بہت بڑی ملکیت
ہم میں سے ہر ایک کو مسِیح کے پاس اُس کی اِنجِیل سے اَٹل عقِیدت مندی کے ساتھ آنا ہے۔
صحیفے امیر نوجوان حُکم ران کے بارے میں بتاتے ہیں، جو یِسُوع کے پاس دوڑا آیا، اُس کے قدموں پر گھٹنے ٹیک کر، کھری سنجیدگی کے ساتھ، مالک سے پوچھا، ”مَیں کیا کرُوں کہ ہمیشہ کی زِندگی کا وارِث بنُوں؟“ اُن حُکموں کی طویل فہرست کا جائزہ لینے کے بعد جن پر یہ شخص بڑی اِیمان داری سے عمل کرتا رہا تھا، یِسُوع نے اُس کو بتایا کہ جا جو کُچھ تیرا ہے بیچ کر غرِیبوں کو دے، اپنی صلیب اُٹھا، اور آ کر میرے پِیچھے ہو لے۔ ایسی جارحانہ ہدایت سُن کر نوجوان حُکم ران کے پاؤں مہنگے جُوتوں کے باوجُود ٹھنڈے پڑ گئے، اور وہ غمگِین ہو کر چلا گیا، صحائف بتاتے ہیں، ”کیوں کہ وہ بڑا مال دار تھا۔“۱
ظاہر ہے کہ یہ مال و دولت کے مُصرف اور غریبوں کی ضروریات کے بارے میں انتہائی اہم تنبیہ و ملامت کا واقعہ ہے۔ لیکن بالآخر یہ پورے دل سے ، الہی ذمہ داری کے لیے قَطَعی عقیدت کی کہانی ہے۔ اَمیری میں یا غریبی میں، ہم میں سے ہر ایک کو مسِیح کے پاس آنا ہے اُس کی اِنجِیل سے ویسی اَٹل عقِیدت مندی کے ساتھ جیسی اِس نوجوان شخص سے متوقع تھی۔ آج کے نوجوانوں کی زبان میں، ہمیں خُود سے ”تیار ہیں“ کا اعلان کرنا ہے۔۲
اپنے اِنتہائی یادگار مضمُون میں، سی اَیس لوئس تصور کرتا ہے کہ خُداوند ہم سے کچھ یُوں فرماتا ہے: ”مُجھے تیرا… وقت … [یا] تیرا پیسہ … [یا] تیرا کام نہیں چاہیے [بَس] مَیں [صِرف] تُجھے چاہتا ہُوں۔“ [ درخت جو آپ تراشتے ہیں۔] مَیں یہاں سے اور وہاں سے شاخ نہیں کاٹنا چاہتا، مَیں چاہتا ہُوں … اِس سارے [ درخت] کو نیچے گِرا دُوں۔ [اور یہ ٹُنڈ بھی۔] مَیں [اِس] کی کھودائی، حدبندی، یا [بھرائی] نہیں چاہتا۔ [مَیری مرضی] ہے کہ اِس کو نِکال دیا جائے۔ [درحقیقت، مَیں چاہتا ہُوں کہ تُو [مُجھے اپنی] پُوری نفسانی ہستی سونپ دے۔ … [اور] اِس کی بجائے مَیں تُجھے نئی ہستی بخشُوں گا۔ درحقیقت، مَیں تُجھ کو اپنا آپ دُوں گا: میری … مرضی [تیری رضا] بن جائے گی۔‘“۳
وہ تمام حضرات جو اِس مجلِسِ عامہ میں ہم سے کلام کریں گے وہ سب، کسی نہ کسی طرح، وہی کہیں گے، جو مسِیح نے اُس نوجوان شخص سے کہا: ”اپنے نجات دہندہ کے پاس آؤ۔ پورے دِل سے اور کُلی طور پر آئو۔ چاہے کتنی ہی بھاری کیوں نہ لگے، اپنی صلِیب اُٹھاؤ اور اُس کے پِیچھے چلے آؤ۔“۴ وہ سب جان کر کہیں گے کہ خُدا کی بادِشاہی میں، کوئی اَدھُوری کاوِشیں نہیں ہو سکتیں، کوئی کام شُروع کر کے روکا نہیں جا سکتا، نہ مُنہ موڑا جاتا ہے۔ اُن سے جنہوں نے ماں باپ کو دفن کرنے یا کم از کم کسی دُوسرے رکنِ خاندان سےرخصت لینے کی اجازت مانگی، یِسُوع کا جواب متقاضِی اور غیر مُبہَم تھا۔ ”اِسے دُوسروں پر چھوڑ دے،“ اُس نے فرمایا۔ ”جو کوئی اپنا ہاتھ ہل پر رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے وہ خُدا کی بادشاہی کے لائق نہیں۔“۵ جب ہم سے مُشکل کام کرنے کو کہا جاتا ہے، حتٰی کہ ہمارے دِل کی خواہشوں کے برعکس، یاد رکھیں کہ ہم مسِیح کے مقصد کے لیے وفاداری کا جو حلف اُٹھاتے ہیں وہ ہماری زِندگیوں کی اَفضل ترین بندگی ہونی چاہیے۔ اگرچہ یسعیاہ ہمیں یقِین دِلاتا ہے کہ یہ ”پیسوں اور قِیمت کے بغیر“ دستیاب ہے۶—اور یہ ہے—ہمیں ٹی ایس ایلیٹ کے مصرعہ کو یاد کر کے تیار رہنا چاہیے، اِس کی قیمت ”ہر چیز سے افضل ہے۔“۷
