تقویت پاتے ہیں، تو ہماری شناخت اُن مُقدّسین—بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہونے لگتی ہے جنھوں نے بپتِسما لِیا اور دُنیا میں اُس کے خاندان میں داخل ہُوئے ہیں۔

  • اگر مَیں اپنے ساتھی مُقدّسین کو بہتر طور پر جان گیا ہُوں، تو مَیں کیسے کلِیسیائی رفاقت میں حِصّہ لینے کے لیے مزید آمادہ ہُوا ہُوں؟

نجات کا تجربہ

”پَس نفسانی اِنسان خُدا کا دُشمن ہے، اور آدم کی زوال پذیری کے وقت سے رہا ہے، اور ہمیشہ سے ہمیشہ تک، رہے گا، سِوا اِس کے کہ وہ پاک رُوح کی ترغیبات کے حوالے ہو جائے، اور نفسانی آدمی کو ترک کر دے، اور مسِیح خُداوند کے کَفّارہ کے وسِیلے سے مُقدّس بن جائے، اور بچّے کی مانِند مُنکسر، حلیم، فروتن، صابر، محبّت سے معمُور“ (مضایاہ 19:3)۔

ہم میں سے بُہت سے محض بپتِسما کے وقت نام کے ہی مُقدّسین بنتے ہیں اور اپنی باقی زندگیاں ”نفسانی مرد [یا عورت] کو ختم کرنے“ اور اس آیت میں درج خصُوصیات کو فروغ دینے کے لیے کوشش کرنے میں گُزار دیتے ہیں۔

  • اِس کش مکش نے مُجھے یہ قبول کرنے کے لیے کیسے تیار کِیا ہے کہ یہ صرف مسِیح کے کفّارہ کے وسیلے سے ہی—یِسُوع مسِیح اور آسمانی باپ کے ساتھ ایک ہو کر—مَیں مُخلصی کا تجربہ پا سکتا ہُوں؟

مسِیح کے پاس آؤ

بزرگ رچرڈ جی سکاٹ نے سِکھایا: ”اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مُشکل کا منبع کیا ہے اور اِس سے قطعہ نظر کہ آپ کیسے راحت پاتے ہیں—کسی قابل پیشہ ور معالج، ڈاکٹر، کہانتی راہ نُما، دوست، فکر مند والدین، یا کسی عزیز کے ذریعے سے—کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیسے شروع کریں، اُن کے حل کبھی بھی مکمل جواب فراہم نہیں کریں گے۔ حتمی شفا یِسُوع مسِیح اور اُس کی تعلیمات پر اِیمان، شکستہ دِل اور پشیمان رُوح اور اُس کے حُکموں کی فرماں برداری کے ساتھ ملتی ہے(”شفا یاب ہونا،“ انزائن، مئی 1994، 9)۔

کوئی بھی معاونت یا رفاقت—حتیٰ کہ کلِیسیا کے بازیاب گروہ یا جماعتیوں میں بھی—نجات نہیں لائیں گی۔ دیگر لوگ ہمارے سفر میں معاونت اور برکت کا باعث ہو سکتے ہیں، لیکن آخر کار ہمیں خُود مسِیح کے پاس آنا ہے۔

  • میری بحالی کے سفر کا آغاز کیسے ہُوا؟

  • توبہ اور بحالی کے راستے پر گامزن ہونے میں میری مدد کرنے میں کون اہم کردار تھا؟ اُن کی مثال نے مُجھے نجات دہندہ کی طرف کیسے راغب کِیا ہے؟

  • مَیں نے نجات دہندہ کے بارے میں کیا سیکھا ہے جس نے میری خواہش یا صلاحیت کو متاثر کرنے یا میرے رویے کو تبدیل میں مدد کی ہے؟

اِس عمل کے ساتھ صابر رہیں

”تُم چھوٹے بچّے ہو اور تُم اب سب چیزیں برداشت نہیں کر سکتے ہو؛ تُم فضل اور سچّائی کے عِلم میں بڑھوتی پانا۔

”چھوٹے بچّوں، ڈرو نہیں، کیوں کہ تُم میرے ہو، اور مَیں دُنیا پر غالب آیا ہوں؛ …

”اور اِن میں سے کوئی بھی جو میرے باپ نے مُجھے دِیا ہے ہلاک نہ ہو گا“ (عقائد اور عہُود 50‏:40–42

بعض اوقات ہم بے صبر یا حوصلہ شکن ہو جاتے ہیں کہ بحالی جاری و ساری عمل ہے۔ یہ آیات یِسُوع مسِیح اور آسمانی باپ کا ہمارے ساتھ ”چھوٹے بچّوں“ کی مانِند صبر ظاہر کرتی ہیں۔ ذاتی طور پر اپنے آپ سے مُخاطب ہو کر اِن آیات کو اپنے اُوپر لاگو کریں۔

  • جب مَیں مایُوس ہوتا ہُوں تو اِس صحیفے کے وعدے مُجھے کیسے مضبُوط بخشتے ہیں؟

یِسُوع مسِیح سے مدد پائیں

”میرے پیارے بھائیو، تُم اِس تنگ اور سُکڑے راستے پر آ گئے ہو، تو میں پُوچھتا ہُوں کہ کیا سب کُچھ ہو گیا ہے؟ دیکھو، مَیں تم سے کہتا ہُوں، نہیں؛ کیوں کہ تُم ابھی تک مسِیح کے کلام کے وسیلے سے اِس پر غیر متزلزل اِیمان کے ساتھ، اُس کی صفات پر توکّل کرتے ہُوئے نہیں آئے جو بچانے میں بڑی قدرت والا ہے۔

”پس تُم ضرُور مسِیح میں ثابت قدمی کے ساتھ، کامِل درخشاں اُمید پا کر، اور خُدا اور کُل بنی نوع اِنسان کی محبّت میں آگے بڑھو۔ پَس، اگر تم مسِیح کے کلام پر ضیافت کرتے ہُوئے آگے بڑھتے رہو، اور آخر تک برداشت کرو،تو دیکھو، باپ یُوں فرماتا ہے:تُم اَبدی زندگی پاؤ گے“ (2 نیفی 31:‏19–20

  • یِسُوع مسِیح تنگ اور سُکڑے راستے پر میری کیسے مدد کرتا ہے؟

  • خُدا اور دُوسرے لوگوں کے لیے میری بڑھتی ہُوئی محبّت مُجھے نشہ/لت سے کیسے نکالنے، مُجھے پرہیزگار رہنے میں مدد کرنے، اور اَبدی زندگی کی میری اُمید کو کیسے بحال کرتی ہے؟