بے شک، ہم سب کی بعض عادات یا خامیاں ہیں یا ذاتی حالات و مُعاملات ہیں جو ہمیں اِس کام میں مکمل رُوحانی غوطہ زنی سے روک سکتے ہیں۔ لیکن خُدا ہمارا باپ ہے اور جِن گُناہوں سے ہم توبہ کرتے ہیں اُن کو مُعاف کرنے اور بھول جانے میں بڑا قادِر ہے، شاید چُوں کہ ہم اُسے ایسا کرنے کے بےشُمار مواقع دیتے ہیں۔ بہرحال، جب ہمیں اپنے کرِدار میں تبدیلی لانے کا احساس ہوتا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کے لیے ہر گھڑی اِلہٰی مدد موجُود ہے۔ خُدا نے ساؤل کو ”دُوسری طرح کا دِل دِیا۔“۸ حِزقی ایل نے کُل قدیم بنی اِسرائیل سے اُن کے ماضی کو ترک کرنے اور ”نیا دِل اور نئی رُوح … پَیدا کرنے“ کے لیے زور دیا۔۹ ایلما نے ”بڑی تبدیلی“۱۰ کی بُلاہٹ پائی جو جان کو وسعت دینے کا سبب بنی، اور یِسُوع نے خُود سِکھایا کہ ”جب تک کوئی نئے سِرے سے پَیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادِشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔“۱۱ تبدیلی کا عمل اور زیادہ افضل درجہ پر زِندگی گُزارنا ہمیشہ سے صاف صاف طور اُن کے لیے خُدا کی نعمتوں میں سے ایک رہی ہے جو اِن کے طلب گار ہوتے ہیں۔
دوستو، ہماری موجودہ گھڑی میں ہمیں ہر طرح کی تقسیم اور ذیلی تقسیم ، مجموعے اور ذیلی مجموعے، ڈیجیٹل قبائل اور سیاسی شناختیں ملتی ہیں، اپنے ارد گرد بہت زیادہ عداوت کو دیکھتےہیں۔ دوستو، کیا ہمیں اپنے آپ سے پُوچھنا چاہیے آیا کہ”زیادہ افضل اور زیادہ پاک“۱۲ زِندگی ہی وہ شَے ہے، صدر رِسل ایم نیلسن کے قَول کی روشنی میں، جِس کا ہمیں مُتلاشی ہونا چاہیے؟ ایسا کرتے وقت، ہمارے لیے بہتر ہوگا ہم مورمن کی کِتاب کے اِس حیرت اَنگیز دَور کو یاد رکھیں جِس میں اُن لوگوں نے پُوچھا اور اُس سوال کا جواب بڑے مُثبت اَنداز میں دیا:
”اور ایسا ہُوا کہ ساری اُمت کے درمیان میں کوئی جھگڑا نہ تھا،پُورے مُلک میں؛ … کیوں کہ خُدا کی محبت جو اُن لوگوں کے دِلوں میں بس گئی تھی۔
”اور وہاں نہ کوئی حسد، نہ جھگڑے، … نہ کسی قسم کی شہوت پرستی تھی، اور یقیناً اُن تمام لوگوں میں سے جو خُدا کے ہاتھ سے خلق ہوئے یہ سب سے زیادہ خُوش تھے۔
”اُن میں نہ ڈاکُو تھے، نہ خُونی، نہ اُن میں کوئی لامنی تھے، نہ کسی قسم کا فرقہ؛ بلکہ وہ سب ایک تھے، مسِیح کی اُمت اور خُدا کی بادِشاہی کے وارث۔
”اور وہ لوگ کتنے مبارک تھے!“۱۳
اَیسی قناعت پسند، خُوش و خُرم زِندگی گُزارنے کی اَچانک کون سی کامیاب کُلید تھی؟ اِس مضمون کے ایک فقرےمیں یہ پِنہاں ہے: ”خُدا کی محبت … جو اِن لوگوں کے دِلوں میں بس گئی تھی۔“۱۴ جب خُدا کی محبت ہماری اپنی زِندگیوں کو، ایک دُوسرے کے ساتھ ہمارے تعلقات کو، اور بالآخر کُل بنی نوع اِنسان کے لیے ہمارے اَحساس کو اپنے رنگ میں رنگتی ہے، تو پھر پُرانے اِمتیازات، حقارت آمیز دھبے، اور مصنُوعی تفریق ختم ہونا شُروع ہو جاتی ہے، اور اَمن بڑھتا ہے۔ عین یہی ہماری مورمن کی کِتاب کی مثال میں رُونما ہُوا ہے۔ پھر کبھی نہ کوئی لامنی، یا یعقوبی، یا یُوسُفی یا ضورامی رہا۔ اِن میں کوئی ”فرقہ واریت“ نہ تھی۔ اِن لوگوں نے عالمِ اِدراک سے پرے ایک پہچان پا لی تھی۔ یہ کہا جاتا ہے، وہ سب، ”مسِیح کی اُمت“ کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔۱۵
بے شک، ہم یہاں اِنسانی خاندان کو دیے گئے پہلے عظیم حُکم کی بابت بات کر رہے ہیں—خُدا سے پورے دِل سےمحبت رکھنا، کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ یا سمجھوتے کے بغیر، یہ، اپنے پورے دِل، اپنی ساری جان، اپنی ساری عقل ، اور اپنی ساری طاقت سےمحبت رکھنا ہے۔۱۶ خُدا سے ایسی محبت کا کائنات میں پہلا عظیم حُکم ہے۔ لیکن کائنات میں پہلی عظیم سچّائی یہ ہے کہ خُدا ہم سے محبت کرتا ہے بالکل اُسی طرح—کامِل طریقے سے، اپنے سارے دِل، عقل، جان، اور، طاقت، کے ساتھ۔ اور جب یہ شاندار قوتیں بِلا کسی رکاوٹ کے ملتی ہیں، تو رُوحانی، اخلاقی قُدرت کا حقیقی دھماکہ ہوتا ہے۔ پھر، جیسا کہ ٹِیل ہارڈ ڈی چارڈین نے قلم بند کیا، ”دُنیا کی تارِیخ میں دُوسری بار، اِنسان آگ کو دریافت کرے گا۔“۱۷
یہ اُسی وقت، اور واقعی صرف اُسی وقت ہوگا، جب ہم اُن موّثر طریقوں سے دُوسرے عظیم حُکم کو مان سکیں جو ظاہری اور معمُولی نہیں ہیں۔ اگر ہم خُدا سے اِس قدر پیار کرتے ہیں کہ اُس کے ساتھ کامِل طور پر وفادار رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمیں اپنے پڑوسی اور اپنے آپ سے محبت کرنے کی لیاقت، صلاحیت، مرضی اور راہ عطا کرے گا۔ شاید ہم ایک بار پھر یہ کہنے کے قابِل ہوں گے، ”اُن تمام لوگوں میں سے جو خُدا کے ہاتھ سے خلق ہوئے یہ سب سے زیادہ خُوش تھے۔“۱۸
بھاِئیو اور بہنوں ، میں دُعا گو ہوں ہم اُس بات میں کامیاب ہوں جس میں وہ امیر نوجوان ناکام ہوا تھا، کہ ہم مسِیح کی صلیب اُٹھائیں ، چاہے یہ کتنا ہی مُشکل کیوں نہ ہو، مسئلہ سے قطع نظر اور قیمت سے قطع نظر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ جب ہم اُس کی پیروی کرنے کا عہد کرتے ہیں، راستہ، کسی نہ کسی طرح، کانٹوں کےتاج اور سخت رومی صلیب سے گزرے گا۔ اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارا نوجوان حُکم ران کس قدر مال دار تھا، وہ اِس قدر مال دار نہ تھا کہ وہ اُن علامات کے ساتھ مُلاقات کر کے اپنی نجات خرید سکتا، اور نہ ہی ہم اَیسا کر سکتے ہیں۔ تمام ملکیتیوں میں سے عظیم ترین برکت—ابدی زندگی کی نعمت—کو حاصل کرنے کے لیے اپنے پیشے کے کاہنِ اعلیٰ ، ہمارے دِن کے ستارے، ہمارے وکیل اور بادشاہ کی مضبوطی سےپیروی کرنے کا تقاضا بہت تھوڑا ہے۔ مَیں قدیم زمانے کے گُم نام عمالیقی کے ساتھ گواہی دیتا ہُوں کہ ہم میں سے ہر ایک کو ایسا کرنا ہے، ”[اپنے] ہدیے کے طور پر اُس کے حضُور اپنی ساری جان نذر کرو۔“۱۹ اَیسی پُرعزم، ثابت قدم بندگی، کے لیے ہم گاتے ہیں:
چٹان کی تمجید ہو، مَیں اِس پر مُقیم ہُوں:
تیرے رہائی بخش پیار کی چٹان۔ …
یہ ہے میرا دِل، اِسے لے اور مُہر لگا؛
اپنی بالا بارگاہوں کے لیے اِس پر مُہر کر۔۲۰
یِسُوع مسِیح کے مُقدّس نام پر، آمین۔